تقریباً دو کلو میٹر تک پیدل چلنے کے بعد ہم گاڑی کے پاس پہنچ گئے اور پھر وہاں سے چل دیئے۔ عشاء کا وقت تھا، رات کے اس پہر سفر کرنے کا اپنا ہی سواد آ رہا تھا، گاڑیوں کی چمچماتی روشنیاں جب سڑکوں پہ بکھری برف پہ پڑ رہی تھیں تو اس سے وہاں کا منظر مزید دلکش ہو کر آنکھوں کو سکون بخش رہا تھا، یہ انتہائی خوبصورت سا منظر اس وقت غارت ہوا جب زوہیب بھائی کی آواز آئی کہ
ہیلو چاچو کیا حال ہیں سائیں؟؟؟
یہ رئیس منیر تھے، انہوں نے حال احوال بتانے یا پوچھنے کی بجائے سیدھا ہی کہہ دیا کہ چاچو میں کل اور پرسوں ورکشاپ پہ ہی ہوں گا آپ گاڑی لے آئیے گا سیٹ کرا دیں گے۔ یعنی کہ اب رئیس منیر صاحب تک کو اندازہ ہو گیا تھا کہ انہیں کال کرنے کا ہمارا مقصد ہمیشہ فقط گاڑی کی چھترول کرانا ہوتا ہے، ویسے بھی اب ان کے ساتھ ہم گلی ڈنڈا تو کھیلنے سے رہے۔
نتھیا گلی کی انہیں حسیں وادیوں سے ہوتے ہوئے ہم رات کے تقریباً کوئی ساڑھے دس بجے کے قریب مری مال روڈ پر پہنچے جہاں پر عوام کا جم غفیر جمع تھا، اتنا رش یا تو مابدولت نے سائیں قائم علی شاہ کے عرس پہ دیکھا یا مری مال روڈ پر۔ ہم نے گاڑی کسی جگہ پہ کھڑی کی اور ذرا سردی سے دو دو ہاتھ ہونے کے لئے مکوں کے اشارے کرتے ہوئے باہر نکل آئے، اور آگے سے سردی نے بھی چائنیز کنگ فو یوگا کے سارے داؤ پیچ ہم غم کے ماروں پر آزماتے ہوئے ہمارا وہ حشر نشر کیا جسے ہم تاحشر یاد رکھیں گے، انہیں برف اور سردی کے ملے جلے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہمارے خطروں کے سب سے بڑے کھلاڑی، سب سے بڑے پہلوان، یعنی کہ مجتبیٰ بھائی دم کو دبائے بغیر بھاگ کر گاڑی میں جا بیٹھے۔ اب میدان میں باقی میں اور زوہیب بھائی رہ گئے، ہم نے مال روڈ پر ادھر ادھر گھومنا پھرنا شروع کر دیا۔ مری آنے والے لوگ مال روڈ سیڑھیوں پر بیٹھنا اپنا قومی، مذہبی، سیاسی، معاشرتی الغرض ہر طرح کا اولین فرظ سمجھتے ہیں، کچھ نوجوانوں کا ٹولہ وہاں ٹیلیگو گانا ' ینا دا" پر ڈانس کر رہا تھا، زوہیب بھائی موبائل پکڑ کے ویڈیو بناتے ہوئے ان کے پاس جا کر ٹھہرے، اور مابدولت نے دیکھا کہ ان لونڈوں کو ڈانس کرتا دیکھ کر زوہیب بھائی کے اندر کی نرگس بھی باہر نکل کر وہاں کے حالات اور لوگوں کے جذبات خراب کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار ہی رہی تھی کہ ہم نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے زوہیب بھائی سے ایک ایمرجنسی کال کرنے کی غرض سے موبائل لیا اور نکل گئے۔ اسی دوران اچانک ہماری نظر قریب کے ایک کافی شاپ پر کھڑی ایک انتہائی خوبصورت سی دوشیزہ پر پڑی جو وہاں اکیلی کھڑی کافی پی رہی تھی۔ اس وقت بہت شدت سے ہمارے اندر یہ الہام ہوا کہ پانی پئے بغیر آرام سے زندہ رہا جا سکتا ہے لیکن کافی پئے بغیر؟؟ استغفرُللہ، توبہ توبہ ہرگز نہیں۔ ہم نے اس خاتون کے اردگرد کا سرسری سا جائزہ لیا کہ کوئی لونڈا وونڈا تو نہیں نا ساتھ اور مکمکل تسلی کے بعد جیکٹ کی زپ کھول کر آسین تھوڑا اوپر کئے اور کافی والے بھائی کے پاس چلے گئے۔ جی سر کیا چائیے آپ کو؟ کافی والے نے پوچھا! ہم نے اس وقت زبر زیر پیش شد مد سب کو ملا کر کچھ اس انداز سے "ون کپ کیپچینو پلز" کہا کہ کافی والے سمیت وہ خاتون بھی ہمیں اک نظر دیکھنے پر مجبور ہو گئی کہ کہیں شیکسپیئر تو مال روڈ گھومنے نہیں آیا ہوا۔ ہم نے کافی لی ، ایک عدد سپ لیا اور سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو وہ خاتون وہاں سے غائب تھیں، بس جگر کو ایک اور تیر سے چھلنی کئے وہاں سے ہم چل پڑے، ابھی زوہیب بھائی کو میں دیکھ ہی رہا تھا کہ پولیس کے دو سپاہی وہاں پر ہلا گلا کرنے والوں میں سے ایک نوجوان جو وہاں پر ڈانس کر رہا تھا کو پکڑ کر لے گئی، میرے اندر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ یہ ضرور زیبی کی مخبری پر پکڑا گیا ہوگا، مطلب زوہیب بھی پکڑا گیا ہے۔ ابھی میں اپنے چشم تصور میں زوہیب بھائی کو الٹا لٹکے دیکھ کر اس کی تشریف آوری پر چھترول والا سین بنا ہی رہا تھا کہ اچانک میری نظر خدا کے اس قہر پر پڑی جو سامنے کہیں پہ کھڑا سیلفی بنا رہا تھا، میرے سارے سہانے خواب زوہیب بھائی کے ساتھ ہی ملیا میٹ ہو گئے، دل میں خیال آیا کہ زوہیب بھائی کے لئے ایک ایسا موبائل ایجاد کروانا چاہئے جس میں سیلفی لیتے وقت فلیش کے بجائے ایک توپ نکل کے زوہیب کے منہ سے ٹکرا کر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے، میرے حسیں تصورات کے ساتھ مزید کھلواڑ کرتے ہوئے زیبی نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا، موبائل تھمایا اور ایک انتہائی گھٹیا پوز بنا کر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت میں نے سنجیدگی سے سوچا کہ زوہیب بھائی کے موبائل سے ایک میسج ان کے بڑے بھائی کے نمبر پہ کروں کہ ' میں نے بم فٹ کر دیا ہے پانچ منٹ تک بٹن دبا دینا" اور آرمی کے ایمرجنسی نمبر پر کال کر کے انہیں موبائل پکڑا کر یہی میسج دکھا دوں کہ سر یہ موبائل مجھے یہاں پڑا ملا اور اس میسج نے میرے ہوش اڑا دیئے، اسی لئے آپ سے رابط کیا اور آرام سے وہاں سے مجتبیٰ بھائی کو ساتھ کر کے نکل جاؤں۔ یار سلمان صبح سے پوز بنا کے کھڑا ہوں جلدی تصویر بناؤ سردی ہے، زوہیب بھائی کی آواز آئی۔ میں نے ایک پک بنائی اور پھر ہم دونوں اپنے گاڑی کی طرف چل دیئے۔ مجتبیٰ بھائی پچھلے آدھے گھنٹے سے گاڑی میں ہیٹر چلا کر بیٹھے تھے، ہم جب پہنچے تو وہ ویسے ہی گاڑی میں بیٹھے کانپ رہے تھے اور ہاتھوں اور پاؤں کو ہیٹر کے گرلوں کے اندر دینے کی مکمکل کوشش میں مصروف عمل تھے۔ ہم بھی گاڑی میں بیٹھ گئے اور پولیس کا اس لڑکے کو پکڑنے والے معاملے کو ڈسکس کرنا شروع کر دیا کہ یہ انتہائی غیر مناسب عمل ہے، وہ وہاں پر کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچا رہا تھا؟ خدانخواستہ کسی خاتون کو چھیڑ تو نہیں رہا تھا، بس تھوڑا سا ہلا گلا کر رہا تھا، کیا اب ہمیں اپنے ملک میں کھل کر ہنسنے کی بھی آزادی نہیں ہے؟؟ اس دن سے مری سے میرا دل بھر گیا اب مری جانے کا دل نہیں کرتا اور آجکل تو بالکل بھی نہیں کرتا۔
