'حمورابی'
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی پیدائش سے 18 صدیاں پہلے گزرا دنیا کا پہلا قانون دان اور قدیم بابل کے پہلے شاہی خاندان کا چھٹا اور سب سے مشہور بادشاہ تھا۔ سمیر اور اکاد ’’جنوبی عراق‘‘ کی شہری ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا اور لرسا کے ایلمی بادشاہ کو شکست دے کر اس کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔اگرچہ حمورابی کی بادشاہت بہت بڑے علاقے پر تھی، بہت سی فتوحات کر چکا تھا لیکن اسکی شہرت کی وجہ اسکی فتوحات سے زیادہ اپنے ضابطہ قوانین ہیں۔ حمورابی کا قانونی ، آئینی اور اخلاقی ضابطہ دنیا کا سب سے قدیم ضابطہ ہے۔ کہتے ہیں یہودیت (بنی اسرائیل) کے قوانین اور ضابطہ حیات حمورابی کے قوانین سے ہی ماخوذ ہیں ۔انجیل میں اس کا نام 'ام رافیل' ہے۔ حمورابی کے قوانین میں عدالت ، کھیتی باڑی ، آبپاشی ، جہاز رانی ، غلاموں کی خریدوفروخت ، آقا اور غلام کے تعلقات ، شادی بیاہ ، وراثت ، ڈاکا ، چوری وغیرہ سے متعلق قانون کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔
حمورابی نے تقریبا 282 قوانین بنائے جن کو 12 عدد پتھر کی تختیوں پر لکھا گیا اور پھر آٹھ فٹ بلند پتھر کے ستونوں پر کندہ کروا کر بابل اورمیسوپوٹیما کے دیگرشہروں کے بڑے چوکوں میں نصب کروا دیا گیا تاکہ ہر خاص و عام کی رسائی میں آسکے اور عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد ان سے آگاہ ہوسکے۔
ان قوانین کا مجموعہ پتھر کی تختی پر کندہ ہے اور برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ حمورابی نے بکثرت عمارتیں بنوائیں اور نہریں کھدوا کر آبپاشی کا نظام درست کیا۔ایک زبردست بادشاہ ہونے کے علاوہ حمورابی ایک زبردست کلدانی ساحر و ماہر طلسمات و روحانیات بھی تھا، اس کی طلسمات کے موضوع پر سب سے مشہور تصنیف (مکاشفات حموربی) ہے جو (بابل) کے شہر ایم کی کھدائی کے دوران میں محلات کے کھنڈر سے پتھر کے کتبوں پر کھدی ہوئی برآمد ہوئی ہے۔ یہ اب برٹش میوزیم میں موجود ہے۔
مصریوں نے بابل پر قبضہ کیا تو ان ستونوں کو بھی تباہی کا سامنا ہوا۔ بعدازاں اس ضابطے کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں سے حذف کردیا گیا تاہم 1901میں فرانسیسی ماہرین آثاریات نے پھر سے دریافت کیا تو دنیا ان قوانین سے واقف ہوئی۔ ان ستونوں میں حمورابی کو دیوتا مردک یا شمس سے یہ یہ قوانین وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ وہیں یہ بھی تحریر ہے کہ دیوتاؤں نے انسانوں میں حمورابی کو منتخب کیا کہ ان کے پیغام اور قوانین کو عوام تک پہنچانے کا وسیلہ بنے۔جبکہ اس کی بادشاہی کا فیصلہ زمانوں پہلے ہی دیوتاؤں نے کرلیا تھا اور یہ بھی طے تھا کہ وہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اکٹھا کرکے انھیں ایک عظیم سلطنت کی صورت دے گا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ حمورابی کے ضابطہ قانون کے اثرات غیر معمولی حد تک دیرپا اور دور رس ثابت ہوئے۔ جتنے بھی مذاہب اور ضابطہ ہائے قوانین اس کے بعد متشکل ہوئے، اس کے سائے سے ہٹ کر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے۔ نہ صرف میسو پوٹیمیا کے عوام کی زندگیوں پر بلکہ آنے والے وقتوں میں مختلف تہذیبوں کے افراد کی زندگیوں پر بھی اس ضابطے نے اثرات مرتب کیے۔
