حیدر قریشی نے کل دو سفر نامے تحر یر کیے ہیں ۔ پہلا سفر نامہ عمرے کے حوالے سے ہے جسے معیار پبلی کیشنز ، دہلی نے ۲۰۰۰ء میں ’’ سو ئے حجاز‘‘ کے نا م سے شائع کیاتھا ۔ دوسر ا سفر نامہ حج کا ہے یہ چونکہ ذرا مختصر تھا لہٰذا حیدر قریشی نے اسے الگ طبع کرانے کے بجائے ’’ سوئے حجاز‘‘ کے دوسر ے ایڈ یشن میں شامل کر دیا ہے۔ ’’ سو ئے حجا ز‘‘ کا نقش ِثانی سرو ر اکادمی ،جرمنی نے دسمبر ۲۰۰۴ء طبع کیا تھا۔ پاکستان میں اس ایڈ یشن کی تقسیم کاری کی ذمہ داری میاں محمد بخش پبلی کیشنز ، خانپور کے سپردہے۔ درج ذیل سطور میں ان دونوں سفر ناموں کا فنی و فکری مطالعہ پیش کیا جا تا ہے۔
(الف) عمرے کا سفر
میر ے پیش ِنظر ’’سوئے حجاز‘‘ کا نقشِ ثانی ہے جس میں عمر ے کا احوال سولہ ابواب پر مشتمل ہے :
۱۔ ابتدائیہ
۲۔ سات عمرے (۱ تا ۷)
۳۔ ارادے سے روانگی تک
۴۔ مکہ کے تاریخی اور مقد س مقامات
۵۔ دربارِ نبی ؐ مد ینہ منورہ
۶۔ دربا رِ نبیؐ میں آخری دن
۷۔ مکہ مکر مہ میں آخر ی دن اور جرمنی واپسی
۸۔ کعبہ شریف سے متعلق چند ماہیے
۹۔ نعت شریف
حیدر قریشی نے یہ عمر ہ اپنی زوجہ( مبارکہ ) کے ہمراہ کیا تھا ۔ارضِ مقدس کا یہ سفر تیرہ دنوں پر محیط ہے۔ کتاب کے باب ’’ارادے سے روانگی تک ‘‘ میں حیدر قریشی بذات خود اس کی معلومات فراہم کرتے ہو تے کہتے ہیں۔
’’ پہلے السعودیہ ائیر لائن کا ٹکٹ خرید ا۔ یکم دسمبر سے ۱۲ دسمبر تک کا عمرہ ٹکٹ تھا۔ ‘‘(۱۳۹)
چنانچہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق یہ سفر یکم دسمبر۱۹۹۴ء میں شروع ہو گیا تھا جو بالا ٓخر /۱۲ دسمبر کو اختتام پذیر ہوا۔ ’’سُوئے حجاز ‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد احسا س ہوتا ہے کہ حیدر قریشی عمرے کا سفر نامہ نہیں لکھنا چاہتے تھے اور اس کی کئی وجو ہات تھیں جس کی وضاحت ’’ابتدائیے ‘‘میں ملتی ہے :
’’ اردو ادب میں دو طرح کے سفرنامے لکھے جارہے ہیں بہت اچھے اور بہت بُرے۔ سفرنامہ نگاری کے ایسے ماحول میں میرا سفر نا مہ لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیو نکہ میں اچھے سفر ناموں کو پڑھ کر خود کوبے مایہ محسو س کرتا ہوں اور بُر ے سفر نامے پڑھ کر عبر ت پکڑتا ہوں۔‘‘(۱۴۰)
آپ مزید لکھتے ہیں :
’’ یکم دسمبر ۹۶ء تک جب مجھے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوناتھا۔ میر ا قطعاً کو ئی ارادہ نہ تھا کہ میں سفر نامہ لکھوں گا۔‘‘ (۱۴۱)
آگے چل کر سفر نامہ لکھنے کے محر کات بھی بیان کردیئے:
’’ یہ سفر میر ے لیے صرف ایک سفر اور مذہبی فریضے کی ادائیگی نہ رہا ۔۔۔۔میں نے جسمانی سطح پر سفر کرنے کے ساتھ فکر ی اور روحانی طورپر بھی سفر کیا ، پھر اس مختلف الجہات سفر کو کسی ایک نقطے پریک جا ہو تے بھی محسوس کیا۔ سو یہ اسی روحانی تجربے کی شد ت تھی جس نے مجھے یہ سفر نامہ لکھنے پر مجبو ر کر دیا۔‘‘( ۱۴۲)
حیدر قریشی کا یہ سفر نامہ کچھ اس لیے بھی دل چسپی کا حامل بن گیا ہے کہ انھو ں نے از اول تا آخر قاری کو ہر قسم کی باطنی اور ظا ہر ی تبدیلیوں سے باخبر رکھا ہے۔ اُنھوں نے شاید یہ شعوری کو شش کی ہے کہ قاری کی ضروریات کا خا ص خیال رکھا جا ئے اور اُسے ہر ایسی بات سے باخبر رکھا جا ئے جو اُس کی دل چسپی قائم رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدر قریشی کے سفر نامے میں کہانی پن کا عنصر پیدا ہو گیا ۔ حج اور عمرہ کے سفر نا مے عموما سپا ٹ انداز میں لکھے جا تے ہیں۔ اب ہر کوئی ممتاز مفتی کی طرح جرات اور بیباکی سے حج کا سفر نا مہ نہیں لکھ سکتا!
ممتاز مفتی کا سفر نامہ حج( کچھ لوگوں نے اسے رپورتاژ بھی کہا ہے) روایتی سفرنامے کو ایک نیا اور اُچھو تا موڑ عطا کر تا ہے ۔ اس میں باطنی کیفیات کو ایک نئے انداز اور نئے اسلوب میں پیش کرنے کی سعی ملتی ہے، حیدر قریشی نے بھی ’’سوئے حجاز‘‘ میں عمرہ اور حج کے مشاہد ات ، محسوسات اور تجربات کو بڑی عمدگی سے محفو ظ کیا ہے ۔ اس سفرنامے میں خیال انگیز تنقید ی بصیرت بھی نظر آتی ہے جو مصنف کے تخلیق عمل کا لازمی جز ہے۔ اُنھوں نے جس دل جمعی اور تسلسل وانہماک کے ساتھ عربوں کے وژن اور سماجی رویوں کی تشریح و توضیح کی ہے کی ہے وہ قاری کے لیے جاذب ِتوجہ ہے
’’ سوئے حجاز‘‘ کے اہم فنی و فکر ی عنا صر درج ذیل ہیں۔
(۱) اشعار کا بر محل استعمال
حیدر قریشی بذاتِ خود شاعر ہیں اور اپنی تخلیقی نثر میں بھی شعروسخن کی محفل سجانا پسند کرتے ہیں ۔ افسانہ ہو یا خاکہ، یاد نگاری ہو یا سفر نا مہ نگاری حید رقریشی کے طبع زادہ یا پسند یدہ اشعار اپنی جگہ بنا تے چلے جاتے ہیں۔’’ سوئے حجاز ‘‘ میں انتساب کے بعد اصل سفر نامے کا آغاز اُن کے طبع زادہ ماہیے سے ہوتا ہے:
یوں روشن جان ہوئی
دل میں کہیں جیسے
مغرب کی اذان ہوئی (۱۴۳)
حیدر قریشی نے پہلا عمر ہ مکمل کرنے کے دوران حجر اسود کو چومنے کا ذکر کیا ہے اور ساتھ بتا یا ہے کہ اس افراتفری کے ماحول میں ایک دوسرے کو دھکے دے کر اور دھکے کھا کر حجر اَسود کو بوسہ دینا نصیب ہوا۔ اس مو قع کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں
’’ قیامت کے دن بھی ایسی نفسا نفسی ہوگئی، اگر وہاں بھی میر ے جیسے گنہگار اسی طرح منز لِ مراد پا گئے اور دنیا میں جنت کے ٹھکیدار اور دعویدار ویسے ہی لائن حاضر رہ گئے تو کیا ہو گا۔‘‘ ( ۱۴۴)
پھر یہ شعر درج کر کے بات مکمل کر دی :
رند بخشے گئے قیامت کو
شیخ کہتا رہا حساب حساب ( ۱۴۵)
جب زم زم کے کنو ئیں پر پہنچے تو وہاں اُردو ، انگریزی اور عربی میں زم زم کے الفاظ دیکھ کر حیران رہ گئے، حیرت کی وجہ یہ تھی کہ عربی میں وہاں ’’ بئر شراب‘‘ کے الفاظ لکھے تھے ۔ اس مو قع پر غالب ؔ کا یہ شعر یاد آگیا :
رات پی زم زم پہ مئے اور صبحدم
دھو ئے دھبے جا مہء احرام کے (۱۴۶)
اُردو کے علاوہ سرائیکی اور پنجابی کے اشعار اور مصاریع بھی ’’سوئے حجاز‘‘ کا حصہ ہیں،مثلاً جب وہ حطیم کعبہ کے مقام پر آئے تو خانہ کعبہ کی جانب منہ کرکے بیٹھ گئے اور اپنی اس کیفیت کو اس مصرع میں پیش کیا :
ع تیر ے سامنے بیٹھ کے رونا تے دکھ تینوں نیں دسنا (۱۴۷)
’’یعنی تمہارے سامنے بیٹھ کے رونا ہے لیکن اپنا دکھ تمہیں نہیں بتا نا۔ ‘‘ اس مصر عے میں ایک خاص کیفیت ہے اور کہنے والے کو بخوبی احساس ہے کہ میر ی حالت ہی میر ا بیا نیہ ہے،میں جس کے سامنے موجود ہو ں وہ مجھے سے زیادہ میر ی حالت سے باخبر ہے۔ اس ایک مصر عے میں محبت ، عشق ، محرومی ، توقع اور ارمان کی ملی جلی کیفیات شامل ہیں اور حیدر قریشی نے محض ایک مصر ع لکھ کر اپنی دی کیفیت آئینہ کردی ہے۔
حیدر قریشی نے ’’سوئے حجاز‘‘ میں زیادہ ترطبع زاد اشعار درج کیے ہیں ان میں ایک نعت ، آٹھ ماہیے اور سات متفر ق اشعار شامل ہیں۔
نعت کے چند اشعار :
اٹھ کر بیٹھ گئے جب آدھی رات ہوئی
پھر محر اب ِ تہجد میں ہر بات ہوئی
روح کا صحرا یو ں نکھرا کہ چمک اٹھا
نور ِ محمد ؐ کی ایسی برسات ہوئی
