حیدر قریشی کی ہمہ جہت ادبی شخصیت کاایک اہم حوالہ افسانہ نگاری ہے ۔ اُنھوں نے جہاں تحقیق و تنقید،یاد نگاری ، کالم نگاری ، انشائیہ نگاری ، سفر نامہ نگاری ، خاکہ نگاری اور شاعری میں ممتازمقام حاصل کیا وہاں افسانوی ادب میں بھی اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ قیصر تمکین اس ضمن میں رقمطراز ہیں:
’’ یورپ میں موجود اُردو قلم کاروں کی فہرست میں حیدر قریشی کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ ویسے تو انہوں نے مختلف اصناف ِادب میں اپنی محنت و ریاضت سے ممتاز جگہ حاصل کی ہے لیکن افسانے کے میدان میں ان کی مسا عی واقعی بہت قابلِ لحاظ ہے ، بعض بالکل ہی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصری کہانی کاروں میں ان کا ایک بالکل علیٰحدہ اور ناقابل انکار تشخص متعین ہو چکا ہے ۔‘‘ (۱)
ڈاکٹر انور سدید اسی رائے کی توثیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ حیدر قریشی بظاہر ادب کی کئی اصناف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کر رہے ہیں تا ہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ افسانے کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اَسرار کی گھتیاں اُن پر باندازِ دگر کھولتی ہے۔ ‘‘ (۲)
حیدر قریشی کے افسانے اردو ادب کے معاصر بین الاقومی رسائل و جرائد میں طبع ہونے کے علاوہ انٹرنیٹ پر اور کتابی صورت میں دستیاب ہیں۔ تحقیقی مقالے کے اس حصے کا مقصد حیدر قریشی کے افسانوں میں متنوع موضوعات ، رحجانات اور تکنیکی تجربات کی نشاندہی اور جستجو ہے۔ نیز اُن عوامل اور محرکات کو تلاش کرنا ہے جو سماجی اورفکری سطح پر افسانہ نگار کو متاثر کرتے رہے ہیں۔
حیدر قریشی کے افسانے اگر سرسری نظر سے بھی دیکھے جائیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے افسانوں کی بنیاد بیش تر خارجی محسوسات پر رکھتے ہیں یعنی جو کچھ وہ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں و ہی سب کچھ ہمیں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن اپنے موضوع کی طرف ان کی پیش قدمی خالصتاً داخلی اور نفسیاتی پرسطح ہوتی ہے ۔ اُن کے افسانوں میں حقیقت شناسی اور خیال پرستی کا متوازن امتزاج ملتا ہے ۔ ان کا یہی امتزجی اُسلوب فنی اور فکری سطح پر ہر افسانے کو معیاری بنا تا ہے۔
حیدر قریشی کی کہانیوں میں دوستانہ ماحول کی کا ر فرمائی ہے ۔ تمام کردار ہمارے جانے پہچانے ہیں جن سے ہمارا روزمرہ کا واسطہ پڑتا ہے ۔ واقعات ، مشاہدات اور محسوسات میں فطری جذبوں کا رنگ بھرنا اور قاری کے فکر و نظر کو متحرک رکھنا اُن کے افسانوں کا خاصہ ہے ۔ اُن کی تقریباً ہر کہانی کسی خاص واقعے پر مبنی ہوتی ہے اور کہانی میں موجود نفسیاتی اشارے نئے جہانوں کی سیر کراتے ہیں۔
حیدر قریشی کے اب تک شائع ہونے والے تمام افسانوں اور تراجم کی تفصیل تاریخی ترتیب کے ساتھ اس طرح ہے:
۱۔ روشنی کی بشارت
تجدید ، اشاعت گھر ، اسلام آباد ، طبع ۱۹۹۲ء
۲۔ میں انتظار کرتا ہوں (افسانوں کا ہندی ترجمہ )
ساہتیہ بھارتی ، دہلی ، طبع ۱۹۹۶ء
۳۔ افسانے ( روشنی کی بشارت ، قصے کہانیاں )
معیار پبلی کیشنز ، دہلی ،۱۹۹۹ء
۴۔ ایٹمی جنگ ( تین افسانے ، اردو اور ہندی میں ۔۔ان افسانوں کا ہندی ترجمہ فاطمہ تبسم نے کیاتھا جو معروف ادیب مشرف عالم ذوقی کی اہلیہ ہیں)
معیار پبلی کیشنز ، دہلی ، ۱۹۹۹ء
۵۔ And I Wait ( منتخب افسانوں کا انگریزی ترجمہ)
(افسانوں کا انگریزی ترجمہ ناظم خلیل نے کیا ہے)
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ، ۲۰۰۸ء
۶۔ حیدر قریشی کے دو افسانے ’’کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘ او ر ’’ اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ‘‘کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں البتہ ان کے کلیات بعنوان ’’ عمر لاحاصل کا حاصل ‘‘ میں موجود ہیں ، یہ کلیات جس میں پانچ شعری اور چھے نثری مجموعے شامل ہیں اسے ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے ۲۰۰۹ میں شائع کیا تھا۔
حیدر قریشی کے تاحال ستائیس (۲۷) افسانے منظر عام پر آئے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
٭ روشنی کی بشارت(مجموعہ)
۱۔ میں انتظار کرتا ہوں
۲۔ گلاب شہزادے کی کہانی
۳۔ غریب بادشاہ
۴۔ دُھند کا سفر
۵۔ آپ بیتی
۶۔ روشنی کی بشارت
۷۔ ایک کافر کہانی
۸۔ مامتا
۹۔ اندھی روشنی
۱۰۔ حوا کی تلاش
۱۱۔ اپنی تجدید کے کشف کا عذاب
۱۲ بے ترتیب زندگی کے چند بے ترتیب صفحے
۱۳ پتھر ہوتے وجود کا احساس
٭ قصّے کہانیاں
۱۔ کاکروچ
۲۔ روشن نقطہ
۳۔ دو کہانیوں کی ایک کہانی
۴۔ گھٹن کا احساس
۵۔ بھولے کی پریشانی
۶۔ شناخت
۷۔ انکل انیس
۸۔ ۲۷۵۰ سال بعد
۹۔ بھید
۱۰۔ اعتراف
۱۱۔ بابا جمالی شاہ کا جلال
۱۲۔ مسکراہٹ کا عکس
٭ دونوں مجموعوں کے بعد کے افسانے
۱۔ کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار
۲۔ اپنے وقت سے تھوڑا پہلے
اب یہ تمام افسانے حیدر قریشی کے کلیات بعنوان ’’ عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ میں شامل ہیں ۔ یہ کلیات انٹر نیٹ پر بھی موجود ہے اور تمام افسانوں کو انٹر نیٹ پربلاگ کی صورت میں عام کر دیا گیا ہے ۔ جن کا مطالعہ ان ویب گاہوں پر ممکن ہے :
۱۔ http://my27books.blogspot.de/
۲۔ http://kuliat-library.blogspot.de/
ــ حیدر قریشی کے افسانے جدید طرزِ احساس ، منفرد اُسلوب ِنگارش اور دل کش فنی و فکری اقدار کی بدولت جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں ۔ اُن کے ہاں خالص تخیل کے بجائے حقیقی دنیا کے تجربات و مشاہدات اور زندگی کے اصل نشیب و فراز کا بیانیہ ملتا ہے ۔ واقعات کی بُنت اور کرداروں کی نفسیاتی سطحوں کو اس خاص قرینے سے پیش کرتے ہیں کہ حقائق کی فتح یقینی ہو جاتی ہے۔ جس طرح ہر قلم کار کی تصنیف اور تخلیقات پر اس کی اُفتادِ طبع اور فکر کا گہرا اثر ملتا ہے با لکل اسی طرح حیدر قریشی کے تقریباً تمام افسانے اُن کی اپنی طبیعت ، رحجانات ، خیالات اور افکار و نظریات کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔ مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر ہونے کے باوجود ان کے افسانوں میں خالص مشرقی وضع داری نہایت خوش اُسلوبی سے اپنی جگہ بناتی چلی جاتی ہے ۔ وہ اپنے افسانوں میں عملی مسائل پر بات کرنا پسند کرتے ہیں اور زندگی کے عملی اور نزاعی مسائل پر غیر شخصی انداز سے تنقید کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے لکھا تھا:
’’ ساری دنیا ساری کائنات کا تجربہ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا مگر تلاش کسی ایک نکتے سے تو شروع کی جا سکتی ہے۔ ‘‘ (۳)
حیدر قرشی کا فکری دھارا اس ایک نکتے کو بآسانی ڈھونڈ نکالتا ہے اور یہ نکتہ پھیلتے پھیلتے کہانی کی وحدت میں ضم ہو جاتا ہے ۔ یہ کہانی کئی رنگوں میں اپنا اظہار کرتی ہے ۔ کہیں اظہار کا رنگ تجرید ، علامت ، تصوف اور روحانیت کا لبادہ اوڑھے نظر آتا ہے تو کہیں رومان پرور فضا کسی نشاط آفریں جذبے کو جلا بخشتی ہے ۔ کسی مقام پر ایٹمی جنگ کا منظر نامہ فکر و نظر کو متحرک کرتا دکھائی دیتا ہے ، غرض اُنھوں نے اپنے عہد کے پُر پیچ عوامل اور رحجانات سے افسانوی ادب میں نئے چراغ روشن کیے ہیں۔
(الف) حیدر قریشی کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ
حیدر قریشی کے افسانوں میں فکری موضوعات کا تنوع وسعت کا حامل ہے ۔ اُن کے افسانوں میں انسان اور سماجیات کے حوالے سے خیال انگیز رویے اور کیفیات اُبھرتی نظر آتی ہیں ۔ اِ ن اہم موضوعات کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) تصّوف اور روحانیت کے عناصر
حیدر قریشی کے افسانوں کا غالب رحجان تصوف اور روحانیت پر مبنی ہے ۔ اس نوع کے افسانوں میں جہاں عرفان و شعور کے دروا ہوتے ہیں وہاں نفسیاتی عوامل کی روشنی میں ذہنی کیفیات کافہم بھی حاصل ہوتا ہے ۔ مثلاً ان کے افسانے ’’ایک کافر کہانی‘‘ کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے :
صوفی ، سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں
خود ہی اپنا رستہ ، منزل اور سفر ہو جائیں (۴)
اور اب پہلی سطر ملاحظہ ہو:
’’ بڑی عجیب اذیت ہے ، میں نماز پڑھتا ہوں ، رکوع تک نماز ٹھیک رہتی ہے لیکن سجدے میں کہیں اور پہنچ جاتا ہوں ‘‘ (۵)
اس افسانے کی داخلی فضا روحانی خوشبو سے مزین ہے اور قاری دورانِ مطالعہ خود کو اس وجدانی ماحول میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے ۔ افسانہ نگار نے کچھ مقامات پر ابراہیم بن ادھم ؒ ، رابعہ بصری ؒ اور حضرت با یزیدبسطامی ؒ کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ملائک ِ آسمانی اور آخر میں سرور کونین ؐ کاتذکرہ شامل کیا ہے، لیکن کمال یہ ہے کہ ہر ہستی کا ذکر ِخیر ایک خاص معنوی تناظر کے ساتھ اصل موضوع کا حصہ بنتا ہے اور دورانِ مطالعہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی صاحبِ حال صوفی اپنے باطن میں وحدت الوجود کی تپش محسوس کر رہا ہے اور دیگر صوفیائے کرام کی تعلیمات سے تشفی کا متلاشی ہے ۔ وحدت الوجود کی تا ویل میں حضرت با یزید بسطا میؒ کا قول افسانے کی مجموعی فضا کو سمجھنے کے لیے کلید فراہم کرتا ہے :
’’ جو شخص حق میں محو ہو جاتا ہے اور جو کچھ ہے حق ہے، اگر ایسی صورت میں وہ سب کچھ ہو تو کوئی تعجب نہیں ۔‘‘ ــ (۶)
اصل میں حیدر قریشی کا فکری نظام روحانیت سے خاص علاقہ رکھتا ہے اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے فکری مسلک کو فکشن میں اس طرح ڈھال لیں کہ فنی لوازم کا حق ادا ہو جائے اور جو کچھ ان کی آنکھ نے دیکھا اور محسوس کیا ہے اُس راحتِ قلبی میں قاری کو بھی شریک کر لیا جائے۔
اُن کاایک اور افسانہ ــ’’ روشنی کی بشارت‘‘ صوفیانہ تجربے پر مبنی ہے۔ اس میں صاحب ِحال کا مکاشفہ دل پذیر پیرائے میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ خدا کی ذات پر کامل ایمان اور کائنات کے ذرّے ذرّے میں اُ س کا عکس و جمال دیکھنے والا شخص ہی ایسے مشاہدات کا ترجمان اور مکلف ہو سکتا ہے ۔
’’ روشنی کی بشارت‘‘ میں نطشے کی ایک تمثیل درج ہے اور اس تمثیل کو متعارف کرانے کا بڑا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ نطشے نے یورپ میں خدا کا انکار کر کے جو کفر پھیلایا تھا حیدر قریشی نے اُسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے وجود باری تعالیٰ کو کشفی اور وجدانی واردات کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔
ماہنامہ ’’ شاعر‘‘ کے مدیر افتخار امام صدیقی نے حیدر قریشی سے اپنے انٹرویوکے دوران دو ایسے سوال پوچھے جن کا براہِ راست تعلق خدا اور متصوفانہ مسائل کے ساتھ ہے ، سوال و جواب ملاحظہ ہوں:
’’ سوال : کیا آپ اپنے تجربوں اور مشاہدوں کو اپنے فن پاروں میں سموتے ہیں ؟
جواب: میرے ہاں تو تجربے اور مشاہدے ہی باطن میں رچ بس کر فن پارے بنتے ہیں۔
سوال : کیا آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں ؟
جواب: بہت گہرا یقین اور اس یقین کے کئی ذاتی تجربے بھی ہیں ‘‘(۷)
’’ روشنی کی بشارت ‘‘ میں یہ ذاتی تجربہ موجود ہے ۔ افسانہ نگار نے اُس روحانی پیچیدگی کی جانب بھی اشارہ کر دیا ہے کہ نورِ خداوندی ہمیشہ اپنے زمانے سے آگے چلتا ہے اور وہ صفرِ مدت لازماً آئے گی جب نورِ خداوندی اور مخلوق کا باہمی فاصلہ ختم ہو جائے گا اور یہی ادراک کی کامل منزل ہو گی۔
اُردو ادب کے معروف نقاد اور افسانہ نگار دیوینداسر رقمطراز ہیں :
’’ وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جنھیں ہر چیز صاف صاف دکھائی دیتی ہے جن کے دل میں کبھی کوئی شک پیدا نہیں ہوتا جن کے پاس ہر سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب موجود ہےــ‘‘ (۸)
جوگندر پال کا کہنا ہے :
’’ حیدر قریشی کے یہاں ایمان کا کراماتی عمل کلیدی حیثیت کا حامل ہے ۔ ایمان زندہ رہے تو معجزوں کا رونما ہوتے چلے جانا بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتا۔ حیدر قریشی کے ایمان کی توانائی اسے انہدام کی ہیبت سے محفوظ رکھتی ہے ‘‘ (۹)
حیدر قریشی کے تین اور افسانوں میں روحانی عناصر کی کارفرمائی دیکھی جا سکتی ہے ان میں ــ’’ روشن نقطہ‘‘ ، ’’ دو کہانیوں کی ایک کہانی ‘‘ او ر ’’ بابا جمالی شاہ کا جلال‘‘ شامل ہیں ۔ روحانی کیفیات کے حامل یہ افسانے مادّیت سے بھری دنیا کو قلبی راحت مہیا کرتے ہیں ۔ اِن افسانوں کاپس منظری مطالعہ کچھ یوں ہے کہ مادّی دوڑ میں مبتلا انسان کی روح پر کثافت کا غلاف اس قدر دبیز ہو چکا ہے کہ انسان کی اصل شناخت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
(۲) فلسفہ ٔ توحید
