حیدرقریشی کی ادبی زندگی کا ایک اہم حوالہ تنقید نگاری بھی ہے۔ یہ پہلو جہاں اُن کی شخصیت اور ادبی سفر کے متنوع پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے وہاں معیاری اور متوازن تنقید کے نمونے بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں منصف مزاج اور معقولیت پسند نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ تہذیبی رکھ رکھاؤ اور اثر آفرینی اُن کے تنقیدی اُسلوب کے مضبوط ستون ہیں۔ حیدرقریشی کے تنقیدی سرمائے پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے خطوط، تقاریر اور مستقل تنقیدی مضامین کے ذریعے تجزیاتی عمل کو آگے بڑھایا ہے، نیز تبصرے اور کتابوں کے دیباچے بھی اسی عمل کا لازمی حصہ ہیں۔ جس دور میں ماہیے کی تحریک مختلف نشیب وفراز سے گذر رہی تھی اُس دوران حیدر قریشی نے صنفِ ماہیا کے کئی مسائل تنقیدی زاویوں سے واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ لہٰذا ماہیے کے حوالے سے اُن کی تنقیدات کو دیکھنا لازمی ہے۔
حیدر قریشی کی تنقید کا نمایاں وصف یہ ہے کہ اُن کے طریقِ کار پر جدیدیت، مابعد جدیدیت ، ساختیات یا ترقی پسندی وغیرہ کا کوئی لیبل چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تنقید کے عمومی اور روایتی اُصولوں کو جدید طرزِ اظہار کی بدولت وقیع بناتے ہیں اور حق گوئی کے راستے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں ۔ اُن کے تمام تنقیدی سرمائے پر بات کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تنقیدکی تعریف، موضوع اور حدوو پر اجمالی نظر ڈال لی جائے تاکہ آنے والے تمام موضوعات اور مسائل کو درست تناظر میں پرکھاجاسکے۔
(الف) تنقید کی تعریف ، موضوع اور حدود
حامد اللہ افسر تنقید کے لغوی اور اصطلاحی معنوں پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طرازہیں:
’’ تنقید کے لغوی معنی ہیں پرکھنا، بُرے بھلے اور کھوٹے کھرے کا فرق معلوم کرنا۔ بطور ادبی اصطلاح کے بھی اس لفظ کے استعمال میں اس کے لغوی معانی کا اثر موجود ہے۔ ادب کے محاسن اور مصائب کا صحیح اندازہ کرنا اور اس پر رائے قائم کرنا اصطلاح میں تنقید کہلاتا ہے، تخلیقی ادب حیاتِ انسان کی ترجمانی کرتا ہے اور تنقید تخلیقی ادب کی ترجمانی کرتی ہے۔‘‘ (۱)
جے۔اے گڈن (J.A Cuddon)نے تنقید کے اصلاحی پہلو میں قدرے وسعت پیدا کردی ہے، اُس کے مطابق:
"The art or science of literary criticism is deveted to the comparison and analysis,to the interpretation and evaluation of works of literature"(2)
اِن دونوں بیانات کی روشنی میں جو صورتحالِ حال سامنے آتی ہے اُس کے تحت تنقیدی عمل میں جانچ ،پرکھ، محاسن ومصائب کی نشاندہی کے ساتھ موازنہ ، تجزیہ، توضیح، تشریح اور ادبی قدروقیمت کا تعین بھی شامل ہوجاتا ہے۔دنیا کے تمام علوم وفنون میں تنقید کا عمل دخل واضح نظر آتا ہے لیکن زیرِ نظر بحث میں صرف ادبی تنقید سے سروکار رکھا گیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی لفظ ’’تنقید‘‘ کے اشتقاقی اور صرفی پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’لفظ ’’تنقید‘‘ عربی فارسی میں نہیں ہے اور تفضیل کے وزن پر یہ لفظ اُردو والوں کا ایجاد کیا ہوا ہے لیکن ’’نقد‘‘، ’’مناقدہ‘‘، ’’انتقاد‘‘ ، اور ’’نقاد‘‘ تو عربی میں موجود ہیں۔‘‘ (۳)
اس لفظ کے اولین استعمال کے بارے میں اُن کی رائے یہ ہے:
’’تنقید‘‘ کا لفظ ہمارے یہاں سب سے پہلے مہدی افادی نے ۱۹۱۰ء میں استعمال کیا۔‘‘(۴)
فاروقی صاحب کی یہ رائے بھی قابلِ توجہ ہے:
’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میں بھی تنقید، انتقاد یا نقاد جیسا کوئی لفظ نہیں برتا گیا ہے۔‘‘ (۵)
اِن تمام باتوں کے باوجود تنقید کا لفظ اُردو ادب میں ر ائج ہوگیا ہے اور اس کے عمومی اور اصطلاحی مفہوم میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہیں پایا جاتا۔ البتہ سید عابد علی عابد ’’تنقید‘‘ کا لفظ استعمال کرنے میں خاص احتیاط برتتے تھے اور اس کی جگہ ’’انتقاد‘‘ کو ترجیح دیتے تھے۔ اُن کی کتاب کا نام بھی ’’اُصولِ انتقادِ ادبیات‘‘ ہے۔ ماسوائے چند استثنائی صورتوں کے یہ لفظ اُردو ادب میں سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتا ہے اور عوام و خواص کی زبان پر رواں ہے۔
ڈاکٹروزیر آغا جدید اُردو تنقید کے افقی ، عمودی اور امتزاجی خصوصیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
’’تنقید کا کام ادب کی تقویم اور تشریح ہے۔ وہ نہ صرف ادبی تحریر کو غیر ادبی تحریر سے متمیز کرنے پر قادر ہے بلکہ ادبی تحریر کے معیار، ساخت اور مزاج کا تجزیہ بھی کرتی ہے۔‘‘ (۶)
ڈاکٹر وزیر آغا نے تنقید کے اصطلاحی معنوں میں مزید گہرائی پیدا کردی ہے۔ اس تعریف کی رُو سے فن پارے کے خصائص اور اُس کی نوعیت کا تعین کرنا بھی تنقید کی ذمہ داری کا لازمی جز ہے، نیز فن پارے کی مدلل توضیح اور جمالیاتی قدروں کا سراغ لگانا اس اہم عمل کا ناگزیر حصہ ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اُصولِ تنقید کے بنیادی مباحث کو سمیٹتے ہوئے درج ذیل سادہ تعریف متعارف کرائی ہے:
’’ادبی تخلیقات کے حسن وقبح کی میزان کو تنقید قرار دیا جاسکتا ہے،
اسی لیے تنقید کے عمل میں غیر جانب داری، غیر جذباتیت کے ساتھ
ساتھ علم ومطالعہ بھی لازم ہے۔‘‘ (۷)
تنقیدنگاری کا عمل خاصا پیچیدہ ہوتا ہے۔ کسی ادب پارے کی تفہیم، تعبیر ، توضیح اور تشریح کا عمل جہاں پوشیدہ باریکیوں کو منظرِ عام پر لاتا ہے وہاں فن پارے کی جمالیاتی جہات اور دیگر محاسن ومصائب کی گرہ کشائی بھی کرتا ہے۔
دنیائے ادب میں تنقید کے مختلف دبستان رائج چلے آرہے ہیں، ذیل میں صرف اُن دبستانوں کے نام لکھنے پر اکتفا کیا جارہا ہے جو اُردو ادب میں کسی نہ کسی حوالے سے اپنے اثرات مرتسم کرچکے ہیں:
(ب) تنقیدی دبستان
(۱) تاثراتی دبستان (۲)جمالیاتی دبستان (۳) مارکسی دبستان (۴) ترقی پسند دبستان (۵) عمرانی دبستان ( ۶)نفسیاتی دبستان (۷)سائنسی دبستان (۸) اُسلوبیاتی دبستان (۹) ساختیاتی دبستان اُردوادب میں تنقید کو مزید دو بڑے گرہوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے یعنی مشرقی تنقید اور مغربی تنقید۔ تاہم اگر معروضی سطح پر اِن دونوں کی گہرائی میں اُتر کر دیکھا جائے تو اشتراک کی کئی صورتیں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ مثلاً مشرقی اور مغربی اُصول تنقید میں درج ذیل نکات قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں:
۱۔ فن پارے کا تجزیہ
۲۔ تشریح وتوضیح
۳۔ قدروقیمت کا تعین
۴۔ تعبیر وتحلیل
۵۔ ادبی مقام کا فیصلہ
۶۔ جمالیاتی تجزیہ
۷ ۔ ترکیب وتشکیل
۸۔ خلوص
۹۔ معروضیت
۱۰۔ تخیل اور تفکر کی ہم آہنگی
۱۱۔ جدید علوم وفنون سے استفادہ
۱۲۔ وسعتِ مطالعہ اور وسیع النظری
ادب کی ترجمانی اور تشریح وتجزیہ کاکام تنقید کی اولین ذمہ داری ہے اس کا یہی منصب تخلیقی اصناف کو سندِ دوام عطا کرتا ہے۔
٭حیدرقریشی کے تنقیدی سرمائے کا تعارفی مطالعہ
حیدر قریشی کے دو تنقیدی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ حاصل مطالعہ (تنقیدی وتاثراتی مضامین)
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، طبع ۲۰۰۸ء
۲۔ تاثرات (مضامین اور تبصرے)
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی، طبع ۲۰۱۲ء
ان دونوں کتابوں کے مندرجات کی تفصیل کچھ یوں ہے:
(۱لف) حاصلِ مطالعہ (تنقیدی وتاثراتی مضامین)
اس کتاب کے چھے ذیلی عنوانات ہیں:
۱۔ ابتدائیہ
۲۔مابعد جدیدیت: اور عالمی صورتِ حال (مکالمہ)
۳۔ ماہیے پر مکالمہ (لوک گیت سے ادبی صنف تک)
۴۔ مختصرتبصرے، تاثرات
۵۔ادب میں سرقہ اور جعلسازی
۶۔ چند وضاحتیں اور اصل ادبی مسئلہ
اس کتاب میں اڑتیس(۳۸) مضامین، دومکالمے، سات تبصرے اور تاثرات، سرقہ اور جعلسازی پر تین مضامین اور ایک ادبی مسئلے کی وضاحت ملتی ہے۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر نذر خلیق کے نام ہے۔ کُل صفحات کی تعداد ۲۵۶ ہے۔ ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے تمام مضامین اور تاثرات پاک وہند اور دیگر ممالک کے ادبی رسائل وجرائد میں طبع ہوچکے تھے۔ اِن ادبی پرچوں کے نام یہ ہیں:
ماہنامہ’’ کتاب نُما‘‘(دہلی)، مجلہ’’ ملینیئم اُردو کانفرنس‘‘ (انگلینڈ)،’’ اخبارِ اُردو‘‘(اسلام آباد)’’ عکاس انٹرنیشنل ‘‘(اسلام آباد) ماہنامہ’’ تخلیق‘‘ (لاہور)’’ جدیدادب‘‘(جرمنی) ’’اوراق‘‘(لاہور) ’’شعروسخن‘‘ (مانسہرہ)’’ رابطہ‘‘ (دہلی) ماہنامہ’’ محفل ‘‘(لاہور) سہ ماہی’’ آواز‘‘ (نیویارک) ماہنانہ ’’پروازِ ادب‘‘ (پٹیالہ) سہ ماہی’’ تشکیل‘‘ (کراچی) اور ماہنامہ’’ شاہین ‘‘(ڈنمارک) شامل ہیں۔
(۲) تاثرات (مضامین اور تبصرے)
یہ کتاب بھی چھ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے:
۱۔ عرض ِحال(دیباچہ)
۲۔ اپنی تخلیقات کے حوالے سے
۳۔ مختصر تبصرے اور تاثرات
۴۔ فیض احمد فیض
۵۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند
۶۔ ادب میں دراندازی
اس کتاب میں تئیس( ۲۳) متفرق مضامین، اپنی تخلیقات کے حوالے سے تین وضاحتی مضامین، ۲۳ تبصرے اور تاثرات ، فیض احمد فیض کے حوالے سے ۴ مضامین بشمول ایک تقریر ، ڈاکٹر ستیہ پال آنند پر پانچ مضامین اور ادب میں در اندازی کے تحت چھے اختلافی اور تاثراتی مضامین شامل ہیں۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر شہناز بنی کے نام ہے۔ کل صفحات کی تعداد ۲۹۶ ہے۔ اس کتاب کے بیش تر مندرجات کم وبیش انھی ادبی رسائل میں اشاعت پذیر ہوچکے تھے۔ جن کا ذکر ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے ضمن میں آچکا ہے تاہم کچھ مضامین شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیر پور ، سندھ کے ادبی جنرل ’’الماس‘‘،کلکتہ یونیورسٹی کے ادبی جنرل’’دستاویز‘‘، روزنامہ’’ ہمارا مقصد‘‘(دہلی) اور روزنامہ’’ نادیہ ٹائمز(دہلی) میں شائع ہوئے تھے۔
(ج) دیگر تنقیدی مضامین کی تفصیل:
اِن دو مستقل تنقیدی تصانیف کے علاوہ کچھ تنقیدی مضامین ’’اُردو ماہیا تحقیق وتنقید‘‘ میں بھی مل جاتے ہیں، زیرِ نظر باب میں تمام مضامین کی موضوعاتی درجہ بندی کر کے زیرِ بحث لایا جائے گا تاکہ حیدر قریشی کا تنقیدی وژن نکھر کر سامنے آسکے۔
(الف) حیدر قریشی کے اہم تنقیدی موضوعات کا مطالعہ
حیدرقریشی کے تنقیدی موضوعات کا دائرہ خاصا وسیع ہے ذیل میں اُن کے تفصیلی جائزے پیش کیے جارہے ہیں۔
(۱) اُردو زبان وادب اور مغربی ممالک
اُردو زبان وادب کی یہ خوش نصیبی رہی ہے کہ تقریباً ہر دورمیں اسے امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک میں کسی نہ کسی حوالے سے پذیرائی ملتی رہی ہے۔ دنیاکے ہر براعظم میں اُردو زبان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔اِن میں جاپان، چین ، ترکی، بھارت، بنگلہ دیش، ایران، خلیجی عرب ممالک، روس، جرمنی، برطانیہ، اطالیہ، ناروے، سویڈن، ہالینڈ، ڈنمارک، آسٹریا، ماریشس، مصر، امریکہ اور آسٹریلیا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حیدر قریشی گذشتہ دو دہائیوں سے جرمنی میں مقیم ہیں اسی لیے وہاں کی ادبی صورتِ حال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ مغرب میں اُردو کے حوالے سے جو منظر نامہ تشکیل پاتا ہے۔ اُس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’ٹی وی چینلز، ریڈیو اسٹیشنزکے ذریعے بول چال کی حد تک اُردو اپنے بولنے والوں سے بہت زیادہ منسلک ہے۔ ادبی تقریبات ، کانفرنسوں، سیمیناروں اور مشاعروں کے ذریعے بھی اُردو جاننے والوں کے لیے مجلسی رونق مہیا ہو جاتی ہے۔ یہ ادبی اور ثقافتی تقریبات اُردو کی بقا کے لئے کچھ نہ کچھ معاون ضرور ثابت ہوتی ہیں۔‘‘ (۸)
’’امریکہ اور کینیڈا سے خاص طور پر مفت اخبارات کی اشاعت
کا ایک سلسلہ جاری ہے جو حیران کن بھی ہے اور قابلِ تعریف بھی۔
انگلینڈ سے بھی اخبارات کی اشاعت ہورہی ہے۔ جہاں جسے توفیق
ملتی ہے ادبی رسالہ نکال لیتا ہے۔‘‘ (۹)
یہ بظاہر خوش کن صورت حال ہے کہ دیارِ غیر میں اُردو کی وجہ سے گہماگہمی ہے،لیکن اُن کے فراہم کردہ زمینی حقائق کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں تارکینِ وطن کی جو نئی پودسامنے آرہی ہے وہ اپنی مادر بولی کو اور اُردو زبان کو آہستہ آہستہ بھولتے جارہے ہیں اور انگریزی ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے۔ برطانیہ میں مختلف سکیموں کے تحت اُردو پڑھنے والوں کو اضافی سہولتیں بھی مہیا کی جاتی ہیں مگر اس طرف توجہ کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حیدر قریشی یہ منطقی اور اُصولی نتیجہ اخذکرتے ہیں:
’’اگر برطانیہ میں اُردو کے لیے اتنی سہولیات ہونے کے باوجود یہاں سے پڑھ کر ۶۳برسوں میں ایک بھی اُردو کا صحافی ، ٹیچر یا ادیب پیدا نہیں ہوسکا تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اِن ملکوں میں اردو کا مستقبل پہلے سے موجود پرانے شاعروں، ادیبوں تک محدود ہے، یا پھر جب تک پاکستان اور انڈیا سے نئے تارکین ِوطن آتے رہیں گے تو اُن کے ذریعے ہی اُردو کا نام لیا جاتا رہے گا۔‘‘ (۱۰)
حیدرقریشی نے جہاں اہل ِزبان کی بے توجہی کا ذکر کیا ہے وہاں تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان احباب کی اولاد کے برعکس برطانیہ اور جرمنی کے مقامی افراد اُردو سیکھنے میں زیادہ سرگرمی اور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی(جرمنی) اور برطانیہ کے جنوبی ایشیائی مراکز میں ایسے شوقین ہرسال داخلہ لیتے نظر آتے ہیں۔
