مل خاک نشینوں سے
چاند طلوع ہوتے
ہیں جن کی جبینوں سے
سورج ان ہاتھوں میں
اور ستاروں کے
اَسرار ہیں باتوں میں
لمحات دُعاؤں کے
رقص کناں منظر
وہ کاہکشاؤں کے
گو خاک پہ رہتے ہیں
لیکن دیکھو تو
افلاک پہ رہتے ہیں
اُلجھے جو فقیروں سے
یوں سمجھو الجھے
اپنی تقدیروں سے
جھُک آئے فلک سائیں
دیکھی تھی ہم نے
بس ایک جھلک سائیں!