بنتے بگڑتے ٹیلوں کے درمیان ریت کے چھلاوے رقصاں تھے سورج کی تپش جوں کی توں برقرار تھی مگر روشنی کی کرنیں زمین پر پہنچنے سے انکاری تھیں۔ مگر ریت کے پیالے تلے دم توڑتی قدروں کی کہانی سانس لے رہی تھی۔ وقت اور تہذیب کا سفر کبھی تھما نہیں تھم جائے تو شاید متعفن ہو جائے۔ تہذیب کے ٹیلے بھی کبھی کھائیوں میں بدل جاتے ہیں اور کبھی کھائیاں ٹیلوں جتنی بلند ہو جاتی ہیں۔ قریب رہنے والے حتی کہ اپنا وجود بھی نگاہوں سے اوجھل اور دور بسنے والے رگ جاں سے بھی قریب ٹھہرتے ہیں۔
نور دین پر کھانسی کا شدید دورہ پڑا تھا۔ کئی دنوں سے وہ مسجد کے بیرونی چھپر تلے ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا۔ جدہ شہر کے اس گنجان محلے میں بہت سے پاکستانی بنگلہ دیشی اور ہندوستانی ملازمین رہائش پذیر تھے۔ چند پاکستانی ہمدرد پچھلے دوسال میں اسے وطن واپس بھجوانے کی کئی سنجیدہ کوششیں کر چکے تھے۔ چند ایک بار کئی لوگوں نے مل کر پیسے بھی جمع کیے تاکہ کچھ دے دلا کر پھر اسے ترحیل کے ذریعے سے وطن واپس بھیجا جا سکے۔ مگر حج سیزن کے بعد شہر کی مرکزی سڑکوں اور پلوں کے نیچے غیر قانونی مقیمین کا ایک جم غفیر موجود تھا جو ترحیل کے ذریعے ڈی پورٹ ہونے کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر واپس جانا چاہتا تھا ایسے میں نور دین کی شنوائی کہاں ہوتی۔
گاڑی ریورس کرتے ہوئے میں نور دین کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن ریت کے اتنے شدید غبار میں گاڑی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
سانحے ہوں یا واقعے خبریں ہوں یا تبصرے سب گرد کی تہوں میں تو کہیں ریت کے چھلاووں میں دب جاتے ہیں مگر کہانی سینہ با سینہ، نسل در نسل، ورق در ورق سفر جاری رکھتی ہے۔ نور دین کے لیے وہ دن بھی ایک ایسی ہی کہانی کا ورق تھا۔ ریت کے طوفان میں گرد و غبار سے بچنے کی خاطر اس نے اپنے سر کا رو مال ناک اور منہ پر لپیٹ لیا تھا جسے وہ گاہے گاہے سر سے اتارتا اور پھر نتھنوں میں گھستی ریت کے ڈر سے دوبارہ اوڑھ لیتا۔
ایسے سینکڑوں ہزاروں اوراق سے تحریر کردہ پتوکی کے نور دین کی زندگی بجائے خود ایک افسانہ تھی۔ اس کی زندگی میں اساطیری کہانیوں اور حکایتوں جیسے کئی موڑ تو آئے ہی تھے مگر کہانی کے باقی کردار کبھی اس کے پلے نہ پڑ سکے۔ اپنی زندگی کے حساب کتاب کا گوشوارہ دیکھتے وہ گھٹن اور تنہائی کے عالم میں اپنی یادوں کی کتاب سے ورق ورق پلٹتا اور ٹوٹی پھوٹی باتیں کرتا رہتا تھا۔
مجھے وہ اکثر پتوکی کے قریبی گاؤں میں مغرب کے بعد کا منظر بتاتا۔ اس کی چھوٹی سی نرسری، ہوا میں رچی موتیا چنبیلی کی مہک، گاؤں کے کمہار اور ان کے مشاق ہاتھوں میں گندھی مٹی لیور کے ساتھ پاؤں سے گھمانے والے چاک پر بہت خوب صورت گملوں میں ڈھلتی چلی جاتی۔ انہیں دیسی گملوں میں ایک دن قیمتی ان ڈور پودوں کی آرائش کرتے ہوئے ایک کانٹا بہت زور سے اس کے ہتھیلی میں چبھا تھا اس کا نشان آج تک موجود ہے۔ کئی بار وہ اس نشان کو دیکھ کر مسکراتا ہے گویا کانٹوں سے بھی رشتہ داری رہی ہو۔
گاؤں کی نیم پختہ مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد گھر لوٹتا تو بیوی باورچی خانہ میں لکڑی کی چوکی پر چولہے کے قریب بیٹھی اس کی منتظر ہوتی۔