مغرب میں اُردو شعروادب کے ساتھ ایک زیادتی یہ بھی ہورہی ہے کہ پاک وہند کے بے شمار لوگ جو روزگار کے اعتبار سے خود مکتفی ہیں اور پہچان بنانے کیلئے شاعری کو زینہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں،یہ لوگ عروض سے آزاد شعر کہنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ یہی بے وزن شاعر اردو کے مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس پیسے کی فراوانی ہوتی ہے لہٰذا کچے پکے مجموعے بھی تواتر سے شائع کرواتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک گروہ ایسا ہے جو بے وزن شعر کہنے کے بجائے پاک وہند میں موجود پیشہ ور شاعروں سے پورے کے پورے مجموعے لکھوا کر شائع کروا دیتے ہیں۔ حیدر قریشی کے بقول:
’’ اس بیماری کی ذمہ داری بہر حال پاکستان اور انڈیا کے اُن اُستاد شاعروں پر عائد ہوتی ہے جو ایک معقول رقم لے کر نہ صرف پوری کتاب لکھ دیتے ہیں بلکہ کتاب چھپوا کر اُس کی رونمائی کی تقریب تک کا پورا پیکیج فراہم کرتے ہیں۔ یہ کاروبار افسوسناک حد تک بڑھتا جارہا ہے اور لوگ حقیقت جانتے ہوئے بھی جعلی شاعروں کی پذیرائی کررہے ہیں۔‘‘ (۱۱)
حیدر قریشی نے اس انداز کے تنقیدی جائزے مرتب کر کے اپنی تنقیدی بصیرت کا کینوس وسیع کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے ایک مضمون ’’ادب کی صورت حال‘‘ میں یہ گلہ کیا تھا:
’ ’ آج کا ادب عام طور پر فرد اور معاشرے سے مخاطب نہیں ہے۔ اس وقت ایک ایسا سناٹا ہے کہ جس میں حرکت کا عمل بند سا ہوگیا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں انسانی ومعاشرتی اقدار، صداقتوں کی تلاش اور زندگی کی معنویت دریافت کرنے کی کوشش بھی نظر نہیں آتی۔‘‘(۱۲)
حیدرقریشی کی تنقیدات میں یہ گلہ کسی حد تک دور ہوتا نظر آتا ہے۔ اُنھوں نے زبان وادب کو تہذیبی اور ثقافتی قدروں کو جس وسیع انسانی تناظر میں دیکھا اور دکھایا ہے اُس کی بدولت اُن کی تنقیدات سماجیات میں قابلِ قدر اضافہ کررہی ہیں۔ اپنے دور کی سچائیوں اور منافقتوں کو معروضی انداز سے پرکھنا ناقد کی اولین ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ حیدر قریشی نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے۔ وہ شاعری میں موجود منفی رجحانات پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا کے اچھے شاعروں کا ذکر خلوص اور محبت سے کیا ہے اور اُن کی عمدہ تخلیقات کو سراہتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
’’پہلی قسم جینوئن شعرائے کرام کی ہے جو اُردو ادب کے مرکزی دھارے میں بھی اپنی ایک واضح شناخت رکھتے ہیں۔ یورپ بھر میں موجود ایسے شعراء کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔‘‘ (۱۳)
اس طرح کے تجزیات و مشاہدات پیش کرنا حیدرقریشی کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس پر وہ قلم برداشتہ لکھتے ہیں ۔ اس حق گوئی کی وجہ سے مغرب میں موجود اُردو مافیا کے لوگ انہیں پسند کی نظر سے نہیں دیکھتے۔اُردو زبان و ادب کے اس المیے پر حیدرقریشی کے علاوہ ڈاکٹر جواز جعفری ، افتخار نسیم، خالد خواجہ، اور شمس الرحمن فاروقی بھی اظہارِ خیال کرچکے ہیں لیکن حیدر قریشی نے تلخ حقائق کو جس بے باکی کے ساتھ طشت از بام کیا اُس مثالیں کم کم ملتی ہیں۔ ڈاکٹر جواز جعفری نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے (پنجاب یونیورسٹی ،لاہور)’’اُردو ادب ، یورپ اور امریکہ میں‘‘ میں اُردو مافیا کے متعلق بلیغ اشارے کیے ہیں۔ حیدر قریشی نے بھی اپنے دیگر متفرق مضامین میں اس موضوع پر اشارے کرنے کے علاوہ پانچ مستقل تنقیدی مقالات سپردِ قلم کیے ہیں۔ اس موضوع پر تفصیلی معلومات اور اعداد وشمار حاصل کرنے کے لیے درج ذیل مضامین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
۱۔ تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردو کا منظر (مشمولہ:حاصل مطالعہ)
۲۔ یورپی ممالک میں اردو شعروادب۔ ایک جائزہ (مشمولہ:حاصل مطالعہ)
۳۔ مغربی ممالک میں اُردو کی صورت حال (مشمولہ: تاثرات)
۴۔ یورپ کی نو آباد اردو بستیوں میں اردو کا مستقبل (مشمولہ: تاثرات)
۵۔ مغربی ممالک میں اردو کی صورت حال (مشمولہ: تاثرات)
حیدرقریشی نے مغرب میں شاعری کے بر عکس نثر کی صورت حال پر کسی قدر اطمینان کااظہار کیا ہے:
’’مغربی دنیا میں نثر میں لکھنے والے نسبتاً کم تعداد میں ہیں، تاہم اُن میں افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے نثر نگاری کا بھرم رکھا ہوا ہے۔ ثقافتی تصادم کی بعض کہانیاں اُردو کی عمدہ کہانیوں میں شمار کی جاسکتی ہیں۔‘‘(۱۴)
حیدر قریشی جائز تعریف وتحسین کا حق ضرور ادا کرتے ہیں ا ور جہاں ادبی جعل سازی کی مذمت کرنی ہو اُس سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان تمام با توں کے ساتھ ساتھ وہ معیاری لکھاریوں کے کتابوں پر تعارفی دیباچے اور تبصرے تحریر کر کے اُن کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ۔ یہ اُن کی متوازن تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مغرب میں اُردو مافیا کے موضوع پر اپنے انٹرویوز میں ان مسائل پر ببانگ ِ دھل اظہارِ خیال بھی کیا ہے۔
(۲ ) تنقید نگاروں پر تبصرے اور تجزیے
اس حوالے سے حیدرقریشی کی درج ذیل چار تحریریں قابلِ توجہ ہیں، ان تبصروں کو ’’تاثرات‘‘ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
۱۔ ’’تاثر اور تنقید‘‘ عبدالرب اُستاد کے مضامین کا مجموعہ
۲۔ ڈاکٹر حامد اشرف کی تنقید نگاری
۳۔ نئے تنقیدی مسائل اور امکانات
۴۔ ڈاکٹر شہناز بنی کی تنقید نگاری
محولہ بالا تنقیدی مضامین میں حیدر قریشی نے دو خصوصی اہتمام کیے ہیں: اولاًزیر نظرتصنیف کا جامع تعارف اور ثانیاً متعلقہ تنقید نگاروں کے اندازِ نظر ، فکر اور مزاج کی تشکیل کا اجمالی تجزیہ۔ البتہ کہیں کہیں ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ زیرِ مطالعہ کتاب پر تبصرہ کرنے کے دوران کچھ ایسے اشارے بھی کر جاتے ہیں جن سے لکھنے والوں کی تربیت بھی ہو جاتی ہے ۔ ان اشاروں کا بڑا مقصد صاحبِ کتاب کو راست سمت پر ڈالنا ہے۔ مثلاً وہ اپنے تبصرے ’’ڈاکٹر حامد اشرف کی تنقید نگاری‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’وہ (ڈاکٹر حامد اشرف) ادب کو اُس کے مقامی پس منظر اور مقامی موجود معیارات کی رُوسے پرکھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مغربی ادب کے معیارات سے مزید واقفیت کے بعد وہ اپنے اسی مقامیت کے انداز کو عمدہ طریق سے آگے بڑھا سکیں گے۔‘‘ (۱۵)
آگے چل کر وہ اسی نکتے کو قدرے وضاحت سے بیان کرتے ہیں:
’’اب ضرورت ایسے ناقدین کی ہے جو مغربی ادب سے بھی واقفیت رکھتے ہوں نئے عالمی تناظر سے بھی باخبر ہوں اور ان سب کے ساتھ ادب کی اپنی مقامیت سے ہی اپنی شناخت کو ظاہر کرسکیں۔‘‘ (۱۶)
ایسے اصلاحی نکات بیان کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر پڑھنے والا اپنی انفرادی حیثیت میں عملاً مستفید ہوسکتا ہے۔ حیدر قریشی کی تنقید کاایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے اُن کے نمایاں پہلوؤں کو زیر بحث لاتے ہیں،مثلاً:
’’وہ (عبدالرب اُستاد) تاثر اور تنقید دونوں کو یکجا رکھتے ہیں‘ بلکہ دونوں کی یکجائی سے ہی متوازن تنقید کا بہتر تاثر سامنے آتا ہے۔‘‘(۱۸)
یہ حوصلہ بڑھانے والے کلمات ہیں۔ تنقید کا یہی ایجابی رویہ سماجی اور ثقافتی عناصر سے مل کر اپنی معنویت میں اضافہ کرتا ہے۔ حیدر قریشی جب کسی نقاد کے ہاں معیار و وقار کی کمی محسوس کرتے ہیں تو اُس کااظہار اس قدر لطیف اور دھیمے پیرائے میں کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اپنی اصلاح بھی کرلیتا ہے اور بُرا بھی نہیں مناتا۔ ایک جگہ آپ کرامت علی کرامت کے تنقیدی طریقِ کار پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وہ بعض اُمورمیں کسی بہتر نتیجہ تک پہنچنے کی بجائے کہیں آس پاس ہی رہ جاتے ہیں۔‘‘(۱۹)
اور اگر تعریف کرنی پڑے تو اُس کااظہار بھی وضاحت سے کرتے ہیں۔ کرامت علی کرامت ہی کے بارے میں یہ رائے ملاحظہ ہو:
’’ادب کی تفہیم کیلئے اُن کا رویہ سمجھانے سے زیادہ سمجھنے کا ہوتا ہے۔ فن پارے کے باطن تک رسائی کے لئے اپنی پوری سوجھ بوجھ کو بروئے کار لاتے ہیں۔‘‘(۲۰)
حیدرقریشی دوسروں کی تنقید نگاری میں جہاں اعلیٰ اور معیاری خیالات کی تحسین کرتے ہیں وہاں کمزوریوں اور علمی لغزشوں کی نشاندہی کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اصل میں ادب اُن کے نزدیک محض وقت گزاری کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ تہذیبی وثقافتی ذمہ داری کا حصہ ہے۔ وہ ادب کوایک ایسی سماجی دستاویز خیال کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی کمی کوتاہی‘ کمزوری اور اخلاقی گراوٹ قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
حیدر قریشی نے تنقید نگاروں پر جو مضامین یا تبصرے لکھے اُن میں برتاؤ(Treatment)کے مختلف انداز نظر آتے ہیں جیسا کہ ’’ڈاکٹر شہناز بنی کی تنقید نگاری‘‘ پر جو مضمون لکھا گیا اُس میں متعلقہ کتاب کے اہم اقتباس نقل کرنے کے علاوہ کمزوریوں کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے اور اپنی منصفانہ تنقیدی رائے دینے کے بعد اُسی کتاب کے موضوعات پر نئے علمی سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ ڈاکٹر شہناز نبی نے اپنی کتاب ’’تانیثی تنقید‘‘ میں سجاد ظہیر، اکبر الہ آبادی اور فراق گور کھپوری کی شخصیات کو اُن نفسی رویوں کی مدد سے جانچنے پرکھنے کی کاوش کی ہے جو وہ عورت کے بارے میں رکھتے تھے۔ حیدرقریشی ان تجزیات پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ تینوں مضامین ادبی دل چسپی کے حامل ہیں۔ سجاد ظہیر پر لکھتے ہوئے ڈاکٹر شہناز نبی کا خود ترقی پسند ہونا آڑے آیا ہے۔ سجاد ظہیر کی ترقی پسندی کا لحاظ کرتے ہوئے ہلکی گرفت کی گئی ہے۔ فراق گور کھپوری کے عشقیہ پس منظر کو انہوں نے سادھو والی نظر سے دیکھا ہے۔ جبکہ اکبر الہ آبادی کے معاملے میں تو سادھو سے ایک قدم آگے بڑھ کر سچ مچ کھال اُتارنے والا کام کردیا ہے۔‘‘(تاثرات:ص۱۰۳)
یہ تنقیدی رائے صاف شفاف اور کھرے مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر دوٹوک انداز میں محاکمہ کرنا کوئی آسان بات نہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے باہمی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، لیکن حیدر قریشی نے ادبی قدروں اور علمی دیانت کو ذاتی تعلقات پر قربان نہیں ہونے دیا۔ انگریزی ادب کے معروف نقادٹی ۔ ایس ایلیٹ نے بھی اُن نقادوں کی مذمت کی ہے جو تنقید کو ایک غیر سنجیدہ سرگرمی قرار دیتے ہیں۔ ایلیٹ اپنے مضمون’’تنقیدکا منصب‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے بیش تر نقاد بات کو بڑھا چڑھا کرپیش کرنے کی لعنت میں مصروف ہیں۔ وہ صلح کرنے میں ‘ لیپا پوتی کرنے میں‘ معاملہ کو دبانے میں ‘ تھپکنے میں ‘ نچوڑنے میں ‘ بات بنانے میں‘ خوشگوار مسکن تیار کرنے میں اور بہانہ سازی میں مصروف ہیں۔‘‘ (۲۱)
حیدر قریشی اگر چاہتے تو وہ بھی روایتی اور پیشہ ور نقادوں کی طرح خوشامدی تنقید کے تاج محل کھڑے کر سکتے تھے مگر وہ ایلیٹ ہی کے نقطۂ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے وہی بات لکھنا پسند کرتے ہیں جو مبنی برحق ہے۔ ایلیٹ رقم طراز ہے:
’’تنقید کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ فن پارے کی توضیح اور اصلاحِ مذاق کا کام انجام دے۔‘‘ (۲۲)
حیدرقریشی کی آگہی اور ژرف نگاہی کا حسن یہی ہے کہ وہ غیر جانب داری سے فن پارے کے مالہ اور ماعلیہ کا تجزیہ کر کے اُردو ادب میں صحت مندانہ تنقیدی رجحانات کو فروغ دے رہے ہیں۔
(۳) افسانوی مجموعوں پر اظہارِ رائے
حیدر قریشی بذات خود ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ اُن کے دو افسانوی مجموعے ’’روشنی کی بشارت‘‘ اور’’قصے کہانیاں‘‘ نئی بیانیہ تکنیک اور جدید طرزِ احساس پر مبنی ہیں۔ وہ اس صنف کے تخلیقی اور تنقیدی دونوں مظاہر میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی دو نوں کتابوں یعنی’’تاثرات‘‘ اور ’’حاصلِ مطالعہ‘‘ میں تقریباً بارہ افسانہ نگاروں کے مجموعوں پر تنقیدی آرا کا اظہار کیا ہے۔ ان افسانہ نگاروں میں ہمت رائے شرما‘ منشا یاد‘ عذرا اصغر‘ فردوس حیدر‘ جوگندرپال‘ دیویندراسر‘ نعیمہ ضیاء الدین‘ عبداللہ جاوید‘ شہناز خانم عابدی‘ ڈاکٹر بلند اقبال‘ رضیہ اسماعیل اور خورشید اقبال شامل ہیں۔
حیدر قریشی نے افسانوی تنقید میں تخلیقی اظہارِ خیال‘ فنی اُسلوب‘ تکنیک‘ تازہ کاری اور روشن خیالی پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ ثقہ بند نقادوں کے برعکس وہ اپنی رائے سادہ اور پُر اثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اُن کا اُسلوب بے جا لفاظی اور بناوٹ سے یکسرپاک ہے۔ تعقل پسندی اور بے باکی کے باعث اُن کی تنقیدی آرأ خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اُن کی تنقیدی رائے کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
’’ہمت رائے شرما کے افسانوں میں مقصد کو بے شک فوقیت حاصل ہے تاہم اُن میں ادبی رنگ شامل ہے۔ کہیں کہیں انہوں نے طویل ڈائیلاگ کے ذریعے حصولِ مقصد کے لیے راہ ہموار کی ہے تو کہیں طنز مزاح سے کام لے کر درد کی شدت کو کم کرنے کی کاوش کی ہے۔‘‘(۲۳)
حیدر قریشی انداز بدل بدل کر رائے دینے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ مثلاً جوگندر پال کے افسانوی مجموعے ’’بے ارادہ‘‘ پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
’’ ’’بے ارادہ‘‘ کے افسانوں میں تجریدی اور علامتی لہریں بھی ہیں‘ ناستلجائی صورت ِحال بھی ہے‘ اساطیر کے اثرات بھی ہیں لیکن اِن سب کے باوجود اُن پر انتظار حسین ‘ انور سجاد‘ یا رشید امجد کی ہلکی سی پرچھائیں بھی نظر نہیں آتی۔ اُن کے سارے موضوعات اُن کے اپنے مخصوص تخلیقی انداز میں ہی کہانی کا روپ دھارتے ہیں۔‘‘ (۲۴)