حیدر قریشی کے کئی افسانوں میں مسرت کے ازلی و ابدی مرکز یعنی فلسفہ ء توحید پر گفتگو ملتی ہے ۔ افسانہ ’’ روشن نقطہ‘‘ میں ضمنی موضوعات پر بات کرتے ہوئے غیر محسوس طور پر جب فلسفہء توحید کا ذکر چل نکلتا ہے تو افسانہ نگاراس حوالے سے درج ذیل نکات اَخذ کرتا ہے :
’’ (ا) جان بوجھ کر بھٹکنے والے لوگ غیر معمولی ہوتے ہیں ۔
(ب) محبت خودمحبوب اور محب کے درمیان پردے کا نام ہے۔
(ج) پردہ ہمارے اپنے اندر ہوتا ہے۔ اگر یکتائی کے سفر درست طور پر کیے جائیں
تو سارے پردے چاک ہو جاتے ہیں ۔
(د) علم ایک نقطہ ہے جسے جاہلوں نے بڑھا دیا ہے ۔
(ر) الف تو بہت زیادہ ہے۔ بات ایک نقطے میں تمام ہو چکی ہے۔ ‘‘ (۱۰)
حیدر قریشی نے توحید کے فلسفیانہ اور روحانی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔ یہ تمام نکات خاص قرینے سے پیش کیے گئے ہیں اور کسی مقام پر سپاٹ پن کا احساس نہیں ہوتا ۔ فکرو نظر کی ہم آہنگی اور توازن اس افسانے کے نمایاں اوصاف ہیں ۔
(۳) قومی سوچ کے دھارے
حیدر قریشی نے اگرچہ اس موضوع پر کچھ زیادہ نہیں لکھا لیکن قومی سوچ کا مسئلہ اُن کے نظام ِ فکر کا لازمی حصہّ ہے ۔ اُ ن کے دو افسانے ’’ دُھند کا سفر ‘‘ او ر ’’ اندھی روشنی ‘‘ میں قومی سوچ کے حوالے سے واضح اشارے ملتے ہیں ۔ افسانہ نگار نے ایسے لوگوں کو بے نقاب کیا ہے جو ہر وقت اپنی قوم کے ساست دانوں اور دفتری عہدے داروں کو بُرا بھلا کہتے ہیں ۔ ایک روز اتفاق سے افسانہ نگار کو ریل کے سفر میں ایسے ہی لوگوں سے واسطہ پڑ گیا جو حکومت پر گالیوں کی بو چھاڑ کر رہے تھے۔
’’ گالیوں کا سلسلہ بڑھنے لگتا ہے ۔ گالیاں ریلوے کے مختلف افسران سے ہوتی ہوئی ریلوے کے چیئرمین تک پہنچ چکی ہیں۔ پھر وزیر ریلوے بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں ــ‘‘ (۱۱)
افسانہ نگار کے نزدیک یہ نا پسندیدہ عمل ہے اسی لیے وہ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھ اور محسوس کر رہا ہے ۔ ’’ اندھی روشنی‘‘ میں اس بات پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے کہ آخر اپنے ملک میں گندم کے وافر ذخائر کی موجودگی میں دوست ملک سے گندم کیوں خریدی جا رہی ہے ،یہ ’’دوست ملک ‘‘محض ذاتی اغراض کی خاطر گندم کی خریدو فروخت میں ملوث ہیں۔
(۴) تجزیا ت اور اُصول سازی
حیدر قریشی کا فکری نظام زندگی کے گہرے اور پیچیدہ تجربات سے جنم لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانوں میں تجربات اور مشاہدات کی ایک بھرپور دنیا آباد ہے، اس دنیا سے وہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں اُسے اصولوں کی صورت میں تخلیق نثر کا حصہ بناتے چلے جاتے ہیں ، مثلاً :
’’ مرد ہمیشہ عورت کو بہکاتا ہے اور پھر اپنی ساری غلطیوں کی ذمہ داری بھی عورت پر ہی ڈال دیتا ہے اور عورت ․․․․․․ وہ اپنی سادگی کے باعث ہر ناکردہ گناہ کو بھی اپنا گناہ تسلیم کر لیتی ہے۔ آدم اور حوا سے لے کر آج تک یہی ہو رہا ہے ــ‘‘ (۱۲)
افسانہ ’’ اندھی روشنی ‘‘ کا یہ جملہ ملاحظہ ہو:
’’ سچ کا کوئی لباس نہیں ہوتا اسی لیے ننگا نظر آرہا ہے ۔‘‘ (۱۳)
اُصول سازی کے حوالے سے یہ جملہ بھی اہمیت کا حامل ہے :
’’ جان بوجھ کر بھٹکنے والے لوگ غیر معمولی ہوتے ہیں ۔‘‘ (۱۴)
ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں :
’’من حیث القوم ہم مردہ پرست ہیں ‘‘ (۱۵)
حیدر قریشی نے مختصر افسانے کے تمام اہم امکانات کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیاہے کہ افسانہ اپنے تمام تر اجتماعی ، تہذیبی اور فنی مضمرات کے باعث ایک ذاتی صحیفہء اظہار بھی ہے۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی لکھتے ہیں :
’’ حیدر قریشی کے افسانے میں تجربے کا نقش ہے ، مشاہدے کی باریکی ہے ، زندگی کے فلسفے کی جھلک ہے اور اشارات و کنایات ہیں ۔ ساتھ ہی تفہیم کی فکر نمایاں ہے ‘‘ (۱۶)
حیدر قریشی زندگی کے بظاہر عمومی رویوں سے خصوصی نتائج اخذ کرتے ہیں ۔ یہ نتائج یا اصول پائیدار ہونے کے علاوہ اپنا ایک وسیع اطلاقی نظام بھی رکھتے ہیں ۔
(۵) منفی سماجی رویّو ں کی عکاسی
حیدر قریشی کے افسانوں میں جہاں صوفیانہ اور روحانی عقا ئد و نظریات پر مشتمل موضوعات نظر آتے ہیں وہاں زندگی کے ٹھوس مسائل پر بھی اُ ن کے افسانے ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں ۔ اُنھوں نے اپنی کہانیوں میں معاشرے کی سبلی قوتوں کو جاگر کرنے کے لیے جو کچھ لکھا اُسے پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں ۔
پروفیسر جیلاانی کامران نے لکھا تھا :
’’ سچائی نے ہمارے زمانے میں افسانے کا لباس پہن لیا ہے ‘‘ (۱۷)
حیدر قریشی کے افسانے اس فکر کی تائید کرتے ہیں ؛ خصوصاً اُن کے دو افسانے ’’ انکل اَنیس ‘‘ اور ’’ بھولے کی پریشانی‘‘ منفی سماجی رویوں کی عمدہ ترجمانی کرتے ہیں ۔
’’ اَنکل انیس‘‘ سماج کے ایسے دُکھتے رویّوں کو موضوع بناتا ہے جو عام ہونے کے باوجود نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ،اگر کسی ادیب کا تخلیقی ذہن فعال ہو تو نئے سماجی رشتوں سے ادب کے نئے افق ا و رفکر کے نئے زاویے تلاش کیے جا سکتے ہیں ؛ ’’ انکل انیس‘‘ ایسے ہی لمحوں کی داستان ہے جب اَخلاقی بحران سماجی عملیت کو متاثر کر کے فرد کے مثبت رویوں میں اضمحلال کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔
انکل اَنیس کا کردار سبلی صفات کا حامل ہے، ایک طرف تو وہ اپنے دوست انور کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کیے ہوئے ہے اور دوسری جانب خواتین کے سماجی حقوق کے حوالے سے مہم بھی چلا رہا ہے ، اس مہم میں کچھ اور خواتین اس کے ہمراہ ہیں جو شہر شہر گھوم کر حقوقِ نسواں کا پرچار کرتی پھر رہی ہیں ، یوں انکل انیس معزز شہری کے روپ میں اپنی سبلی کارروائیوں میں مصروف رہتا ہے ۔
افسانہ نگار اس تمام صورتِ حال کا تجزیہ اِن الفاظ میں کرتا ہے :
’’ ہماری دنیا ، سارے معاشرے ، سارے فرقے ، سب کے نزدیک مجرم و ہی ہے جو پکڑا جائے ۔ جو مہارت کے ساتھ جی بھر کر گناہ کرے ،جرائم کا مرتکب ہو لیکن پکڑا نہ جائے وہ متقی ، پرہیز گار اور مومن ہے ‘‘ (۱۸)
انکل انیس اور اس کے ساتھ شامل خواتین شہر شہر گھوم کر عوام و خواص میں یہ پیغام عام کر رہے ہیں کہ مرد اور عورت کی باہمی تفریق ختم کر کے صرف انسان کی بات کی جائے تا کہ انسانیت کو فروغ حاصل ہو ۔ جب کہ افسانہ نگار کا مو قف یہ ہے :
’’ اگر یہ بات ہے تو پھر انسان کے زمرے میں صرف مرد اور عورت کو ہی نہ سمجھیں مخنثوں کو بھی اس میں شامل کریں۔ انسانی برادری میں سب سے زیادہ تضحیک ، ظلم اور استحصال کا شکار تو مخنث طبقہ ہے ‘‘ (۱۹)