ہم آنٹی کے گھر کی جانب چل پڑے کہ جا کر اپنا سامان وغیرہ اٹھائیں اور اسلام آباد کے لئے چلتے بنیں، راستے میں ہر طرف برف پڑی تھی اور ہم بار بار رک کر تصویریں وغیرہ بناتے ہوئے جا رہے تھے، ایک جگہ پہ زوہیب بھائی نے رکنے کا کہا، ہم سب باہر گئے ، منہ کو خراب کیا جیسے نعوذباللہ فالج کے تازہ فریش جھٹکے لگے ہوں، ڈھیر ساری تصویریں بنائیں، تصویریں بنا کر میں اور مجتبیٰ بھائی واپس آکر گاڑی میں بیٹھ گئے لیکن زوہیب بھائی کیمرے کو اذیت ناک تکلیف دیتے رہے اور تصویروں بناتے رہے، جب تھک گئے اور سردی نے تھوڑا رگڑا لگایا تو جلدی جلدی بھاگتے ہوئے آئے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر آنے ہی لگے تھے کہ ان کا پیر پھسلا اور دھڑام سے نیچے جا گرے ، ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی سو منزلہ عمارت منہدم کر کے نیست و نابود ہو گئی ہو، ہم نے اس دلکش منظر کو اچھا شگون سمجھتے ہوئے الحمدللہ خوب انجوائے کیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کب سے ہماری گاڑی ہی ٹھکی جا رہی ہے، یہ منظر دیکھ کر گاڑی کا انجن بھی خوشی سے جھوم اٹھا ہو گا اور سب سے اہم بات کہ خوش قسمتی سے ہم یا زوہیب بھائی خود اس وقت ویڈیو بھی بنا رہے تھے تو یہ منظر کیمرے میں بھی قید ہو گیا ، میں جلد ہی سینسر بورڈ والوں کی ایک ٹیم تشکیل دوں گا کہ وہ ایک مہینہ اس وڈیو کو غور سے دیکھیں اور پھر مجھے بتائیں کہ کیا یہ ویڈیو کہیں پوسٹ کرنے کے قابل ہے، اگر ہوا تو آپ دوستوں کے ساتھ وہ شیئر کر دوں گا۔
ہم آنٹی سمینہ کے گھر پہنچے ، تو وہ ہم سے پہلے تیار بیٹھی تھیں کہ میں نے بھی آپ لوگوں کے ساتھ جھنگ تک اپنی بھانجی کو چھوڑنے جانا ہے، یہ ہمارے لئے بہت بڑا مسئلہ بن گیا کیونکہ انہوں نے ہماری بہت خدمت کی تھی اور انہیں انکار کرنا بھی بہت مشکل تھا اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ زوہیب بھائی اپنی خوبصورت سی طبیعت کے پیشِ نظر اگر ایک دو منٹ تک اپنے منہ سے کوئی پیاری سی گالی نہ نکالیں تو انہیں منہ کے کینسر کے دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں آنٹی ساتھ ہوں گی تو زوہیب بھائی کے منہ کا کینسر تو الحمدللہ دو سو فیصد کنفرم تھا ساتھ ہمیں بھی بہت تمیز سے بیٹھنا پڑے گا جو کہ بہت مشکل تھا، ہم نے آنٹی کو کہا کہ آنٹی ابھی ہم اسلام آباد جا رہے ہیں وہاں ایک دو دن رہیں گے گاڑی کا کام کرانا ہے اور اس کے بعد واپس جائیں گے اگر آپ ہمارے ساتھ چل کر اسلام آباد رہ لیں تو وہ آپ کا اپنا ہی گھر ہے، اتنی دیر میں آنٹی کی وہ بھانجی آ گئیں جن کو چھوڑنے آنٹی نے جانا تھا، اس پر نظر پڑتے ہی ہم تینوں نے ایک دوسرے کے