دوسروں پر تنقیدی رائے دیتے ہوئے گیان کا ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب وہ فنِ افسانہ نگاری پر اپنا دلی یا نظری موقف بھی وضاحت سے بیان کرنے لگتے ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ جدید افسانہ عرفانِ ذات اور اظہار ِذات کی ایک ارفعٰ صورت ہے۔ ذات جو کسی مخصوص سماج سے وابستہ ہونے کی بجائے کُل کائنات پر محیط ہے۔ بہت کم فنکار ایسے ہیں جنہوں نے ذات کی غواصی کے نتیجے میں اپنے عرفان کے لمحوں کو اظہار کی کامیاب صورت بھی دی۔بہت سے تو محض اپنی ذات کے ساحل پر کھڑے لہروں کو گننے کی ناکام کوشش کرتے رہ گئے۔‘‘(۲۵)
حیدرقریشی کا یہ اظہاریہ تخلیق کار کو نئے تجربات کی جانب مائل کرتا نظر آتا ہے۔ اس طرح کی آراء ادب کی نئی صورتِ حال کو سمجھنے میں معاونت کرتی ہیں ۔یہ تنقید نظریے کی آمریت دور کر کے افسانہ نگاروں کو تخلیقی آسودگی عطا کرتی ہے۔ اصل میں ادب کو زندگی سے قریب کرنا ہی تنقید نگار کا اصل کمال ہوتا ہے۔ پروفیسر آلِ احمد سرور لکھتے ہیں:
’’زندگی کی طرح فن میں بھی حقائق سے آنکھیں چرانا خطرناک ہے۔‘‘(۲۶)
حیدر قریشی کا تنقیدی نظام قاری‘ متن اور تخلیق کار کے مابین تعلق کو وسعت اور پائیداری عطا کرتا ہے۔ یہ اُن کے ہمدردانہ فہم کا کرشمہ ہے کہ وہ زیرِ نظر تصنیف یا مصنف کو دریافت کرنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے اُردو فکشن میں پوپ کہانیوں کا تذکرہ سننے میں آرہا ہے۔ حیدرقریشی کو بھی مقصود الٰہی شیخ نے اپنی کتاب ’’پوپ کہانیاں‘‘ عنایت کی تھی، ابھی وہ اس کا مطالعہ کررہے تھے کہ رضیہ اسماعیل کی کتاب ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ تک رسائی حاصل ہوگئی۔ یہ کتاب بھی پوپ کہانیوں پر مشتمل تھی۔ جب ان دونوں تخلیق کاروں سے اس نئی صنف کے حدود وثغور کے بارے میں استفسار کیا گیا تو کوئی تسلی بخش جواب حاصل نہ ہوسکا۔ خصوصاً رضیہ اسماعیل سے اُن کی جو گفتگو رہی وہ بھی کامیابی سے ہم کنار نہ ہو سکی کیونکہ اس نووارد صنف سے متعلق جو معلومات فراہم ہوئیں اور جن اوصاف کو نمایاں کیا گیا اُن میں کوئی خاص نئی بات نہیں تھی، بقول حیدرقریشی:
’ ’ان اوصاف کی تو تخلیقی ادب کی تمام اصناف میں ایک جیسی اہمیت اور حیثیت ہے۔‘‘ (۲۷)
گویا شیخ صاحب اور رضیہ اسماعیل نے جو باتیں بیان کیں اُن کی عمومی حیثیت ہی بنتی ہے جبکہ کس صنف کی وضاحت اور دوسری اصناف سے اُسے ممتاز وممیز کرنے کیلئے ٹھوس منطقی دلیل درکار ہوتی ہے۔ حیدر قریشی نے اس صنف پر جو ادبی اور علمی سوال اُٹھائے ہیں اُن کا جواب ابھی تک کسی جانب سے موصول نہیں ہوا۔ وہ دو علمی سوال یہ ہیں:
’’ (۱) پوپ کہانی کے بنیادی خدوخال کیا ہیں؟
(۲) جس طرح افسانچہ ‘ افسانہ ‘ ناولٹ اور ناول کی پہچان بالکل سامنے کی بات ہے اور قابل ِفہم ہے‘ اس طرح پوپ کہانی کو افسانچہ یا افسانہ سے کس طرح الگ پہچانا جاسکتا ہے؟ کسی مابہ الامتیاز اور کسی تخصیص کے بغیر پوپ کہانی کو افسانچہ یا افسانے سے الگ کر کے کیونکہ دیکھا جاسکتا ہے؟‘‘(۲۸)
’’پوپ کہانی‘‘ کا مسئلہ بھی نثری نظم کی طرح اُلجھا ہوا ہے۔ دونوں کی اصل جنس دریافت کرنا سرِ دست مشکل ہے۔ حیدر قریشی اگر چاہتے تو وہ اس صنف پر گول مول بات کر کے آگے نکل سکتے تھے، لیکن وہ ادبی دیانت سے کام لیتے ہوئے اس صنف کے اصل خال وخط دریافت کرنے پر زور دیتے رہے۔
(۴) معاصر ناول پر تنقیدی نظر
حیدر قریشی نے خود تو کوئی ناول نہیں لکھا لیکن اس صنف سے اُن کی بھرپور دل چسپی کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ اپنے دونوں تنقیدی مجموعوں میں اُنھوں نے اپنے عہد کے سات ناولوں پر اظہار رائے کیا ہے۔ اگر جرمن کلاسیک کے ناول’’سدھارتھ‘‘ کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد آٹھ ہوجاتی ہے۔ اپنی تنقیدی تحریروں میں وہ ناول کو خاص اہمیت دتے ہیں۔ ناول کی آفاقیت پر آلِ احمد سرور کی رائے کا حوالہ ضروری ہے:
’’ناول تہذیب کا عکا س، نقاد اور پاسبان ہے۔ کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پرواز کا اندازہ وہاں کی شاعری سے ہوتا ہے مگر اُس کی تہذیب کی روح اُس کے ناولوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔‘‘(۲۹)
حیدر قریشی کے ناولوں پر لکھے گئے تبصرے پڑھ کر بھی قاری جان جاتا ہے کہ وہ ناول کی تہذیبی وثقافتی قوت سے پوری طرح باخبر ہیں۔شمس الرحمن فاروقی کے ناول’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کا جائزہ انھوں نے دس صفحات میں مکمل کیا ہے۔ یہ مضمون ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے صفحہ ۱۶۵ سے ۱۷۴تک پھیلا ہوا ہے۔ حیدر قریشی کو اندازہ تھا کہ اُن کے قارئین نے یہ ناول شاید نہ پڑھا ہو، لہٰذا اپنے مضمون کی ابتداء میں تمام ناول کا ایک مربوط اور پُر اثر خلاصہ پیش کرنے کے بعد اپنے تجزیات پیش کیے ہیں۔ اس خلاصے میں مرکزی کرداروں کو بڑی ہنرمندی سے متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے بعد ناول کے محاسن ومصائب پر تفصیلی گفت کی ہے۔ ناول میں موجود زمانہ ۱۷۹۱ء سے شروع ہوکر ۱۸۵۶ء تک اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی نے اس عہد کے اصل تہذیبی اور ثقافتی حوالوں کو محفوظ اور پُر اثر بنانے کیلئے اُس عہد کی زبان کو زندہ کردکھایا ہے۔ یہ بظاہر خوبی ہے لیکن حیدرقریشی کا تجزیہ اسے کس اور زوایے سے دیکھتا ہے:
’’ناول کی یہ خوبی اُس کی کمزوری یا خامی بھی بن گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عام قارئین کو تو چھوڑدیں‘ خود اُردو کے شاعروں اور ادیبوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو اس زبان کو ناول کی مطلوبہ روانی کے ساتھ پڑھ سکیں؟ بہت کم ‘ بہت ہی کم۔‘‘(۳۰)
اس مشکل پسندی کا گلہ کرنے کے بعد وہ اس کے رجائی پہلو کو بھی اُجاگر کرتے ہیں:
’’یہ خامی اور خوبی ایک دوسری سطح پر اہلِ ادب کے لیے چیلنج بھی بنتی ہے کہ وہ اس ناول کے ذریعے اُردو کی بنیاد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘(۱۳)
ناول کے فنی اوصاف پر بات کرتے ہوئے وہ اس کی منظر کشی تہذیبی وثقافتی مظاہر‘ لوگوں کی عادات‘ وفاداریوں اور غداریوں کے بیان کو سراہتے ہیں‘نیز جزئیات نگاری کی تعریف دل کھول کر کرتے ہیں:
’’زبان کی مشکلات سے ہٹ کر مجھے اس ناول میں شمس الرحمان فاروقی کی جزئیات نگاری نے حیران کیا ہے۔ انیسویں صدی کے ہندوستانی معاشرے کی انہوں نے جس عمدگی کے ساتھ تصویر کشی کی ہے اور ہر سطح پر جزئیات کو جس طرح مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے اُسے ان کے فن کا کمال کہا جاسکتا ہے۔‘‘(۳۲)
اس جزئیات نگاری کی مزید پرتیں کھولتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
’’جنسی عمل کی منظر کشی میں شمس الرحمان فاروقی کی جزئیات نگاری کی مہارت اپنے کمال پر دکھائی دیتی ہے۔ اگر انہوں نے ناول کو آج کے عہد کی اردو میں لکھا ہوتا تو صرف جنسی جزئیات نگاری کے باعث ناول ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا۔‘‘(۳۳)
یہ حیدر قریشی کے ذہن اور قلم کی پختگی کا ثمر ہے کہ وہ میانہ روی اور اعتدال پسندی کے عناصر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ اگر کمزور پہلوؤں پر بات کرنی ہو تو وہاں بھی اُن کا قلم توازن کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا‘ اور اگر تعریفی کلمات کا استعمال کرنا ہو تو پھر بھی اپنے قلم کو گرفت میں رکھتے ہیں۔ اختصار اور وضاحت کا یہ عالم ہے کہ اکثر وبیشتر اُن کے ابتدائی جملے پڑھ کر ہی پورے ناول سے آگاہی حاصل ہوجاتی ہے۔ صلاح الدین پرویز کے تازہ ناول’’ایک دن بیت گیا‘‘ کے آغاز ہی میں یہ بتا دیتے ہیں:
’’بنیادی طور پر یہ ناول مٹتی ہوئی انسانی قدروں اور اور گم شدہ کلچر کا نوحہ ہے جسے آج کے مشینی اور سائنسی ماحول نے ہڑپ کرلیا ہے۔‘‘(۳۴)
نورالحسن نقوی اپنی تصنیف ’’فن ِ تنقید اور اُردو تنقیدنگاری‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’بھرپور اور کامیاب تنقید وہ ہے جو کسی ادبی وفنی کارنامے کو کسی ایک عینک اور کسی مخصو زاویے سے نہ دیکھے بلکہ جتنے وسائل اور جتنے طریقے ممکن ہیں اُن سب کو استعمال کرے۔‘‘(۳۵)
حیدر قریشی کی تنقید میں یہ وصف پایا جاتا ہے ۔ اُن کا تنقیدی مزاج تامل وتفکر‘ توازن وسنجیدگی اور صلابتِ رائے کا مظر ہے۔ وہ فن پارے کے محرکات وموثرات کی تہہ میں اُترنے کی کوشش کرتے ہیں اور مشکل مقامات اور علامات کی توضیح وتشریح کرتے ہوئے اپنا تنقیدی فریضہ ادا کرتے ہیں۔ ناول’’ایک دن بیت گیا‘‘ میں وہ اُن اہم علامتوں کو معنی دینے کی سعی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو پورے ناول میں بکھری ہوئی ہیں اور اگر اِن کی تفہیم ہوجائے تو مرکزی خیال کی ترسیل بآسانی ہوجاتی ہے۔ یہ انداز ملاحظہ ہو:
’’راجہ جبریت کی علامت ہے اور گورو جی اس جبر کی کھوکھلی روحانیت کے حوالے سے تحفظ کی علامتِ اس جبریت نے جہاں انسانوں کو غلام بنایا ہے وہاں فن کاروں کو بھی قید کررکھا ہے۔ شاعر‘ سنگتراش ‘ موسیقار اور مورخ‘ سّیاح َ، فنکارانہ دانش کی علامتیں ہیں جنہیں راجہ نے قید کررکھا ہے۔‘‘(۳۶)
تنقید کا یہ تشریحی اور تحلیلی انداز فن پارے کی پیچیدہ گرہیں کھولتا ہے۔ اس نوع کی تشریح کا اصل فائدہ قاری کو پہنچتا ہے کیونکہ وہ اِن وضاحتی اشاروں کی مدد سے ناول کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ تنقید نگار کاکام بھٹکانا نہیں بلکہ راستہ دکھانا ہے۔حیدر قریشی نے اس کے علاوہ جن ناولوں پر بات کی ہے اُن میں جو گندرپال کے دو ناول’’پارپرے‘‘ اور ’’نادید‘‘، آر․ کے نیازی کا ناول ’’کسک‘‘ ترنم ریاض کا ’’مورتی‘‘ ثریا شہاب کا’’سفر جاری ہے‘‘ دیوینداسر کا ’’خوشبو بن کے لوٹیں گے‘‘ اور صادقہ نواب سحر کا ناول ’’کہانی کوئی سناؤ‘متاشا‘‘ شامل ہیں۔ ’’تاثرات‘‘ میں جرمن ناول نگار ہرمن ہیسے کے ناول’’سدھارتھ‘‘ پر تفصیلی مطالعہ بھی ملتا ہے۔ حیدر قریشی نے اس ناول کے مرکزی خیال کو روایتی تصورات سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔
(۵) سفر ناموں پر مختصر تبصرے اور تاثرات
حیدر قریشی اصلاً ایک ہمہ جہت ادیب ہیں اُن کا تخلیقی اور تنقیدی سرمایہ متنوع اور رنگا رنگ ہے۔ ادبی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع ہونے کی وجہ سے اُن کی تنقیدات میں بھی موضوعاتی اصناف اور اسالیب کی بوقلمونی نظر آتی ہے۔ ’’حاصل مطالعہ‘‘ اور ’’تاثرات‘‘میں تین ادیبوں کے چار سفر ناموں کا تنقیدی احوال ملتا ہے:
۱۔ جمیل زبیری
’’دھوپ کنارا‘‘ اور’’ موسموں کا عکس‘‘(مشمولہ: حاصلِ مطالعہ)
۲۔ ہمت رائے شرما
’’میاں آواز کا سفرنامہ‘‘(مشمولہ: حاصلِ مطالعہ)
۳۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان
’’ابنِ بطوطہ کے خطوط‘‘(مشمولہ:تاثرات)
حیدر قریشی جمیل زبیری کے دونوں سفر ناموں کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں۔
’’دھوپ کنارہ‘‘ اُن کے امریکہ اور کینیڈا کے سفر کی روداد ہے جب کہ ’’موسموں کا عکس‘‘ بھارت کے سفر کی کہانی ہے۔ بظاہر یہ دو انتہاؤں کے سفر ہیں، ایک مغرب کی طرف ایک مشرق کی طرف‘ لیکن اِن میں انسانیت کا دُکھ قدرِ مشترک ہے۔‘‘(۳۷)
اب اِن سفر ناموں پر اُن کی تجزیاتی رائے ملاحظہ ہو:
’’جمیل زبیری نے انسانوں کو کسی جغرافیاتی ‘ نسلی یا مذہبی امتیاز کے متعصبانہ زاویے سے دیکھنے کی بجائے صرف انسانی قدروں کی سچی بنیاد پر دیکھا ہے۔ پھر وہ کسی کا دکھ تھا یا اُن کا اپنا دکھ تھا انہوں نے اُس دُکھ کو اپنے دل میں سجا لیا ہے۔(۳۸)
محض چند سطروں میں پوری کتاب کا تعارف وخلاصہ اور تجزیہ پیش کرنا حیدر قریشی کی تنقید کا خاصہ ہے۔ حامد اللہ افسر، نقاد کے فرائض بیان کرتے ہوئے اپنی تصنیف ’’تنقیدی اُصول اور نظریے‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’نقاد کا سب سے پہلا فرض بے لوث ہونا ہے۔اُس پر لازم ہے کہ وہ زیرِ تنقیدتصنیف پر مکمل طور پر عبور حاصل کرلے۔ اُس کے مقصد کی ترجمانی کرے۔ اُس کی اہم ترین خصوصیات اور اُس کے محاسن کا تجزیہ کرے۔ اس امر کو واضح کرے کہ اس تصنیف میں کیا چیز ایسی ہے جو مستقل اور باقی رہنے والی ہے اور کیا چیز مستقل اور عارضی ہے۔‘‘(۳۹)
حیدر قریشی کے ہاں اِن خصوصیات کا مشاہدہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ وہ جس سہولت‘ اعتماد‘ خلوص اور عالمانہ اُسلوب میں تصنیف پر بات کرتے ہیں اُس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اُنھوں نے متعلقہ کتاب کی محض ورق گردانی نہیں کی بلکہ دورانِ مطالعہ اُس فن پارے کا دقتِ نظر سے تجزیہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اُن کی تنقید قاری اور فن پارے کے درمیان ترجمانی کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ اُن کی تنقید خالص محاسن اور خالص مصائب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی اس کے برعکس وہ اپنے وسیع مطالعے کی روشنی میں ایک غیر جانب دارانہ تجزیہ اور تشریح پیش کرنا زیادہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ اُن کی تنقیدی بصیرت کا سیاق وسباق ہرفن پارے میں ایک نئے انداز سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اپنی تنقید کے ذریعے تخلیق کار کی انفرادیت اجاگر کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ مثال ملاحظہ ہو:
’’جمیل زبیری کی خوبی کہ اُنہوں نے کسی سفرنامہ نگار کے شوخ اُسلوب کی نقالی نہیں کی‘ بلکہ وہ اپنے سادہ اور معصومانہ اُسلوب میں سفرنامہ لکھا ہے۔‘‘(۴۰)
حیدر قریشی ایک محنتی طالبِ علم کی طرح اصل تنقیدی موادکی جستجو کرتے ہیں‘ اپنی بصیرت وبصارت کی روشنی میں اُس کا تجزیہ کرتے ہیں اور حاصل شدہ نتائج کو نہایت عاجزی کے ساتھ قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس انداز میں نہ تو خود ستائشی کا کوئی پہلو نکلتا ہے اور نہ حتمیت کا شائبہ دیکھنے میں آتا ہے۔
