کُونجوں کی قطاریں ہیں
درد سے کُرلائیں
یادوں کی جو ڈاریں ہیں
دُکھ حق تھا غریبوں کا
تم سے گلہ کوئی
نہ ہی شکوہ نصیبوں کا
اس پیار کی زنجیریں
دل کا ہیں سرمایہ
یہ درد کی جاگیریں
زخموں سے بھرا سینہ
عشق کی دنیا میں
جینا ہے یہی جینا
مسجد ہے نہ مندر ہے
دل یہ ہمارا تو
اک دکھ کا سمندر ہے
آنکھوں میں ستارے ہیں
ہجر کی شب میں بھی
وہ پاس ہمارے ہیں
نہیں ، ہم نہیں روئے تھے
چاند کی کرنوں میں
کچھ موتی پروئے تھے
تُو کس کا سوالی تھا
دامنِ دل جس کا
خود اپنا ہی خالی تھا
سب دُکھ کے فسانے تھے
آنکھ کے آنسو تھے
یا اوس کے دانے تھے
پھرتے ہیں اکیلے میں
ساتھ نہیں کوئی
صدمات کے میلے میں
دکھ درد سے ہاروں کے
دیکھتے آ کے کبھی
حال اپنے بماروں کے
بے نام اُداسی کو
کون سمجھ پاتا
تیرے بَن باسی کو