حیدر ؔ اپنے ٹوٹے پھو ٹے لفظوں سے
نعت کہی تو ہے لیکن کب نعت ہوئی (سوئے حجاز: ص۱۰۴)
کعبہ شریف سے متعلق ماہیا:
کثرت کی زبانی ہیں
کعبہ کی دیواریں
وحدت کی نشانی ہیں ( سوئے حجاز: ص ۱۰۲)
’’ سوئے حجاز ‘‘ کے ایک مقام پر تصویروں کی شرعی اور سماجی اہمیت اور ممانعت پر بات کرتے ہو ئے حیدر قریشی کہتے ہیں:
’’ بعض’’ مو حد‘‘ قسم کی حکومتوں نے سرکاری کرنسی نوٹوں پر اپنی شاہانہ تصویریں
طمطراق سے چھپوا رکھی ہیں بس جہاں جی چاہے بت پر ستی اور تصویر پر ستی کی
مذمت کر دیجئے اور جہاں جی چاہیے اپنی نمائش پسند نفسانی خواہشات کی تکمیل
کے لیے جواز پیدا کر لیجئے،
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہی
ہو س چھپ چھپ کے سینے میں بنالیتی ہے تصو یریں‘‘ (۱۴۸)
ان اشعار میں کئی ایسی ان کہی باتیں آگئی ہیں جو اگر نثر ی اُسلوب میں لکھی جاتیں تو قابل گرفت ہو سکتی تھیں۔ حیدرقریشی نے خوف ِفسادِ خلق کی خاطر اپنے جذبات و احساسات کو شعری زبان میں سلیقے سے بیان کردیا ہے۔
(۲) فکری عناصر
حیدر قریشی کو فلسفیا نہ جستجو اور سماجیات سے خاص دل چسپی ہے اسی لیے ان کی تحر یروں میں فکر یا ت کی اکائیاں مناسب تناسب سے موجود رہتی ہیں ۔’’ سوئے حجاز‘‘ میں یہی فکری عناصر قاری کو متاثر کرتے ہیں، مثلاً احرام کے حوالے سے ان کے تجزیات خصو صی اہمیت رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے:
’’ احرام کو ارض حجاز کے قدیم ثقافتی حوالے سے دیکھیں تواس کااَن سلا
ہو نا مکمل بر ہنگی اور مکمل لباس کی درمیانی کڑی قرار پاتا ہے۔ اسلام نے
مکمل بر ہنگی کی مما نعت کردی لیکن مکمل لباس پہنچے سے بھی روک دیا اور
دونوں کے درمیان والے رستے یعنی اَن سلے احرام کی چادروں کو پسند فرمایا۔‘‘ (۱۴۹)
حیدرقریشی نے احرام کے روحانی اور ثقافتی پہلوؤں پر قدرے منفر د انداز سے سو چاہے جو پڑ ھنے والوں کو مزید تفکر کی دعوت دیتا ہے۔
کتاب کا وہ حصہ جو پہلے عمرے کے بارے میں ہے اس میں حید ر قریشی نے خدا کے دو اہم تاریخی تصورات پر قلم اٹھا یا ہے، جن کا تعلق خدا کے تصورِ انوارپر ستی اور ارض پر ستی کے ساتھ ہے۔ سفر نامہ نگار نے دونوں کا محاکمہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:
’’ اسلام نے اﷲ کو آسمانوں اورزمین کا نور کہہ کر اسے روشنی کے عام مظاہر سے ارفعٰ قرار دیا ، دوسری طرف بت پرستی کو ختم کرکے خانہ کعبہ کو زمینی مرکزبنا دیا ، یوں اسلام نے انوار پرستی اور ارض پر ستی کے مروجہ تصوارت سے ہٹ کر ایسا معتدل تصور عطا کیا جو خالق ِکائنات کے بارے میں ہماری بہتر رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ (۱۵۰)
حیدر قریشی نے خدا کی ذاتِ باصفات کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں وہ بظاہر بہت سادہ نظرآتی ہیں لیکن اگر اُن پر غو ر کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ انھوں نے خداکے بارے میں ایسے تمام دلا ئل یا تصورات جن کا تعلق کو نیات ،غا یت ، وجو دیا ت یا اخلاقیات سے بنتا ہے اور جس کی روسے ذات باری تعالی کا ایک میکا نکی تصور اُبھر تا ہے اُن کی نفی کردی ہے اور اس کے بر عکس خداکے اس ارفٰع تصور کو نمایاں کیا ہے جو قرانی تعلیمات کا عطا کر دہ ہے اور خد ا کے بار ے میں ہمارے تمام تصورات کو راست سمت رکھتا ہے۔
حیدر قریشی نے خالق کائنات کو اس کے کلا م ہی سے اخذ کیا ہے کیوں کہ ہمارے لیے کلا م الہٰی سب سے پہلی اور آخری دلیل ہے۔خد ا کو ہم کائناتی مظاہر سے ماوراہو کر سمجھیں گئے تب بات بنے گی۔حید ر قریشی تصورِ توحید کے بارے میں مزید لکھتے ہیں :
ــ’’ میں اُن رسو مات اور افعال کو بھی اچھا نہیں کہتا جن سے شرک کا واضح اندیشہ ہو ۔‘‘ (۱۵۱)
یہ توحید کا وہ کامل تصور ہے جو خدا کو کائنات کی واحد خود مکتفی ہستی ثابت کرتا ہے۔ہماری کئی سماجی اور ثقافتی رسومات مثلاً قبر پر ستی ، مزارپر ستی یا وسیلہ پرستی نے ہمارے شفاف ذہنوں کو اتنا پر گندہ کر دیا ہے کہ ہمیں اپنے شرک کااحساس تک نہیں ہو تا۔ حیدر قریشی نے اُس خالص دینی تصور کو عام کرنے کی سعی کی ہے،جو خدا کو علیمِ مطلق ، قادرِ مطلق ، ہمہ جائی ومکمل اور ایک مطلق روحا نی وجود کے سامنے لاتا ہے۔ یہ خالصتا ًالیٰہیاتی مسائل ہیں جنھیں حیدر قریشی نے عام فہم پیرائے میں بیان کردیا ہے ’’سوئے حجاز‘‘ کی انھی خوبیوں کی بدولت اکبر حمید ی نے یہ رائے دی ہے:
’’ یہ سفر نامہ ایک روحانی سیر ہے مگر اُسلوب اور ناقدانہ نظر ایک باشعور ادیب کی ہے۔ یہ ادبی زبان میں لکھا ہوا روحانی سفر نامہ ہے۔‘‘(۱۵۲)
منز ہ یاسمین نے بھی’’ سو ئے حجاز ‘‘ کے فکر ی اوصاف کو سراہتے ہو ئے لکھاہے:
’’سفر نامہ’’ سوئے حجاز‘‘ جہاں حید رقریشی کے احسا سات اور خیالات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے وہاں اپنے قارئین کے لیے اہم تاریخی اور مذہبی معلومات کا خزینہ بھی ہے۔‘‘ (۱۵۳)
’’ سوئے حجاز‘‘ میں فکر ی عنا صر کی رنگارنگی پڑھنے والوں کو متا ثر کر تی ہے اس میں لوگوں کے رویے، معاملات ، مسافروں سے برتاؤ ۔۔اور مقد س مقامات کے حوالے سے عربوں کا طرز ِ عمل سبھی کچھ شامل ہے۔ یہ تما م باتیں سچی ، کھر ی اور حقیقت پسندانہ ہیں اور ان لوگوں کے کام آسکتی ہیں جو عمرہ یا حج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
(۳) تاریخی مقامات کی معلومات
اکبر حمیدی نے لکھا ہے:
’’ تاریخی اعتبار سے یہ سفر نامہ معلومات کا خزانہ ہے جس کے گہر ے مطالعے سے وہاں کے اہم مقامات کے بارے میں قیمتی تاریخی معلومات حاصل ہوتی ہے ۔‘‘
( ۱۵۴)
اور ساتھ یہ اضافہ بھی کیا ہے:
’’ وقت گزرنے کے ساتھ ان مقدس مقامات اور ماحول میں کیا کیا تبدیلیاں رونماہوئی ہیں ان سے بخوبی معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بعض تبد یلیاں تکلیف دہ بھی ہیں ۔‘‘ (۱۵۵)
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:
’’ جبل الا بو قبیس کے ایر یا میں بہت سارے اسلامی تاریخی مقامات تھے مثلا حضو ر اکرؐم کا مقام پیدا ئش ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مکان ، حضرت حسان بن ثابت ؓ ، حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ اور متعد د دیگر صحابہ کرام ؓ کے
مکا نات یہ سارے مقامات ضائع کر دئیے گئے ہیں۔ ‘‘ (۱۵۶)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مقدس مقامات کا مصرف کیا ہے؟اس ضمن میں حیدر قریشی ہمیں بتاتے ہیں:
’’ ایک طرف مکتبہ مکتہ المکر مہ کے نام سے کتب خانہ بنا دیا گیا ہے، دوسری طرف شاہی خاندان کے محلا ت میں بعض مقام غائب ہو گئے ہیں ،شاہی خاند ان کے محلا ت کے سلسلے میں تو کوہء صفا کا بہت سار ا حصہ بھی لے لیا گیا ہے۔ سعی کرنے والوں کے لیے تھوڑی سی کو ہ صفا کی نشانی چھو ڑ دی گئی ہے جو ظاہر ہے شاہی خاند ان کی خاص مہربانی ہے۔ ‘‘ ( ۱۵۷)
