حموربی قانون میں بابل کی آبادی کو تین جماعتوں یا طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے
١- عمیل
یہ آزاد شہری طبقہ تھا جنھیں ہم اشرافیہ کہہ سکتے ہیں
٢- مشکی
یہ عوام پر مشتمل تھا متوسط الحال لوگ ، ملازم پیشہ ، تاجر ، صناع اور کاریگر وغیرہ اس طبقے کا حصہ تھے
٣- ورد
یہ غلاموں پر مشتمل طبقہ تھا
بابلی رواج
اہلی زندگی
دختر فروشی
تمام پرانی قوموں کا یہ نظریہ تھا کہ بیٹی اپنے باپ کی جائیداد کا حصہ ہے اور خاوند نکاح کے لیے بیوی خریدتا ہے اور والد یا ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے جس قیمت پر چاہے فروخت کر ڈالے پھر یہ نظریے کی حد تک ہی نہیں رہا بعض اقوام میں یہ رواج عام ملتا ہے کہ خاوند بیوی کو خریدنے کے بعد اسکا مجاز ہے کہ اسے آگے کسی اور خریدار کے ہاتھ بیچ ڈالے یا رہن رکھ دے یا اپنے وارثوں کے نام منتقل کر دے
اسلام سے پہلے جاہلیت میں عام رواج تھا جب کسی شخص کو قرض لینے کی ضرورت پڑتی وہ اپنی بیویاں رہن رکھ دیتا اور اسکی وفات پر وہ بھی اسکے وارثوں کے ہاتھ منتقل ہو جاتی کیونکہ یہاں بھی عورت متوفی کے ترکے کا جزو تصور ہوتی تھی رومیوں کے ہاں بھی نکاح میں باقاعدہ خرید وفروخت کی رسم موجود تھی
نکاح نامہ
چونکہ بابلیوں کے ہاں بھی نکاح دوسری خرید وفروخت کی طرح تھا اسلیے لازم تھا کہ نکاح کی شرائط اور دوسرے متعلقہ امور ایک رسمی معائدے کی شکل میں قلمبند کر لیے جائیں اس باب میں قانون صراحت سے کہتا ہیکہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے تعلقات زنا شوئی قائم کر لے لیکن باقاعدہ نکاح نامہ نہ لکھا جائے تو قانون کی نظر میں وہ عورت اس شخص کی بیوی نہیں
نکاح نامہ کی مثال
شمس کی پجارن یلزون بنت اویتم کی بیٹی بشت کو رموین شمنحات نے اپنی بیوی بنایا وہ اپنا ہدیہ چاندی کی شکل میں پہلے لے چکی اسکا دل خوش ہے اگر بشت رمو سے کہے کہ تم میرے خاوند نہیں تو اسکی مشکیں باندھ کر اسے دریا میں پھینک دیا جائے اور اگر رمو بشت سے کہے کہ تم میری میری بیوی نہیں ہو تو وہ تول کر دس شکل چاندی زر طلاق کی اسکو دے دے
بابل میں دو سگی بہنوں سے شادی کی اجازت تھی لیکن دوسری کا درجہ پہلی سے کمتر ہوتا تھا
رسم نکاح
شادی کے رسم و رواج اور اسکے متعلقات کی دھوم دھام قدرتی طور پر دولہا اور دلہن کے گھر والوں کی حثیت پر منحصر تھی لیکن عام طور پر اس موقعے پر خوب دعوتیں اڑتی تھیں اور ہر طرح سے جوش و خروش اور خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا اور متعلقین مقروض تک ہو جاتے تھے
دولہا اور دلہن سب رشتہ داروں اور مہمانوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور دلہا کہتا
" میں فلاں کا بیٹا ہوں میں تمھاری گود سونے چاندی سے بھر دوں گا اور میں تمھارا شوہر میں اس عورت کو کھجور کے درخت کی طرح باردار بناوں گا"
