بے شک ہیں جدا مولا
میرے پیاروں کو
خوش رکھنا سدا مولا
اتنے نہ ترس جائیں
پیاس کے ماروں کی
آنکھیں نہ بر س جائیں
کچھ رشتے ٹوٹ گئے
برتن مٹی کے
ہاتھوں سے چھوٹ گئے
کیسی تحریریں ہیں
دشمن اپنے ہی
ہاتھوں کی لکیریں ہیں
چُپ کا افسانہ تھا
دل یہ ہمارا تو
خاموش دوانہ تھا
جاں وار گئے پیارے
جگ تمہیں جیت گیا
ہم ہار گئے پیارے
دھُن کتنی ہی پکی ہو
پیار نہیں چلتا
جب یار ہی شکّی ہو
ہر بات انجانی ہے
پر یہ تمہارا دُکھ
میری ہی کہانی ہے
رُوٹھے کو منانا ہے
وقت جو بیت گیا
پھر واپس لانا ہے
گندم کی کٹا ئی پر
چھوڑ دیا گاؤں
گوری کی سگائی پر
چلنے کو ترستے ہیں
منزل گم ہے کہیں
بکھرے ہوئے رستے ہیں
حالات کے دھارے سے
آن لگے آخر
ہم اپنے کنارے سے