بابلی تہذیب پہلی بڑی انسانی تہذیب مانی جاتی ہے جو دجلہ و فرات کے قرب و جوار میں ایک بڑی سلطنت کی صورت میں موجود تھی۔ حمورابی نے اسے قائم کیا ۔تاہم اس کی دلچسپیوں کا محور سماجی انصاف اور مساوات کا قیام تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے انصاف کی ہر خاص و عام تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے قانون سازوں کی جماعت قائم کی اور اس کی سرپرستی میں ایک ضابطہ قوانین وضع کیا گیا جس میں پہلے سے موجود سبھی معلوم ضابطوں سے بھی استفادہ کیا گیا۔
گو اس سے پہلے بھی مختلف معاشروں اور قبائل میں قوانین موجود تھے لیکن ایک ضابطے کی صورت میں ان کی یکجائی دکھائی نہیں دیتی اور نہ ذہن انسانی اتنا ترقی یافتہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مختلف ضرورتوں کے تحت کی گئی قانون سازی کو ایک ڈسپلن کی صورت دے اور قوانین کو ایک کوڈ یعنی ضابطے کی صورت میں ترتیب دے۔ حمورابی کی قانون سازی میں خصوصی دلچسپی کے باعث ایسا ممکن ہوا۔
ضابطے کو درجوں اور ابواب میں تقسیم کیا گیا اور مختلف تہذیبوں اور خطوں کے لوگوں، جو میسوپوٹیمیا کی زرخیز اور ترقی یافتہ خطے میں آن آباد ہوئے تھے، کے مزاج کو مدنظر رکھ کرقوانین، سزائیں اور جزائیں وضع کی گئی ہیں۔ جن موضوعات پر خاص طورپر اس ضابطے میں توجہ مرکوز کی گئی ہے، ان میں تجارت، خانگی معاملات اور انصاف کے سامنے سب کی برابر ذمہ داری اور جواب دہی قابل ذکر ہیں۔ تاہم سزاؤں کی بنیاد ’ہاتھ کے بدلے ہاتھ، آنکھ کے بدلے آنکھ‘ کے اصول پر قائم کی گئی ہے۔
حمورابی پہلا بابلی بادشاہ تھا جس نے تمام میسوپوٹیمیا پر اپنی حکمرانی قائم کی۔بابل کا علاقہ میسوپوٹیمیا میں ہمیشہ خصوصی اہمیت کا حامل رہا۔ آج بابل کی باقیات عراق میں بغداد کے جنوب مغرب میں واقعہ ہیں۔ عکادی زبان کے اس لفظ بابل کا مطلب ’دیوتا یا دیوتاؤں کا دروازہ‘ ہے۔اپنے پینتالیس سالہ دور حکومت میں حمورابی نے بابل کی ریاست کو عظیم الشان سلطنت میں تبدیل کیا لیکن اس وسیع و عریض سلطنت کو حمورابی کی وفات کے بعد اس کے جانشین سنبھال نہیں سکے اور اس کی موت کے بعد جلد ہی یہ سلطنت تتر بتر ہو گئی۔
حمورابی نے بابل کی ریاست اپنے باپ سن مبالت سے 1792 قبل مسیح میں وراثت میں حاصل کی۔ میسوپوٹیمیا کا خطہ تب متعدد ریاستوں میں منقسم تھا لیکن حمورابی کے دور میں مختلف سماجی معاشی اور تعلیمی اصلاحات کے باعث بابل میں شرح خواندگی نسبتاً سب سے زیادہ ہونے کے سبب اسے تمام ریاستوں میں منفرد منزلت حاصل ہوئی۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایک عرصہ حمورابی نے اپنی تمام تر قوت زیر نگیں ریاستوں میں فلاحی اور تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل میں صرف کی اور عام شہری کی خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے جیسے تعلیمی اور تربیتی اداروں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی۔
تجارت کو اپنے ایجنڈے میں ترجیحی درجہ دیا اور تاجروں کو قانونی ضمانتیں فراہم کی گئیں۔ امن و امان کی صورت کو سخت اقدامات کے ذریعے ممکن بنایا گیا۔
تاہم اس دور کی زبردست سلطنت ایلام کے بادشاہ نے اردگرد ریاستوں کے تجارتی راستوں پر قبضہ کرنے کے لیے محاذ آرائی شروع کی تو حمورابی نے ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ مل کر جنگی اتحاد تشکیل دیا اور یہ سب ریاستیں اپنی فوجوں کے ساتھ ایلام کے خلاف صف آرا ہوئیں۔ جنگ جیتنے کے بعد حمورابی نے اتحادی فوجوں میں سے غداروں کو بھی شکست دی اور یوں میسوپوٹیمیا کے ایک بڑے حصے پر اپنی حکومت قائم کرلی۔1750ء قبل مسیح تک حمورابی نے مسلسل جنگی مہمات اور سیاسی گٹھ جوڑ کے ذریعے میسوپوٹیمیا کی سبھی چھوٹی بڑی ریاستوں کو اپنی عمل داری میں شامل کرلیا۔ حمورابی کا دور اقتدار تینتالیس برسوں کو محیط ہے۔ اس کی وفات کے بعد سلطنت کی باگ ڈور اس کے بیٹے کے ہاتھ میں آئی لیکن وہ سیاسی معاملات میں اپنے باپ جتنا زیرک اور میدان میں اس جیسا دلیر نہیں تھا سو اس سے عظیم سلطنت کا شیرازہ برقرار نہیں رکھا جا سکا ۔
