ہونٹ اس کے انار ی ہیں
گال ہیں اس کے یا
دو سیب قندھاری ہیں
اک خواب ہے جندڑی کا
رس بھری لڑکی ہے
یا آم ہے سندھڑی کا
ان آنکھوں کی مغروری
ہوش اُڑا ڈالے
وہ شربتِ انگوری
خوشبو انناس ایسی
میٹھے سے لہجے
میں ، باتیں کھٹاس ایسی
سوہنی ہے یا ہیر ہے وہ
اتنی ہے مجھ کو خبر
جنت کا انجیر ہے وہ
وہ میٹھی کھجور بھی ہے
اونچی مگر اتنی
میری پہنچ سے دور بھی ہے