یہ مکالمہ حقیقت کا دوسرا رُخ دکھاتا ہے کہ ہم نے انسان کی تعریف اتنی محدود کردی ہے کہ اُس میں مخنث کو شامل کرنا بد تہذیبی خیال کیا جاتا ہے ۔ معاشرہ خواہ مشرقی ہو یا مغربی وہ اصلاً عدم مساوات پر اُستوار ہوتا ہے ، یہی عدم مساوات سماجی انتشار پیدا کرتا ہے ۔ افسانہ نگار نے معاشرے کے اس منافقانہ رویے کو بے نقاب کر کے اصل تلخ حقائق سامنے لائے ہیں ۔
جہاں تک حقوق نسواں کا تعلق ہے اُس ضمن میں افسانہ نگار نے اپنی رائے کا اظہار اِ ن الفاظ میں کیا ہے :
’’ خواتین کے لیے اتنے حقوق مانگئیے جتنے آپ اپنی ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کو دے سکیں ‘‘ (۲۰)
افسانہ نگار نے اس کہانی میں انسانی کردار کے دوغلے پن کو سامنے لایا ہے اور اُن رویوں پر کاری ضرب لگائی ہے جو منافقت پر مبنی ہیں۔ ہمارے آس پاس کتنے ہی کردار نیکی ، خیر ، شرافت،انسان دوستی اور دانش وری کا بہروپ اپنائے خود فریبی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ حیدر قریشی نے یہاں مصلحت کو شی کے بجائے حقائق نگاری کو ترجیح دی اور افسانوی ادب کے وسیع امکانات کو عملاً سچ کر دکھایا۔
شمس الرحمان فاروقی نے لکھا ہے :
’’ بڑی صنف وہ ہے جو ہمہ وقت تبدیلیوں کی متحمل ہو سکے ۔ ‘‘ (۲۱)
مختصر اُردو افسانے میں یہ صفات موجود ہیں لیکن اُن کی تکمیل اور حصول کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ لکھنے والا بذاتِ خود اعلیٰ تخلیقی اور تخیلی وژن کا مالک ہو۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی رقمطراز ہیں :
’’ حیدر قریشی سیاسی ، تہذیبی اور ثقافتی سطح پر رونما ہونے والے انقلاب کو بھی دیکھ رہیں ․․․ــ․ اپنے افسانوں میں انسانی زندگی کے بیش تر مظاہر کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں ، اسی لیے اُن کے یہاں زمینی خوشبو، عصری تازگی ، نئے تخلیقی روّیے اور برتاؤ کی توانائی ملتی ہے ‘‘ (۲۲)
اصل میں برتاؤ کی یہی توانائی کہانی کو تہہ در تہہ بناتی ہے ۔ تخلیقی عمل اور کہانی پن کی ایک اپنی مابعد الطبیعیات ہوتی ہے جو سماجیاتی اقدار کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اُنھیں تجزیاتی عمل سے گزارتی ہے اور پھر وہ لمحہ آ جاتا ہے جہاں حقائق منکشف ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔
منفی سماجی رویوں کی دوسری نمائندہ کہانی ’’ بھولے کی پریشانی‘‘ ہے ۔ اس کہانی میں گاؤں کا ایک تہتر سالہ بوڑھا چوہدری بیوی کے مرنے کے بعد اپنے علاقے کی جوان عورت سے دوسری شادی کر لیتا ہے ۔ یہ عورت طلاق یافتہ ہے اور گاؤں سے بھاگ بھی چکی ہے ۔ چوہدری نے اپنی مردانگی چمکانے کی خاطر شادی تو کر لی مگر اُسے مطمیٔن کرنا اُ س کے لیے ممکن نہ تھا ۔ آخر وہ مختلف حیلے بہانوں سے اپنے ملازم کو (جس کا نام بھولا ہے) بیوی کے کمرے میں بھیج دیتا ہے۔ چوہدری کی جوان بیوی بھولے کو گناہ پر مجبور کرنے کے بڑے جتن کرتی ہے لیکن بھولا بھاگ جاتا ہے ۔ جب وہ دوبارہ کسی کام سے مالکن کے کمرے میں جاتا ہے تو چوہدری کی بیوی بھولے کو نمک حرام ہونے کا طعنہ دیتی ہے اور اُدھر بچارہ بھولا دل ہی دل میں سوچ رہا ہوتا ہے :
’’ بتائیے بھلا میں نے نمک حرامی کی ہے خدا کی قسم میں نمک حرام نہیں ہوں ․․․
اور وہ بیڈ روم کی کنڈی باہر سے کس نے لگائی تھی؟ رب جانے کیا چکر ہے ‘‘ (۲۳)
یہ کہانی بہت انوکھی ہے اور طنز کی کاٹ اتنی گہری اور پہلو دار ہے کہ مزید تشریح اور تو ضیح کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ایسے موضوعات کو فنی رکھ رکھاؤ کے ساتھ صفحہء قرطاس پر بکھیرنے کے لیے افسانہ نگار ہونے کے علاوہ نفسیات کا پختہ شعور رکھنا بھی ضروری ہے ۔ سماج کے منفی پہلوؤں کو اُجاگر کرنا آسان کام نہیں ہے ۔ اس کے لیے نفسیاتی تکنیک ، احساس ، تجربہ اور مشاہدہ مل کر تخلیقی عمل کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔
حیدر قریشی کے افسانوں میں زندگی کے جیتے جاگتے مسائل کا گہرا شعو ر اور ادراک ملتا ہے ۔ انسان کا ہر نظام ِفکر چاہے وہ فلسفہ و حکمت ہو یا مذہب یا پھر فنون ِ لطیفہ کے مظاہر ، یہ تمام شعبے سماجی اور اقتصادی ماحول سے پوری طرح وابستہ ہوتے ہیں لیکن ادیب کا تخیل فکرو احساس کے اُن مدارج تک رسائی حاصل کر لیتا ہے جہاں دیگر مظاہرِ انسانی کے پر جلنے لگتے ہیں ۔ گوئٹے نے جو بات ایکر مین (EKERMANN) کو /۱۱جون ۱۸۲۵ء میں کہی تھی ۔ اُس کی صداقت ہر دور میں تسلیم کی جاتی رہی گی اُ س نے کہا تھا :
’’ ادبی تخلیق اپنے ماحول سے آگاہی اور اُ س کے اظہار کی طاقت کا نام ہے ۔ ‘‘ (۲۴)
حیدر قریشی کا مشاہدہ اور مطالعہ خاصا گہرا ہے اُنھوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ، محسوس کیا اور اپنی کہانیوں میں برتا ہے ۔ عصری معنویت اُن کو اتنی عزیز ہے کہ اُس کا عکس ’’ بھولے کی پریشانی ‘‘ میں تو نظر آتا ہی ہے دوسرے افسانوں میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ۔
(۶) ایٹمی جنگ کا مسئلہ
حیدر قریشی نے جہاں اپنے قُرب و جوار کے اہم سماجی موضوعات پر افسانے تخلیق کیے وہاں عالمی مسائل کے بدلتے منظر نامے بھی اُن کی کہانیوں کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ ایٹمی جنگ ایک ایسا موضوع ہے جس پر دنیا کی تقریباً ہر بڑی زبان میں لکھا گیا ہے ۔ اُردو ادب میں اس موضوع کو اگرچہ کم برتا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ موضوع اجنبی نہیں ہے ۔
حیدر قریشی نے اس عالمی مسئلے پر تین یادگار افسانے تحریر کیے جن کے موضوعات درج ذیل ہیں :
۱۔ حوّا کی تلاش ( مشمولہ : ’’روشنی کی بشارت‘‘)
۲۔ گلاب شہزادے کی کہانی ( مشمولہ : ’’روشنی کی بشارت‘‘)
۳۔ کاکروچ ( مشمولہ: ’’ قصے کہانیاں‘‘ )
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی نے ان افسانوں کی پہلی اشا عت کا کھوج لگایا ہے ۔ اُن کی تحقیق کے مطابق یہ اشاعتی سلسلہ اس طرح عمل میں آیا :
’’ پہلا افسانہ ’’ حوا کی تلاش ‘‘ سہ ماہی’’ اوراق‘‘( لاہور) کے فروری ، مارچ ۱۹۸۱ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا، دوسرا افسانہ ’’ گلاب شہزادے کی کہانی ’’ اوراق‘‘ ہی کے اپریل ، مئی ۱۹۸۲ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔ تیسرا افسانہ ’’ کاکروچ‘‘ ما ہنامہ ’’صریر‘‘ (کراچی، فروری ۱۹۹۲)ء سائنسی ممکنات کے بیان پر مشتمل ہے۔ ‘‘(۲۵)