گویا قلندرہر چہ گو ید دیدہ گو ید کے مصداق حیدر قریشی نے تاریخی مقامات پر بات کرتے ہوئے دل کی بات بھی کردی ہے۔ اُنھیں اس بات کا شد ید دکھ ہے کہ سعودی حکومت نے عہد رسالت ؓ کی تقریبا ًتمام بڑی بڑی یاد گاریں ختم کردی ہیں۔مکہ کے ایک ا ور تاریخی مقام کا ذکر کرتے ہو ئے وہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے ہو ٹل سے قریب ترین مقام ’’ شبیقہ‘‘ تھا ۔ یہ وہ خوفنا ک قبر ستان ہی
جہاں زمانہء جاہلیت میں کفار مکہ اپنے گھر میں بیٹی پیدا ہو نے پر غیر ت کا مظاہر ہ
کرتے ہوئے اُسے یہیں لا کر زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ ‘‘ (۱۵۸)
حیدر قریشی نے یہاں معلومات فراہم کرنے کے بعد اُنھی لوگوں سے اپنا قلبی اور تہذیبی رشتہ اُستوار کرتے نظر آتے ہیں ، تجربے کی حسا سیت اور مشاہد ے کی گہر ائی نے جہاں سفر نامہ نگار کو افسر دہ کیا وہاں قاری بھی یہ سطو رپڑ ھ کر غم زدہ ہو جاتا ہے:
’’ اس وقت اچانک مجھے ایسے لگا ہے جسیے ان سفّا ک لوگوں سے میر ی بھی کوئی دور کی پرانی رشتہ داری ہے۔ شاید اسی لیے مجھے سے ایسا شعر ہو اہے:
اس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے
میں نے زندہ ہی تیر ی یاد کو دفنا دیا تھا (۱۵۹)
حیدر قریشی نے خاموشی ، حیرت اور صدمے کی کیفیات کی تجسم کرکے اپنے سفر کو تخلیقی ترفعٰ عطا کیا ہے
’’ سو ئے حجاز ‘‘ کے حصہ اول میں ایک باب ’’ بعنوان مکہ کے تاریخی اور مقدس مقامات ‘‘ اِنھی اُمور کے لیے وقف کیاہے۔ اس با ب کے کُل گیا رہ صفحات ہیں لیکن اس کے باوجود قاری کو جنت المعلیٰ، مسجد الفتح ، مسجد علیؓ ، جبل الا بو قبیس ، شعب ابی طالب ، غارِ ثور ، مید انِ عرفات ، مسجد نمر ہ ، جبل الرحمت ، مزدلفہ ، مسجد مشعرالحرام، وادی محسر ، جبل الا بابیل ، مسجد الکو ثر ، غارِ حرا اور مسجد الناقہ کے بارے میں تازہ ترین معلومات حاصل ہو جاتی ہے۔
(۴) تصو ف کے عنا صر
’’ سوئے حجاز ‘‘ میں حیدر قریشی لکھتے ہیں:
’’ تصوف میر ا پسند ید ہ موضو ع ہے صوفیا اور فقیروں سے محبت اور عقیدت رکھتا ہوں۔ ‘‘(۱۶۰)
حیدر قریشی کو دین سے جو لگا ؤ ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن تصو ف بھی ان کی عملی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ تصو ف میں ان کا مسلک خانقایت نہیں بلکہ اجتماعیت ہے وہ تصوف کو زندگی کی حرکی قوت سمجھتے ہیں اور دنیا تیا گ دینے والی روحانیت اور تصوف کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اُن کا تصوف مجاہدہ اور مشاہدہ پسند ہے دین کے ٹھیکیدار اور ظاہر پر ست اُنھیں متاثر نہیں کر سکتے۔
وہ کہتے ہیں:
’’ جبہ و دستار والے بہروپیوں کے مقابلے میں صوفی کی عظمت اس کی عاجزی اورنیا زمند ی میں ہوتی ہے۔‘‘(۱۶۱)
صوفیا ئے کرام سے ان کے لگاؤ کی وجہ یہ ہے:
’’ دوسروں کو عاجزی اور انکساری کی تلقین کرنے والے متکبروں کے مقابلے میں صوفی اور فقیر لوگ خودانکساری اور عاجزی کی جیتی جاگتی مثال ہوتے ہیں ۔‘‘ (۱۶۲)
’ ’ سوئے حجاز‘‘ میں جگہ جگہ پر روحانی اشارے اور کنائے نظر آتے ہیں لیکن حیدر قریشی جب روضہ ٔ رسول ؐ کی زیارت کرنے مسجد نبویؐ پہنچے اور اُسطوانہ تہجد میں نفل اد ا کرنے کے بعد مسجد نبوی ؐ کو آنکھ بھر کر دیکھنا شروع کیاتو معاً اُن کی نظر اصحاب ِصفہ کے اس چبو ترے پر پڑ ی جہاں دینِ اسلام کے اولین صوفیائے کرام ؓ تشریف فرما ہو ا کرتے تھے۔ اُن کے ذہن میں پہلی بات تو یہ آئی:
’’ اسلامی تصوف کے ابتدائی نقوش اصحاب صفہ اور حضرت علیؓ تک ملتے ہیں۔‘‘ (۱۶۳)
آخر اس نتیجے تک پہنچے:
’’ صوفیوں کے ڈیروں پر اﷲ ، محمدؐ اور علیؓ کے ناموں کا ایک ساتھ دکھا ئی دنیا بھی
کوئی صو فیا نہ رمز ہی تھی۔‘‘( سوئے حجاز: ص ۷۶)
اس کتاب میں جہاں عمرہ و حج کے خارجی اُمور پر بات کی گئی ہے وہاں اس سفر کی برکا ت سے باطن کی سیا حت کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ حیدر قریشی کا یہ سفر نامہ ذات وکائنات کی تفہیم کا ایک نیا در وا کرتا ہے۔
(۵) مذہب بیز ار طبقہ کے بارے میں اُصولی مو قف
حیدر قریشی نے اپنی تقریباً تما م تخلیقی اصناف میں لادین اورملحد لوگوں پر با ت کی ہے۔ اس کا مقصد پندو نصائح کی بجا ئے حقا ئق شناسی کی تربیت ہے۔ دنیا میں ایسے عقل پر ست لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے روایتی مذہب سے بیزاری کا اعلان کرنے کے بعد لادینی کی بے مصرف زندگی بسر کررہے ہیں ، ایسے لوگ مذہبی معاملا ت میں یا تو خامو شی اختیار کر لیتے ہیں یا پھر مذہب سے وابستہ تمام اقدار ، شعار ،عقائد اور نظر یات پر کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں؛بلکہ مذہب سے حاصل ہونے والی روحانی آسودگی کو بھی نفسیا ت کے تنگنا ئے میں لاکر بحث کرتے ہیں۔ ایسے عقلیت پرست اور تشکیک پسندوں کے بارے میں حیدر قریشی کا اپنا ایک خاص رویہ ہے ۔’’سوئے حجاز‘‘ میں اُنھوں نے ایسے تما م لوگوں کے نظریا ت کی نفی کی ہے جو مذہبی فوائد و ثمرات کو نفسیات کی کارستانی خیال کرتے ہیں۔ اُنھوں نے پہلے تو یہ کہہ کر اپنا مؤقف واضح کیا:
’’ جو لوگ فیشن کے طور پر خود کو ملحد یا دہر یہ کہلو ا کرخوش ہوتے ہیں اور اس الحاد کو اپنی
دانشوری سمجھتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ بے حد مصنوعی ہوتا ہے۔‘‘ (۱۶۴)
پھر اعتدال پسندانہ رائے کا اظہار کیا :
’’ اگر ایسے ( مقدس) مقامات پر جا کر کسی کو ذہنی ، قلبی اور روحانی بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کی حالت میں بہتر تبدیلی آتی ہے تو خود جدید نفسیاتی امراض کا اگر اس طریقے سے علاج ہوتا ہے تو اس سے مذہب سے لاتعلق جدید علوم سے بہرہ ور ہمارے دانشوروں کو خوشی ہونی چائیے۔‘‘ ( ۱۶۵)
’’ سوئے حجاز‘‘ میں اس نو ع کے فلسفیا نہ مباحث کو جدید علوم وفنون کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش ملتی ہے۔ اس خوبی کے باعث یہ سفر نامہ موضو عاتی وسعت کی طرف جست بھر تا محسو س ہوتا ہے۔ اگر حیدرقریشی چاہتے تو عمرے کے مناسک پر تفصیلاً لکھ کر صفحات بھر سکتے تھے لیکن ان کا فلسفیا نہ تفکر زندگی کے چھو ٹے بڑے مسائل کا احا طہ کر تا چلا جاتاہے ۔
اکبر حمید ی کہتے ہیں:
’’ یہ سفر نامہ محض مذہبی حیثیت ہی نہیں رکھتا جو ہمارے نزدیک نہا یت قابلِ قدر ہے بلکہ ایک تاریخی اور علمی حیثیت بھی رکھتا ہے، جو ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو مذہب ِاسلام سے تعلق نہیں رکھتے جنہیں مذہب سے زیادہ دل چسپی نہیں ہے۔ ‘‘(۱۶۶)
اکبر حمید ی نے زیر بحث سفر نامے کے دیگر ادبی اور اُسلو بیاتی خصوص کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی کہی ہے:
’’ یہ سفر نامہ اپنے صفحات کے لحاظ سے طویل نہیں مگر معنی ، معلو مات ، کیفیات ،
تاریخی تعارفات اور پیش آمد ہ مسائل و معا ملات اورتیر مشاہدات کے باعث