پھر اس کی یادوں کے مناظر بدلتے۔ بیٹے جوان ہوئے الگ سے کمانے لگے تو گھر میں تنگی کے بعد قدرے خوش حالی جھانکنے لگی۔ سچا عاشق رسول صل اللہ علیہ و سلم تھا۔ مدینے کی گلیوں میں گھومنے کی تمنا اور کعبہ کے دیدار کا اشتیاق عمر بھر کی حسرت تھی۔ کمیٹیاں ڈال کرپیسے جمع کیے اور کچھ الگ سے پس انداز کی ہوئی رقم سے اپنی بیوی بیٹے کے ہمراہ عمرے کے لیے ارض مقدس پہنچ گیا۔
یہ یں سے اس کی زندگی میں اساطیری کہانیوں جیسا انقلاب رونما ہوا۔
عمرہ کی ادائیگی کے بعد وہ اپنی بیوی بیٹے کے ہمراہ بلد کے بازار میں واقع اپنے کسی عزیز کی دکان پر اسے ملنے اور کچھ خریداری کرنے آیا۔ بازار میں شدید گرمی اور گھٹن کا احساس ہونے پر وہ ایک شاپنگ سنٹر میں موجود حمام میں غسل کی نیت سے گیا اور اپنے کپڑے اتار کے دروازے کے اوپر ہی لٹکا دیے۔ ابھی جسم بھی گیلا نہ ہوا تھا کہ کسی نے حمام کے باہر سے اس کے کپڑے اتارے اور چلتا بنا۔ وہ اندر آوازیں دیتا رہ گیا۔ اسی قمیض کی جیب میں رقم کے علاوہ پاسپورٹ شناختی کارڈ اور ہوائی ٹکٹ بھی موجود تھا۔
اس چور کا پتا چلنا تھا نہ چلا۔ واپسی میں فقط ایک دن تھا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد بھی کچھ سجھائی نہ دیا تو کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ اپنی فیملی کو بھیج دے اور بعد میں کسی طرح سفارت خانے سے آؤٹ پاس لے کر وطن واپس چلا جائے۔
قونصلیٹ سے عارضی پاسپورٹ کے حصول کے لیے اسے اپنی شناخت ثابت کرنا تھا۔ پیچھے وطن میں موجود بیٹے کو تاکید کی کہ وطن جاتے ہی شناختی دستاویزات اور فارمس وغیرہ کی نقول ڈاک سے جدہ بھجوا دے۔
تب ڈاک بھی قدرے تاخیر سے پہنچا کرتی تھی۔ عارضی پاسپورٹ کے انتظار میں اس نے فارغ بیٹھنے کی بجائے اپنے واقف کار کی دکان پر چھوٹا موٹا کام کرنے کو ترجیح دی تاکہ اپنے میزبان پر بھی بوجھ نہ بنے۔ کوئی دو مہینے بعد اس نے ملنے والی اجرت ہنڈی سے پاکستان روانہ کر دی تاکہ اس رقم سے اس کا بیٹا کاغذات مکمل کروا کر اسے بھیج دے۔
شاید یہی اس کی زندگی کی فاش غلطی تھی۔ شناختی دستاویزات نہ پاکستان سے بھیجی گئیں نہ ہی جدہ پہنچیں۔ مگر ہر ماہ پس انداز کی
ہوئی رقم ہنڈی سے پاکستان بروقت پہنچتی رہی۔ پھر بیوی اور اولاد نے بھی اس کی طرف سے کان ڈھانپ لیے الٹا اسے کہتے کہ اچھا روزگار لگا ہوا ہے یہاں آ کر کیا کرنا ہے ؟ پاکستان میں کیا رکھا ہے سوائے مسائل کے ؟
دو سال بعد بڑی بیٹی بیوہ ہو کر مائیکے کی دہلیز پر آن بیٹھی اور نور دین کی ذمہ داریوں میں نیا اضافہ ہو گیا۔ ہر مہینے بیوہ بیٹی کی کفالت کے لیے اسے الگ سے پیسے بھیجنا پڑتے۔ بڑھاپے میں اعضاء جواب دینے لگے، وزن اٹھانا اور مزدوری کرنا دوبھر ہوا تو مانگنا شروع کر دیا۔ دو عشرے بیت گئے مگر وطن سے شناختی دستاویزات نہ آئیں –
کچھ عرصے سے وہ مسجد کے باہر بیٹھا رہتا تھا۔ بڑھاپا بجائے خود ایک بیماری ہے اوپر سے اپنوں کی خود غرضی اور بے اعتنائی نے اس کی صحت اتنی گرا دی کہ چند دنوں کا مہمان لگنے لگا۔