اُردو ادب میں تقسیم ہند کے فسادات ،عالمی جنگوں اور تحریکوں کے حوالے سے افسانے اور ناول لکھنے کی روایت خاصی زرخیز ہے ۔ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے اثرات بھی فکشن پر صاف محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ معروف ادبی رسالہ’’ نیا دور‘‘ کا’’ فسادات نمبر‘‘ اور اس حوالے سے دیگر رسالوں کے خاص نمبروں کا مطالعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اُردوادب علاقائی ،ملکی اور عالمی مسائل سے کبھی غافل نہیں رہا اور ہر عہد میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا آیا ہے ۔
حیدر قریشی کے جنگ نامے ’’ حوا کی تلاش‘‘ ، ’’ گلاب شہزادے کی کہانی‘‘ اور ’’کاکروچ ‘‘ اس تاریخی روایت کا تسلسل ہیں ۔ اُ ن کے فکری نظام میں تمام انسانی برادری کے مشترکہ مسائل کی جھلکیاں ملتی ہیں ۔
عالمی جنگ کے تناظر میں حیدر قریشی کا پہلا افسانہ ’’ حوا کی تلاش ‘‘ سامنے آتا ہے جس میں ایٹمی جنگ کی خون ریزی اور بر بریت کو موضوع بنا کر یہ منظر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ایٹمی جنگ کے بعد کرہِ ارض سے تمام بنی نوع انسان کا صفایا ہو گیا تو دنیا میں نئے انسان کی شروعات کیسے ہو گی ؟ افسانے کا ماحول خاصا پیچیدہ ہے ۔ فضا آ فرینی کا تاثر گہرا کرنے کی خاطر قرآنی آیات و تلمیحات ، انجیلی حکایات ، ماضی کے استعارے اور عبرت انگیز مناظر کا بھر پور استعمال کیا گیا ہے ۔ چند ایک مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قرآنی آیات درج کر کے اُن کی تاویل و تشریح کی جارہی ہے ، بہر حال یہ اُن کا ادبی حق ہے کہ وہ افسانے کی بُنت میں کون سا طریقِ کار زیادہ موزوں خیال کرتے ہیں ۔
یہ افسانہ پُر اثر ہے اور ثابت کرتا ہے کہ اگر ایٹمی جنگ ہو ئی تو کس طرح روئے زمین سے انسان کے تمام آدرشوں کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ ’’ حوا کی تلاش‘‘ صیغہ واحد متکلم میں لکھا گیا ہے اور آغاز میں یہ طبع زاد شعر دیا گیا ہے :
مرے بدن پہ ترے وصل کے گلاب لگے
یہ میر ی آنکھوں میں کس رُت میں کیسے خواب لگے (۲۶)
کہانی کا مرکزی کردار ایٹمی جنگ کے بعد زندہ بچ جاتا ہے اور وہ حیرت و استعجاب کے عالم میں ایک نا معلوم سمت میں چلتا جا رہا ہے ۔ راستے میں ایک جگہ اُسے یہ دل خراش منظر نظر آیا اور وہ رُک گیا:
’’ میں نے اپنے سامنے بکھرے ہوئے ایٹم بم کا شکار ہونے والے منظرکو دیکھا اور مجھے اصحابِ فیل کی خوش قسمتی پر رشک آنے لگا جو صرف کھائے ہوئے بھوُسے کی مانند کر دیے گئے تھے ۔ ‘‘ (۲۷)
افسانہ نگار کے نزدیک اس جنگ کی ذمہ داری مشرق و مغرب دونوں پر عاید ہوتی ہے ۔ اگرچہ جنگ کے پس منظر میں
’’ تیل کی دولت‘‘ چمک رہی تھی جسے بقول افسانہ نگار :
’’ دونوں بڑی قوتیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی تھیں ‘‘ (۲۸)
آخرش دُنیا نے ’’ ایٹم برائے اَمن‘‘ کا عملی نمونہ دیکھ لیا۔ اَب ہر طرف اَمن ہی اَمن ہے ، سکون ہی سکون ہے ۔ ایٹمی تباہی نے مزید ایٹمی جنگوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا ہے ۔ کہانی کا کردار کہتا ہے:
’’ ایٹمی جنگ نے آدم کی نسل کو صفحہء ہستی سے نیست و نابود کر دیا تھا ، اور اب ابنِ آدم ہونے کے ناطے اس وقت مجھے اپنا سب سے پہلا فریضہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو آدم کی نسل کو اس دھرتی پر قائم رکھا جائے ۔ شاید میں اس نئے عہد کا آدم ہوں۔ مگر حوّا ․․․․․․؟‘‘ (۲۹)
اس نئی حوا کو پانے کے لیے ’’ میں ‘‘ کا سفر جاری ہے ۔ ’’ میں ‘‘ کا کردار پورے افسانے پر حاوی ہے۔ افسانے میں ایک کردار ’’ روشنی‘‘ کا بھی ہے ۔ یہ روشنی کائنات کی ازلی و ابدی سچائی ہے اور ہر لمحہ سبلی قوتوں کو کچل کر ایجابی قوتوں کی پاسداری کرتی ہے ۔ یہ وہی روشنی ہے جو آسمانی صحائف کی صورت میں ہدایت اور عبرت کا سامان مہیا کرتی ہے ۔
کہانی کے مرکزی کردار ’’میں‘‘ کی تلاش بار آور ثابت ہوتی ہے اور بالآخر اُسے حوا مل جاتی ہے۔ دونوں آپس میں لپٹ جاتے ہیں ۔ ایسے موقع پر حیدر قریشی کا اپنا شعر اس منظر نامے کی بہتر ترجمانی کرتا ہے:
قسمتوں نے ملا دیا ورنہ
تم کہیں کے تھے ،ہم کہاں کے تھے (۳۰)
یہ افسانہ رجائی نقطہء نظر کی عکاسی کرتا ہے کہ اگر جنگ نے دنیا کا خاتمہ کر دیا تو آباد کاری کا عمل دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ اُمید کی اس کیفیت میں دکھ اور اُداسی کی کیفیات بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ’’ حوا کی تلاش‘‘ میں افسانہ نگار کا انفرادی شعور اجتماعی شعور سے ہم آہنگ ہوتا نظر آتا ہے ۔
نجمہ رحمان نے لکھا ہے :
’’ تخلیقات محض فرد کی تمنائیں اور خواب نہیں ہوتے بلکہ معاشری
اور ماحول کی آرزوئیں بھی ہوتی ہیں جس کے عناصر سے مل کر خود
اُس کی شخصیت تشکیل پاتی ہیں ‘‘(۳۱)
افسانہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایٹمی جنگ میں مشرق اور مغرب دونوں برابر کے شریک ہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ اب وہ وقت آچکا ہے جب مشرق و مغرب کو اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں مل بیٹھنا ہو گا۔ اور دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے کی خاطر دونوں کو گلے ملنا پڑے گا۔
حیدر قریشی کا دوسرا افسانہ ’’ گلاب شہزادے کی کہانی ‘‘ ایٹمی جنگ کے نئے رخ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ یہ داستانوی رنگ میں لکھا ہوا افسانہ ہے ۔ جو اصل کہانی کو چار درویشوں کی زبانی آگے بڑھاتاہے ۔ افسانے میں مرکزی خیال کے متوازی کچھ ذیلی موضوعات بھی پیش کیے گئے ہیں ، لیکن کہانی کی مرکزیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے ۔ اس افسانے میں ہر درویش اپنی رام کہانی سناتا ہے اور تینوں درویش اپنی کہانیاں سنانے کے بعد دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
پہلا درویش جو اُن کی موت کا ذمہ دار ہے اور اپنی مکاری اور حکمت عملی کی وجہ سے خود کو بچائے رکھتا ہے اُن کے مرنے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ اب اس صحرائی علاقے کے تیل کی دولت کا میں تنہا مالک ہوں۔ ایٹمی جنگ میں جتنے بھی لوگ بچ گئے ہوں گے ۔ سب میری رعایا ہیں ․․․․․․․ اور میں اس نئے عہد کا حکمران ․․․․․․․․․․ عظیم حکمران ۔‘‘ (۳۲)