حمورابی کا ضابطہ قانون اس کی وفات کے صدیوں بعد بھی قانون سازی کے عمل پر اپنے اثرات کی وجہ سے زیر بحث رہا اورآج بھی اس ضابطے کے بہت سے قوانین مختلف تہذیبوں اور ملکوں کے قانونی ضابطوں میں اپنی جھلک دکھاتے نظرآتے ہیں۔ عہد نامہ قدیم میں جس کی تاریخ پیدائش حمورابی کے بعد کے دور کی ہے، حمورابی کے ضابطہ قانون کی گہری مشابہتیں موجود ہیں۔ اخذ و استفادے کی صورتیں ہمیں بعد کی سبھی تہذیبوں کے ضابطہ ہائے قانون میں دکھائی دیتی ہیں۔
حمورابی کے ضابطے میں قوانین مثالوں کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایک بیل چوری کرتا ہے تو اسے اس کی تیس گنا زیادہ قیمت کے بیل لیے جاتے یا اسے جرمانے کے طورپر رقم ادا کرنے کی سزا دی جاتی۔تاہم معزز شہری، آزاد کیے گئے شہری اور غلام کے لیے ان سزاؤں کی شدت میں کمی بیشی ہوتی۔ بنیادی طورپر ضابطے میں سخت سزاؤں سے رجوع کیا گیا جیسے ہلاک کردینا، عضو قطع کردینا، وغیرہ۔
حمورابی کے ضابطے میں پہلی بار سزاؤں کا عمل شواہد کی موجودگی کو ضروری قرار دے کر طے کیا گیا۔ ثبوت کی موجودگی کی بنیاد پر ہی فیصلے سنائے جاتے۔ اگر کوئی الزام عائد کرکے اسے ثابت نہ کرسکے تو الٹا اسی کو جرمانے کی سزا دی جاتی۔
اس ضابطے میں آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ کے اصول پر تعزیری قوانین کی بنیاد قائم تھی۔عمارت اگر وقت سے پہلے سے منہدم ہوجاتی تو اسے تعمیر کرنے والا مالک کا نقصان پوراکرتا، اگر اس کے نیچے دب کر کوئی غلام، یا مالک کا بیٹا یا خود مالک ہلاک ہوجاتا تو اس کی سز ا کے طورپر اسے تعمیر کرنے والے کا بالترتیب غلام، یا بیٹا یا خود اسے ہلاک کیا جاتا۔اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی بیٹی، بیوی یا بہن سے جنسی زیادتی کرتا تو اس کے بدلے میں دوسرے شخص کو یہ اختیار دیا جاتا کہ وہ اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کے بدلے میں مجرم کی بیٹی، بیوی یا بہن سے مباشرت کرے۔
تاہم ثبوت کی موجودگی کو ضروری قرار دینے کے ساتھ مجرم کی نیت کو بھی فیصلہ سناتے ہوئے اہمیت دی جاتی اور اس کی تلافی کی کئی دوسری صورتیں اختیار کی جاتی تھیں جیسے اگر قاتل کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ اس نے عمداً قتل نہیں کیابلکہ بغیر کسی ارادے کے اس سے ایسا سرزد ہوا تو اسے محض جرمانہ کیا جاتا۔قتل کی سزا اگر دونوں فریقوں میں باہمی رضامندی سے طے پائے تو مخصوص رقم کی ادائیگی کی صورت میں بھی دی جاتی۔
اسی طرح جرمانے کی ادائیگی کو سزا کے طورپر متعارف کیا گیا۔ آزاد شہری اور غلاموں کے قتل یا انھیں زخمی کرنے کی سزا کے طورپر اگر دونوں فریق متفق ہوں توجرمانے کی ادائیگی سے تلافی کی جا سکتی تھی۔ ضابطے میں مختلف جرائم کی سزا کے طورپر رقموں کا تعین بھی کیا گیا ہے۔
یہ پہلا ضابطہ ہے جس میں بہت سے ایسے امور پر خصوصی قوانین وضع کیے گئے جنھیں عام طور اس سے پہلے قوانین وضع کرتے ہوئے کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ مثلاً پہلی بار درختوں کی کٹائی کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ماحولیات کے حوالے سے یہ انسانی تاریخ میں پہلا قانون تھا جس کی سزا بھی مقرر کی گئی۔اس سے پیشتر مختلف مذہبوں میں درختوں کو تقدس فراہم کرکے ان کی کٹائی کے عمل کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔تاہم حمورابی کے ضابطے میں اسے بھی قابل گرفت جرم قرار دیا۔