اُردو سفرنامے کا باضابطہ اور باقاعدہ آغاز اُنیسویں صدی کے وسط میں ہوا تھا، ابتدا میں اس پر فارسی اور ترکی کے اثرات حاوی رہے اور ا نھی ارتقائی مراحل میں انگریزی سفر نامہ بھی اُردو پر اپنے مثبت اثرات مرتب کرنے لگ گیا تھا۔ اُردو زبان کا پہلا سفرنامہ یوسف حلیم خان کمبل پوش کا ہے جو ۱۸۴۷ء میں بعنوان ’’عجائبات فرنگ‘‘ طبع ہوا۔ اس میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کا ذکر ہے۔اس کے بعد کے سفر ناموں میں یہی یورپی منظر نامہ نظر آتا ہے ۔حیدر قریشی نے جن سفر ناموں پر قلم اُٹھایا وہ بھی اتفاقاً اسی قبیل کے ہیں۔ اُن کے تنقیدی مجموعے’’تاثرات‘‘ میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے سفر نامے’’ابن بطوطہ کے خطوط‘‘ کا حال درج ہے جو قاری کی معلومات میں خوشگوار اضافہ کرتا ہے۔
حیدر قریشی کی مہیا کردہ معلومات کے مطابق یہ سفرنامہ ہالینڈ‘ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ امریکہ اور ترکی کے اسفار پر مشتمل ہے۔یہ سفر ۸؍جولائی۲۰۰۷ء سے لیکر ۲۹؍اگست۲۰۰۷ء تک کے سفری حالات کا بیانیہ ہے۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اس سے قبل بھی سفرنامے تحریر کرچکے ہیں۔ لیکن اِس سفر مانے کا اُسلوب یکسرمنفرد ہے۔ یہ سفر نامہ مکتوبی اُسلوب میں لکھا گیا ہے۔ اصل میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے دورانِ سفر اپنے دوستوں کو جو مکاتیب لکھے تھے بعد ازاں اُنھی مکاتیب کو سفر نامے کی شکل دی گئی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا تجربہ ہے، اسے مکتوبی سفرنامہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
سفر نامے کے مندرجات پر تبصرہ کرتے ہوئے حیدر قریشی لکھتے ہیں:
’’اس سفرنامے میں متعلقہ ممالک کے بارے میں اعدادوشمار والی معلومات سے زیادہ ڈاکٹر اعوان کے ذاتی تجربات ‘ مشاہدات نے سفر کی روداد کو بے حد دل چسپ بنا دیا ہے۔ انہوں نے مغربی ممالک کے خوب صورت اور قابلِ تقلید رویوں کو بھی اجاگر کیا ہے اور اِن معاشروں کے منفی اثرات کی نشاندہی کی ہے۔‘‘(۴۱)
محولہ بالا اقتباس میں اُسلوب کی سادگی اور عمیق تجزیات کا رچاؤ پڑھنے والوں پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ عام فہم اندازِ تنقید، تفکر وتعقل کے تمام وسائل ساتھ رکھتاہے۔ تنقید کا یہ آہنگ صاحبانِ بصیرت کی نگاہوں میں معتبر ٹھہرے گا۔ حیدر قریشی کی تنقید اصل میں اُن کے تخلیقی عمل ہی کا ایک زاویہ ہے اور قاری کے ذوق کی آبیاری بھی کرتا ہے۔
(۶) تحقیقی کاموں کا محاکمہ
حیدر قریشی کے فکری نظام میں تحقیق وتفتیش کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس تحقیق کے اولین نقوش اُن تحریروں میں بآسانی تلاش کیے جاسکتے ہیں ماہیے کے تکنیکی اور فنی خدوخال کو واضح کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ بحیثیت محقق اُن کے ہاں تاریخی تحقیق‘ بیانیہ‘ تحقیق‘ تجزیاتی تحقیق اور موضوعاتی تحقیقی کے عناصر باہم دگر نظر آتے ہیں ’’حاصل مطالعہ‘‘ میں ایک قلمی نسخے کا تعارف جس تحقیقی اُسلوب میں پیش کیا اُس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا حیدر قریشی کا اصل شعبہ تخلیقی ادب ہے یا تحقیق ہے!یہاں وہ ایک منجھے ہوئے محقق کی مانند تمام حالات کے صغرے کبرے ملاتے نظرآتے ہیں۔ یہ قلمی نسخہ خان پور کے ایک گمنام شاعر محسن خان پوری کا لکھا ہوا ہے۔ حیدر قریشی کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ قلمی نسخہ اصل میں دیوانِ ریختی ہے جو’’مثنوی قہرِ عشق‘‘ کے نام سے مرتب ہوا تھا۔ اس نسخے کا دیباچہ دس صفحات پر مشتمل ہے جس میں شاعر نے دیوانِ ریختی کی وجۂ تالیف پر روشنی ڈالی ہے۔ حیدر قریشی نے متعلقہ دیباچے کے اہم نکات کو یکجا کر کے پیش کردیا ہے جس کی وجہ سے عام قاری یا محقق آزادی سے اپنی انفرادی رائے قائم کرسکتا ہے۔ حیدر قریشی کا یہ تجزیاتی مضمون ’’اوراق گم گشتہ‘‘ کے نام سے ’’حاصل مطالعہ‘‘ کی زینت بنا تھا۔ داخلی شواہد کی مدد سے اُنھوں نے اس شاعر کی دیگر تصانیف بھی کھوج نکالی تھیں ان میں’’ڈالی‘‘ اور ’’خواب ِسرشار‘‘ کا سراغ شامل ہے۔ تاہم ’’مثنوی قہرعشق‘‘ کا زمانۂ تالیف کا ہنوز تعین نہیں ہوسکا۔ البتہ اُن کی درج ذیل محققانہ رائے آنے والے محققین کو راستہ دکھائے گی:
’’سرورق سمیت اس دیوانِ ریختی کے کل صفحات ۱۱۲ ہیں۔ دیوانِ ریختی کے اس مطالعے سے اگرچہ مضحک تضادات کی کئی صورتیں سامنے آتی ہیں تاہم…… اس کے مطالعے سے ہمیں لکھنؤ کے گھروں‘ گلیوں اور بازاروں کی زبان سے آگاہی ہوتی ہے۔اُس دور کے مشاعراتی ماحول کا پتہ چلتا ہے جو بے شک اِس وقت خاصا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے لیکن اُس وقت یہ ساری مضحکہ خیزیاں تہذیب اور ادب آداب کا اہم حصہ تھیں۔‘‘(۴۲)
یہ نئے حقائق کی جستجو ہے۔ حیدر قریشی کی تنقید کا یہ خاص انداز ہے کہ وہ موضوع کی اہمیت اور افادیت پر حتی المقدور توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کے اخذ کردہ نتائج تشریح وتعبیر کے مراحل سے گزر کر قاری تک پہنچتے ہیں۔ تحقیق و تنقیداُن کی کوئی جز وقتی سرگرمی نہیں ہے بلکہ اُن کے تخلیقی عمل اور فکری نظام کا مضبوط ستون ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد نے جب اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ کتابی صورت میں چھپ جانے کے بعد حیدر قریشی کو تبصرے کے لیے ارسال کیا تو انھوں نے اس مقالے (میرا جی‘ شخصیت اور فن)کا تنقیدی جائزہ دس صفحات میں لیا ہے۔ یہ تجزیہ سادہ وسلیس زبان اور فطری اُسلوب ِنگارش کا عکاس ہے۔ دورانِ تنقید وہ اپنی نثر کو ہرقسم کے آرائشی عناصر اور صنّاعی سے دور رکھتے ہیں ۔اس مقالے کے کل سات ابواب ہیں ۔وہ پہلے تمام مقالے کا وضاحتی خلاصہ پیش کرتے ہیں پھر ہر باب کے اہم نکات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی معلومات بھی پیش کر دیتے ہیں، یہ نئی فراہم کردہ معلومات موقع محل کی مناسبت سے درج ہوئی ہے اور بے ساختہ انداز سے اُن کے تنقیدی عمل کا حصہ بنتی گئی ہے۔ یہی بے ساختگی اُن کے ہر تنقیدی تبصرے یا مضمون میں ملائمت اور لطافت کا باعث بنتی ہے۔ اکثرچھوٹے جملوں میں بڑی بات کہہ جاتے ہیں،مثلاً :
’’میرا جی کی تنقیدی بصیرت اُن کی تنقیدی آراء سے عیاں ہے۔‘‘(۴۳)
اس کے علاوہ اگر ڈاکٹر رشید امجد کی کسی بات یا اقتباس کو نقل بھی کیا ہے تو بہت سوچ سمجھ کر اور ایسے جملوں کو باقاعدہ واوین میں رکھ کر بات آگے بڑھائی ہے تاکہ قاری کسی قسم کے مغالطے کا شکار نہ ہو۔ اُن کے تجزیات بھی جچے تلے اور مقالے کے مندرجات کو روشن کرنے والے ہیں۔اُردو زبان کے معروف نقاد محمد حسن عسکری لکھتے ہیں:
’’تجزیے میں عقلی اور فکری عناصر کی شمولیت لازمی ہے‘‘(۴۴)
حیدر قریشی نے اس میں جذبے کی صداقت شامل کر کے مزید وسعت دے دی ہے۔
(۷) سوانحی ادب پر نقد ونظر
سوانحی ادب میں خود نوشت‘ سوانح عمری‘ یادنگاری‘ خاکہ نگاری‘ آپ بیتی‘ روزنامچہ نگاری اور مکتوب نگاری شامل ہے۔ اس کا شمار قدیم اصناف میں ہوتا ہے حتیٰ کہ قدیم ہند‘ روم‘ چین اور یونانی ادب میں بھی شخصی اور سوانحی مرقعے دستیاب ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد عمر رضا اپنے تحقیقی مقالے ’’اُردو میں سوانحی ادب: فن اور روایت‘‘ میں اس صنف کے لوازم پر بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’سوانحی ادب میں تین بنیادی عناصر تاریخیت ‘ فرد یا شخص کو مرکزی اہمیت اور ادبیت کا پایا جانابے حدضروری ہے۔ ادبیت ہی سوانحی ادب کو تاریخ سے الگ کرتی ہے۔ محض واقعات کی کھتونی اور فردِ واحد کے حالات واقعات کا خشک انداز میں تحریری مواد سوانحی ادب نہیں ہے‘‘۔(۴۵)
سوانحی ادب میں اصل حقائق پر توجہ مرکوز ہوتی ہے اور اُس کی ادبیت اور زندگی آمیز اُسلوب نگارش اس صنف کی قدروقیمت میں اضافے کا باعث ہیں۔ معیاری سوانحی معلومات کو تاریخی ‘ سماجی وثقافتی ‘ نفسیاتی ‘ اخلاقی‘ اور جمالیاتی سطحوں پر پرکھا جاسکتا ہے۔
حیدر قریشی نے اس صنف پر بھی توجہ کی ہے اور دلچسپی کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے،اس خصوص میں اُن کی درج ذیل تحریریں اہمیت رکھتی ہے:
۱۔ تمنا بے تاب (مشمولہ: حاصلِ مطالعہ)
۲۔ یادخزانہ (مشمولہ: حاصلِ مطالعہ)
۳۔ جست بھر زندگی (مشمولہ: حاصلِ مطالعہ)
۴۔ آزاد خاکے (مشمولہ: حاصلِ مطالعہ)
اُن کے دوسرے تنقیدی مجموعے’’تاثرات‘‘ میں اس حوالے سے کوئی تحریر شامل نہیں ہے۔ سوانحی ادب پر اُن کے تاثرات وتبصرے ثروتِ فکر کی تازگی اور شادابی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر رشید امجد کی یادنگاری پر مشتمل کتاب ’’تمنا بے تاب‘‘ پر نقد ونظر کرتے ہوئے اُس کی تکنیکی صورت ِحال کو اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’بلاشبہ اس خود نوشت کی حدیں کہیں خود نوشت کی مقرر و معین حدود سے باہر تک جاتی ہیں اور کئی مقامات پر معین حدود سے بھی کہیں اندر تک سمٹی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘(۴۶)
کتاب کے اصل موضوع کو اس طرح واضح کرتے ہیں:
’’اس کتاب کے مطالعے سے ایک طرف رشید امجد کی ذاتی زندگی کے نشیب وفراز سے واقف ہوتی ہے تو دوسری طرف راولپنڈی ‘ اسلام آباد کے ادیبوں کے مختلف النوع احوال بھی معلوم ہوتے ہیں…… پاکستان کی بیورو کریسی اور سیاست دانوں کے اندر خانوں کے حالات کھلتے ہیں…… جمہوریت کا گلا گھونٹنے والے فوجی حکمرانوں کے کارنامے بھی سامنے آتے ہیں۔‘‘(۴۷)
اگر کتاب میں کوئی غلطی نظر آتی تو اُس کی نشاندہی بھی دھیمے انداز سے کردیتے ہیں:
’’رشید امجد نے چونکہ اپنی یادوں کو آزادانہ طور پر بیان کیا ہے اس لیے کہیں کہیں بلا ارادہ اُن سے واقعات کے بیان میں سہو بھی سرزد ہوئے ہیں۔‘‘(۴۸)
اس کے بعدجہاں صاحبِ کتاب سے سہو سرزد ہوا تھا اُن تمام واقعات کو اصل پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ البتہ اپنے مضمون کے آخر میں اس کتاب کی عملی افادیت کو اجاگر کیا ہے:
’’اصل کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ادیبوں کی سوانح نگاری میں یہ کتاب اپنی ایک الگ پہچان رکھے گی۔‘‘(۴۹)
اصل میں سوانح نگاری کا فن بظاہر جتنا آسان نظر آتا ہے یہ اُتنا ہی مشکل اور پیچیدہ بھی ہوتا ہے۔ یادداشت پر بھروسا کرنے کی وجہ سے بڑے بڑے ادیبوں سے غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ حیدر قریشی نے جس خوبی اور سلیقے سے اس کتاب کے محاسن گنوائے اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتاب اچھی طرح پڑھ کر اُس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس علمی سرگرمی میں سنجیدہ رویہ اپناتے ہیں۔
اُردو زبان کے معروف سفرنامہ نگار اور افسانہ نگار جمیل زبیری کی سوانح عمری’’یاد خزانہ‘‘ کے اہم مقامات کو خوبی سے واضح کیا ہے۔ حیدر قریشی کی کوشش تھی کہ اس کتاب میں پاکستان کے ابتدائی دور سے متعلق جو اہم معلومات درج ہے اُس میں قارئین کو بارِ دگر شامل کیا جائے لہٰذا اُن کے تنقیدی تبصرے میں خاص واقعات اور خاص رویوں کا اظہار ادبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ اپنی جگہ بناتا نظر آتا ہے‘ لوگوں بدلتے ہوئے رویوں کی جھلک ملاحظہ ہو:
’’اوائل ہی سے پاکستان کے ’’طبقہ اشرافیہ‘‘ کی عوام سے بے تعلقی ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کا ذکر بھی ہے جو بہت ترقی کر کے بھی سراپا انکسار رہے اور ایسے افراد کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو پوش علاقے میں چلے جانے کے بعد اپنے پرانے گھر کے کورنگی جیسے علاقے کو نہ صرف بھول گئے بلکہ اس سے بھی انکارکرگئے کہ وہ کبھی وہاں رہتے تھے۔‘‘(۵۰)
صاحبِ کتاب کے اُسلوبِ نگارش کی تعریف اِن الفاظ میں کی ہے:
’’ ’یادخزانہ‘ کا اندازِ بیان سادہ ہے۔ جمیل زبیری کی سادہ نثر اپنی سادگی میں لفظوں کا جادو تو نہیں جگاتی لیکن ان کے بیان کردہ واقعات میں ایک مٹتے ہوئے عہد کی یادوں کا انوکھا جادو ضرور ہے۔‘‘(۵۱)
حیدر قریشی اپنے تنقیدی تبصروں میں بے جا تعریف اور بے جا تنقیص سے قلم بچا کررکھا ہے، معیار اور توازن اُن کی شناخت ہے۔
(۸) شعری مجموعوں پر ناقدانہ نظر
حیدر قریشی نے اپنی تصانیف ـ’’حاصل مطالعہ‘‘ اور’’ تاثرات ‘‘میں اٹھارہ شاعروں پر نقد و نظر کیا ہے ۔ یہ شعری مجموعے غزل‘ نظم ‘ماہیے اور نثر ی نظم جیسی اصناف پر مشتمل ہیں۔ ان میں نئے اور پرانے دونوں لکھنے والے شامل ہیں ۔ اگر چہ نثری نظم کے بارے میں ان کے کچھ تحفظات بھی ہیں اور وہ اسے الگ صنف تسلیم نہیں کرتے تا ہم ان کے تنقید ی عمل میں یہ صنف کسی نہ کس حوالے سے موجود ہے ۔ نثری نظم پر حیدر قریشی کا مؤقف بالکل واضح ہے :
’’جب ڈاکٹروزیر آغا شعری مواد اور شاعری کے فرق کو واضح کر کے نثری نظم کے شعری مواد کا اعتراف کر کے اسے شاعری تسلیم نہیں کرتے تھے میں تب بھی ان کے خیالات سے متفق تھا اور اب بھی اسی بات کا قائل ہوں‘‘(۵۲)
نثری نظم کے حوالے سے ان کے نظریے میں قدرے لچک بھی نظر ہے ، درج ذیل اقتباس ڈاکٹرسلیم آغا قزلباش کے نثری نظموں کے مجموعے(آواز) پر کئے گئے تبصرے سے اخذ کیا گیا ہے :
’’نثری نظم اور آزاد نظم کی بحث میں اپنا واضح مؤقف رکھنے کے باعث نثری نظم کے تئیں میرے تحفظات بہت واضح ہیں تا ہم اس صنف کے امکانات کو آزمالینے میں کوئی حرج نہیں۔ نثری نظم کے جو مجموعے ان امکانات پر گفتگو کی گنجائش پیدا کریں گے ان میں ایک’’ آواز ‘‘ بھی شامل رہے گا۔ ‘‘(۵۳)