بہت بسیط ہے دیوانِ غالبؔ کی طرح جو حجم میں قلیل ہے مگر معنی میں طو یل ۔‘‘( ۱۶۷)
اکبر حمید ی کے یہ تجزیات اپنی جگہ گہر ی معنو یت رکھتے ہیں۔ اصل میں’’ سوئے حجاز ‘‘ کا ایک پہلو ذاتی اور انفرادی ہے اور دوسرا اجتماعی ۔ وہ ذاتی سطح پر اپنی ذہنی کیفیات اور روحانی تغیرات پر بات کرتے ہیں، لیکن اجتماعی حوالے سے ان کے پیش کردہ خیالات کا رشتہ معاشرتی ، ثقافتی سیا سی اور اقتصادی پہلوؤں کے ساتھ جڑتا ہے۔’’ سوئے حجاز‘‘ کو محض کسی فرد واحد کا سفر نامہ سمجھ لینا منا سب نہیں بلکہ یہ ایک عہد کی تاریخ بھی ہے۔ سفر نامہ نگار کمال مہارت سے ماضی حال اور مستقبل کے حالات ، تجزیات اور خدشات کا اظہار کرتا ہے۔ سفرنامے کے کئی ایسے مقامات ہیں جہاں انھوں نے نا پسند ید ہ حالات کا تذکر ہ کیا مگر وہاں جذباتیت اور جو شیلالب ولہجہ اختیا ر کرنے کے بجائے سنجید ہ ، متین اور نرم آہنگ انداز میں دل کی بات کہی ہے۔ اُن کے اُسلوب کی یہی خاصیت قاری کے فکر ونظر میں وسعت پیدا کر تی ہے۔ ڈاکٹر نذر خلیق ’’سوئے حجاز‘‘ کی معنوی خوبیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ سوئے حجاز‘‘ کی فکری اور ادبی سطح کے علاوہ بھی کئی سطحیں ہیں ۔۔۔ یہ سفر نامہ عصرِ حاضر کے سفرناموں میں منفر د مقام رکھتا ہے۔ ۔۔اس سفر نامے میں بھی وہ تخلیقی جو ہر دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ‘‘ ( ۱۶۸)
اصل میں دین سے سچی وابستگی اور سادہ اندازہِ بیان نے سو ئے حجاز‘‘ کا لطیف منظر نامہ تشکیل دیا ہے۔ جو ہر قسم کے قاری کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
(۶) دل چسپی اور تاثیر کے عنا صر
’’ سُوئے حجاز ‘‘ کی نمایا ں خوبی اس کی دل چسپی اور تاثیر ہے، قاری جب ایک دفعہ اس کا مطالعہ شروع کر تا ہے تو پھر لمحہ بہ لمحہ سفر نامے کی گرفت اس پر مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۔واقعات و مشاہدات کا بہاؤ اسے کسی مقام پر ٹھہر نے کا موقع نہیں دیتا ۔ حج و عمرے کے سفرناموں میں با لعموم مطالعہ پذیر ی ( Readability) یا د لچسپی کا عنصر کم ہو تا ہے؛ کیونکہ اس میں لگے بند ھے واقعات یکسانیت سے بیان ہوتے ہیں جس سے پڑھنے والا جلد اُکتا جا تا ہے ’’سو ئے حجاز‘‘ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حید ر قریشی کے تخلیقی وژن نے سفر نامے کو روایتی سطح سے اوپر اٹھا کر نئے فکر ی جہات سے روشناس کرایا ہے۔ شگفتہ اور خوشگوار انداز ِنگارش نے تحر یر کا لطف بڑ ھا دیا ہے۔ عرب تہذیب وثقافت پر ان کی برجستہ آراء اور مشاہد ات نے سفر نامے کے تاثر اور تاثیر کو گہرا کر دیا ہے۔
حیدر قریشی کو اگر کسی مقام پر تلخ تجربات سے گزرنا پڑا تو اس کا ذکر بھی ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کیا ہے۔ اور ان تلخیوں کے پس ِپردہ دیگر فکر ی پہلو وں کو اس انداز سے سامنے لایا ہے کہ قاری داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ’’ سوئے حجاز‘‘ میں جذبات واحساسات کی ایک دنیا آباد ہے لیکن جذباتیت کا دور دور تک کوئی گزر نہیں ۔عرب معاشرے کی بے حسی اور مقدس مقامات پر ان کی سختیوں کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا ہے کہ پڑھنے والے کا ذہن وقتی اور ہنگا می رویوں سے باہر نکل کر تفکر کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔ یو ں اگر دیکھا جائے تو انھوں نے دل چسپی کا عنصر کسی حال میں کم نہیں ہو نے دیا۔
عموماً حج اور عمرے کے سفر ناموں میں وہاں کی جھلسا دینے والی گرمی اور ریگزاروں کا ذکر اتنی شد ومد سے کیا جاتا ہے کہ اصل موضوع کہیں بیچ ہی میں دب کر رہ جاتا ہے ’’ سوئے حجاز‘‘ میں کہیں بھی وہاں کی گرمی اور تپش کا ذکر نہیں آیا بلکہ مکہ اور مدینہ کے حوا لے سے جب بھی کسی مقدس مقام کا تذکرہ کیا اسے پڑھ کر دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک کا احساس ہو تا ہے۔ حرم شریف اور روضہ رسول ؐ کی ٹھنڈک کا ذکر کر کے ہمارے دلوں کو گرمایا ہے۔ ’’ سوئے حجاز‘‘ میں حیدر قریشی نے یہ ثابت کیا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے روحانی اسفار اور مشاہد ات نے اتنا بے خود کر دیا تھا کہ موسمی حالات کی طرح اُن کی توجہ منتقل ہی نہ ہو سکی۔
’’ سوئے حجاز‘‘ میں د ل چسپی اور تاثیر کی موجودگی یہ مژدہ بھی سنا تی ہے کہ حیدر قریشی کا اُسلوب نگارش علامت اور تجرید کے بجائے صاف شفاف بیانیے اور لطیف پیر ائیہء اظہار کو فوقیت دیتا ہے ، جس کے باعث تفہیم ، تاثیر اور ترسیلِ معانی کے راستے ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں۔حیدرقریشی نے سفر نامے کے کسی مقام کو بو جھل اور ثقیل نہیں ہو نے دیا اور جہاں کہیں شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی دکھانے کا موقع ملا اسے بھی ضائع نہیں کیا ،یہ مثال دیکھئے:
’’ میں زیارت روضہ رسول ؐ کے بعد باہر آیا تو صبح کے پونے سات بجے تھے۔ مبارکہ عورتوں والے حصے سے ابھی تک باہر نہیں آئی تھی ۔ پورے ایک گھنٹہ تک انتظار کر نا پڑا۔ اتنا طویل انتظار اور پھر وہ بھی بیوی کا ۔۔۔۔۔۔لیکن اس عمر میں تو بیوی کا ہی انتظار کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (۱۶۹)
حید ر قریشی کی یہ شعوری کو شش رہی ہے کہ ان کا سفر نامہ روایتی سفر ناموں کی طرح محض عبادات کا اشاریہ نہ بنے بلکہ وہاں کی روزمرہ زندگی ’’ سوئے حجاز‘‘ میں بھی چلتی پھر تی دکھا ئی دے ۔ اُنھوں نے سفر نامے کی مجرد روایت کو توڑا ہے اور زمان و مکان کی روایت میں رہتے ہوئے جد ید سفر نامے کو فروغ دیاہے۔ اس سفرنامے میں ایک تخلیق کار کا رچاہوا شعور اور مذاق ملتا ہے جو قاری کے بصر ی عمل کو دورانِ مطالعہ فعال رکھتا ہے۔
حیدر قریشی نے ’’ سوئے حجاز‘‘ میں ان صاحبانِ اختیار کے بے حس رویوں کو بھی زیر بحث لایا ہے جو نفسانفسی کے اس دور میں عمومی شکل اختیار کرنے کے باعث ہمارے نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور لوگوں ( زائرین) کی روحانی اور ذہنی اذیت کا مستقل موجب بنتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ رویے بھی سفرنامے کی دل چسپی کو مہمیز لگاتے ہیں کیونکہ لوگ دوری کے باعث اپنے میز بانوں کا جو تصو ر قائم کر لیتے ہیں و ہ حقیقت سے دور ہوتا ہے حیدر قریشی نے یہ فاصلہ ختم کر کے اصل رخ کی تصویر کشی کردی ہے۔ ’’ سوئے حجاز‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد اکبر حمیدی کی ا س رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے:
’’ حیدر قریشی کا یہ امتیاز بہت نمایا ں ہے کہ وہ قاری کی تمام ترتوجہ اپنی جانب اس طورباندھ رکھتا ہے کہ پڑھنے والے کو کہیں ادھر اُدھر کی نہ تو فرصت ملتی ہے اور نہ ہی ضرورت محسو س ہوتی ہے۔ وہ حیدر قریشی کے تخلیقی سحر میں سرتا پا شرابور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘ (۱۷۰)