یہ گویا اعلان نکاح تھا پھر بخور اور لوبان جلائے جاتے اور نوجوان جوڑا ڈھول تاشوں کے ساتھ حجلہ عروسی میں داخل ہوتا جہاں وہ پانچ دن تک بیرونی دنیا سے کامل منقطع ہو کر رہتے
قانون حموربی میں ان رقوم کا ذکر ملتا یے
١ برخت . زر عروس
٢ شرکت. جہیز
٣ ندون. ہدیہ نکاح یا مہر
زر عروس
یہ لڑکی کی قیمت تھی جو دلہا دلہن کے ولی کو عطا کرتا تھا یہ رقم قسطوں میں بھی ادا کی جاسکتی تھی اور یہ بھی ممکن تھا کہ باپ بیٹی کا نکاح زر عروس لیے بغیر کر دے وہ خود اتنا امیر ہیکہ اسے اسکی ضرورت نہیں اگر کسی موقع پر خاوند بیوی کو طلاق دینے کا خیال کرتا ہے تو وہ زر عروس کی مناسب رقم اپنی حثیت اور رواج کے مطابق ادا کرنے پر مجبور تھا
جہیز
یہ نکاح کے موقع پر لڑکی کے والدین کی طرف سے نقد یا سامان کی شکل میں دیا جاتا تھا لیکن یہ جہیز خاوند کو نہیں دیا جاتا تھا بلکہ لڑکی کی ذاتی ملکیت ہوتا تھا اگر لڑکی بے اولاد فوت ہوجائے تو جہیز اسکے والد یا بھائیوں کو واپس مل جائیگا اگر اولاد موحود ہے تو وہ اسکی وارث ہو گی
مہر
یہ ہدیہ خاوند اپنی مرضی سے بیوی کو دیتا تھا اگر خاوند اپنی زندگی میں اس طرح کا کوئی ہدیہ بیوی کو دیتا تو اسکی موت پر بیوہ ترکے کے وارثوں میں شمار نہیں ہوتی تھی لیکن اگر خاوند اسے کوئی ایسی رقم دیے بغیر فوت ہو جاتا ہے تو اسکی بیوہ بھی وارث ہوتی تھی اور اسکا حصہ لڑکے کے حصے کے برابر ہوتا تھا اگر بیوہ دوبارہ نکاح کرے تو وہ یہ ہدیہ یا مہر اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتی تھی
نکاح بیوگاں:
مطلقہ بیوی تو جب چاہے دوسرا نکاح کر سکتی تھی ، بیوہ کو بھی نکاح ثانی کی عام اجازت تھی چونکہ اسکا باپ یا ولی اس کے پہلے نکاح کے وقت اسکی قیمت( زر عروس) وصول کر چکے ہیں اس لیے نکاح ثانی پر اگر عورت خاوند سے کوئی رقم وصول کرے تو وہ اپنے پاس رکھنے کی مجاز تھی یہ اسکی ذاتی ملکیت تصور ہوتی تھی اور ولی کا اس پر کوئی حق نہیں تھا البتہ نکاح ثانی کے وقت بیوی اپنے متوفی شوہر کے گھر سے کوئی چیز نہیں لے جا سکتی تھی اگر اس کے خاوند نے زندہ ہوتے ہوئے کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد بظور تحفہ دی ہو تو اسے اس سے دستبردار ہونا پڑے گا لیکن جو جہیز وہ اپنے والدین کے گھر سے لائی تھی وہ لے جاسکتی تھی
اگر پہلے خاوند سے اولاد نابالغ ہو تو اسکی ذمہ داری اور بھی زیادہ ہے اس صورت میں نکاح کے لیے اسے عدالت مجاز سے منظوری لینا پڑیگی یہ پابندی اسلیے ضروری سمجھی گئی کہ کہیں وہ عورت یا اسکا دوسرا خاوند بچوں کی جائیداد خرد برد نہ کریں قانون میں اسکے متعلق مفصل ہدایات موجود ہیں
کثرت ازدواج:
اگر چہ اصولا" ایک زوجیت کا رواج ہی معلوم ہوتا ہے لیکن بعض حالات میں ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت تھی گو اس صورت میں بھی پہلی بیوی کے حقوق فائق تھے اور خاوند کا فرض تھا کہ وہ اسکے نان نفقے کا خاطرخواہ انتظام کرے