حیدر قریشی اس صنف کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود مستقبل میں اس کے امکانات سے پر اُمید نظر آتے ہیں۔ یہی توازن ان کی تحریروں میں دل کشی پیداکرتا ہے ۔ اپنی شعری تنقیدات میں وہ شاعر کے اصل وجدان اور وژن کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
یہ مثال ملاحظہ ہو:
’’اکبر حمیدی کی رزمیہ شاعری اس کے ذاتی تجربوں‘روحانی الاؤ اور باطن کی سچائی سے پھوٹی ہے ‘‘(۵۴)
حیدر قریشی کی یہ رائے اکبر حمیدی کے تازہ شعری مجموعے ’’تلوار اُس کے ہاتھ میں‘‘ کے تناظر میں ہے ۔ اس مجموعے کا مطالعہ کر چکنے کے بعد حیدر قریشی نے یہ نتائج اخذ کیے ہیں:
ـ’’اکبر حمیدی کا کمال یہ ہے کہ اس پہلی بار بلند لہجے میں بڑی شاعری
کر دکھائی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اکبرحمیدی نے بلند لہجے کی بھی
کچھ حدود کا التزام رکھا ہے اور پھر اُس میں دھیمے پن کی بھی فنکارانہ آمیزش کی۔ ‘‘(۵۵)
ان اقتباسات میں حیدر قریشی شاعر کی فکر اور تخیل کا مرکزی دھارا تلاش کرنے پر توجہ صرف کر رہے ہیں۔
حیدر قریشی نے جس شعری مجموعے پر بات کی ان میں نمائندہ شعروں کا حوالہ بھی نقل کر دیتے ہیں تا کہ قاری خود ان اشعار کو پڑھ کر ذاتی رائے بھی قائم کر سکے ۔ ان کے شعری تبصروں میں اچھا خاصا ذخیرہ عمدہ اشعار کا دستیاب ہو جاتا ہے جو قاری کے لطف میں اضافے کا باعث بنتاہے ۔ ہر قاری اپنی افتادِ طبع اور ذوق کے مطابق ان شعروں سے اکتسابِ حظ کرتا ہے ۔ ان شعروں کے انتخاب میں خاص احتیاط برتی گئی ہے اورصرف انھی اشعار کو بطور مثال نقل کیا ہے جن کی مدد سے شاعر کے ذہنی میلانات سمجھنے میں مدد مل سکتی تھی اور قاری بذات ِ خوداستدلال قائم کرسکے ۔ لہٰذا ان کے پیش کردہ شعری حوالے ہیئت‘جمالیاتی جذبے ‘ تخیل کی صورت آفرینی‘ حسنِ زبان اور جذبات کی دنیا کو از سر نو تخلیقی عمل سے گزارتے ہیں اور قاری کی آزادانہ رائے کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔
کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
ناکام حسرتوں کا مقدر لیے پھرا
یوں میں شکستِ خواب کا منظر لیے پھرا (۵۶)
مانا کہ وصل و ہجر ازل کی اکائی ہیں
لیکن بدن سے جاں کا تعلق کچھ اور ہے (۵۷)
مزید مثالوں سے گریز کیا گیا ہے ۔
(۹) ادبی شخصیات پر نقد و نظر
حیدرقریشی نے کچھ اہم ادیبوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی ہے اسی لیے ان کے فکر وفن کو قدرے گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کاوش نظر آتی ہے ۔ ان ادبا میں فیض احمد فیض‘ڈاکٹر ستیہ پال آنند‘ڈاکٹر ناصر عباس نیر‘ایوب خاور‘پروین شاکر‘جوگندرپال‘فرحت نواز‘عبداللہ جاوید اور صادق باوجہ شامل ہیں۔ان کی بعض تحریروں میں لاگ اور لگاؤ کے کئی منفرد انداز پہلو بہ پہلو ملتے ہیں۔مثلاً فیض احمد فیضؔ سے ان کی ایک ملاقات اور چند خطوط کا تبادلہ ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود اجنبیت کی دیوار اپنی جگہ قائم رہی۔ اس صورت حال کا تجزیہ ملاحظہ ہو:
’’میں فیض کے معاملے میں اجنبی کا اجنبی ہوں۔ لیکن فیض کی شاعری اور شخصیت دونوں میں اتنا جادو ہے کہ دور بیٹھے ہوؤں کو بھی اپنا اسیر بنا لیتا ہے سومیں فیضؔ کے ایسے اسیروں میں سے ہوں اور اس لحاظ سے ان کا شناسا بھی ہوں۔‘‘(۵۸)
اپنے مضمون ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘‘ ( مشمولہ: ’’تاثرات‘‘) میں حیدر قریشی نے فیض ؔکے ناقدین کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک گروہ وہ ہے جو فیض کی شعری تازگی اور توانائی کا قائل ہے اور اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ ایک خاص دور کے بعد اُن کی شاعری جمود کا شکار ہوگئی تھی۔ اس حلقے میں ڈاکٹر وزیر آغا انیس ناگی اور خورشید الاسلام جیسے اکابرین شامل ہیں۔ دوسرے گروہ میں شامل لوگ احمد ندیم قاسمی کے زیر اثر لکھ رہے ہیں جن کا مسئلہ ادبی نہیں بلکہ ذاتی ہے کیونکہ چند لوگوں نے بقول حیدر قریشی :
’’کبھی فیضؔ اور قاسمیؔ کو ہم پلہ ثابت کرنا چاہا تو کبھی کسی حیلے سے جناب قاسمیؔ کو فیض ؔسے بھی بڑا شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی ۔‘‘(۶۸)
یہ سلسلہ تاحال جاری ہے کیونکہ ابھی دونوں گروہوں کے اہم لکھاری اپنے اپنے نقطہء نظر پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ مذکورہ بالا مضمون کے ذریعے یہ بات بھی علم میں آتی ہے کہ فیض نثری نظم کو نہیں مانتے تھے۔
حیدر قریشی نے اپنی تنقیدی تصنیف میں تین اور مضامین مثلاً’’ رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم: اصل ترجمہ نگار کون؟’’افتتاحی تقریر، فیض سیمینار کلکتہ‘‘ اور’’ فیض صدی کی ایک جھلک ‘‘شامل کیے ہیں جو فیض اور ان کے بعد ان کی پذیرائی کے بارے میں ہیں اور قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہیں ۔’’ سرِوادیٔ سینا‘‘ میں رسول حمزہ کی نظموں کے اُردو تراجم کے بارے میں حیدر قریشی نے جو سوالات اُٹھائے ان کا جواب تاحال سامنے نہیں آیا۔ وہ سوال یہ تھا کہ فیض کی کتاب ’’ سرِ وادی سینا‘‘کے آخر میں روس کے ملک الشعرا رسول حمزہ کی نو نظمیں شامل ہیں ان کا اُردو ترجمہ کس نے کیا تھا؟ کیونکہ یہی تراجم ظ انصاری کی کتاب ’’منظوم تراجم‘‘ میں بھی شامل ہیں۔ ان نظموں کا مترجم یا تو فیض ہے یا ظ انصاری،لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس جواب سامنے نہیں آیا۔ حیدر قریشی غالباً وہ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے یہ اہم سوال اُٹھایا ہے ۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے ناقدین اور محققین اس قضیے کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کر لیں گے ۔ البتہ ۲۰۱۱ء میں فیض صدی منانے کا فیصلہ ہوا اور اس سال فیض کے فکرو فن پر بھی کافی کچھ لکھا گیا لیکن اس مسئلے کی جانب کسی نے توجہ دیناپسند نہیں کیا۔ حیدر قریشی اپنے مضمون ’’فیض صدی کی ایک جھلک ‘‘میں یہ معلومات فراہم کی ہے سال ۲۰۱۲ء میں ایشیا ٹک سوسائٹی کو لکاتا نے فیض صدی کو مزید بامعنی بنانے کے ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا لیکن اس کے باوجود رسول حمزہ کے تواردوالا مسئلہ حل نہ ہو سکا ۔ ماسکو میں اُردو کی نامور محقق اور نقاد ڈاکٹر لدمیلا نے اسے اشاعتی ادارے کی غلطی تو قرار دیا ہے تا ہم وہ بھی کوئی ٹھوس ثبوت مہیا نہیں کر سکیں۔ حیدر قریشی نے ان تراجم کی مکرر اشاعت کر کے فیض شناسوں کو ایک بار پھر دعوتِ فکر دی ہے ۔
حیدر قریشی نے ’’پروین شاکر ۔۔ نسائی شاعری کی آن‘‘ جیسا عمدہ تنقیدی مضمون لکھ کر اس شاعرہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ وہ پروین شاکر کی خداداد صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے ہے اس بات کی تحسین کرتے ہیں کہ پروین نے ادا جعفری‘ کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کی موجودگی میں اپنی منفرد شناخت قائم کرائی ہے ۔ احمد ندیم قاسمی اور پروین شاکر کے باہمی مراسم پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے کہ پروین شاکر صرف احمدندیم قاسمی کی بدولت ناموری اور شہرت کے درجے پر فائز ہوئی تھی ،اس کے برعکس اُن کا کہنا ہے :
’’یوں نہیں ہے کہ جسے بھی قاسمی صاحب خصوصی توجہ دیں وہ بڑی شاعرہ بن جائے گی۔ اس کے لیے اپنے اندرویسی صلاحیتیں ہونا بھی ضروری ہے ۔ اسے پروین شاکر کی خوش قسمتی کہہ لیں کہ انہیں قدرت کی طرف سے صلاحیتیں و دیعت کئے جانے کے ساتھ مناسب ماحول اور وسائل بھی میسر آ گئے اور قاسمی صاحب کا دستِ شفقت بھی مل گیا۔‘‘ (۶۰)
ناقدانہ تجزیے کی یہ مثا ل دیکھیئے :
’’پروین نے کھر دری اور نثر نما شاعری کرنے کی بجائے صنف ِنازک کے لطیف جذبات اور احساسات کو بہت ہی نفاست اور خوبصورتی کے ساتھ اور کسی حد تک باریک پردے کے ساتھ پیش کیا۔یہی وجہ ہے کہ وہ شاعرات میں اپنی پیش روؤں سے کہیں آگے نکل گئیں۔‘‘(۶۱)
پروین شاکر کو اس کے اصل شعری پس منظر میں رکھ کر اس کی ادبی قدر و قیمت پر بات کرنا حیدر قریشی کے عمدہ ذوق سلیم کا ثبوت ہے ۔ مندرجہ فوق تجزیے کی روشنی میں یہ اخذ کرنا ممکن ہو جاتا ہے کہ پروین شاکر شاعری میں جدت ِخیال‘شدت ِخیال اور حدتِ خیال کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اُسلوبیاتی آہنگ بھی موجود ہے ۔ شاعری اصلاً جذبات کا کھیل ہے اور اچھا نقاد انھی جذبات کی تفہیم کے لیے راہ ہموار کرتا ہے ۔
معروف ترقی پسند نقاد ممتاز حسین رقم طراز ہیں:
’’جذبات کی گہرائی اس کا نام نہیں کہ ہم غلط اقدار کی گرفت میں اپنے کو ڈھیل دے رکھیں بلکہ یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ ہمارے جذبات صحیح اقدار کے گرد منظم اور مستحکم ہوتے ہیں ۔‘‘(۶۲)
یہ بات جتنی شاعری پر صادق آتی ہے اتنی ہی نقاد کی تنقیدی بصیرت پر بھی پوری اُترتی ہے۔ حیدر قریشی کے تنقیدی نظام میں جہاں جذبہ و احساس کے عناصر متحرک نظر آتے ہیں وہاں اُصول و منطق کی لہریں بھی اسی نظام کو مضبوط کرتی دکھائی دیتی ہیں۔یہی تمام عناصر مل کر ان کے تنقیدی نظام کو واضح کرتے ہیں۔
(۱۰) ادب میں سرقہ اور جعل سازی کی نشاندہیـ
حیدر قریشی نے اپنی تنقید کے ذریعے جہاں نئے اور پرانے لکھنے والوں کے فکر و فن پر سیر حاصل جائزے پیش کیے وہاں ایسے جعلی ادیبوں پر سخت گرفت بھی کی جو چور راستے سے ادب میں وارد ہوئے اور مختلف حربوں کے ذریعے خود کو ادیب منوانا شروع کر دیا۔ ایسے لوگوں کو منظرعام پر لانا کوئی آسان بات نہ تھی لیکن حیدر قریشی یہ کام کر گزرے جس کی وجہ سے ایک مخصوص حلقہ ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا تھا، تا ہم وقت کی میزان نے ثابت کر دیا ہے کہ اصل ادیبوں کی موجودگی میں نقلی ادیبوں کی دال گلنا محال ہے ۔ اُردو ادب میں اس نزاعی موضوع پر کافی لوگوں نے طبع آزمائی کی ہے ۔ مولوی نجم الغنی نے’’ بحر الفصاحت‘‘ میں سرقہ اور توارد کے کئی پہلوؤں پر نا قدانہ انداز میں قلم اٹھایا ہے ۔ شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی نے اپنے تحقیقی رسالے ’’جریدہ‘‘ شمارہ نمبر ۲۷ میں مشرق و مغرب میں سرقہ نویسی کی تاریخ کے کچھ اوراق متعارف کرائے ہیں۔ اس یاد گار شمارے کے پہلے مضمون کا آغاز ہی ان الفاظ میں ہوتا ہے :
’’سرقہ‘تصرف‘افادہ‘استفادہ‘استفاضہ‘اخذ‘تقلید‘نقل‘توارد‘یکسانیت‘ مشابہت‘مطابقت‘متحدالخیالی‘متوازیات‘اثراور امثالِ سرقہ( نثر و نظم) سے متعلق مباحث علمی وادبی تواریخ کا خصوصی موضوع رہے ہیں۔‘‘(۶۳)
حیدر قریشی نے اسی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ اُنھوں نے اپنے مضامین میں اس حوالے سے جو بھی لکھا اُسے مکمل سند کے ساتھ دوسروں کے سامنے پیش کر دیا ہے، مثلاً وہ اپنے مضمون ’’اُردو غزل کا انتقام‘‘ میں یہ انکشاف کرتے ہیں کہ ستیہ پال آنند نے امریکہ کے ایک مشاعرے میں غلام محمد قاصر کے اشعار اپنے نام سے سنا دیے تھے۔
شعر یہ ہیں:
بغیر اُس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا (۶۴)
یہ غزل غلام محمد قاصرؔ کے شعری مجموعے ’’دریائے گمان‘‘ کے فلیپ پر بھی موجود ہے۔ آنند صاحب نے مذکورہ بالا ا شعار جس ادبی تقریب میں سنائے تھے اُس کی ویڈیو ٹیپ یو ٹیوب پر موجود ہے، جس کا لنک یہ ہے:
(۶۵) www.youtube.com/watch?bv=x10wwcv6g
ستیہ پال آنند نے خاصی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی اور مختلف احباب بشمول حیدر قریشی کو اپنی ای میلز کے ذریعے اِدھر اُدھر کی باتوں میں اُلجھانا چاہا مگر حقائق تاہم حقائق ہیں۔ حیدر قریشی لکھتے ہیں:
’’ستیہ پال آنند نے اپنی ایک معصوم لغزش کا فراخدلانہ اعتراف کر لیا ہوتا توآج یوں مزید تماشا نہ بنتے۔ اُنہیں جھوٹ پر جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں اور ہر جھوٹ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ (۶۶)
حیدر قریشی کے اس مضمون میں ستیہ پال آنند کی وہ ای میلز بھی درج ہیں جن میں یہ ساری بحث موجود ہے۔ بخوفِ طوالت غیر ضروری حوالہ جات سے اجتناب برتا گیا ہے۔ تاہم یہ طے شدہ امر ہے کہ ستیہ پال آنند نے غلام محمد قاصر کا کلام بغیر حوالہ دیے پڑھا تھا اور لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ یہ اُن کا اپنا کلام ہے۔
حیدر قریشی لکھتے ہیں:
’’میں ذاتی طور پر ادب میں سرقہ اور جعلسازی کے خلاف
ایک عرصہ سے متحرک ہوں لگ بھگ ۱۹۹۰ء سے۔ ‘‘ (۶۷)
یہ بیان بھی ملاحظہ ہو:
’’ تمام تر مخالفت کے باوجود میں نے سرقہ اور جعل سازی کو بے نقاب کرنے کا اپنا کام جاری رکھا۔ اس وقت بھی انڈیا میں جو گندرپال کے افسانے کا سرقہ کرنے والے ایک کردار پر کام کر رہا ہوں۔‘‘ (۶۸)
اس ضمن میں اُن کے کئی مضامین شائع ہوئے جس کی وجہ ہے نئے نئے سرقوں کا سُراغ ملا۔ مثلاً عمران بھنڈر وہ شخص ہے جس نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے اُن سرقوں کو منظر عام پر لایا جس کا ارتکاب اُنھوں نے اپنی تصنیف ’’ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ میں کیا تھا۔ یہ مضمون ’’نیرنگ خیال‘‘ راولپنڈی کے سالنامہ (۲۰۰۶ء) میں چھپ چکا ہے۔ مذکورہ مضمون میں عمران بھنڈر نے گوپی چند نارنگ کو مصنف کے بجائے مترجم ثابت کرنے پر زور دیا۔ یہ مضمون ہر قسم کے ضروری حوالہ جات سے مزین تھا لہٰذا اُردو ادب میں اِس نزاعی مضمون نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہی عمران بھنڈر بعدازاں خود بھی سرقے کا مرتکب ہوا جس کی نشاندہی حیدر قریشی نے اپنے مضمون ’’عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی‘‘ (مشمولہ:’’ تاثرات‘‘) میں بوضاحت کر دی۔ حیدر قریشی نے مقدور بھر یہ کوشش کی ہے کہ وہ ادب میں دراندازی کرنے والوں کو بے نقاب کریں۔ اس سلسلے میں انھیں خاصی کامیابی نصیب ہوئی لیکن کئی ادبی حلقوں کی جانب سے مخالفت کا بازار بھی گرم رہا ہے۔اس حوالے سے اُن کی کاوشیں منظر ِ عام پر آتی رہیں گی۔
(۱۱) ماہیے پر تنقیدی مباحث