زندہ بچ جانے والا درویش لق و دق صحرا میں تنہا رہ جاتا ہے ۔ اور پیاس کی شدت میں ادھر اُدھر خوار ہونے کے بعد ایک آبی چشمے پر پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے ۔ یہ مقام ِ عبرت ہے کیونکہ بقول افسانہ نگار :
’’ اُس کی مردہ آنکھیں بھی پانی کے چشمے کو تیل کا چشمہ سمجھ رہی تھیں۔‘‘(۳۳ )
افسانے کا مرکزی فکری موڑ اس جملے میں بیان ہوا ہے :
’’ گلاب شہزادے کی کہانی مکمل ہو چکی تھی مگر نہ کوئی اُسے سنانے والا تھا اور نہ سننے والا!‘‘ (۳۴)
ا س افسانے میں ایک بار پھر اس حقیقت کو دہرایا گیا ہے کہ عرب ممالک کے تیل پر نظر رکھنے والے نادان دشمن اس حوالے سے خسارے میں رہیں گے کہ وہ ایٹم کی قوت سے تمام دنیا کو فنا کرنے کے بعد با لآخر خود بھی نیست و نابود ہو جائیں گے۔ اور روئے زمین پر اُن کی حالت زار پر رونے والا کوئی نہیں ہو گا ۔ اس کہانی کا انجام دیکھنے کے بعد قاری کی نظر پھر اُس شعر پر جا اٹکتی ہے جس سے افسانے کا آغاز ہوا تھا :
ہوا شکار جب اُس کا مکمل
وہ اپنے خون میں ڈوبا ہواتھا (۳۵)
ڈاکٹر ظفر قدوائی محولہ بالا شعر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ حقیقت میں یہی شعر اِ ن چاروں مناظر کی روح اور اس افسانے کا مرکزی خیال ہے․․․․․․․ جسے مصنف نے علامتوں ، تلازموں ، استعاروں اور تشبیہوں کے ملبوس میں سجا کر پیش کیا ہے ۔ ‘‘ (۳۶)
حیدر قریشی نے یہی موضوع ’’حوا کی تلاش ‘‘ میں برتا ہے ،لیکن اُس کاا نجام رجائیت پر کیا ہے ۔ ’’ گلاب شہزادے کی کہانی‘‘ میں رجائیت کے برعکس مایوسی اور محرومی کا رنگ اتنا گہرا ہے کہ قاری سکتے کی کیفیت میں آجاتا ہے ۔
سلیم انصاری کہتے ہیں : ’’ حیدر قریشی ایک فعال اور Dynamic تخلیق کار ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ اُن کی تخلیقات میں اُسلوب اور پیرائیہ اظہار مسلسل ارتقاء پذیر رہتا ہے جو اُن کی تخلیقی توانائیوں کی ضمانت ہے۔‘‘ (۳۷)
حیدر قریشی نے موضوع کی نوعیت اور ضرورت کے تحت اپنا اُسلوب بدلا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی موضوع پر افسانے پڑھنے کے باوجود یکسانیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ یہ بحیثیت افسانہ نگار اُن کی کامیابی کی علامت ہے ۔ اُن کا فن ایک مہذب اور تربیت یافتہ ذہن کی پیداوار ہے۔ اُن کے تجزیات اور مشاہدات تہذیبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ افسانے کا حصہ بنتے ہیں۔
حیدر قریشی نے ایٹمی جنگ کے حوالے سے تیسری اور آخری کہانی کا نام ’’ کاکروچ‘‘ رکھا ہے ۔ اس افسانے میں کہانی کار نے یہ مسئلہ زیرِ بحث لایا کہ اگر ایٹمی جنگ کے بعد کچھ لوگ زندہ بچ گئے تو دنیا کا نقشہ کیسا ہو گا ؟ کہانی کے آغاز میں ایک دوست دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے بتاتا ہے :
’’ــ اس کہانی کا آغاز ایٹمی جنگ کے بعد کے انسان سے ہوتا ہے ۔ میں اور ایک عورت اس جنگ میں معجزانہ طور پر بچ جاتے ہیں ۔ ‘‘ (۳۸)
یہی زندہ بچ جانے والا جوڑ اکہانی آگے بڑھاتا ہے ۔ خاندان میں پیدا ہونے والے بچوں کو اُس جدید عہد کے بارے میں بتایا جاتا ہے ، جس میں لوگ ریڈیو، ٹی وی ، ٹیلی فون ، فیکس اور کمپیوٹرا ستعمال کر رہے تھے۔ بچے ان باتوں کو اس انداز سے سنتے ہیں گویا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ افسانہ اُس وقت ڈرامائی موڑ اختیار کر لیتا ہے جب ایک دوست (نصیر حبیب) یہ سوال پوچھتا ہے:
’’ــ ایٹمی جنگ کے بعد سطح زمین پر کسی انسان کا زندہ بچ رہنا سائنسی طور پر ممکن نہیں ۔
اس لیے بچ رہنے والوں کو آپ کس بنیاد پر بچا رہے ہیں ۔ ‘‘ (۳۹)
کہانی کار احباب سے صلاح مشورے کے بعد کاکروچ کے بارے میں سوچتا ہے کہ صرف یہی ایک ایسا جان دار ہے جس پر تابکاری اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ اُس کے جسم میں خون کی ایک الگ تھیلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے نیوکلیائی زہر اثر اندازنہیں ہو سکتا ۔ کہانی کار یہ بات کہہ چکنے کے بعد نتیجہ اخذ کرتا ہے :
’’ دوستوں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم آج کے انسان ہزاروں
سال پہلے کے کسی زمانے کے کاکروچ ہوں ! ‘‘ (۴۰)
اس کہانی میں قاری کی دل چسپی اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب نصیر حبیب زندگی کے تغیر و تبدل پر اپنے معلوماتی ترکش کا ایک اور تیر چلانے لگتا ہے، رفتہ رفتہ پھر وجود کی خالص سائنسی بحث انسانی رنگ میں ڈھل جاتی ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں افسانہ نگار کا فن ایک جست بھر کر تفکر و تعقل کی راہ سے ہوتا ہوا تخلیقی وحدت میں مجسم ہو جاتا ہے ۔ حیدر قریشی کے افسانوں میں خالص سائنسی نظریات کی شمولیت جدید طرزِ اُسلوب کی دین ہے:
ڈاکٹر حنیف فوق لکھتے ہیں :
’’ ادب میں سائنسی نظر اور روش علمی نے نئے جہات فراہم کیے ہیں اور زندگی کو فکرِ ایجادات اور تنظیم انسانی کا راستہ دکھایا ہے۔‘‘ (۴۱)
حیدر قریشی نے ثابت کیا ہے کہ عصری آگہی کے بڑے بڑے مسائل و عوارض کو لفظی کفایت اور اختصار کی صورت افسانے کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
٭ افسانوں کے متفرق موضوعات
حیدر قریشی کے جن موضوعات پر بات ہو چکی ہے ، یہ اُن کے نمائندہ موضوعات ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی اُن کے افسانوں میں چھوٹے بڑے موضوع اپنی جھلک دکھا جاتے ہیں ۔ مثلاً اُن کا افسانہ ’’ بے ترتیب زندگی کے چند ادھورے صفحے ‘‘ اصل فلسفہء تقدیر کے اَسرار پر مشتمل ہے ۔ ایک اور افسانہ ’’ پتھر ہوتے ہیں وجود کا احساس‘‘ رومانوی فضا کو ہموار کرتا نظر آتا ہے۔ یہ رومانوی تجربہ ادھر اُدھر کی سیر کرتے ہوئے صوفیانے تجربے میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ افسانہ ’’ غریب بادشاہ‘‘ میں محبت کی پرواز آدھے راستے میں ختم کر دی گئی ہے۔ حیدر قریشی کا ہاں خالص رومانیت کی تلاش مشکل ہے۔ ’’ اندھی روشنی‘‘ میں رومانوی جذبہ سماجی اور قومی شعور میں ضم ہو جاتا ہے ۔
’’ شناخت ‘‘ میں تقسیم کا مسئلہ اُبھارا گیا ہے اور ایک خاص زاویے کو متعارف کرانے کی عمدہ کاوش ہے۔ حیدر قریشی کا فنکارانہ کمال یہ بھی ہے کہ وہ پرانے موضوع کو نئے انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ دورِ جدید میں گلزار اور اسد محمد خان نے بھی تقسیم کے نئے جہات روشناس کرائے ہیں۔’’ کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘ میں اُن لوگوں کا تذکرہ ہے جو جرمنی کی بودو باش اختیار کرنے کے لیے جرمن حکومت کو مختلف حیلے بہانوں سے اُلو بناتے ہیں ۔