عورتوں کی معاشرتی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی قوانین بنائے گئے۔ انھیں جائیداد میں حصہ دیا گیا اور اس حصے کی شرح مقرر کی گئی۔اس سے پیشتر ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا تھا، اور انھیں دیگر شہریوں جیسے مکمل حقوق حاصل نہیں تھے۔ اسی طرح طبی غفلت کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو بھی ضابطے کا موضوع بنایا گیا۔ علاج کے دوران طبیبوں کی غفلت کی وجہ سے مریض کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کے لیے سزائیں مقرر کی گئیں جن میں طبیب کی انگلیاں قطع کرنا بھی شامل ہے۔
ضابطے میں عوام کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا درجہ اشرافیہ پر مشتمل ہے جسے مکمل شہری حقوق حاصل ہیں۔ تاہم جرائم کی سزا دوسرے طبقوں کی ہی طرح سخت ہے۔ اس طبقے میں بادشاہ، درباری، امراء، پیشہ ور افراد اور افسران شامل ہیں۔ قانون کے سامنے ہر طبقے کے افراد کی برابر جواب دہی کو ممکن بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے۔
دوسرے طبقے کے لوگ شہر کے مخصوص حصے میں خاص گھروں میں رہتے۔ ان کے پاس زمینیں نہیں ہوتی لیکن یہ تیسرے طبقے کے غلاموں سے بہتر زندگی گزارتے۔تیسرے طبقے میں غلام شامل تھے۔ یہ طبقہ معاشرے کا سب سے بڑا طبقہ بھی تھا۔ ایک غلام کو جائیداد کا حق حاصل تھا بلکہ وہ اپنی خدمت کے لیے بھی خدام رکھ سکتا ہے۔ یہ آزاد عورتوں سے شادیاں بھی کرسکتے تھے۔ وہ اپنے مالک کو رقم ادا کرکے آزادی بھی حاصل کرسکتا تھا۔
تجارتی امور پر ضابطے میں خصوصی شقیں موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی معاشی صورت حال کی بہتری بادشاہ کی توجہ خاص کا مرکز تھی۔ رسیدیں، معاہدے، ضمانتیں تحریری صورت میں فراہم کی جاتی تھیں جن کی الواح کھدائی کے نتیجے میں ماہرین آثاریات کو حاصل ہوئی ہیں۔ معاہدے گواہوں کی موجودگی میں اور کھلے عام ہوتے تاکہ ان کی ضمانت کو یقینی بنایا جا سکے اور معاہدہ کرنے والوں کو زیادہ سختی سے طے شدہ شرائط کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ آپسی تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں ضابطے میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً اگر معاہدے کے بغیر غلام یا نابالغ شخص سے جائیداد خریدی جائے تو خریدار کو قانون کی نظر میں چور تصور کیا جاتا۔
قرض لینے اور دینے کے حوالے سے بھی سخت قوانین تھے۔ قرض نہ ادا کرسکنے کے جرم میں قرض دار کو اپنی بیوی، بچہ یا غلام بطور ضمانت قرض خواہ کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔
دولہا اپنے سسر کو اس کی بیٹی کی قیمت ادا کرتا تھا جسے وہ شادی کے دن بیٹی کے حوالے کرتا اور یوں وہ رقم پھر سے دولہا کی تحویل میں آجاتی۔ لڑکی اپنے ساتھ جہیز بھی لاتی تھی۔ طلاق کا حق مرد کو حاصل تھا۔ تاہم اسے جہیز لوٹانا پڑتا تھا۔عورت بھی قانون کی مدد حاصل کرکے خاوند سے طلاق لینے کا حق رکھتی تھی۔وہ عدالت میں مقدمہ کرسکتی تھی لیکن اگر وہ اپنی بات ثابت نہ کرپائے تو اسے بُری عورت تصور کرتے ہوئے دریا میں ڈبو دینے کی سزا بھی دی جاتی۔ مرد کے لیے البتہ اس معاملے میں کوئی سزا نہیں تھی۔
پہلے قانون ساز کی حیثیت سے دنیا بھر میں حمورابی کے مجسمے اور تصاویر مختلف ملکوں میں عدالتوں اور حکومتی عمارتوں پر کندہ ہیں۔ امریکی کانگریس کی عمارت پر بھی حمورابی کی شبیہ کندہ کی گئی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کی عمارت پر کندہ قانون سازوں کی شبیہوں میں بھی حمورابی شامل ہے۔