وہ پیرینٹس ڈے کی صبح تھی اور سکول میں اتنی چہل پہل شروع نہیں ہوئی تھی۔ میں ٹیچر شازیہ سے کسی کام کی غرض سے ملنے کلاس فور کے ایک سیکشن میں داخل ہوئی۔ وہاں ایک معصوم مگر قدرے پریشان چہرے والی لڑکی اپنی ماں کے عقب میں ڈری سہمی کھڑی تھی۔ پہلی ہی نظر میں مجھے اس کے تاثرات ایسے لگے کہ ابھی زمین پھٹے اور وہ اس میں دفن ہو جائے۔ جھکا سر اور زمین پر گڑی نظریں وقفے وقفے سے اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھتی کوئی جائے پناہ ڈھونڈتی محسوس ہوتیں۔ ٹیچر شازیہ اپنی کرسی پر بیٹھی اس کی طرف مڑ کر اسے کچھ سمجھا رہی تھیں۔
دیکھو ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اس کی نافرمانی بڑی بد نصیبی ہے۔ اگر تم اپنی والدہ کا کہا نہیں مانو گی، انہیں دکھ دو گی تو تم زندگی میں کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گی۔ اچھی لڑکیاں اپنے والدین اور استاد کا ہر کہنا مانتی ہیں۔
کمرے کی فضا میں عجیب سا تناؤ محسوس ہو رہا تھا۔ اس وقت تک اکثر بچوں کے والدین سکول نہیں آئے تھے۔ اس سیکشن میں صرف وہ بچی اور اس کی والدہ ہی ٹیچر کے پاس موجود تھیں۔ اس کی ماں کی آواز قدرے بلند ہو رہی تھی۔
مجھے اس سے کون سے کام کرانا ہوتے ہیں، یہی کبھی اپنے چھوٹے بھائیوں کو بہلا لیا۔ کبھی چائے بنا دی کبھی کبھار گھر میں ویکیوم کلینر سے صفائی کر دی۔ پھر بھی رزلٹ اچھا نہ آئے تو قصور اسی کا ہے۔ اوپر سے نافرمان اور میرا کہا بھی نہیں مانتی۔ سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں اسے مگر آج کل کے بچے ماں باپ کی سنتے ہی کب ہیں۔ کئی بار تو میری آواز پر جواب تک نہیں دیتی۔
اس بچی کے سہمے ہوئے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا رہا۔
آٹھ نو سال عمر کی اس نے بچی نے شلوار قمیض کے ساتھ چھوٹا سا دوپٹہ گلے میں ڈال رکھا تھا اور لمبے بالوں کی فرنچ نوڈ بنائی ہوئی تھی اس کی نظریں مسلسل فرش پر گڑی ہوئی تھیں۔ ٹیچر شازیہ کا والدین اور اساتذہ کی فرمانبرداری پر مشتمل لیکچر جاری تھا۔ اس کی ماں اور ٹیچر دونوں میں سے کوئی بھی اس کے چہرے کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ مجھے وہاں موجود پا کر شازیہ چند ثانیوں کے لیے خاموش ہوئی اور استفہامیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ اسے جواب دینے کی بجائے میں نے دوبارہ اس لڑکی کی طرف دیکھا جو دو سال قبل میری شاگرد رہ چکی تھی۔
وہ بہت حساس اور کم گو لڑکی تھی جو کبھی کلاس میں شرارت نہ کرتی تھی۔ کسی بھی بچے کو پڑنے والی ذرا سی ڈانٹ سے گھبرا جاتی اور پھر اسے سب اسباق بھول جاتے تھے۔ میں نے وہ سارا سال بڑی توجہ اور محنت سے اس میں اعتماد پیدا کیا تھا اور حوصلہ افزائی کر کے اسے ایک قابل سٹوڈنٹ کے طور پر نکھارا تھا۔ پھر سے اس حساس بچی کو یوں ناکام دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔
بھلا اتنی پیاری، اتنی اچھی اور ذہین بیٹی بھی کسی کو پریشان کر سکتی ہے ؟
یہ کہتے ہوئے میں نے آگے بڑھ کر اس بچی کو گلے سے لگا لیا کمرے میں موجود اس کی ماں اور ٹیچر دونوں ہکا بکا میری شکل دیکھنے لگیں اور ایک معصوم سا آنسو ان دونوں کی نظر سے اوجھل ہی رہ گیا۔
٭٭٭