سنہرے پروں والی چڑیا پکڑنے کی دھن میں اک ننھی بچی بستی سے بہت دور نکل گئی۔ شام ہونے کو آئی ’ فلک پر بادل چھا گئے۔ ہوا سرد ہوئی تو جنگل کی باڑ پر اداس بیٹھی سوچنے لگی اب واپس کیسے جاؤں۔
چلتے چلتے جب پاؤں تھک گئے تواسے اپنے ماں باپ بہت یاد آئے۔
اُس کی یہ بیچارگی دیکھ کر سنہرے پروں والی چڑیا دلاسہ دینے آئی، “اداس مت ہو پیاری ہمجولی”۔
اس چڑیا کو اپنے سامنے پا کر ننھی بچی کے دل میں اسے پکڑ لینے کی خواہش نے دم توڑ دیا۔
تب جا کر احساس ہوا کہ اتنی دور نکلنے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے پکڑنے کی کیا ضرورت تھی۔
یہ چوں چوں کرتی سنہری چڑیا تو روز اس کی کھڑکی پر آ کر سریلے نغمے سناتی ہے۔
٭٭٭