اوپر لانت بھیجنے والے انداز میں دیکھا کہ اس پری کو چھوڑنے سے انکار کیا ہم نے لیکن اب آنٹی کو کیسے کہتے کہ آنٹی بھاڑ میں جائے گاڑی کی مرمت آپ نے ہماری اتنی خدمت کی اور ہم آپکا ایک چھوٹا سا کام تک نہیں کر سکتے کہ آنٹی نے اس لڑکی کو کہا کہ بیٹا ہم لوگ کل چلیں گے ابھی تمہارے بھائیوں نے کچھ دن اسلام آباد میں رہنا ہے ، بھائی کا لفظ سنتے ہی ایسا لگا جیسے کسی نے ہمارے اوپر کھولتا ہوا انگاروں بھرا پانی گرا دیا ہو ، وہ لڑکی پھر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور ہمارے ساتھ آنٹی نے جو ظلم کیا ، ہم نے نا چاہتے ہوئے بھی آنٹی سے اجازت لی ڈھیر ساری دعائیں لیتے سامان اٹھا کر اسلام آباد کے لئے نکل پڑے، رات کے تقریباً کوئی ڈیڑھ دو بجے ہم اسلام آباد ایف الیون میں مجتبیٰ کے کزن شہیر بھائی کے فلیٹ پر پہنچ گئے، کھانا رکھا ہوا تھا ، کھانا کھا کر سو گئے۔
دوسرے دن صبح صبح شام کے چھ بجے اٹھ کر ہم سیدھا چاچو رئیس منیر صاحب کے ورکشاپ پر چلے گئے جہاں ہم نے سب سے پہلے اعلیٰ قسم کا ناشتہ فرمایا اور تین چار گھنٹوں میں گاڑی کو فٹ کرا کے راؤنڈ وغیرہ لگا کر مکمکل تسلی کے بعد چاچو نے چابی ہمیں تھما کر فوراً وہاں سے دفع ہو جانے کا پیغام دیتے ہوئے چالیس ہزار کا بل ہمیں تھما دیا جس کا مطلب تھا کہ اگلے مہینے کا خرچہ ڈبل لینے کے لیے ہمیں ابو جان کے سامنے چھوٹے سے معصوم سے پپی والا منہ بنانا ہوگا، ہم نے پیسے ادا کر کے چاچو سے اجازت لی اور واپس رحیم یار خان کے لئے نکل پڑے۔
رات کا سفر مجھے زیادہ پسند نہیں تو میں تھوڑی دیر کے لئے سو گیا جب اٹھا تو ہم کسی قیام طیام میں داخل ہو رہے تھے، ہم نے وہاں کے ایف سی پر جا کر برگرز کھائے اور اس کے بعد فوراً نکل پڑے کیونکہ میں نے کل کی اپنی کلاس ہر صورت میں اٹینڈ کرنی تھی ورنہ بہت گڑ بڑ ہو جاتی۔ سفر کٹتا رہا ، گاڑی چلتی رہی، کبھی پیچھے میں سویا ہوا ہوں تو کبھی زوہیب اور کبھی مجتبیٰ بھائی۔ سفر کٹتا رہا ، کٹتا رہا پھر میری آنکھ کھلی تو گاڑی کسی ڈھابے نما ہوٹل پہ کھڑی تھی، زوہیب بھائی پیچھے لیٹے کوئی افریکن دنبے سے بھی زیادہ ڈراؤنے لگ رہے تھے۔ میں آنکھ ملتے ہوئے باہر نکلا اور مجتبیٰ بھائی کے پاس باہر جا کر پوچھا کہ ہم کہا پہنچے ہیں ، مجتبیٰ بھائی نے چائے کی سپ لیتے ہوئے کہا کہ سرکار موت کے منہ سے واپس آئے ہیں، میری نیند ایسے اڑ گئی جیسے گولی کی آواز کے بعد سکون سے بیٹھا پرندہ اڑ جاتا ہے، مجتبیٰ بھائی نے مزید بتایا کہ انہیں نیند کا ایک شدید قسم کا جھٹکا لگا اور سامنے اچانک بہت بڑا ٹرالہ آ گیا جس سے مجھے خود پتہ نہیں ہم کیسے بچے ورنہ میں نے تو کلمہ تک پڑھ لیا تھا، یہ سن کر میں گاڑی کی طرف گیا اور وہاں لیٹے ہوئے بے حس سانڈھ کو جھنجھوڑ کر جگایا کہ نامراد خبیث ہم مرتے مرتے بچے ہیں اور تم یہاں مزے کی نیند سو رہے ہو، تھوڑی دیر تک مجھے باؤلے سانڈھ کی طرح دیکھنے کے بعد زوہیب بھائی نے انتہائی بیہودگی سے انتہائی خوبصورت بات کہی کہ "اوئے موت کا جو وقت لکھا ہے نا موت اسی وقت آئے گی" ۔ اس جگہ پہ ہم نے ناشتہ کیا اور چل پڑے۔