حیدر قریشی نے صنفِ ماہیا کے فنی، فکری، تخلیقی، اُسلوبیاتی اور تحقیقی زاویوں کی وضاحت وصراحت کی خاطر مضامین کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ الگ الگ کتابوں کی صورت میں شائع ہونے کے بعد کلیات کی شکل میں بعنوان ’’اُردو ماہیا تحقیق وتنقید‘‘ بھی طبع ہو چکا ہے۔ اس کلیات میں ماہیے پر قابل ِقدر تنقیدی سرمایہ محفوظ ہو چکا ہے۔ فاضل تنقید نگار نے اپنے انٹرویوز، مضامین، نجی خطوط، پیش لفظ، ادبی وسائل کے مدیروں کے نام خط اور تبصروں کے ذریعے اپنی تنقیدی آرا کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستان کے معروف شاعر پروین کمار اشکؔ کے بارے میں یہ تنقیدی رویہ ملاحظہ ہو:
’’پروین کمار اشک کے ماہیوں میں کہیں کہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اُن میں زمینی آسمانی، طبیعیاتی ومابعد الطبیعیاتی قسم کی نیم فلسفیانہ لہر بھی آ جاتی ہے۔ ماہیا اپنے مخصوص مزاج کے باعث دقیق اور فلسفیانہ مضامین کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ایسے مضامین کو ماہیے کے لئے شجرِ ممنوعہ قرار دینا بھی مناسب نہیں۔‘‘ (۶۹)
شاعر کے تخلیقی عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اس طرح کی تنقیدی رائے ظاہر کرنا بذاتِ خود عملِ خیر ہے۔ توازن اور تجزیے کا خوبصورت امتزاج اور بھی کئی جگہوں پر نظر آتا ہے۔
نذیر فتح پوری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’نذیر فتح پوری کے ہاں پنجاب کے دریائی اور میدانی مزاج کی بجائے صحرائی مزاج ملتا ہے۔ ماہیے کے مزاج میں صحرائی اثرات کی مکمل نفی تو نہیں کی جا سکتی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہیے کے مزاج کا غالب عنصر میدانی اور پنج دریائی ہے۔‘‘ (۷۰)
نذیر فتح پوری کا تعلق چوں کہ راجستھان سے ہے اسی لیے اُن کے ماہیوں میں مقامی رنگ کا اثر نمایاں ہے۔ حیدر قریشی نے اسی منفرد پہلو کو تنقیدی میزان میں تولنے کی کوشش کی ہے۔برطانیہ کے شہر برمنگھم کی معروف شاعرہ اور مزاح نگار رضیہ اسماعیل کے ماہیوں میں خاصا موضوعاتی تنوع ملتا ہے۔ اُنھوں نے برطانیہ میں موجود تارکینِ وطن کے مسائل وعوارض کو بھی اپنی ماہیا نگاری کا حصہ بنایا ہے۔ حیدر قریشی نے اس جہت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ تنقیدی رائے دی ہے:
’’یورپ میں مقیم بعض دوسرے ماہیا نگاروں نے بھی یہاں درپیش مسائل کو عمدگی سے اپنا موضوع بنایا ہے لیکن ایسا انداز کہ جس سے ہم لوگوں کا ثقافتی بحران اور اس مسئلے کی داخلی کیفیات نمایاں ہو سکیں، اس کو رضیہ اسماعیل نے ایسی بے ساختگی سے بیان کیا ہے کہ یہ اُن کی انفرادیت بن گئی ہے، ایسی انفرادیت جس میں پورے اجتماع کی ترجمانی یا عکاسی موجود ہے۔‘‘ (۷۱)
رضیہ اسماعیل کے ماہیوں پر یہ تنقیدی رائے شاعر کے اصل وژن کو سمجھنے میں معاونت کرتی ہے۔ نئی تنقید نے فن پارے کی تقسیم میں متن کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ شاعر اور دیگر سماجی احساسات کی نفی ہو کر رہ گئی تھی لیکن حیدر قریشی کی تنقید فن پارے کو کلیاتی تناظر میں پرکھنے کی قائل ہے۔ یہی وہ راست تنقیدی سمت ہے جو قاری کو اصل فن پارے کی سیر کراتی ہے۔ ساختیاتی تنقید کے معماروں نے فن پارے کو تمام لوازمات سے آزاد کر کے ہوا میں معلق کر دیا ہے۔ حیدر قریشی کی تخلیقی تنقید فن پارے کو تمام ضروری لوازم سمیت قبول کرتی ہے اور یہی اُن کی انفرادیت بھی ہے۔ ہمارے ساختیاتی نقاد اس حقیقت کو نہیں سمجھ پا رہے :
’’شاعر یا فنکار اقدار اُس وقت تخلیق کرتا ہے جب کہ وہ خارجی حقیقت کے بارے میں اپنے ذہنی رجحان اور قوتِ ارادی کے میلانات کا اظہار کرتا ہے۔ خواہ وہ رجحان خارج کے مقابل میں جذبہ سپردگی ہی کا کیوں نہ ہو۔‘‘(۷۲)
ممتاز حسین کے اس بلیغ بیان نے ساختیاتی طریقِ کار کی نفی کر دی ہے۔ حیدر قریشی کا مکتبِ تنقید اسی روشن فکری کو آگے بڑھاتا ہے۔ وہ تجربے کی جامعیت کو مانتے ہیں اور شاعر کی جدلیاتی فکر کے بدلتے منظر ناموں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
حیدر قریشی کی تنقید نگاری پر مشرق ومغرب کے کسی بڑے نقاد کے اثرات تلاش کرنا بے معنی ہے۔ اُن کا تنقیدی انداز سراسر اُن کا اپنا ہے۔ جس طرح خالص ادبی جذبات تخلیقی عمل میں اُن کے ہمراہ ہوتے ہیں بالکل اس طرح عمومی رویے اور جذبات واحساسات بھی اُن کی تخلیقی ادبی تنقید کا بھرپور عکس ہیں۔
(ب) حیدر قریشی کے تنقیدی رویے اور اُسلوب
تنقیدی عمل جہاں فن پارے کے فنی وفکری زاویوں پر روشنی ڈالتا ہے وہاں نقاد کے ذہنی رویوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ تنقید خواہ معروضی ہو یا موضوعی وہ نقاد کے شعوری اور لاشعوری محرکات کو اُس کی تحریر کے ذریعے ظاہر کر دیتی ہے۔ تنقیدی عمل کے دوران احساس وادارک کی لہریں کسی نہ کسی حوالے سے اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں اور یہی وہ پراسرار راستہ ہے جس پر چل کر نقاد کے باطنی رویوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ اِن تمام اہم اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے حیدر قریشی کے مخصوص تنقیدی رجحانات کا کھوج لگانے کی سعی کی جا رہی ہے تاکہ اُن کی تمام تنقیدی سرگرمیوں کو اصل تناظر میں سمجھا جا سکے۔
(۱) تنقیدی نظریات اور طریقِ کار
حیدر قریشی اپنی تنقیدی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اُردو میں نقاد کہلانے کے لیے جس قسم کی تنقید لکھی جا رہی ہے، میں اُس قطار میں شمار نہیں ہوتا۔ میرے جملہ مضامین، تبصرے اور تاثرات ایک قاری کے تاثرات ہیں، ایسا قاری جو خود تخلیق کار بھی ہے۔‘‘ (۷۳)
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’تنقید کو تخلیق کا جزوی حصہ سمجھتا ہوں…… کسی کتاب یا موضوع پر لکھتے وقت جو کچھ میرے ذہن میں آتا ہے اور دل اُسے جس حد تک قبول کرتا ہے میں اُن تاثرات کو لکھتا چلا جاتا ہوں۔ قارئین پر کسی درآمدی نظریے یا فلسفے کا رعب جھاڑنا میرا مطمح نظر نہیں رہا۔‘‘ (۷۴)
’’مابعد جدیدیت کے زیر اثر قاری کو قرأت کی آڑ میں ناقد کی بالادستی کا ڈرامہ تو اُردو ادب میں نہ صرف فلاپ ہو چکا ہے بلکہ اس کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔‘‘ (۷۵)
یہ بات صداقت پر مبنی ہے۔ ہمارے ہاں مغرب سے درآمد شدہ تنقیدی نظریات کا جو چربہ پیش ہوتا رہا ہے اُس کی وجہ سے متن کو اصل شئے قرار دے کر تخلیق کار کو غیر اہم سمجھ کر ایک طرف ڈال دیا گیا جس کی وجہ سے جہاں ہماری مشرقی تنقید کو رد کر دیا گیا وہاں موجود نئی تنقید کو غلط سمت پر ڈال دیا گیا۔ اُردو تنقید میں دراندازی کا یہ عمل خاصا نقصان دہ ثابت ہوا اور کئی ذہین ادیبوں کی گمراہی کا سبب بنا۔ اس سارے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے حیدر قریشی کی اس متوازن فکر کا مطالعہ کریں جس میں وہ بتاتے ہیں:
’’تخلیق کار، فن پارے اور قاری تینوں کے درمیان ہم آہنگی سے ادب کی تفہیم وترویج ممکن ہے۔‘‘ (۷۶)
تنقید کا اصل حسن اس میں پوشیدہ ہے کہ ان تینوں میں ہم آہنگی اور تناسب کا رشتہ برقرار رہے اس تکون کو قائم رکھنا بھی تنقید کے منصب کا لازمی حصہ ہے ۔لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں ساختیات اور جدید یت کے نام پر جو ڈرامہ بازی ہوتی رہی اس نے ہمارے تنقیدی عمل کو بے طرح مجروح کیا ہے، بالخصوص جدید یت کے حوالے سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا یہ بیان مخدوش صورت حال کو واضح کرتا ہے۔
’’جدیدیت پر اُردو میں لکھے گئے مکالمات ایک عجیب انتشار کو پیش کرتے ہیں یہ انتشار تعقلاتی اور تعبیری دونوں سطحوں پرہے۔جدیدیت کے مرکزی تعقلات کی وضاحت میں خوب آزادی سے کام لیا گیا ہے ان تعقلات کی تعبیر میں من مانی کی گئی ہے ظاہر ہے یہ آزادی اور من مانی وہاں خوب فروغ پاتی ہیں جہاں اصطلاحات کو سنگ گراں اور تناظر کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہو۔‘‘(۷۷)
اس غلط روشن نے جو فکری مغالطے پیدا کیے ان کا تدراک آج تک نہ ہو سکا تنقید کا نظری اور عملی سرمایہ مختلف منازل طے کرنے کے بعد ہی اپنی شناخت متعین کرتا ہے اگر اسے ماضی سے کاٹ کر اور ہوا میں معلق کر کے ترقی دینے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا نتیجہ انتشار خیالی کی صورت میں بر آمد ہو گا حیدر قریشی تنقید کے جدید نظری مباحت کو خاص اہمیت دیتے ہیں لیکن کسی فکری بے رہ روی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتےـ:
’’میں نظری تنقید کی اہمیت کا بھی معترف ہوں ،اس کی وجہ سے ادب کے سرے فلسفہ اور سائنس سے جا ملتے ہیں۔‘‘(۷۸)
نظری مباحت میں جدید علوم و فنون نے تنقید پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جن لوگوں نے جدید علوم کی سطحی معلومات کو تنقید میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی اصل مسائل کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔وگرنہ نئے علوم کی مدد سے تنقید نے اپنے ہونے کا ٹھوس جواز فراہم کیا ہے۔
حیدر قریشی غیر سنجیدہ نقادوں سے باقاعدہ ناراضی کا اظہار بھی کر دیتے ہیں:
’’تنقید کو ہمارے ہاں سکہ بند نقادوں کا فریضہ بنا کر نقاد کو
ادب میں کسی مذہبی پیشوا سے ملتی جلتی حیثیت دے دی گئی
ہے ۔رہی سہی کسر ان مابعد جدید شارحین/سارقین نے پوری
کر دی جنہوں نے مختلف حیلوں سے مصنف اور متن دونوں کو
بے وقعت قرار دے کر اپنی تشریحات اور سرقوں ہی کو ادبِ عالیہ
قرار دلوانا چاہا۔‘‘(۷۹)
حیدر قریشی کے اس طرز عمل یا ردِعمل کو سمجھنے کی خاطر جدید تنقید کے اُس پس منظر کو جاننا لازمی ہے جس میں نت نئی تنقیدی اصطلاحات کے عقب میں انگریزی کتابوں کے چربے،ترجمے اوربراہِ راست سر قے اُردو میں منتقل ہونا شروع ہوئے ۔جدیدیت کے اس سیل ِبے پناہ کا تجزیہ کیا جائے سوائے مایوسی اور بدعات کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔حیدر قریشی کے تنقیدی وژن کی جانکاری حاصل کرنے کے لیے اس پس منظر کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ان کے نزدیک ادبی تنقید ذہنی معرفت کا دوسرا نام ہے۔وہ بغیر کسی ذاتی منفعت اور دوست داری کے حق سچ کی پیروی کرتے ہیں۔یہ حق گوئی اکثر اوقات ان کے پرانے تعلقات پر بری طرح اثر انداز بھی ہوتی رہی مگر وہ بھی قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید کی مجسم تصویر بنے رہے۔
(۲) کفایت لفظی اور سادگی
حیدر قریشی کا تنقیدی اُسلوب اختصار کی جانب مائل ہے۔بھاری بھر کم الفاظ ،بڑی بڑی تنقیدی اصطلاحات اور بے جا لفاظی ان کے مزاج سے لگا نہیں کھاتے۔مفہوم کی ادائیگی میں استعارات اور تشبیہات سے دامن بچ کر چلتے ہیں۔سادہ اور سلیس الفاظ و محاورات ان کی پہچان ہیں۔زبان عام فہم اور سادہ استعمال کرتے ہیں۔ان کے بیان میں تضنع اور بناوٹ نہیں ہوتی ،انداز بیان کی سادگی اور شائستگی کی وجہ سے ہر طبقے کا قاری ان کی تحریروں کو حسب حال پاتا ہے۔ان کا قلم بے اعتدالی کا شکار نہیں ہوتا۔دوسروں کی ادبی کمزوریوں کی جانب بھی غیر محسوس انداز میں توجہ دلاتے ہیں۔زبان و بیان کی اس سادگی نے ان کے اُسلوب میں جاذبیت پیدا کر دی ہے۔وہ ہلکے پھلکے انداز میں مطلب کی بات کہہ دینے کا فن جانتے ہیں۔یہ مثال دیکھئے:
’’عبداللہ جاوید کی شاعری بے ساختہ پن،رواں اور سہل ممتنع کی خوبیوں سے لبریز ہے۔‘‘ (۸۰)
عبدالرب اُستاد کی تنقیدی کتاب پر اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں:
’’وہ تاثر اور تنقید دونوں کو یکجا رکھتے ہیں۔بلکہ دونوں کی یکجائی سے متوازن تنقید کا بہتر تاثر سامنے آتا ہے۔‘‘(۸۱)
اس نوع کی تنقیدی فعلیت پڑھنے والے کی تربیت بھی کرتی ہے۔سادہ اُسلوب نگارش میں حسن و تاثر بھی اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ نقاد کسی فن پارے کے جملہ عناصر کو جذب کرنے کے بعد اظہار خیال کرتا ہے۔کفایت ِلفظی اور سادگی کا ایک یہ انداز ملاحظہ ہو جہاں حیدر قریشی محض چند سطروں میں تین اافسانہ نگاروں کے کلیدی اوصاف واضح کر رہے ہیں:
’’انور سجاد کے ہاں روایتوں سے بغاوت کا رجحان ہے۔انتظار حسین کے ہاں روایتوں پر جدید عہد کی تشکیل کی خواہش ہے،رشید امجد کے ہاں روایتوں سے مکمل بغاوت تو نہیں مگر انحراف ضرور ملتا ہے۔لیکن گریز ساری کہانی میں آنکھ مچولی کی طرح چلتا ہوا آخر میں روایتوں کو مسترد کرنے کی بجائے اس کے صحت منداجزا کو ملا کر جدید عہد کی تشکیل کرتا ہے۔‘‘(۸۲)
تنقید کا یہ سادہ انداز بذات خود تخلیقی مقام پر فائز ہے۔محمد حسن عسکری نے لکھا تھا:
’’تربیت یافتہ ادبی شعور کے بغیر کسی ادب پارے کی قدر و قیمت کا تعین ممکن نہیں۔‘‘(۸۳)
حیدر قریشی کی تنقیدات میں یہ شعور اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے اور پڑھنے والوں کے فکر و نظر میں خوش گوار اضافوں کا باعث بھی بنتا ہے۔
(۳) حقیقت پسندی
ادبی تنقید تین شعبوں پر مشتمل ہے یعنی اُصول تنقید ،عملی تنقید اور نقدِ تنقید۔ان تینوں کی بنیاد حقیقت پسندی پر اُستوار ہے۔ہماری اُردو تنقید میں جو کمزوریاں نظر آتی ہیں اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ حقائق سے چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے اور وقتی یا ہنگامی قدروں کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں۔ایسے غیر علمی رویوں کی وجہ سے اُردو تنقید قدرے سست روی سے آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔
حیدر قریشی نے عملی اور نظری سطح پر اس خرابی کی مذمت کی ہے اور تنقید میں واقعیت نگاری کو اپنا شعار بنائے رکھا ہے۔مبالغہ آرائی اور طول کلام سے اپنی تنقید کو پاک رکھ کر اور جائز اور سیدھی بات لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ تخلیقی تنقید میں حق گوئی کا عنصر کیسے شامل کیا جا سکتا ہے۔اس وقت امریکہ ،کینیڈا اور یورپ میں بیسیوں ایسے شعرا موجود ہیں
