تھوڑی سی پرانی ہے
انساں کی ، طوطا
چشمی کی کہانی ہے
گلشن پہ عذاب ہوا
توپ کی طاقت سے
اِک گدھ،سُرخاب ہوا
بندوق دکھاتا تھا
بلبلوں،چڑیوں کو
دھمکاتا ، ڈراتا تھا
جب کوے ، چکور ہوئے
فصلی بٹیرے بھی
مِرے دیس کے مور ہوئے
پرواز پہ پابندی
سارے پرندوں کی
آ و ا ز پہ پا بند ی
پوچھے کوئی بگلوں سے
سرخ ہوئے دریا
جب عشق کے پگلوں سے
اک باز کو قید کیا
اور پھر قید میں ہی
اس باز کو صید کیا
کرلاتی تھیں جب کونجیں
اب تک سینے میں
فریادیں وہی گونجیں
اک کوک تھی کوئل کی
ہوک سی لگتی تھی
لیکن وہ ہر اک دل کی
پھر قصہ ہی پاک ہوا
ایک اڑان میں جب
وہ گدھ بھی ہلاک ہوا