(ب) فنی اور اُسلوبیاتی مطالعہ
حیدر قریشی کے افسانے جہاں فکری اوصاف کی بدولت قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ وہاں فنی اور اُسلوبیاتی حوالے بھی لائق توجہ ہیں ۔ اِن تمام اُمور کا فہم حاصل کرنے کے لیے اہم موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا۔
(۱) پلاٹ
ڈاکٹر سیلم اختر نے اپنی تصنیف ’’ تنقیدی اصطلاحات ‘‘ میں پلاٹ کی جامع تعریف اِ ن الفاظ میں بیان کی ہے:
’’ ڈرامے ، نظم یا فکشن میں واقعات کا ایسا لائحہ عمل اورترتیب و تنظیم جس
سے سامع یا قاری میں دل چسپی یا تجسس برقرار رہے۔‘‘ (۴۲)
حیدر قریشی کے تقریباً تمام افسانوں کے پلاٹ فنی اعتبار سے پختہ ہیں البتہ موضوع کے برتاؤ (Treatment) کی وجہ سے اُن کے ہاں سادہ اور پیچیدہ دونوں قسم کے پلاٹ نظر آتے ہیں ۔ سادہ پلاٹ کے حامل افسانوں میں’’ آپ بیتی‘‘ ،’’ غریب بادشاہ‘‘ ،’’ مامتا‘‘ ،’’ اندھی روشنی‘‘،’’ کاکروچ‘‘ ، ’’شناخت‘‘ ،’’ مسکراہٹ کا عکس‘‘ اور’’ بھولے کی پریشانی ‘‘نمائندہ مثالیں ہیں ، جبکہ پیچیدہ پلاٹ کے افسانے ’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘ ،’’ دُھند کا سفر‘‘ ،’’ ایک کافر کہانی‘‘ ،’’ حوا کی تلاش ‘‘، ’’ پتھر ہوتے وجود کا دُکھ‘‘،’’ روشن نقطہ‘‘ اور’’ بھید ‘‘ بطورِ مثال پیش کیے جا سکتے ہیں ۔
اِ ن افسانوں میں تصادم کی نوعیت عمودی اور اُفقی سطحوں پر نمودار ہوتی ہے۔
حیدر قریشی نے پلاٹ کی بنت میں مواد اور تکنیک دونوں کے توازن کا خاص خیال رکھا ہے۔اُن کے پلاٹ کی بندش اتنی چست ہوتی ہے کہ قاری دوران ِ مطالعہ اپنی دل چسپی تمام مقامات پر برقرار رکھتا ہے۔پلاٹ کی فنی وحدت میں افسانہ نگار کی ذہانت اور ریاضت صاف محسوس ہوتی ہے۔وہ پلاٹ میں شامل تمام کردار اور واقعات کی کیفیات اور اُسلوبی تلازمات کو ممکنہ حد تک ایک لڑی میں پرو کر رکھتے ہیں، اگر کسی مقام پر جھول کی کیفیت پیدا ہونے لگے تو فوراً اُس کا سدباب بھی کرتے ہیں۔
(۲) وحدتِ تاثر
وحدتِ تاثر کی کیفیت نظم و نثر کی کئی اصناف سے مخصوص ہے لیکن افسانے اور ڈرامے کی ذیل میں اسے کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ حیدرقریشی کے افسانوں میں وحدتِ تاثر کا عمل قاری کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔ اُن کی پیش کردہ کہانی میں موجود مختلف کردار ، منظر کشی، جزئیات ، تذبذب ، کش مکش اور پلاٹ کی پیش کش اتنی مربوط ، متحد اور منظم ہوتی ہے کہ پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے ۔ اُن کی کہانیوں میں فنی و فکری لوازم کی وحدت خاص توجہ چاہتی ہے،کہانی کی منطقیانہ دروبست افسانے کی قدروقیمت میں اضافہ کرتی ہے ۔ وہ مطلب کی بات کم سے کم الفاط میں بیان کرنے پر قادر ہیں ۔
(۳) کردار نگاری
حیدر قریشی نے اپنے بیش تر افسانوں میں جیتے جاگتے کردار متعارف کرائے ہیں جونمو پذیری کے اوصاف سے مزین ہیں ۔،’’چوہدری اللہ دتہ‘‘،’’ انکل انیس‘‘ اور’’ بھولے ‘‘جیسے کردار ہمارے اردگرد موجود ہیں جن سے ہمارا روزمرہ کی زندگی میں واسطہ بھی پڑتا ہے ۔ حیدر قریشی نے ایسے ہی کرداروں کو اُن کے باطنی اوصاف کی روشنی میں متعارف کرایا ہے ، البتہ کچھ افسانوں میں ایسے کردار سامنے آتے ہیں جو کسی قدر خیالی اور تخیلی ہیں مثلاً ایٹمی جنگوں کے حوالے سے جو افسانے لکھے گئے اُن میں اس نوع کے کرداروں سے ملاقات ہو جاتی ہے لیکن اِ ن کی موجودگی کہانی کے فطری پن کو متاثر نہیں کرتی۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ تمام کردار زندگی کے اَن دیکھے زاویوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔حیدر قریشی کے کرداروں میں زندگی کا بھرپور تنوع اور تحرک نظر آتا ہے۔
(۴) شاعرانہ انداز بیان
حیدر قریشی نے اپنے کچھ افسانوں میں شاعرانہ وسائل کو بھی خوبی سے برتا ہے ،اول تو اُن کے ہر افسانے کی پیشانی پر ایک شعر ضرور موجود ہوتا ہے جو اصل کہانی کا علامتی اشاریہ ہوتا ہے ۔ یہ مثالیں دیکھئے :
٭ خزاں رسیدہ سہی پھر بھی میں اگر چاہوں
جہاں نگاہ کروں اک نئی بہار اُگے
( میں انتظار کرتا ہوں ، کلیات : ص ۱۶۳)
٭ ہو ا شہکار جب اُس کا مکمل
وہ اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا
(گلاب شہزادے کی کہانی ، کلیات : ص ۱۶۸)
٭ کسی کا جھوٹ جب اُس عہد کی سچائی کہلایا
ہمار ا سچ تو خو د ہی موردِ الزام ہونا تھا
(دُھند کا سفر ، کلیات : ص ۱۷۹)
٭ بدل جاتے ہیں اک لمحے میں ہی تاریخ کے دھارے
کبھی جو موج میں آکر قلند ر بو ل اُٹھتے ہیں
(روشنی کی بشارت ، کلیات : ص ۱۹۰)
شعروں کے علاوہ افسانوں میں شاعرانہ زبان کا استعمال بھی ملتا ہے ۔ یہ مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’ ماں مشرق کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں گہری سُرخی پھیلی ہوئی تھی ،لگتا تھا آسمان پر شفق پھوٹنے کی بجائے خون پھوٹ بہا ہے ‘‘ (۴۳)
’’ میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورجوں کا گواہ مٹی کا چراغ میرے ہاتھوں میں ہےــ‘‘ (۴۴)
شاعرانہ عناصر اصل میں اُسلوب کے لطیف اور جمالیاتی پہلوؤں کا اظہار ہیں ۔ اُردو ادب کے کئی اور کہانی کار شاعرانہ وسائل کو افسانے کا حصہ بناتے رہے ہیں ۔ خصوصاً اُردو ادب کا رومانوی دور افسانے میں شعری اسالیب کو فروغ دیتا رہا ہے ، ان میں سجاد حیدر یلدرم ، نیاز فتح پوری ، مجنوں گور کھپوری ، سلطان حیدر جوش ، ل۔ احمد اور چوہدری محمد علی رو دولوی خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔
(۵) خیال افروزی
سیّد عابد علی عابد نے اپنی تصنیف ’’اُسلوب‘‘ میں جہاں سادگی،قطعیت اوراختصار کو معیاری اُسلوب کے عناصر قرار دیا ہے وہاں اُسلوب کی درجہ بندی کرتے ہوئے اسے جذباتی،تخیلی اور جمالیاتی حصوں میں بھی تقسیم کر دیا تا کہ اس موضوع کے پیچیدہ پہلوؤں کو آسانی سے سمجھا جا سکے۔اسی تقسیم کے تحت اُنھوں نے خیال افروزی کو اُسلوب کی تخیلی صفت کے تابع رکھا ہے۔حیدر قریشی کے افسانوں میں خیال افروزی کے تلازمات اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ان کے افسانوں میں وہ مقامات جہاں موضوع پیچیدہ صورت اختیار کرتے ہیں وہاں اصل بات کی وضاحت کے لیے ایمائیت اور اشاریت کا سہارا لے کرمعنی آفرینی کے تقاضے پو رے کیے جاتے ہیں۔اُسلوب کا یہ منفرد انداز خیال افروزی کی بدولت جہانِ معنی کی سیر کراتا ہے۔
