دل کو شاداب کیا
تیری محبت کے
غم سے سیراب کیا
پھولوں کو پرونے میں
سوئی تو چبھنی تھی
اس ہار کے ہونے میں
کیسے اِترائے تھے
پہلے پہل دل پر
جب زخم سجائے تھے
ہم یونہی نہیں ٹوٹے
تیری طرح نکلے
وعدے بھی ترے جھوٹے
کچھ بھی تو نہ پایا تھا
اُس کی محبت میں
بس دل کو جلایا تھا
دن تِیس مہینے میں
درد جدائی کا
بڑھتا رہا سینے میں
کوئی سال نہیں بدلا
باون ہفتوں کا
جنجال نہیں بدلا
بَن باس نہیں جاتا
گہری جدائی کا
احساس نہیں جاتا
آنکھوں میں نہیں آتی
پر تصویر تری
دل سے بھی نہیں جاتی
اب جِینا وبال ہوا
اُن سے جدائی کا
یہ سولہواں سال ہوا
مِری چاہت کھو گئی ہے
شاید سونے کی
لنکا میں سو گئی ہے
یہ ڈھنگ ہمارا ہے
گدلا جیون رَس
آنکھوں سے نتھارا ہے
اس درد خزانے کے
چل دو نفل ہی پڑھ
رب کے شکرانے کے