اگر پہلی بیوی دائم المرض ہو ، بانجھ ہو یا اس میں کوئی اور عیب ہو تو خاوند دوسری شادی کر سکتا ہے
عام حالتوں میں یہ دوسری بیوی محض داشتہ ہوتی یا یہ طے ہوجاتا کہ وہ پہلی بیوی کی برابری نہیں کریگی
طلاق
خاوند کو طلاق دینے کی کھلی چھٹی تھی وہ جب چاہے عورت سے کہہ دے کہ آج سے تو میری بیوی نہیں ایک مقرری رقم اس کے حوالے کرے اور اسے گھر سے نکال دے
یہ پڑھ کر تورات کا حکم یاد اتا ہے
" اگر خاوند اپنی بیوی میں کوئی بہیودہ بات پائے تو طلاق نامہ لکھ کر اسکے ہاتھ پر رکھے اور اسے گھر سے نکال دے"
خلع
بعض حالات میں بیوی کو بھی خاوند سے الگ ہونے کا حق حاصل تھا مثلا" اگر خاوند آوارہ اور بدچلن ہو اور بیوی اس سے نباہ نہ کر سکے تو وہ عدالت یا پنچایت میں علحیدگی کا مطالبہ پیش کر سکتی ہے اگر یہ ثابت ہوجاتا کہ عورت واقعی بے قصور ہے اور خاوند ہی عیاش ہے تو اسے اجازت دی جاتی کے وہ خاوند سے الگ ہو جائے اور اپنا جہیز لیکر جاسکتی ہے
لیکن اگر معلوم ہوکہ وہ عورت خود بدچلن ہے اسلیے اپنے خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اسکی سزا موت تھی اسے دریا میں ڈبونے کا حکم تھا
سزائے زنا
جب لڑکی کی منگنی ہو جائے تو اسکے بعد وہ قانونا" اپنے منگیتر کی بیوی تصور کی جاتی تھی خواہ اسکا باقاعدہ نکاح اور رخصتی نہ ہوئی ہو اور وہ اپنے میکے میں رہتی ہو
حموربی قانون کی دفعہ ١٣٠ میں ایسی لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو مرد کے قریب نہ گئی ہو قانون شادی شدہ عورت کی عصمت و عفت پہ زور دیتا ہے زنا کی سزا ڈبونا ہے
قانون یہاں. تک عفت کو ضروری خیال کرتا تھا کہ وہ عورت کے خلاف کسی قسم کی گپ شپ برداشت نہیں کرتا کیونکہ اس سے اسکے خاوند کی عزت پر داغ لگنے کا اندیشہ ہے اس صورت میں ضروری تھا کہ وہ عورت دریا میں کود کر وہاں سے زندہ سلامت نکل آئے اور اسطرح اپنی بیگناہی ثابت کرے
اگر اسکا خاوند غیرت کے مارے کسی شک کا اظہار کرے تو وہ قسم اٹھا سکتی تھی لیکن اگر کوئی اور شخص اس پر جھوٹی تہمت لگاتا ہے تو اسے قاضی کے سامنے اپنا دعوی' ثابت کرنا پڑتا تھا اگر وہ ثبوت مہیا نہ کر سکے تو اسکی پیشانی داغ دی جاتی تھی اور وہ غلام بنا لیا جاتا
بیٹی سے زنا کی سزا شہر بدری تھی گویا وہ اس شہر یا ملک کا باشندہ نہیں رہتا تھا
بہو کے معاملے میں قانون نے امتیاز کیا اگر اس شخص کا بیٹا اس سے خلوت صحیحہ کر چکا تو سسر کی سزا موت ہے اسے باندھ کر دریا میں پھینک دیا جاتا لیکن اگر میاں بیوی میں خلوت نہیں ہوئی تو سسر جرمانہ دیکر چھوٹ جائیگا لڑکی اپنا جہیز لے لے اور دوسرے شخص سے نکاح کرے
گویا شادی شدہ کی صورت میں سزا دوشیزہ کی نسبت زیادہ سخت ہے بیٹا اگر سگی ماں سے زنا کرے تو دونوں کو زندہ جلانے کا حکم تھا سوتیلی ماں کی صورت میں اسے محض خاندان سے خارج کرنے کا حکم ہے