حیدر قریشی نے یہ سفرنامہ جس تکنیک میں لکھا وہ قاری کے نقطۂ نظر سے اہمیت کی حا مل ہے۔ اس تکنیک کا فائدہ یہ ہے کہ سفر نامہ نگار اپنی ذاتی اپچ اور تخلیقی توانائی کو راست سمت میں استعمال کر سکتا ہے۔ حیدر قریشی کا یہ فن پارہ اپنے موضوع ، محرکات ، انداز، پیش کش اور تخلیق مزاج کی وجہ سے منفرد شنا خت رکھتا ہے ۔ان سات عمروں میں ایک اَسر ار کا پہلو یہ بھی ہے کہ دینی اور دنیاوی اعتبار سے سات کا عدد اپنی ایک خاص معنو یت رکھتا ہے۔ اگر چہ حیدر قریشی سات سے زیادہ یا سات سے کم عمرے بھی کرسکتے تھے لیکن ممکن ہے کہ ان کے لاشعور میں سات کا عد د کسی نفسیاتی یا روحا نی ضرورت کے تحت فعال رہا ہو۔ قرآن حکیم کی سات منزلیں جبکہ سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں ۔ اگر حج اور عمرے کی مناسبت سے سات کے ہند سے پر غور کیا جا ئے تو پھر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایامِ جاہلیت میں خانہ کعبہ کی دیواروں پر سا ت عظیم قصائد آویزاں رہے جن کو اصطلاح میں سبع معلقات کا نا م دیا گیا ہے۔ خانہ کعبہ کا طوائف بھی سات مرتبہ کیا جا تا ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے دوران سات چکر لگا ئے جاتے ہیں ۔ جنت کے سا تھ دروازے اور سات چشمے ہیں۔ دوزخ کے سات طبقات اور ہفتے کے ساتھ دن ہیں۔ اگر انسانی جسم پر غور کیا جا ئے تو خون کی نالیوں کی تعداد بھی سات ہے ۔سات کے ہند سے کا یہ چکر خاصا طویل ہے اور مختلف مذاہب اور تواریخ میں یہ عد د فضیلت کے باعث خاص مقام کا حامل ہے؛ کچھ تعجب نہیں کہ حیدر قریشی نے بھی سات عمرے کیے اور سات کی روایت میں اپنا حصہ محفوظ کر لیا۔
اس کتاب کا انتساب حضرت ابراہیم ؑ، حضرت بی بی ہاجرہؑ او ر حضرت اسماعیل ؑ کے نام کر کے اُن مبارک ہستیوں کی یاد تازہ کی گئی ہے جن کا شمار خانہ کعبہ کے اولین بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ عمرے کا یہ سفر اپنے اختصار ، اُسلوب ، دل چسپی ، معلومات ، مشاہد ات اور اثر پذیر ی کی وجہ سے قاری کی تو قعات پر پورا اُترتا ہے۔
(ب) حج کا سفر
’’ سوئے حجاز‘‘ کا دوسرا سفر نامہ حج پر مشتمل ہے۔ ا س کتاب کے پہلے ایڈیشن میں صر ف عمرے کی تفصیلات تھیں جبکہ دوسرے ایڈیشن میں حج کے سفر کااضافہ کر دیا گیا تھا ۔ یہ سفر نا مہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حیدر قریشی نے حج کا پروگرام اچانک نہیں بنا یا بلکہ کئی سال پہلے وہ اس کا مضبوط ارادہ باندہ چکے تھے۔ وہ کہتے ہیں:
’’ دسمبر ۱۹۹۶ء میں عمر ہ کی سعادت حاصل کر نے کے بعد سے دل میں یہ خواہش تھی کہ ارضِ حجاز میں پھر سے
حاضر ی دی جائے۔‘‘ (۱۷۱)
چنا نچہ اُنھوں نے کچھ برسوں بعد اسے عملی شکل دے ڈالی:
’’ ۲۰۰۳ء میں حج کے لیے جانے کاا رادہ کر لیا تھا۔‘‘ (۱۷۲)
’’ ۲ / فروری اتوار کے روز ساڑھے نو بجے کی حج فلا ئیٹ سے روانہ ہو ئے۔
/۳فروری کو علی الصبح سعودی عرب کے وقت کے مطابق ۵ بجے جد ہ پہنچے۔‘‘ (۱۷۳)
(۱) مشکلات اور بد نظمی کا ذکر
حج کے موقع پر رش کے باعث جہاں اور لوگوں کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ ا ہے وہ حیدرقریشی بھی تلخ تجر بات کا شکار ہو ئے اور اس کا آغاز جدہ ائیر پورٹ پر ہی ہو گیا تھا جہاں ان کا تمام سامان گم ہوگیا اور صرف وہ بیگ باقی بچا جو کندھے سے لگا رکھا تھا اور اخراجات کی تمام رقم مع ٹکٹ اور پاسپورٹ اسی میں محفوظ تھے۔ افراتفری کا یہ عالم خاوند بیوی دونوں کے لیے پر یشان کن تھا لیکن اس کے باوجود ہمت نہ ہاری اور اسے سفر کا حصہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیا ۔ جدہ ائیر پورٹ پر ان کا وقت بہت مشکل سے گزرا کیونکہ یہاں کے معاملات سے گلو خلاصی کراتے کراتے پندرہ گھنٹے بیت چکے تھے ۔ تھکن ، پریشانی اور ذہنی اذیت کی ملی جلی کیفیات نے بدمزہ کردیا تھا۔ پریشانی کی حالت میں ہو ٹل پہنچے اور پھر تھو ڑی دیر بعد حرم شریف روانہ ہوگئے۔
حیدرقریشی رقم طراز ہیں:
’’ حرم شریف پر نظر پڑ تے ہی ایسے لگا جیسے ساری تکالیف کی قیمت وصول ہوگئی ہو ۔‘‘ ( ۱۷۴)
اس کے بعد سترہ (۱۷) دنوں کا احو ال اُنھوں نے روزنامچے کی طرز پر تاریخ وار درج کیا ہے۔
(۲) زائرین اور خانہ کعبہ
حیدرقریشی نے ’’ سوئے حجاز‘‘ میں ایسی کئی نئی باتوں کا ذکر کیا ہے جو عموماً دوسرے سفرنامہ نگار چھوڑ جاتے ہیں ۔ شاید اُن کا یہ گمان ہو گا کہ اس نوع کی باتیں تو حج کے معمولات کاحصہ ہیں اور ہرکوئی ان سے واقف ہوگا۔ حیدر قریشی نے ایسا بالکل نہیں کیا۔ اُنھوں نے بچے کی آنکھ سے سب کچھ دیکھا اور قارئین کے لیے محفو ظ کرلیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ /۴ فروری کو خانہ کعبہ کی زیارت نصیب ہوئی تو منظر بہت بد لا بد لا سا لگا۔ غلا فِ کعبہ کواُس کے اصل مقام سے شاید ڈیڑ ھ دو میٹر اُونچا کر دیا گیا تھا اور اس کے نیچے سفید لٹھا قسم کا کپڑ ا سلائی کر دیا گیا تھا۔ یہ صورت دیکھ کر دل کو دھچکا سا لگا ۔ کعبہ شریف غلا ف میں اس ردوبد ل کے باعث پھیکا پھیکا سا لگ رہا تھا ۔‘‘ ( ۱۷۵)
خانہ کعبہ کے غلاف میں تبدیلی کی وجہ خو د ان الفاظ میں بیان کردی ہے:
’’ بہت زیادہ عقیدت مند حجاج ، حج کی رش سے فائدہ اٹھا کر غلاف ِکعبہ کے ٹکڑے قینچی سے کاٹ کر گھر وں میں تبرک کے طور پر لے جاتے رہے ہیں( چوری کیا ہو تبرک) غا لباً اسی وجہ سے حکومت نے حفاظتی تدبیر کے طور پر غلافِ کعبہ کو اُونچا کر دیا تھا۔‘‘ (۱۷۶)
منزہ یا سمین کہتی ہیں:
’’ حیدر قریشی نے دوران ِسفر اپنے مشاہدات اور تجربات کے ساتھ ساتھ
دیا رِ حرم کی چھو ٹی چھو ٹی جزئیات کو بھی مد نظر رکھنے کی کو شش کی ہے۔ ‘‘ (۱۷۷)
یہ سفر نامہ نگار کا کمال ہے کہ اتنے مختصر سفر نامے میں ایسی خاص جزئیات کا اہتمام کر دیا ہے جو ضخیم سفر ناموں میں بھی کم کم دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس موضوع پر لکھے گئے سفرناموں میں عموماً ایسی معلومات نہیں ملتی لیکن اس سفرنامے کی ایک ایک سطر قاری کے علم میں ایسا اضافہ کرتی ہے کہ اگر قاری بذات ِ خود کبھی حرم شریف جائے تو یہ کتاب اُس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے گی۔
(۳) کہانی پن
حید رقریشی نے عمرہ اور حج دونوں سفر ناموں میں کہانی پن کی تکنیک شعوری یا لا شعوری طو ر پر بر تی ہے، جس کی وجہ سے پڑھنے والے کی دل چسپی ہر مقام پر نہ صرف قائم رہتی ہے بلکہ اسے مزید آگے پڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔
’’ سوئے حجاز‘‘ کا یہ اضافی حسن ہے کہ اس میں حقیقی دنیا کے چشم دید واقعات کہا نی کے پیر ائے میں ڈھا لے گئے ہیں۔
و رنہ عموماً کہانی پن اُن مو ضو عات میں مزہ دیتا ہے جسن کی بنیا د تخیلی اور تصوراتی عناصر پر اُٹھا ئی گئی ہو ۔ حیدر قریشی نے سفر نامے کی روایتی ہیئت بر قرار رکھتے ہو ئے کہا نی پن کا جو اُسلوبیاتی تجربہ کیا وہ کتاب کے مجموعی حسن میں نئے نئے رنگ بھر تا ہے پروفیسر منو ر رؤف نے لکھا ہے:
’’ موجودہ دور میں سفر نامے کہانی کی تکنیک پر لکھے جارہے ہیں اس کی بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ تجرید اور علامت کے رحجان نے ادب سے افسانے کا رومان اور کہانی پن چھین لیا ہے۔‘‘ (۱۷۸)
یہ بیان حیدر قریشی کے سفر ناموں پر بھی صادق آتا ہے، انھوں نے اپنے سفر نامے میں کہانی پن کا جو تجر بہ کیا وہ سفر نا مے کی روایتی ساخت کو مزید مضبوط بنا تا ہے۔
(۴) حج اور گداگری
گداگری کی وبا پوری دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ،اس میں ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ البتہ مقام ِحیر ت ہے کہ بھکا ریوں نے خانہ کعبہ جیسے مقدس مقام پر گداگری کی دکانیں چمکا رکھی ہیں۔ حیدرقریشی ان لوگوں کے طریق واردات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ حج کے دروان یہ تکلیف دہ منظر دیکھنے میں آیا کہ پیشہ وربھکا ریوں کی ایک بڑی تعداد منظم طریقے سے نہ صرف سارے علاقے میں بلکہ حرم شریف میں صحنِ کعبہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان لوگوں میں بعض واقعتا معذور تھے اور بعض اپنی اداکارانہ صلا حیتوں کی بنا پر معذور بنے ہوئے تھے۔‘‘ (۱۷۹)
سفرنامہ نگار نے ان کے بارے میں یہ اطلاع بھی دی ہے کہ یہ گداگر جدید طرز پر اپنا نیٹ ورک چلا رہے تھے ، کیوں کہ سب فقیروں کے پاس موبائل فون تھے جس پر وہ دوسروں کو یہ خبریں پہنچاتے رہتے تھے کہ کس کس جگہ پر لوگ زیادہ پیسے دے رہے ہیں ، چنا نچہ اطلا ع ملتے ہی وہ گر وہ مطلوبہ جگہ پہنچ جاتا اور یوں اس کی چاندی ہو جاتی ۔ خواتین حجا ج نرم مزاجی کی وجہ سے زیادہ نشانہ بن رہی تھیں۔
(۵) معذروں کی سہو لت کا انتظام
’’ سوئے حجاز‘‘ میں تقریباً ہر قسم کی اہم معلومات مل جا تی ہے۔ اگر کوئی شخص عمر ہ یا حج پر جانے سے پہلے ’’ سوئے حجاز‘‘ کا مطالعہ بطور،گائیڈ بک‘‘ کر لے تو وہ بہت سی پیش آمدہ پر یشانیوں سے بچ سکتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پاک وہند کے زائرین عمر ہ یا حج اُسی وقت کرتے ہیں جب وہ جسمانی طورپر زیادہ توانا اور صحت مند نہیں رہتے ۔ بیش ترلوگ بڑھاپے کی دہلیز پار کرنے کے بعد یہ سعادت حاصل کرتے ہیں۔ سعودی حکومت نے ایسے لوگوں کی آسانی کے لیے ہر ممکن اقدام کر رکھے ہیں اور ان کو آسانی فراہم کرنے کی خاطر طواف کرنے کے لیے وہیل چیر اور کندھوں پر اٹھا ئے جانے والی ڈولی کا پوراپورا بند وبست کیا گیا ہے۔ یو ں معمر اور معذور لوگ دوسرے صحت مند لوگوں کی نسبت بہترسہو لت اور آرام کے ساتھ طواف مکمل کر لیتے ہیں۔
(۶ ) تجاویز
حیدرقریشی نے عمرہ اور حج کے اسفار میں جو بدانتظامی اور کمی محسوس کی اس کا ذکر وہ جگہ جگہ پر محبت کے ساتھ کرتے رہے ہیں تاہم چند ایک مقامات پر اُنھیں محسو س ہوا کہ یہاں انقلابی انتظامات کی ضرورت پڑے گی لہٰذا وہ قدرے تفصیل سے اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یوں ہے:
(ا) جدہ ائیر پورٹ سے لیکر منیٰ کی سڑ کوں تک ایسے اہلکار تعینات کے جائیں جو عربی کے علاوہ وہ زبانیں بھی جانتے ہوں جس کا فائدہ پاکستان ، بنگلہ دیش ، انڈیا ، ملا ئیشیا ، ترکی ، ایران اور افغانستان کے زائرین کو پہنچے گا۔
(ب) متذکر ہ بالا ممالک سے بلا معاوضہ خدمات گار یا رضا کا ر بلوائے جا سکتے ہیں ۔
(ج) جو لوگ گروپ کی شکل میں آتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جبکہ انفرادی طور پر آنے والے زائرین کو توجہ کم ملتی ہے، یہ فرق ختم ہونا چائیے۔
(د) منیٰ میں رمی جمعرات کے موقع پر اموات کا سلسلہ صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ لوگوں کے آنے اور جانے کا راستہ ایک ہی ہے اگر آنے اور جانے کے لیے الگ الگ راستے بنا لیے جا ئیں تو بھگڈر پر قابو پا یا جاسکتا ہے۔
(ر) حجاجِ کرام کی خدمات کا جذبہ ہو نا چائیے صرف نیت سے کام نہیں چلے گا۔ یہ تما م اُمو ر تو جہ طلب ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا یہ سفر دوسرے لوگوں سے اسی لیے مختلف ہو جاتا ہے کہ وہ کھلی آنکھ اور بیدار ذہن کے ساتھ مشاہدہ کررہے تھے۔
(۷) ’’ سوئے حجاز‘‘ کا حاصل
حید رقریشی رقم طراز ہیں :
’’ حج کرنے کے بعد حج اور عمرہ کے فرق کا اندازہ ہوا۔حج فرض ہے ، عمر ہ کی حیثیت نوافل جیسی ہے ۔ محض فرض نمازیں پڑھنے سے قرب ِخداوندی نہیں ملتا ۔ قربِ خداوند ی کے لیے فرض سے آگے بڑھ کر نوافل کی منز ل طے کرنا ہو تی ہے۔‘‘ (۱۸۰)
وہ اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
’’ جیسے نمازوں میں فرض اور نوافل کا فرق ہے ویسے ہی حج اور عمر ہ میں فرق ہے۔ حج فرض ہے اور صاحب ِتوفیق پر لازم ہے ۔ اس میں مشقت اورریا ضیت کا پہلونمایاں ہے عمرہ فرض نہیں ہے لیکن نوافل کی طرح اس کی لذت الگ ہے۔ ‘‘ (۱۸۱)
حیدر قریشی کے یہ تجزیات حُب ِرسول ؐ کی بنیاد پر اُستوار ہیں ان کا سفر نامہء عمرہ میں قاری کو دوران مطالعہ ایک خاص نو ع کی لذت اورسرشاری کا سراغ ملتا ہے جبکہ حج کے سفر نامے میں عبادات اور مناسک حج کی ادائیگی کا بیان تو مفصل ہے لیکن مشاہد ہء حق کی کیفیت اور اظہارقدرے دھیما ہے۔ حج کے سفر نامے میں جوتا ثر اُبھر تا ہے اس میں تنقیدی زاویہء نظر اور اصلا حی رنگ غالب ہے اس کے برعکس عمرے کا تاثر جذب ومستی کی روحانی شعاعوں کو منعکس کرتا ہے۔اُردو ادب میں یہ سفر نامے اپنے انفرادی اُسلوب اور فکری مباحث کی وجہ سے نمایاں رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ قیصر تمکین ، افسانے(مضمون) مشمولہ حیدرقریشی کی ادبی خدمات ( متفرق مضامین) مرتب: پروفیسر نذر خلیق ، میاں محمد بخش پبلشرز ، خانپور ،۲۰۰۳، ص ۲۰۰
۲۔ ڈاکٹرانور سید ید ، حیدر قریشی کے افسانے ( آراء اور تبصرے ) مشمولہ حیدر قریشی کی ادبی خد مات
(متفرق مضامین)،ص ۲۰۸
۳۔ قرۃ العین حیدر ، پکچر گیلر ی ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، ۲۰۰۱، ص ۳۵
۴۔ حید رقریشی ،ایک کا فر کہانی(افسانہ) مشمولہ ، عمر لا حاصل کا حاصل ( کلیات ) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی ۲۰۰۹ئے ص ۱۸۶
۵۔ ایک کافر کہانی ، مشمولہ ، عمر لا حاصل کا حاصل ( کلیات ) ص ۱۸۶
۶۔ ایک کافر کہانی ، مشمولہ ، عمر لا حاصل کا حاصل ( کلیات ) ص ۱۸۶
۷۔ سعید شبا ب (مرتب) حیدر قریشی کے انٹر ویو ز ، نظامیہ آرٹ اکیڈمی ، ایمسٹر ڈیم ، ہالینڈ ،۲۰۰۴ ، ص ۹۹
۸ ۔ دیوندراسر ، روشنی کے شیشہ گھر میں(مضمون) مشمولہ ،حیدر قریشی کی ادبی خدمات ، ص ۱۹۵
۹ ۔ جو گندر پال ، روشنی کی بشارت کے افسانے (مضمون) مشمولہ حیدر قریشی کی دابی خد مات ص ۱۹۳
۱۰ ۔ روشن نقطہ ، مشمولہ ، عمر لا حاصل کا حاصل ( کلیات ) ص ۲۲۴ تا ۲۲۶
۱۱ ۔ دھند کا سفر(افسانہ) کلیا ت ، ص ۱۸۰
۱۲ ۔ مامتا (افسانہ) کلیات ، ص ۱۹۵