محلے داروں نے کئی بار اسے وطن بھجوانے کی کوشش کی۔ ہم وطن پاکستانیوں نے دے دلا کر ترحیل بھی بھیجا مگر قونصلیٹ سے آؤٹ پاس نہ مل سکا۔ کہا جاتا تھا اس کا پاکستان میں کوئی شناختی ریکارڈ موجود نہیں اس لیے مشکوک شہریت کی بنا پر اسے آؤٹ پاس نہیں مل سکتا۔ جب ایک بار ترحیل گیا تو وہاں کے محکمہ والوں نے اس پر ترس کھا کر پھر چھوڑ دیا کہ کسی طرح اپنے وطن سے کاغذات منگوا لو تاکہ تمہارا سفارہ تمہیں آؤٹ پاس بنا دے
ریت کے غبار میں اس دن نور دین کو یوں بے یار و مدد گار پڑا دیکھ کر میرا دل بہت دکھا۔
مجھے یاد آیا جب میرا باپ فوت ہوا میں دبئی میں نوکری کرتا تھا اور بڑا بھائی انگلینڈ جا بسا تھا۔ محلے والوں نے دروازہ توڑ کر میت باہر نکالی تھی۔ نور دین کو دیکھ کر مجھے اپنا باپ بہت یاد آتا ہے اسے یوں پردیس میں اکیلے نہیں مرنا چاہیے۔
نور دین نے مجھے دیکھ کر کھانسی بمشکل روکتے ہوئے کہا پتر اپنا پاکستان کا فون نمبر تجھے دیا تھا بتا کیا کہتے ہیں میرے گھر والے ! کاغذ کب بھیجیں گے ؟ اب اخیر ویلا آ گیا ہے بڑی خواہش ہے اپنے گاؤں میں جا کر دم دوں۔ یہاں مر کھپ گیا تو جانے کوئی میرا جنازہ بھی کرے گا یا نہیں ؟
میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
بابا تم فکر نہ کرو ہم کسی طرح تمہارا آؤٹ پاس بنوا دیں گے۔ اب تو سارا کچھ کمپیوٹر پر آ گیا ہوا ہے کہیں نہ کہیں تیرا نام بھی نادرا والوں کو مل جائے گا –
اچھا رب سوہنا بھلا کرے تیرا پتر۔ اپنی اولاد کو تو پروا نہیں جیوں یا مروں ان کی بلا اسے انہیں تو بس پیسے چاہیں خواہ سارا مہینہ بھیک مانگ کے جمع کروں۔ پر اب نہیں بھیجوں گا۔
یہ دیکھ دو ہزار ریال جمع ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اتنے میں جہاز کا ٹکٹ آ جائے گا؟
بابا تم پیسوں کی فکر نہ کرو ٹکٹ بھی آ جائے گا بس حوصلہ نہ ہارو تمہیں ضرور واپس بھیجیں گے۔
میں ذرا تمہارے ڈیرے والوں کو فون کروں۔ انہوں نے تمہیں اکیلے باہر کیوں نکلنے دیا؟ یہ کیا مسجد کے باہر پڑے ہوئے ہو ؟ پھر دمے کا دورہ پڑ گیا تو پریشانی ہو گی۔ نور دین سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگا!
پتر کیا پاکستان فون کیا تجھے نمبر دیا تھا تو نے وعدہ کیا تھا تو فون کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے کاغذ منگوائے گا۔ نور دین کو سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے میں نے اسے اپنی گاڑی میں بیٹھے کا کہا تاکہ اسے اسکے سابقہ ڈیرے پر چھوڑ آؤں۔ مگر وہ بضد تھا ڈیرے پر نہیں بلکہ اس کے سامنے پاکستان اس کے گھر فون کروں۔
کھانس کھانس کر اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور پسلیاں دھونکنی کی مانند چل رہی تھیں۔
میں نے کہا بابا تم یہاں سے چلو اللہ واپسی کی کوئی سبیل نکال دے گا۔ جو نمبر تو نے دیا تھا وہاں کئی بار فون کیا مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر کیا پتر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ بتا نا ابھی دو چار مہینے پہلے ہی پیسے بھیجے تھے گھر بات کی تھی۔
بابا وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا شاید نمبر بدل گیا ہے۔ کہتے ہیں کسی نور دین کو نہیں جانتے پر تو فکر نہ کر تیرا آؤٹ پاس ہم بنوا دیں گے۔ نور دین کی گردن ڈھلکنے لگی۔ بائیس سال سے کاغذات کا منتظر نور دین آؤٹ پاس لیے بغیر ہی اگلے سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔
٭٭٭