( شاعرات بھی) جو خود شعر کہنے کا ملکہ نہیں رکھتے مگر شہرت اور ناموری کے چکروں میں اس طرف آنکلے ہیں۔ حیدر قریشی اس المیے کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’پاکستان اور انڈیا میں ایسے ضرورت مند اُستاد ،شاعر موجود ہیں جو معقول معاوضہ پر پورا شعری مجموعہ لکھ کر دے دیتے ہیں۔جعلسازی کے فروغ کے اس خطرناک رجحان پر بر وقت گرفت نہ کی گئی تو یہاں اصل اور نقل کا فرق کرنا ہی مشکل ہو جائے گا ۔یہ اُردو ادب کا جنازہ نکالنے والا کام ہو رہا ہے۔‘‘(۸۴)
اور صورت حال یہ ہےـ:
’’مغربی ممالک میں جعلی شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی کھیپ پیدا ہو چکی ہے۔‘‘(۸۵)
مغرب میں اس وقت بے شمار اُردو شاعر اور نثر نگار موجود ہیں لیکن اس طرح کے انکشافات کرنے کو کوئی جرأت نہیں کرتا۔ہر لکھنے والا کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ہو کر اس المیے کو بے نقاب نہیں کرتا۔تاہم حیدر قریشی نے تمام مصلحت کوشی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اصل حقیقت بیان کر دی ہے۔یہ ان کی حقیقت پسندی کا مثبت پہلو ہے۔حیدر قریشی کے نزدیک ادبی اقدار اور اخلاقی اقدار کا باہمی بندھن ناگزیر ہے۔جہاں یہ بندھن کمزور یا ڈھیلا پڑ جائے وہاں بے ایمانی اور بد دیانتی جنم لیتی ہے۔ان کی شخصیت پر حق گوئی کا غلبہ اتنا مضبوط ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر بات کرتے کرتے حق پر مبنی دل کی بات کہہ جاتے ہیں۔مثلاً وہ ناصر عباس نیرکی ادبی شخصیت پر بات کرتے کرتے ان کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں:
’’اگر ادب میں اقتدار والوں کے مقاصد اور دوسری اغراض فوقیت اختیار کرنے لگیں تو جینوئن لکھنے والے ادبی برکت سے محروم ہو کر قلم کی بے برکتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘(۸۶)
یہ مشورہ اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے،اگر اس کی پرتوں کو کھول کر دیکھا جائے تو یہی درس ملے گا کہ کسی حال میں بھی حق و صداقت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔کرامت علی کرامت کا جب تازہ مجموعۂ مضامین بعنوان’’نئے تنقیدی مسائل اور امکانات‘‘ان کے ہاتھ آیا تو اس کی کمزوریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا:
’’تاہم مجھے لگا کہ وہ بعض امور میں کسی بہتر نتیجہ تک پہنچنے کی بجائے کہیں آس پاس ہی رہ جاتے ہیں۔‘‘(۸۷)
اگر حیدر قریشی چاہتے تو یہ بات گول مول انداز میں بھی کر سکتے تھے لیکن ان کی صاف گوئی کی بدولت یہ بات تقریباً براہ راست پیرائے میں سامنے آگئی ہے اور صاحب کتاب اسے پڑھ کر اپنا قبلہ درست کر سکتا ہے۔تنقید کا یہ انداز ذرا سخت ضرور ہے لیکن اس کی اثر انگیزی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ہماری اُردو تنقید کو یہی انداز درکار ہے۔نقاد کی ذمہ داریوں میں جہاں بہترین علم کی ترویج،غیر جانب داری ، تقابلی مطالعے کے عناصر اور وسعت مطالعہ کی ضرورت پڑتی ہے وہاں محقق اور تخلیق کا ر کو درست جادہ پر گامزن رکھنا بھی نقاد کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔نقاد کی نظر حقائق پر ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے پڑھنے والوں کو بھی حقائق دکھا سکے حیدر قریشی نے یہ فرض عمدگی سے ادا کیا ہے۔
(۴) تشریحی اور توضیحی انداز
تنقید ایک ایسی ہمہ گیر علمی سر گرمی ہے جس میں بیک وقت کئی اہم امور کا لحاظ کرنا ہوتا ہے۔ جن میں ایک بڑا کام یہ بھی ہے کہ زیرِ نظر فن پارے کی جانچ پرکھ کے ساتھ اس کی تشریح و توضیح کا فریضہ بھی انجام دیا جائے۔انگریزی ادب کے معروف نقاد ٹی،ایس ایلیٹ بھی اس تنقیدی پہلو کو اہمیت دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے:
’’جب میں تنقید کا نام لیتا ہوں تو یقینا اس سے یہاں میری مراد تحریری لفظوں کے ذریعہ کسی فن پارے کی تفسیر و تشریح سے ہے۔‘‘(۸۸)
اپنی بات کی مزید وضاحت کے لیے ایلیٹ لکھتا ہے:
’’تنقید کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ کسی مقصد کا اظہار کرے،جسے سرسری طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ فن پارے کی توضیح اور اصلاحِ مذاق کا کام انجام دے ۔ اس طرح نقاد کا کام بالکل واضح اور مقرر ہو جاتا ہے اور اس بات کا فیصلہ بھی نسبتاً آسان ہو جاتا ہے کہ آیا وہ اسے تسلی بخش طور پر انجام دے رہا ہے یا نہیں۔‘‘(۸۹)
حیدر قریشی کی تقریباًتمام تنقیدی سرگرمیوں میں تشریح و توضیح کا انداز نمایاں ہے۔اس انداز کے دو بڑے فوائد ہیںـ؛ایک تو علم قاری اصل فن پارے کے نزدیک ہو جاتا ہے دوسرا اس پر ہونے والی تنقید کا معیار نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔اس ضمن کی ایک نمائندہ مثال اُن کے مضمون ’’ہر من ہیسے کا ناول ’’سدھارتھ‘‘ہے۔اس ناول پر بات کرنے سے پہلے وہ متعلقہ مصنف کا جامع پس منظری مطالعہ پیش کر دیا ہے تاکہ ایک عام قاری بھی اصل حقائق و واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ناول کا فہیم حاصل کرے اور اس پر لکھی جانے والی تنقید کی قدرو قیمت جان سکے۔حیدر قریشی یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد’’سدھارتھ‘‘کے تشریحی مقامات واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اس ناول میں متعدد فکری سوالات اور شبہات بھی سامنے آتے ہیں اور فلسفیانہ روحانی جستجو کے ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جو پنڈتوں،پادریوں اور مولویوں کی طویل تقریروں پر بھاری ہیں۔‘‘(۹۰)
اس ناول کا ایک اہم کردار واسودیو ہے۔اس کردار کے گرد ایک ایسی ماورائی دُھند چھائی ہوتی ہے کہ قاری کو اس کردار کی اہمیت و افادیت کے بارے میں ٹھیک اندازہ نہیں ہوپاتا،حیدر قریشی اس کردار کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’واسودیو عام زندگی کا ایک ایسا کردار ہے جو کوئی عالم نہ ہوتے ہوئے جنگل اور دریا کے کناروں پر فطرت سے براہِ راست فیض یاب ہو کر اس کے بھیدوں سے آشنا ہوتا ہے۔واسودیو کا کردار خاموش طبع ہونے کے باوجود دریائی صفات سے لبریز دکھائی دیتا ہے۔‘‘(۹۱)
یہ وضاحتی نکات ناول کے اہم مقامات کی تفہیم کرتے ہیں ۔اس کے اصل مرکزی کردار کا نام ’’سدھارتھ‘‘ہے جو ناول کے تمام حصوں میں متحرک دکھائی دیتا ہے،ابہام کی پرچھائیاں اس کے گرد بھی لپٹی نظر آتی ہیں جن کی وضاحت کرنے کے لیے حیدر قریشی کو یہ لکھنا پڑا:
’’سدھارتھ کی مجموعی شخصیت کو دیکھیں تو یہ ایک ایسی مضطرب روح ہے جو علم کی بجائے دانائی کی کھوج میں ہے۔جو ترکِ دنیا کر کے بھی دنیا سے دور نہیں جا پاتی اور دنیا کے اندر اتر کر بھی اپنے اندر کے تیاگی سے نجات نہیں پاسکتی۔یہی اس کی اصل کشمکش ہے۔‘‘(۹۲)
حیدر قریشی نے ہر من ہیسے کے ناول میں چھپے اس مرکزی دھارے کی کھوج لگائی ہے جس کی جانکاری ناول کے مشکل مقامات کو آسان بنا دیتی ہے۔سید احتشام حسین بھی ذمہ دار نقاد سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ:
اُس فلسفے کو ڈھونڈ نکالے جو ادیب کے خیالوں کو ایک مربوط شکل میں پیش کرنے کا ذریعہ بنا ۔اس طرح یقینا ایک منزل میں تو نقاد کو بھی ادیب کے ساتھ ہر وادی و کوہسار میں چلنا پڑے گا۔‘‘(۹۳)
اگر سید احتشام حسین کے اس وقیع بیان کو بغور پڑھا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ نقاد کے تشریحی اور توضیحی فرائض ہی کی بات کر رہے ہیں۔ادیب کے اصل فلسفے تک وہی نقاد رسائی حاصل کرے گا اور پھر تنقیدی اُسلوب میں پیش کرنے کی ہامی بھرے گا جو پہلے خود فہم وادراک کے مراحل طے کر چکا ہو۔اگر فن پارے نے اس پر اپنے باطنی اسرار اور بھید کھولے ہیں تو وہ اپنے تنقیدی عمل میں دوسروں کو بھی شریک کرتا جائے گا اور یوں تفہیم کی منزل سر ہوتی چلی جائے گی۔ حیدر قریشی کے تنقیدی عمل کی بنیاد ہی تشریح و توضیح ہے۔اس لگاؤ کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اُنھیں منشایاد کا پچاس افسانوں پر مشتمل کلیات ’’شہرِ فسانہ‘‘ملا تو اس ضخیم کتاب کا مطالعہ تمام کرنے کے بعد ایک طویل تنقیدی مضمون قلم بند کیا اور اُس میں کمال اختصار کے ساتھ پچاسوں افسانوں کے مرکزی خیال پر توضیحی اشارے لکھ ڈالے۔یہ اشارے مختصر ہونے کے باوجود اتنے واضح اور جامع ہیں کہ محض انھیں پڑھ کر اصل افسانے کا تاثر ذہن میں تازہ کیا جا سکتا ہے۔حیدر قریشی نے ان توضیحی اشاروں،اسالیب،موضوعات،کردار،پلاٹ،وحدت ِتاثر اور علامتوں پر بات کی ہے۔یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد تنقیدی مضمون ہے۔
(۵) معروضی تنقید
ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی معروضی تنقید کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ادبی نصوص کی ذاتی قیمت اور اضافی مقام کا تعین ،معروضی تنقید ہے۔ اصطلاح میں معروضی تنقید،ادبی عبارتوں کو پرکھنے ،ان کا صحیح اندازہ،اُن کا مقام اور مرتبہ متعین کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘(۹۴)
اس شعبۂ علم کے ناقد میں درج ذیل اوصاف کا ہونا احسن ہے:
’’معروضی نقاد کا ثاقب النظر،سریع الخاطر اور مہذب الذوق ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ادیب کے ساتھ میلانِ طبع اور اس کے فطری جذبے میں شریک ہو۔‘‘(۹۵)
معروضی تنقید میں عموماً جذبہ،خیال،مواد اور ہیئت پر بات کی جاتی ہے۔معروضی تنقید کا ناقد اگر ایک طرف مسئلہ زیرِ بحث پر غیر جانب داری کا ثبوت دیتا ہے تو دوسری جانب وہ اپنے انفرادی ذوق کو بھی بروئے کار لاتا ہے۔جمالیاتی قدروں اور اسلوبیاتی اوصاف پر بات کرنا معروضی تنقید کے اہم زاویے ہیں۔ہمارے ہاں معروضی تنقید کی اصطلاح جس یک رخے پن کا شکار ہو کر رہ گئی تھی،ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی نے اس کے وصفی اور شخصی پہلوؤں کو واضح کر کے اس کا قبلہ درست کر دیا ہے۔
حیدر قریشی کی تحریروں میں معروضی تنقید کا عنصر اپنے تمام مثبت پہلوؤں کے ساتھ موجود ہے۔اس ضمن میں ذوق و وجدان کی رہنمائی بھی وہ حاصل کرتے ہیں۔ وہ تنقید کے مروجہ اسالیب سے اپنی الگ راہ نکالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تنقیدات اصل فن پارے کے صوری اور معنوی حسن کی نقاب کشائی کریں۔وہ تنقید کی بڑی بڑی اصطلاحات سے نہ خود مرعوب ہوتے ہیں اور نہ دوسروں پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اپنے ہر تنقیدی مضمون میں اخلاقی مطالبات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور جذبہ،خیال،مواد اور ہیئت میں خاص تناسب قائم رکھتے ہیں۔یہ مثالیں ملاحظہ ہوں:
فرحت نواز کی نظموں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’فرحت نواز کی نظموں میں شک اور یقین کے درمیان اٹکی ہوئی ایسی کشمکش ملتی ہے جس نے ان کی نظموں کو ایک ہلکی سی دھند میں ملفوف کر رکھا ہے۔اس سے معنی کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہیں ہوتی اور کشمکش کی لہریں معنی کی ایک سے زائد پرتوں کی صورت دکھائی دینے لگتی ہیں۔‘‘(۹۶)
ہمت رائے شرما کے افسانوں پر رائے ملاحظہ ہو:
’’ہمت رائے شرما جی کے افسانوں میں مقصد کو بے شک فوقیت حاصل ہے تاہم ان میں ادبی رنگ شامل ہے ۔کہیں کہیں انہوں نے طویل ڈائیلاگ کے ذریعے حصول مقصد کے لئے راہ ہموار کی ہے تو کہیں طنز و مزاح سے کام لے کر درد کی شدت کو کم کرنے کی کاوش کی ہے۔‘‘(۹۷)
اکبر حمیدی کی غزلوں پر یہ رائے توجہ طلب ہے:
’’اکبر حمیدی کی غزلیں پڑھ کر میں نے محسوس کیا کہ اکبر حمیدی نے بعض موضوعات کو مَس
کرنے کے باجود خود کو ہنگامی شاعر بننے سے نہ صرف بچایا ہے بلکہ اپنے زندہ رہنے والے
شعروں کے باعث ان ہنگامی موضوعات کو بھی تاریخ میں محفوظ کر دیا ہے۔اردو غزل میں
یہ اپنی نوعیت کا کارنامہ ہے۔‘‘(۹۸)
ان اقتباسات کا مطالعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ حیدر قریشی نے معروضی تنقید کے دونوں پہلوؤں یعنی وصفی اور شخصی کو اپنی تنقیدات میں فعال رکھا ہے ۔ان تجزیوں میں بالغ نظری اور سنجیدہ علمی فکر کار فرما نظر آتی ہے۔جدید نقادوں کے ہاں ایک خرابی یہ در آئی ہے کہ وہ اپنی اصطلاحوں کے معنی متعین کیے بغیر بات کو طول دیتے ہیں جبکہ حیدر قریشی نے صاف شفاف لفظوں میں دل کی بات کہہ دی ہے۔ان کے پیش کردہ تحلیلی جائزے فن پارے کی متعین دلالتیں روشن کرتے ہیں۔
اگر ایسی تنقید تخلیقی درجے پر فائز ہو جائے تو اُس پر حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
(۶) فکری عناصر
تنقید اپنی اصل کے اعتبار سے ایک فکری سر گرمی ہے لیکن اس کا اظہار ہر ناقد کے بس کی بات نہیں۔نئی تنقید نے اب دیگر سماجی علوم و فنون سے استفادہ بھی شروع کر دیا ہے جس کی بدولت ہماری تنقید میں فکری عناصر کی شمولیت پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی رقم طراز ہیں:
’’دانتے، سنجیدہ اور اعلیٰ ادب کا اوّلین عنصر موضوع،مواد اور فکر کو قرار دیتا ہے۔‘‘(۹۹)
معیاری اور عمدہ تنقید میں بھی یہی عناصر موجود ہوتے ہیں۔کیا ایسی تنقید جو فکر و جذبے سے عادی ہو اسے ہم معیاری تنقید کہہ سکتے ہیں؟
حیدر قریشی کے تنقیدی تاثرات اور مضامین میں فکری عناصر کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ڈاکٹر شہناز نبی کی کتاب’’تانیثی تنقید‘‘پر وہ جن فکری سوالات کے ساتھ اُلجھے ہوئے تھے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا:
’’عورت کا کردار جو نئی ڈیفی نیشن چاہتا ہے،اسے زیادہ واضح کر کے پیش کیا جانا چاہیے۔کیا یہ مرد وزن کے برابر کے حقوق تک کا مطالبہ ہے یا اس سے بھی آگے کی کوئی بات ہے۔‘‘(۱۰۰)
اس مضمون میں یہ جملہ بھی موجود ہے:
’’اگر صرف تانیثی ادب پر توجہ مرکوز کی گئی تو نیک نیتی کے باوجود خواتین قلم کاروں کا الگ ڈبہ خود بخود بن جائے گا ۔‘‘(۱۰۱)
