اک ’’فجر‘‘ آغاز ہوئی
درد میں ڈوبے ہوئے
اس دِل کی نماز ہوئی
پھر بعد زوال ہمیں
’’ظہر‘‘ نے بخشی ہے
اُمیدِ کمال ہمیں
جب ’’عصر‘‘ اشارہ ہوا
سُود میں ڈھلنے لگا
جتنا بھی خسارہ ہوا
یوں روشن جان ہوئی
دل میں کہیں جیسے
’’مغرب‘‘ کی اذان ہوئی
جب وقتِ ’’عشاء‘‘ آیا
یاد تری آئی
اور وقتِ دعا آیا
مومن تھا دلِ بد میں
جس نے جگا ڈالا
پھر وقتِ ’’تہجد‘‘ ٭ میں
٭یہاں تہجد کو پنجابی تلفظ میں برتا گیا ہے۔