اب رحیم یار خان صرف ساٹھ کلومیٹر رہ گیا تھا کہ ہماری گاڑی سپیڈ لمٹ کی وجہ سے بند ہو گئی، ہم نے ٹریکر والوں کو فون کیا ، تو انہوں نے کہا کہ ابھی کھولے دیتے ہیں جناب، لیکن وہ ابھی، ابھی نہ کھلا تو اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے مجتبیٰ بھائی اور زوہیب بھائی نے ایک انتہائی خوبصورت سی قوالی
" کہتے ہیں عمر رفتہ اسے بھولتا نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا"
پر اپنے لٹک جھٹک اور ایکٹنگ کے جو جوہر دکھائے اس نے میرا دل جیت لیا، اس قوالی اور ان دونوں کی لاجواب ایکٹنگ کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ ہمارے پورے ٹرپ میں یہ لمحے سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ میں جلد ہی وہ ویڈیو آپ احباب کے ساتھ شیئر کروں گا۔ اسی ایکٹنگ کے دوران زوہیب بھائی نے گاڑی چیک کیا تو وہ سٹارٹ ہو گئی اور ہم رحیم یار خان کے لئے نکل پڑے اور آدھے گھنٹے بعد دن کے کوئی نو دس بجے اپنے ہاسٹل پہنچ گئے جہاں پہنچتے ہی ہم لیٹ گئے اور میں شام کے وقت اٹھ کر تیاری ویاری کر کے کلاس پہنچ گیا۔
میں حسب معمول کلاس میں لیٹ گیا، پہلا لیکچر میم سکینہ کا ہوتا تھا، جونہی میں نے میم سے کلاس میں داخل ہونے کے لئے اجازت مانگی میم مجھے دیکھ کر ہنس پڑیں اور اجازت دے دی۔ میں نے ایک نظر سدرہ کو دیکھا ، وہ ہمیشہ کی طرح بے پناہ خوبصورت لگ رہی تھی ، میرا دل تو وہ کلاس کے تیسرے دن ہی گھائل کر چکی تھی کیونکہ پہلے دو دن چڑیل آئی ہی نہیں تھی۔ اتنے میں لیکچر ختم ہوا اور میم نے پوچھا جی سلمان صاحب آپ پچھلے پانچ دنوں سے کلاس کیوں نہیں آ رہے ، میم مری گیا ہوا تھا میں نے جواب دیا، مزید کچھ باتیں ہوئیں،سفر کے حوالے سے پوچھا گیا۔ میم نے کوئی بات کی تو اس کے بعد میری طرف دیکھے جا رہی تھیں دیکھے جا رہی تھیں، میں نے بھی تھوڑی دیر انہیں دیکھنے کے بعد ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ مسلسل دیکھ رہی تھیں تو میں نے کہا میم پلیز ایسے نہ دیکھا کریں مجھے کچھ کچھ ہوتا ہے، کلاس میں، میم سمیت ساری لڑکیوں کا قہقہہ گونجا اور میم مجھے نام داخل کرانے اور دوبارہ چھٹیاں نہ کرنے کا کہہ کر چلی گئیں اور پھر سدرہ نے مجھے کہا کہ سلمان ذرا اپنے ٹرپ کی پکس تو دکھاؤ ہمیں، میں گھٹنوں کے بل جھکا، دل کو نکالنے والے انداز میں دل پر ہاتھ کے اشارے سے دل نکال کر سڈ کے سامنے کر دیا اور کہا سڈ میں تو تمہیں اپنا دل گردہ پھپھڑے تک نکال کر دینا چاہتا ہوں موبائل بھی کوئی چیز ہے بھلا، جس پر سڈ نے ہمیشہ کی طرح دل کو چھین لینے والے انداز میں انتہائی دلکشی کے ساتھ مسکراتے ہوئے " شٹ اپ سلمان " کہا یہ سن کر ہم موبائل سڈ کو تھماتے ہوئے کینٹین کی طرف چل پڑے۔