۱۳۔ اندھی روشنی (افسانہ) کلیات ،ص ۲۰۱
۴ ۱ ۔ روشن نقطہ(افسانہ) کلیات ، ص ۲۲۴
۱۵ ۔ دو کہانیوں کی ایک کہانی (افسانہ)کلیات ، ص ۲۲۸
۱۶ ۔ منا ظر عاشق ہر گانوی ، حیدر قریشی کے افسانوں میں برتاؤ کی توانائی(مضمون) مشمولہ ، حیدر قریشی فن اور شخصیت، مرتبین ، نذیر فتح پوری ، سنجے گوڑ بو لے ، اسبا ق پبلی کیشنز ، پو نہ ( انڈیا) ، ۲۰۰۲ ( اپر یل) ص ۹۵
۱۷ ۔ جیلانی کا مران ، حیدر قریشی کی افسانہ نگاری مشمولہ ، حید ر قریشی کی ادبی خدمات ، ص ۱۱۹
۱۸۔ انکل انیس (افسانہ)کلیا ت ، ص ۲۴۳
۱۹۔ انکل انیس (افسانہ)کلیا ت ، ص ۲۴۴
۲۰ ۔ انکل انیس (افسانہ)کلیا ت ،ص ۲۴۵
۲۱۔ شمس الرحمن فاروقی ، افسانے کی حمایت میں ،شہرزاد، کراچی ، ۲۰۰۴ ( طبع دوم ) ص ۲۰
۲۲۔ ڈاکٹرمناظر عاشق ہر گانوی ، حیدرقریشی کے افسانوں میں برتاؤ کی توانائی(مضمون) مشمولہ حیدر قریشی فن اور شخصیت ، ص ۱۰۱ ، ۱۰۹
۲۳۔ بھو لے کی پریشانی(افسانہ) کلیات، ص ۲۳۷
۲۴۔ ایم․ ڈی․ تاثیر ، نثر تا یثر ، انتخاب و ترتیب ، فیض احمد فیض ، پورب اکادمی ، اسلام آباد ، ۲۰۰۹ ، ص۴۹
۲۵۔ حیدر قریشی فن اور شخصیت ، ص ۹۹
۲۶۔ حوا کی تلاش (افسانہ) کلیا ت ، ۲۰۴
۲۷۔ حوا کی تلا ش (افسانہ)کلیات ، ص ۲۰۴، ۲۰۵
۲۸۔ حوا کی تلا ش (افسانہ)کلیات ، ص ۲۰۵
۲۹۔ حوا کی تلا ش (افسانہ)کلیات ، ص، ۲۰۶
۳۰۔ حید رقریشی ، دعائے دل (شعری مجمو عہ) کلیا ت ، ص ۷۸
۳۱۔ نجمہ رحمانی ، عالمی بیداری اور اُردو شاعری (مضمون) مشمولہ سہ ماہی ، ذہنِ جد ید ، جلد ۱۷ ، شما رہ ۵۰
( دسمبر تا فروری ) ۲۰۰۸ ، ذاکر نگر ، دہلی ، ص ۱۱۰
۳۲۔ گلاب شہزادے کی کہانی کلیات ، ص ۱۷۱
۳۳۔ گلا ب شہزادے کی کہانی(افسانہ) ص ۱۷۲
۳۴۔ گلا ب شہزادے کی کہانی (افسانہ )ص ۱۷۲
۳۵ ۔ گلاب شہزادے کی کہانی (افسانہ )ص ۱۶۸
۳۶۔ ڈاکٹر ظفر قدوائی، ایٹمی جنگ (مضمون) مشمو لہ ، عکا س انٹر نیشنل ( حید رقریشی نمبر) شمارہ نمبر ۴ ، مرتبہ ارشد خالد، مکتبہ عکاس ، اسلام آباد ، یکم اکتوبر ، ۲۰۰۵، ص ۳۱
۳۷۔ سلیم انصاری ، حیدر قریشی کے افسانوں کی حقیقت (مضمون) مشمولہ عکاس انٹر نیشنل( حیدر قریشی نمبر) ،
ص ۳۶
۳۸۔ کا کروچ(افسانہ) کلیا ت ، ص ۲۲۱
۳۹ ۔ کا کروچ(افسانہ) کلیا ت،ص۲۲۳
۴۰ ۔ کا کروچ(افسانہ) کلیا ت،ص۲۲۳
۴۱ ۔ ڈاکٹرحنیف فوق ، بدلتی دنیا میں ادب کا کردار(مضمون) اکادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد ، ۲۰۰۵، ص۳۳
۴۲ ۔ ڈاکٹر سلیم اختر ، تنقید ی اصطلاحات ، سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہو ر ،۲۰۱۱ ، ص ۶۳
۴۳۔ آپ بیتی (افسانہ)کلیات ، ص ۱۸۲
۴۴۔ روشنی کی بشارت(افسانہ) کلیا ت ، ص ۱۹۰
۴۵ ۔ دیویندا سر ، حیدرقریشی ۔مشاہیر کے سوچ آبشار ، مشمولہ ، ماہنامہ شاعر ، جلد ۷۵ ، شمارہ ۱۱ ، نومبر ۲۰۰۴
۴۶۔ دیویندا سر ، حیدرقریشی ۔مشاہیر کے سوچ آبشار ، مشمولہ ، ماہنامہ شاعر ، جلد ۷۵ ، شمارہ ۱۱ ، نومبر ۲۰۰۴
۴۷۔ ڈاکٹرذکاالدین شایان ، حیدر قریشی کا افسانوی مجموعہ روشنی کی بشارت ، مشمولہ ، حیدر قریشی فن اور شخصیت ، ص ۹۱
۴۸۔ سید ا حمد دہلو ی ، فرہنگ ِآصفیہ ، ترقی اُردو بورڈ ، نئی دہلی، ۱۹۹۰ ، ص ۸۳۸
۴۹۔ نورالحسن نیر ( مو لوی) نو راللغات (جلد دوم ) نیشنل بک فاونڈیشن ، ۱۹۸۹ ( طبع دوم ) ص ۶۴۰
۵۰۔ وارت سر ہند ی ، علمی اُردو لغت (جامع ) علمی کتاب خانہ لاہور ، ۱۹۹۰ ، ص ۶۶۳
۵۱۔ اُردو لغت ( جلد ۸) ، اُردو لغت بور ڈ ، کراچی ۱۹۸۷ ، ص ۳۸۸
۵۲۔ سلیم اختر ، ڈاکٹر، تنقید ی اصطلاحات( توضیحی لغت) سنگ میل پبلی کیشنز لا ہور ، ۲۰۱۱ء ، ص ۱۱۷
۵۳ ۔ حیدر قریشی، مائے نئی میں کنو ں آکھا ں (خاکہ: امی جی ) مشمولہ ،عمر لا حاصل کا حاصل ( کلیات ) ص ۲۸۱
۵۴۔ حیدر قریشی ،برگد کا پیڑ(خاکہ : ابا جی )مشمولہ ،عمر لا حاصل کا حاصل ، ص ۲۷۵
۵۵۔ حیدر قریشی ،برگد کا پیڑ(خاکہ : ابا جی )مشمولہ ،عمر لا حاصل کا حاصل ، ص ۲۷۵
۵۶۔ حیدر قریشی ،برگد کا پیڑ(خاکہ : ابا جی )مشمولہ ،عمر لا حاصل کا حاصل ، ص ۲۷۵
۵۷۔ رما شنکر ترپاٹھی ، تاریخ قدیم ہندوستان ، مترجم سید سخی حسن نقوی ، سٹی بک پوائنٹ ،
کراچی ۲۰۰۶( طبع سوم ) ، ص ۲۴
۵۸۔ حیدر قریشی ،بلند قامت ادیب(خاکہ: اکبر حمید ـی) مشمولہ کلیات ،ص ۳۴۵
۵۹۔ حیدر قریشی ،اُجلے دل والا(خاکہ:چھوٹا بھائی) مشمولہ ، کلیا ت ، ص ۳۱۸
۶۰۔ ڈاکٹر انور سید ید ، ، میر ی محبتیں (مضمون)مشمولہ، حیدر قریشی کی ادبی خد ما ت ، مر تبہ ، پروفیسر نذر خلیق ، میاں محمد بخش پبلشرز ، خانپور ، ۲۰۰۳، ص ۲۱۱
۶۱۔ طاہر مجید ، میر ی محبتیں (مضمون) مشمولہ ، حیدر قریشی فن اور شخصیت ،ص ۱۱۹
۶۲۔ حیدر قریشی، بلند قامت ادیب (خاکہ) کلیات ،ص ۳۴۳
۶۳۔ رشید حسن خان ، مولوی سید احمد دہلو ی ( خاکہ) مشمو لہ ، دلی والے ، مرتبہ ، ڈاکٹر صلا ح الد ین ، اُردو اکا دمی ،دہلی ۱۹۸۶ ، ص ۲۱۲
۶۴۔ حیدر قریشی،ڈاپی والیا موڑ مہا روے(خاکہ: دادا جی) مشمولہ ،کلیات ،ص ۲۸۷
۶۵۔ حیدر قریشی،ڈاپی والیا موڑ مہا روے(خاکہ: دادا جی) مشمولہ ،کلیات ،ص ۲۸۸
۶۶۔ منشا یاد ، میر ی محبتیں (مضمون) مشمو لہ، عکاس انٹرنیشنل ( حیدر قریشی نمبر) شمار ہ نمبر ۴ ، ص ۴۲
۶۷۔ حیدر قریشی ،پسلی کی ٹیڑھ(خاکہ : مبارکہ )مشمولہ ،عمر لا حاصل کا حاصل ، کلیا ت ، ص ۳۱۱
۶۸ ۔ حیدر قریشی،ڈاپی والیا موڑ مہا روے(خاکہ: دادا جی) مشمولہ ،کلیات ، ص ۲۸۹
۶۹ ۔ ترنم ریاض کے خط کا یہ اقتباس ماہانہ ادبی خبر نامہ ، ’’اُردو دنیا ‘‘( جرمنی) شمارہ فروری ۲۰۰۰میں شائع ہوا تھا۔ (یہ اقتباس’’ حیدر قریشی فن اور شخصیت ‘‘کے ص ۱۱۶ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ )
۷۰۔ خاور اعجاز ،حیدر قریشی اور میری محبتیں(مضمون)مشمولہ، حیدر قریشی فن اور شخصیت ، ص ۱۱۶
۷۱ ۔ منشا یاد ، میر ی محبتیں (مضمون)مشمولہ، عکاس انٹرنیشنل ( حید ر قریشی نمبر) شمارہ ۴ ، ص ۴۲
۷۲۔ ڈاکٹر انو ر سد ید ، میر ی محبتیں (مضمون)،مشمولہ ، حیدر قریشی کی ادبی خدمات ، مرتبہ ، پروفیسر نذر خلیق ،میاں محمد بخش پبلشر ز ،خانپور ،۲۰۰۳ ،(طبع اول) ص ۲۱۱
۷۳۔ ریاض احمد ، اُسلوب ، مشمولہ نئی تحر یریں ، حلقہ ارباب ِذوق ، لاہور ، نومبر ۱۹۵۷ ، ص ۶۹
۷۴۔ حیدر قریشی،مائے نی میں کنوں آکھاں(خاکہ:امی جی) کلیات ، ص ۲۸۶
۷۵۔ ڈاکٹر سلیم اختر ،تنقید ی اصطلاحات ، ص ۱۱۵
۷۶۔ حیدر قریشی، ہم کہ ٹھہر ے اجنبی (خاکہ: فیض احمد فیض ) کلیات ، ص ۳۳۳
۷۷۔ جاوید خان ، حیدر قریشی کی خاکہ نگاری ،مشمولہ،حیدر قریشی کی ادبی خدمات،ص۲۴۰
۷۸۔ حیدر قریشی ،پسلی کی ٹیڑھ(خاکہ : مبارکہ )مشمولہ ،عمر لا حاصل کا حاصل ، کلیا ت ، ص ۳۱۲
۷۹۔ حیدر قریشی ،زندگی کا تسلسل (خاکہ:پانچوں بچے) کلیات، ص ۳۲۷
۸۰۔ حید رقریشی ، کھٹی میٹھی یادیں ، عکاس انٹر نیشنل، اسلام آباد ، ۲۰۱۳ ، ص ۹
Mathai,M.O,Vikas Publishing House,New Delhi,1978, P No .۸۱۔
۸۲۔ منزہ یاسمین ، حید ر قریشی شخصیت اور فن(تحقیقی مقالہ :برائے ایم اے اُردو) میاں محمد بخش پبلشرز ، خانپور ، ۲۰۰۳ ، ص ۱۷۸