اُردو کے معروف نقاد دیویندر اسر لکھتے ہیں :
’’ حیدر قریشی کی کہانیوں کی دنیا ایسے کرداروں سے آباد ہے
جہاں سچائی کا المیہ اُن کی قسمت بن چکا ہے ․․․․․․․․ انسان
اپنی کُل ثقافت ، جامع تاریخ، اپنے تمام گناہ و ثواب کی پونجی
لیے اپنے آپ سے مخاطب ہے ۔‘‘ (۴۵)
حیدر قریشی نے اپنے افسانوں میں انفرادی ، اجتماعی اور آفاقی سطح پر جو سوال اُٹھائے ہیں دیویندر اسر کا اشارہ اُنھی فکری سوالات کی جانب ہے یہ فکری زاویے خیال افروزی کا زائیدہ ہیں۔ دیو یندر اسر اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ حیدر قریشی کی کہانیاں انسان ، خدا ، روح ، ثقافت اور ثقافتی وراثت کے ازلی
سوالوں کی کہانیاں ہیں ۔ ایسی کہانیاں اُردو میں بہت کم لکھی گئی ہیں۔ ‘‘ (۴۶)
خیال افروزی پر مشتمل ان سوالوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر حیدر قریشی کے افسانوں کی متن خوانی کرنا ہو گی ۔ خصوصاً ’’ گلاب شہزادے کی کہانی‘‘،’’ روشنی کی بشارت‘‘ ،’’ روشن نقطہ ‘‘ ،’’ گھٹن کا احساس‘‘ ،’’ بھید‘‘ اور’’ اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ‘‘ کا مطالعہ فکر و نظر کے کئی نئے گوشے منکشف کرتا ہے۔
(۶) تاریخی حکایات اور اقوال کا بر محل استعمال
حیدر قریشی نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات کو برتا ہے اُن کی وضاحت و صراحت کی خاطر شاعری ، حکایات، تمثیلات اور قرآنی آیات سے بھی رجوع کیا ہے ۔ اُن کا افسانہ ’’ ایک کافر کہانی ‘‘ میں ابراہیم بن ادھم ؒ ، رابعہ بصری ؒ ، حضرت بایزید بسطامی ؒ اور جنید ؒ و شبلی ؒ کے حوالے سے مرکزی خیال کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔
ایک اور افسانہ ’’ حوّا کی تلاش‘‘ میں بائبل کا حوالہ نظر آتا ہے اور چند مقامات پر قرآنی آیات کی تاویل ملتی ہے ۔
’’ روشن نقطہ‘‘ میں صوفیانہ اقوال کے تجزیات بکھرے ہوئے ہیں ۔ ’’ روشنی کی بشارت ‘‘ میں فریڈرک نطشے کو بنیا بنا کر افسانہ لکھا گیا ہے۔یہ امثال ضرورت کے تحت وجود پذیرہوئی ہیں اور ان کی شمولیت نے کہانی پن میں اضافہ کیا ہے۔
(۷) علامت کا استعمال
حیدر قریشی کے ہاں علامت کا محتاط اور سُلجھا ہوا استعمال ملتا ہے ، دوسری علامتوں سے قطع نظر اُن کے ہاں ’’ روشنی‘‘ کی علامت غالب رحجان کی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر ذکا ء الدین شایاں اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’ روشنی کی علامت اپنے استعاراتی اور تلمیحی زاویوں کے ساتھ تمام افسانوں پر حاوی ہے ۔ ‘‘ (۴۷)
’’ روشنی‘‘ کی علامت کئی افسانوں میں روپ بدل بدل کر اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔ کہیں یہ روشنی انبیاء کرام ؑ کے پیغام کو عام کرتی ہے اور کہیں جلوہء خداوندی کا نور اس علامت کے روپ میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ۔ دیگر علامتوں میں’’ پانی‘‘ اور’’ آگ‘‘ کا ذکر کیا جا سکتا ہے یا پھر’’ کاکروچ ‘‘کو بطورِ علامت متعارف کرانے کے منفرد پہلو قابل ِ ذکر ہیں۔
حیدر قریشی کی علامتوں کا نمایاں وصف اُن کا فوری ابلاغ ہے ۔ اُن کی علامتوں میں تجرید اور ابہام کے بجائے وضاحت او ر قطعیت ملتی ہے ۔ جس کی وجہ سے کہانی میں موجود فکرو نظر کے مطالعے روشن ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اِن کے افسانوں میں موجود تمام علامتیں کہانی کے ارتقائی سفر کو بطریق احسن رواں دواں رکھتی ہیں۔
(۸) سادگی
حیدر قریش کا اُسلوب ِ نگارش اصلاً سادگی پر اُستوار ہے،وہ دل کی بات کہنے کے لیے لمبی چوڑی داستان طرازی کے قائل نہیں ہیں۔اُن کے ہاں زبان و بیان کے تمام قرینے اسی سادگی سے پھوٹتے ہیں۔وہ مشکل سے مشکل موضوع کو آسان پیرائے میں بیان کرنے پر قادر ہیں۔ اُن کے افسانوں میں مطالعہ پذیری کے اوصاف اسی سادگی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔اُن کا ہاں سادگی کا استعمال بطور اُسلوبیاتی قوت متاثر کن ہے۔
(۹) اثر پذیری
افسانے کی صنف اپنی نزاکت اور تاثر کی وجہ سے عالمی ادب میں ممتاز مقام کی حامل ہے۔اس میں ایک آنچ کی کسر افسانے کو عرش سے فرش پر پہنچا دیتی ہے۔افسانے میں اگر دل چسپی اور تاثیر کے عناصر شامل نہ ہوں تو قاری محض چند سطریں پڑھ کر ہی اُکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔حیدر قرشی کے افسانے اپنی دل چسپی کی وجہ سے قبولِ عام کا درجہ رکھتے ہیں وہ کہانی کی فضا کچھ اس انداز سے تعمیر کرتے ہیں کہ قاری کی دل چسپی کا سارا سامان اُس میں موجود رہتا ہے۔افسانوں کی یہی اثر پذیری اُنھیں اُردو ادب کے اہم افسانہ نگاروں میں شامل کرتی ہے۔اُن کی ہاں موضوع کی ندرت بھی اس اثر پذیری میں اضافہ کرتی ہے، اگروہ کسی عام موضوع پر بھی افسانہ لکھیں پھر بھی اُس میں کوئی ایسا نادر پہلو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو عموماً نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ڈرامائیت اور اُچھوتا پن کہانی کو پُر اثر بناتے ہیں۔
(۱۰) فضا بندی
حیدر قریشی اپنے افسانوں کی فضا بنا نے میں بہت محنت کرتے ہیں،کہیں یہ فضا رومان اور تخیل کے بدلتے موسموں پر قائم نظر آتی ہے اور کہیں جنگ کی تباہ کاریاں اور طلسمی مناظر قاری کو ورطہ ء حیرت میں ڈالتے چلے جاتے ہیں۔کچھ افسانوں میں جدید اور قدیم تہذیب و ثقافت کا سحر انگیز منظر موضوع کی نئی معنوی پرتیں کھول رہا ہوتا ہے۔ خاص طور پرحیدر قریشی کے جنگ جامے(ایٹمی جنگ کے حوالے سے لکھے گئے تین افسانے) اس فضا بندی کی اہم مثالیں ہیں۔
حیدر قریشی کے افسانوں کو اگر مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تو اُن کے فنی و فکری محاسن پڑھنے والوں پر خوشگوار اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اُن کے افسانوں میں سیاسی و سماجی شعور کی سطح نہایت گہری او رعمیق ہوتی ہے بلکہ اسی عصریت نے اُن کے افسانوں کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔فنی اور تکنیکی تقاضوں پر اُن کی نظر اس بات کی شاہد ہے کہ وہ ادب کی اعلیٰ قدروں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تخلیقی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتے ہیں۔سماجی حقیقت نگاری اُن کا اصل میدان ہے۔اظہاریت میں تخلیقی رکھ رکھاؤ اور بر جستگی اُن کے اُسلوبی وژن کا اصل جوہر ہے۔