کب درسی کتابوں میں
گم ہو جاتے تھے
ہر شوخ کے خوابوں میں
زورِ طغیانی تھا
عمر اٹھارہ تھی
اور زعمِ جوانی تھا
جب خامشی بولتی ہے
گِرہیں محبت کی
آنکھوں سے کھولتی ہے
کالج کی فضاؤں میں
اڑتے پھرتے تھے
جب اپنی ہواؤں میں
٭٭٭
تھے اپنی ہی لہروں میں
عمر گذاری جو
پنجاب کے شہروں میں
یادوں کے خزینے میں
خانپور اپنا تو
آباد ہے سینے میں
اک رُوح تھی سیلانی
چھوڑ کے شہرِ دل
جو ہو گئی ملتانی
اک اپنا ہزار ہ تھا
کتنے مناظر کا
خوش رنگ نظارہ تھا
ستلج کے کنارے سے
مائن٭ تک پہنچے
قسمت کے سہارے سے
(٭جرمنی کا دریائے مائن جو ہمارے گھر کے قریب ہے۔)
تھے دیس میں پردیسی
آ کے ولایت میں
اب ہو گئے ہیں دیسی
یہ بھید نہ کھل پائے
دل بھر آنے پر
کیوں آنکھ بھی بھر آئے
رہ جاتی ہیں تعبیریں
خواب ہیں ہم شاید
اور اصل ہیں تصویریں
(جوگندر پال جی کے نام!)