۸۳۔ منز ہ یاسمین ، حید ر قریشی شخصیت اور فن (تحقیقی مقالہ :برائے ایم اے اُردو)ص ۱۷۸
۸۴ ۔ حیدر قریشی نے میر ی ای میل کا مفصل جواب /۲۷ جولائی ۲۰۱۳ کو دیا تھا۔
۸۵۔ حیدر قریشی نے میر ی ای میل کا مفصل جواب /۲۷ جولائی ۲۰۱۳ کو دیا تھا۔
۸۶ ۔ حیدر قریشی نے میر ی ای میل کا مفصل جواب /۲۷ جولائی ۲۰۱۳ کو دیا تھا۔
۸۷۔ حیدر قریشی ،کٹھی میٹی یادیں ، ص ۵
۸۸۔ حیدر قریشی ،کٹھی میٹی یادیں ،ص ۱۲
۸۹۔ حیدر قریشی ،کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۳۸
۹۰۔ سلطان جمیل نسیم، کھٹی میٹھی یادیں( مضمون) مشمولہ عکا س انٹر نیشنل، اسلام آباد ، مرتبہ ارشد خالد ، ۲۰۰۵ ، ص ۴۹
۹۱۔ حیدر قریشی ،کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۶۱
۹۲۔ حیدر قریشی ،کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۱۷۸
۹۳۔ جو گندر پال ، حید ر قریشی ۔ مشا ہیرکے سو چ آبشار،مشمولہ،شاعر،
جلد ۷۵،شمارہ۱۱،نومبر،۲۰۰۴،ممبئی،ص۱۰
۹۴۔ حیدر قریشی،کٹھی میٹھی یادیں، ص ۱۶۳
۹۵۔ حیدر قریشی،کٹھی میٹھی یادیں، ص ۱۶۳
۹۶۔ حیدر قریشی،کٹھی میٹھی یادیں، ص ۱۶۳
۹۷ ۔ حیدر قریشی،کٹھی میٹھی یادیں،ص ۱۶۲
۹۸۔ حیدر قریشی،کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۸۵
۹۹۔ حیدر قریشی،کھٹی میٹھی یادیں ص ۸۵ ، ۸۶
۱۰۰۔ حیدر قریشی،کھٹی میٹھی یادیں ، ۸۸
۱۰۱ ۔ حیدر قریشی،کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۹۶
۱۰۲۔ حیدر قریشی،کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۹۶
۱۰۳۔ حیدر قریشی،کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۹۶
۱۰۴ ۔ کھٹی میٹھی یادیں ، ص ۱۶۷
۱۰۵ ۔ ڈاکٹرسلیم اختر ، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ، سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور ،۲۰۰۳(۲۵واں اڈیشن) ص ۵۲۶
۱۰۶۔ ڈاکٹر وزیر آغا ، (دیباچہ، انشائی مجموعہ:جزیرے کا سفر) بحوالہ، جد ید اُردو انشائیہ ، مرتبہ اکبر حمید ی ،
اکا دمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد ، ۱۹۹۱ ، ص ۴
۱۰۷۔ ڈاکٹر وزیر آغا،(دیباچہ، انشائی مجموعہ:جزیرے کا سفر) بحوالہ، جد ید اُردو انشائیہ ، مرتبہ اکبر حمید ی ، ص ۶
۱۰۸ ۔ اکبر حمید ی، جد ید اُردو انشائیہ ( دیباچہ ) ، ص ۹
۱۰۹۔ ڈاکٹر وزیر آغا ، اُردو انشائیہ کی کہا نی مشمولہ، جد ید اُردو انشائیہ ، مرتبہ اکبر حمید ی ، اکادمی ادیبات پاکستان ، اسلام آ باد ، ۱۹۹۱ ، ص ۲۴
۱۱۰۔ حیدر قریشی ،نقاب(انشائیہ) مشمولہ عمر لا حاصل کا حاصل ( کلیات ) ص ۵۱۰
۱۱۱۔ حیدر قریشی ،وگ(انشائیہ) مشمو لہ کلیات ، ص ۵۱۳
۱۱۲۔ حیدر قریشی، یہ خیر و شر کے سلسلے(انشائیہ) مشمو لہ، کلیات ، ۵۲۵
۱۱۳۔ ناصر عباس نیر، نئے انشائیہ نگاروں کا شعورِ تخلیق(مضمون) مشمو لہ، سہ ماہی ادبیات ، اکا دمی ادبیات پاکستان ،اسلام آباد ۔جلد ۱۳ شمار ہ ۵۳ ،۲۰۰۰ ، ص ۱۸۳
۱۱۴۔ حیدر قریشی، اطاعت گزاری (انشائیہ) مشمولہ ،کلیا ت ،ص ۵۲۴
۱۱۵۔ حیدر قریشی ،فاصلے ، قر بیتں (انشائیہ)مشمولہ، کلیات ، ص ۵۱۸
۱۱۶۔ حیدر قریشی،تجربہ اور تجر بہ کاری (انشائیہ)مشمولہ، کلیات ، ص ۵۳۵
۱۱۷۔ حیدر قریشی،تجربہ اور تجر بہ کاری (انشائیہ)مشمولہ، کلیات ، ص ۵۳۵
۱۱۸۔ حیدر قریشی،تجر بہ اور تجر بہ کاری (انشائیہ)مشمولہ، ، کلیات ،ص ۵۳۴
۱۱۹۔ نقاب (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۱۱
۱۲۰۔ یہ خیر و شر کے سلسلے (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۲۷
۱۲۱ ۔ اپنا اپنا سچ (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۳۱
۱۲۲۔ تجر بہ اور تجر بہ کاری (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۳۵
۱۲۳۔ تجر بہ اور تجر بہ کاری (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۳۵
۱۲۴۔ اپنااپنا سچ(انشائیہ) کلیات ، ص ۵۳۱
۱۲۵۔ اطاعت گزاری (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۲۲
۱۲۶۔ چشم تصور (انشائیہ) کلیات ۵۲۹
۱۲۷۔ چشم تصور (انشائیہ) کلیات ۵۲۹
۱۲۸۔ ناصر عباس نیر ، نئے انشائیہ نگاروں کا شعورتخلیق (مضمون) مشمو لہ، سہ ماہی ادبیات ، اکا دمی ادبیات پاکستان ،اسلام آبادص ۱۸۴
۱۲۹۔ نقاب (انشائیہ)کلیات ،ص۵۱۲
۱۳۰۔ وگ(انشائیہ) کلیات ، ص ۵۱۲
۱۳۱۔ حیدر قریشی،سلگتے خواب(شعری مجموعہ)مشمولہ، کلیات ، ص ۶۳
۱۳۲۔ بڑ ھا پے کی حمایت میں (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۲۰
۱۳۳۔ نقا ب (انشائیہ) کلیا ت ، ص ۵۱۰ ، ۵۱۱
۱۳۴۔ اطاعت گزاری (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۲۲
۱۳۵۔ اپنا اپنا سچ (انشائیہ) کلیات ، ص ۵۳۲
۱۳۶۔ حیدر قریشی سے لے گئے انٹر ویو ز ، مر تبہ، سعید شباب ، نظا یہ آرٹ اکیڈ می ، ایمسٹرڈیم ، ہالینڈ ، ۲۰۰۴ ، ص ۶۶
۱۳۷۔ عہد ساز شخصیت ( ڈاکٹر وزیر آغا ) کلیات ، ص ۳۳۲
۱۳۸۔ ناصر عباس نیئر ، نئے انشائیہ نگاروں کا شعور تخلیق ص ۱۸۴
۱۳۹۔ حیدر قریشی ، سوئے حجاز، سرور اکادمی ،جر منی ۲۰۰۴ ، ص ۱۴
۱۴۰۔ حیدر قریشی ، سوئے حجاز ،ص ۷
۱۴۱۔ سوئے حجاز ، ص ۷
۱۴۲۔ سوئے حجاز ، ص ۷
۱۴۳۔ سوئے حجاز ، ص ۴
۱۴۴۔ سوئے حجاز ، ص ۲۲
۱۴۵۔ سوئے حجاز ، ص ۲۲
۱۴۶۔ سوئے حجاز ،ص ۲۴
۱۴۷۔ سوئے حجاز ،ص ، ۲۵
۱۴۸۔ سوئے حجاز ، ص ۴۲
۱۴۹ ۔ سوئے حجاز، ص ۳۵ ، ۳۶
۱۵۰۔ سوئے حجاز،ص۲۷
۱۵۱۔ سوئے حجاز ، ص ۹۴
۱۵۲۔ اکبر حمید ی ، حیدر قریشی سوئے حجاز(مضمون) ، مشمولہ ، عکاس انٹرنیشنل ( شمارہ: ۴) مر تب ارشد خالد ،
ناشر مکتبہ عکاس ، اسلام آباد ، ۲۰۰۵ء ، ص ۶۰
۱۵۳۔ منز ہ یاسمین ، حیدر قریشی شخصیت اور فن ،ص ۱۴۴
۱۵۴۔ اکبر حمید ی ، حیدر قریشی سوئے حجاز ، ص ۶۰
۱۵۵۔ حید ر قریشی سوئے حجاز ، ص ۶۰
۱۵۶۔ حید ر قریشی،سوئے حجاز ، ص ۴۲
۱۵۷۔ حید ر قریشی،سوئے حجاز ، ص ۴۲ ، ۴۳
۱۵۸۔ حید ر قریشی، سوئے حجاز،ص ۳۹
۱۵۹۔ حید ر قریشی، سوئے حجاز،ص ۳۹
۱۶۰۔ حید ر قریشی،سوئے حجاز ، ص ۷۶
۱۶۱۔ حید ر قریشی،سوئے حجاز ، ص ۷۶
۱۶۲۔ حید ر قریشی،سوئے حجاز ، ص ۷۶
۱۶۳۔ حید ر قریشی،سوئے حجاز ، ص ۷۶
۱۶۴۔ سوئے حجاز ، ص ۸
۱۶۵۔ سوئے حجاز،ص ۹
۱۶۶۔ اکبر حمید ی ،حیدر قریشی سوئے حجاز(مضمون) ص ۶۰
۱۶۷۔ اکبر حمید ی ،حیدر قریشی سوئے حجاز(مضمون)ص ۶۰ ، ۶۱
۱۶۸۔ ڈاکٹر نذر خلیق ، سوئے حجاز پر ایک نظر (مضمون)مشمولہ، سہ ما ہی، ادب ساز ،
شمارہ ، جنو ری تا جون ۲۰۰۸ ، ص ۱۰۱
۱۶۹۔ سوئے حجاز ، ص ۷۳
۱۷۰۔ اکبر حمید ی ، حیدر قریشی سوئے حجاز (مضمون) ص ۶۱
۱۷۱۔ سوئے حجاز ، ص ۱۰۷
۱۷۲۔ سوئے حجاز ، ص ۱۰۷
۱۷۳۔ سوئے حجاز ، ص ۱۰۸
۱۷۴۔ سوئے حجاز، ص ۱۱۰
۱۷۵۔ سوئے حجاز، ص ۱۱۱
۱۷۶۔ سوئے حجاز، ص ۱۱۱
۱۷۷۔ منز ہ یاسمین ، حیدر قریشی شخصیت اور فن ص ۱۴۶
۱۷۸۔ منور روفٔ ، پروفیسر ، اُردو سفرنامے کا سفر ، مشمولہ خیابان ( اضاف نثر نمبر ) ، تحقیقی مجلہ ،
شعبہ اُردو جامعہ پشاور( سال ۱۹۹۵ء۔ ۱۹۹۴ء) ص ۲۲،۳۴
۱۷۹۔ سوئے حجاز ، ص ۱۳۱
۱۸۰۔ سوئے حجاز ، ۱۳۴
۱۸۱۔ سوئے حجاز ، ۱۳۴، ۱۳۵