برگد کی جٹائیں ہیں
ساتھ مِرے اب بھی
ابو کی دعائیں ہیں
تب آنکھ برستی ہے
دل میں کہیں چھپ کر
ماں جب مِری ہنستی ہے
لگی تھی دُعا ماں کی
نیم شبی شبنم
اور چاندنی کی جھانکی
ماضی کے حسیں سائے
چار مِری بہنیں
اور چار ہیں ماں جائے
یاد آ ہی گئے آ خر
کچھ بھی سہی لیکن
بھائی ہیں مِرے آخر
رونق سی لگاتے ہیں
یادوں میں جب بھی
با با جی آتے ہیں
تجھ کو بھی کھلاتے تھے
مامی ٭کے کمرے سے
گُڑ جب بھی چُراتے تھے
(٭ممانی مجیدہ)
بیٹے
دریا کی روانی ہے
اب مِرے بیٹوں میں
مِری گزری جوانی ہے
بیٹیاں
مِری چڑیوں کی جوڑی ہے
اک پہلوٹھی کی
اک پیٹ کھروڑی ہے
بیوی
اک رُوح کا قصہ ہے
میرے بدن ہی کا
جو گم شدہ حصہ ہے
؟
سونے کی انگوٹھی ہے
پیار میں سچی ہے
پر قول کی جھوٹی ہے
خود
جنموں کی اُداسی ہے
جسم ہے آسُودہ
پَر رُوح تو پیاسی ہے