ترقی پسند نظم پر اُن کی رائے دعوتِ فکر دیتی ہے:
’’ترقی پسند نظموں میں عمومی طور پر تیز نعروں کی آندھی کے باعث تخلیقی لَو بجھ جاتی ہے۔ اسی لیے ترقی پسند نظمیں عام طور پر سپاٹ سٹیٹمنٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتیں۔‘‘(۱۰۲)
یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ حیدر قریشی کی تخلیقی تنقید میں فکری عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں اور قاری کو ان کی تحریروں میں کے ذریعے اصل فن کے پارے کے بارے میں کافی کچھ مل جاتا ہے۔
(۷) عصری آگہی
عصری آگہی کا محض اتنا ہی مفہوم نہیں ہے کہ ادیب یا ادب اپنے عہد کی سرگرمیوں اور تبدیلیوں سے واقف ہو کیونکہ یہ واقفیت تو ایک عام صحافی کو بھی حاصل ہوتی ہے،اس کے اصل مفہوم پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغارقم طراز ہیں:
’’ادب کی اصل کارکردگی اس بات میں ہے کہ وہ خود آئینہ بن کر عصر کے آئینے کے رو برو آجائے۔اگر ایسا ہو تو پھر ادب اور عصر دو متوازی قوتوں کی طرح ایک دوسرے کو متحرک ،مرتعش اور منعکس کرنے لگیں گے۔‘‘(۱۰۳)
حیدر قریشی کے تنقیدی وژن میں عصری آگہی کا یہی ارفعٰ مفہوم پایا جاتا ہے۔انھوں نے جہاں اپنی عصری تنقید میں نقدو نظر ،تحقیق و تنقیح،موازنہ و مقابلہ اور تحلیل و تجزیہ پیش کیا ہے وہاں اُردو ادب کے بڑے بڑے مسائل کو عمرانی،نفسیاتی،سیاسی،اقتصادی اور اخلاقی سطحوں پر زیر بحث لانے کی شعوری کاوش بھی کی ہے۔اس حوالے سے ان کے درج ذیل مضامین خصوصی توجہ کے مستحق ہیں:
۱۔ مغربی ممالک میں اُردو ادب کی صورت حال
۲۔ یورپ کی نو آباد اُردو بستیوں میں اُردو کا مستقبل
۳۔ مغربی ممالک میں اُردو کی صورتِ حال
۴۔ یہ ایک صدی کا قصہ ہے
۵۔ اُردو زبان اور ادب کے چند مسائل
۶۔ تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اُردو کا منظر
۷۔ یورپی ممالک میں اُردو شعر و ادب-ایک جائزہ
۸۔ اردو نظم روایت سے جدیدیت تک
۹۔ ایٹمی جنگ کا خطرہ
۱۰۔ مابعد جدیدیت:اورعالمی صورت ِحال
ان مضامین کا مطالعہ یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ حیدر قریشی عصری مسائل و عوراض پر گہری نظر رکھنے والے ادیب اور نقاد ہیں ۔ ان تحریروں میں موضوع کی تہہ داری،درد مندی،بصیرت،فکری سنجیدگی،جدید رجحانات کے اشارے،نئے طرز احساس کی ضرورت ، حقائق شناسی اور دانش وری کے عصری نقوش وافر مقدار میں مل جاتے ہیں۔انکشاف و عرفان کے یہ مراحل جب خوش اُسلوبی سے طے ہونے لگتے ہیں تو ڈاکٹر وزیر آغا کی بات سچ نظر آنے لگتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں :
’’ادیب جب اپنے عصر کے واقعات سے متاثر ہوتا ہے تو اس کے اندر کی تخلیقی مشین متحرک ہو کر اسے روحِ عصر سے ہم رشتہ کر دیتی ہے ۔پھر جب وہ ادب تخلیق کرتا ہے تو اس میں محض ان دونوں کا امتزاج نہیں ہوتا بلکہ تخلیق کار کی اپنی ذات کی آمیزش سے ایک ایسی شۓ خلق ہو جاتی ہے جو بے مثال بھی ہوتی ہے اور لازوال بھی۔‘‘(۱۰۴)
یہ بیان اپنی جگہ صداقت کا حامل ہے اور گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے۔حیدر قریشی کے تنقیدی عمل میں یہی عصری آگہی فعال نظر آتی ہے،یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ روح عصر کو اپنے شعور کا حصہ بنا کر لکھتے ہیں۔اُن کا ذہنی اُفق معاصر تنقیدی منظر نامے میں منفرد شناخت کا حامل ہے۔طولِ کلام سے دامن بچاتے ہوئے محض چند ضروری حوالوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ یہ مثال گزشتہ مباحث پر بھی روشنی ڈالتی ہے:
’’اہل مغرب کی اپنی ترجیحات ہیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے
میں اُردو کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے ۔اب ویسی اہمیت عربی اور
جاپانی کو دی جا رہی ہے تو اہلِ مغرب کے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کو سمجھا
جا سکتا ہے۔ساختیات کے مغربی دانشوروں نے جس طرح جنرل
تھیوری کا حربہ آزمانے کی کوشش کی تھی کہیں ادب کے عالمی دھارے
کا بھی ویسا ہی مقصد تو نہیں ہے؟‘‘(۱۰۵)
ادب کے حوالے سے لوگوں کے بدلتے رویوں کو حیدر قریشی نے جس نظر سے دیکھا اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو :
’’ادب کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی آرہی ہے ۔مادہ پرستی کے غلبہ سے لے کر ٹی وی چینلز تک اس کے بہت سے اسباب ہیں۔لیکن ایک بڑا سبب خود ادبیوں کی ادب سے بے توجہی ہے جو ادبی شعور کی کمی یا ادبی شعور نہ ہونے کے باعث ہے۔‘‘(۱۰۶)
ان اسباب کا جائزہ لینے کے بعد وہ کچھ اور ادبی مسائل کو قدرے وسیع تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
’’جدید عصری تقاضے اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی ہر لحظہ بدلتی ہوئی شان نے اہلِ دینا کو حیران کر رکھا ہے۔تاہم تخلیقی ادب، کسی تقاضے اور ڈیمانڈ کو پیش نظر رکھ کر تخلیق نہیں ہوتا۔نئے عصری تقاضوں کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن وہ سارے اثرات ہر تخلیق کار پر اس کی صلاحیت اور توفیق کے مطابق مرتب ہوتے ہیں اور اپنی داخلی تخلیقی قوت کے ساتھ ہی وہ ان کا اظہار کر پاتا ہے۔‘‘(۱۰۷)
حیدر قریشی کے ہاں عصری آگہی کا شعور تہذیبی اور علمی تناظرات بھی مہیا کرتا ہے۔ان کی تحریروں میں عصری آگہی کے دو دائرے بنتے نظر آتے ہیں۔پہلے دائرے میں اُن کے ذاتی مشاہدات و تجربات اور علمی رویے شامل ہیں اور دوسرے دائرے میں ان کی فکر آفاقی قدروں کو خود میں سمیٹتے نظر آتی ہے،اگر وہ چاہتے تو اپنے معاصرین کی طرح یہ تمام مسائل علامتی اُسلوب میں پیش کر سکتے تھے لیکن اُنھوں نے اپنی تنقید کو علامتی ابہام سے دور رکھا اور وضاحتی انداز اپناتے ہوئے دل کی بات کہہ دی ہے۔تاہم دل کی اس بات میں تفکر اور تعقل کا عنصر اپنی جگہ پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔علامت اور تجرید کی صورت گری ان کے تخلیقی عمل خصوصاً غزل اور افسانے میں تو صاف نظر آتی ہے لیکن ان کی تنقید میں وضاحت کے تمام اسالیب موجود ہیں۔اُس اسلوب کو بھی ان کی عصری آگہی کا لازمی جز شمار کرنا چاہیے۔
(۸) تخلیقی اُسلوبِ تنقید
حیدر قریشی نے اپنے دوسرے تنقیدی مجموعے ‘‘تاثرات‘‘کے دیباچے(عرضِ حال) میں یہ اعتراف کیا تھا:
’’میرے سارے تنقیدی مضامین کی کتابوں میں درج میرے سارے تنقیدی مضامین کو میرے تاثرات ہی سمجھا جانا چاہیے،ایک قاری کے تاثرات ……ایک تخلیق کار کے تاثرات۔‘‘(۱۰۸)
حیدر قریشی بذاتِ خود ایک اچھے اور سنجیدہ تخلیق کار ہیں ۔ان کی ادبی سرگرمیوں میں شاعری،انشائیہ نگاری،یاد نگاری،خاکہ، نگاری، افسانہ نگاری اور سفر نامہ نگاری کا خاصا اہم حصہ ہے ۔یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ان کی تنقیدی تحریروں میں کم و بیش یہی مذکورہ موضوعات زیر بحث نظر آتے ہیں۔اگر غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حیدر قریشی نے اپنی تنقید کے ذریعے تخلیقی عمل کو ہی از سر نو دریافت کرنے کی سعی کی ہے۔بازیافت کا یہ عمل زیادہ تر شاعری اور افسانوی اصناف تک محدود رہا ہے اور ان کے اپنے تخلیقی منظر نامے کو نئے حوالے سے متعارف کراتا ہے۔اگرچہ وہ خود اچھے شاعر اور اچھے افسانہ نگار ہیں لیکن ان کی تنقیدی زبان شعری اور افسانوی اسالیب سے قصداً گریز کرتی نظر آتی ہے اور یہی وصف ان کی تنقیدات میں اعتبار و وقار قائم کرتا ہے۔
تنقید اور تخلیق کے باہمی ارتباط پر ڈاکٹر وزیر آغا کا نقطۂ نظر بھی اچھی معلومات فراہم کرتا ہے:
’’جدید اُردو تنقید نے تخلیق اور تخلیقی عمل کے ساتھ جو معاملہ کیا ہے،اس سے تخلیق کے تجزیاتی مطالعے کی روش کو تحریک ملی ہے اور متن کے اعماق میں چھپے ہوئے وہ معانی سطح پر آئے ہیں جن سے خود مصنف بھی بظاہر آشنا نہیں ہوتا۔یوں گویا تخلیق کو از سرِ نو تخلیق کر کے،نہ صرف خود تخلیقی تجربے سے گزرا ہے بلکہ اس نے قاری کو بھی تخلیق مکررکی مدد سے جمالیاتی حظ کی تحصیل کا موقع فراہم کر دیا ہے۔‘‘(۱۰۹)
حیدر قریشی نے نئی اور جدید تنقید کی اس جہت کو اچھی طرح سمجھ کر اپنی تحریروں کا حصہ بنایا ہے۔ان کے پیش کردہ تجزیات میں تفہیم اور توضیح کا عمل پہلو بہ پہلو ملتا ہے۔ اسی خوبی کی وجہ سے اپنی جچی تلی آرا اور مدلل اندازِ نگارش کی بدولت قارئین کے حلقے کو وسیع بنا دیا ہے۔
تنقیدی اصول جب تخلیقی سطح پر برتے جاتے ہیں تو پھر اُسلوب میں ایک خاص نوع کی نامیاتی حرارت پیدا ہوجاتی ہے جس کے باعث تنقیدی مضمون قاری کے دل و دماغ پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا چلا جاتا ہے۔حیدر قریشی کے ہاں یہ تمام کیفیات موجود ہیں۔
(۹) ادبی دیانت داری
حیدر قریشی نے اپنے تمام تنقیدی محاکموں میں ادبی دیانت داری کے اہم تقاضوں کو مدِ نظر رکھا ہے۔تنقیدی عمل ان کے نزدیک ایک ایسا سماجی وظیفہ ہے جسے حقیقت نگاری کی بنیادوں پر استوار کر کے ہی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی مقامات پر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا تنقیدی اُسلوب روایتی سانچوں سے قدرے مختلف ہوتا جا رہا ہے۔تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی ادبی دیانت اور تہذیبی شرافت ادب کی تعمیری قوتوں کو مہمیز لگاتی چلی جاتی ہے۔ان کی تنقید افراط و تفریط سے بچتے بچاتے تلاش و توازن کے سفر پر گامزن رہتی ہے اور انفرادی تجربے اور مشاہدے کو اجتماعی شعور میں ڈھالنے کا سلیقہ جانتی ہے۔
ہمارے ہاں محض کتاب کو دیکھ کر تنقیدی مضامین لکھنے کا رواج عام ہے،خصوصاً تقریباتی مضامین اسی اصول پر لکھے جا تے ہیں(اگرچہ سنجیدہ نقاد ایسا نہیں کرتا) لیکن حیدر قریشی کے تنقیدی مضامین پڑھ کر علم ہوتا ہے کہ وہ فن پارے کو از اوّل تا آخر پڑھ کر قلم اٹھاتے ہیں۔ان کے پیش کردہ تجزیات پڑھ کر قاری جان جاتا ہے کہ یہ آرا گہرے مطالعے کے بعد تحریر کی گئی ہیں۔ ایک مثال دیکھئے:
’’اس ناول میں دو مردوں میں بٹی ہوئی محبت کے کچے جذبوں کو پختہ زبان میں بیان کیا ہے۔جذبات کے کچے پن اور الفاظ کی پختگی نے اس ناول کو ایک دل چسپ انداز عطا کر دیا ہے۔‘‘(۱۱۰)
غلام جیلانی اصغر کے شعری مجموعہ ’’میں اور میں‘‘پر اظہار کرتے ہوئے حیدر قریشی لکھتے ہیں:
’’غلام جیلانی اصغر کی نظموں کا مزاج بنیادی طور پر ترقی پسند شعراء کی نظمیہ شاعری کی توسیع ہے۔نظموں کے بہت سارے ٹکڑوں کا غزلیہ انداز اگرچہ راشد کے ہاں’’ایران میں اجنبی‘‘کی فارسیت کے زیر اثر بھی ابھرا ہے لیکن ان کی نظموں میں غزلیہ انداز نظموں کا واضح اور فیصلہ کن اختتام ان کو فیض ،ساحر ؔاور احمد ندیم قاسمی کے ساتھ جوڑتا نظر آتا ہے۔‘‘(۱۱۱)
البتہ زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب حیدر قریشی منشایاد کے کلیات ’’شہر فسانہ‘‘کے پچاس افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ ایک ہی مضمون میں پیش کرتے ہیں۔یہ مضمون’’حاصل ِمطالعہ‘‘میں شامل ہے۔اس طرح کی تحریروں سے قاری کو یہ اعتبار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ جس تحریر کا مطالعہ کر رہا ہے وہ محض فرضی اندازے نہیں ہیں بلکہ ایک ناقد کی ادبی دیانت کے بے لاگ تنقیدی تبصرے ہیں۔
(۱۰) موضوع اور اُسلوب کی سنجیدگی
حیدر قریشی کے تنقیدی مضامین میں ایک خاص رکھ رکھاؤ اور سنجیدگی نظر آتی ہے۔ان کا باطنی رد عمل جذبات کا اظہار تو کرتا ہے لیکن اس میں جذباتیت کا کوئی عنصر موجود نہیں ہوتا۔اگر وہ چاہتے تو اُسلوب کے آزادانہ استعمال سے من مانی کی صورتیں پیدا کر سکتے تھے مگر اپنے اسلوب کو حقائق کی بازیافت اور تحلیل و تجزیے کیلئے وقف کر دیا تھا۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اُسلوب کے بنیادی اوصاف پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اُسلوبیات کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کوئی خیال،تصور،جذبہ،یا احساس زبان میں کئی طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔زبان میں اس نوع کی یعنی پیرائیہ بیان کے اختیار کی مکمل آزادی ہے۔شاعر یا مصنف قدم قدم پر پیرائیہ بیان کی آزادی کا استعمال کرتا ہے۔پیرائیہ بیان کی آزادی کا استعمال شعوری بھی ہوتا ہے اور غیر شعوری بھی ، اور اس میں ذوق،مزاج،ذاتی پسند و ناپسند،صنف یا ہیئت کے تقاضوں نیز قاری کی نوعیت کے تصور کو بھی دخل ہو سکتا ہے۔‘‘(۱۱۲)
سید عابد علی عابدنے انھی عناصر کو اُسلوب کی جذباتی ،تخیلی اور جمالیاتی اوصاف قرار دیا ہے۔اُسلوب کی سنجیدگی کا تعلق اصلاً جذباتی وصف کے ساتھ جا ملتا ہے۔یہ وصف خیال افروزی کے تابع ہوتا ہے۔اُسلوب کی یہ خاصیت فن پارے کی تہہ داری میں اضافہ کرتی ہے اور تنقید میں اس کی موجودگی دلائل و براہین کو باوقار انداز سے پیش کرتی ہے۔حیدر قریشی کے تنقیدی مضامین میں اس وصف کی خاصی مثالیں موجود ہیں۔محض چند نمائندہ مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔اُسلوب کی یہ سنجیدگی اس وقت واضح صورت اختیار کر لیتی ہے جب وہ کسی ادیب یا فن پارے کا موازنہ دوسروں کے ساتھ کر رہے ہوتے تھے:
’’اکبر حمیدی اپنے انداز کا پہلا رزمیہ شاعر ہے اور اس کی رزمیہ غزلوں کا ترقی پسند رزمیہ شاعری یا اقبال کی رزمیہ کی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ترقی پسندوں اور اقبال دونوں کے ہاں ایسی شاعری میں جارحانہ انداز ملتا ہے جبکہ اکبر حمیدی مدافعانہ انداز میں کھڑا ہے۔‘‘(۱۱۳)
شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ناول کی ایک اور خوبی جس نے مجھے شروع میں چونکا دیا وہ کسی تصویر کی پراسراریت کا احساس دلانا تھا۔بنی ٹھنی کی تصویر کے بارے میں پرانی روایت کے بیان سے لے کر من موہنی کی تصویر تک……‘‘(۱۱۴)
ایسی مثالوں سے ان کے مضامین بھرے پڑے ہیں۔حیدر قریشی کے ہاں سنجیدگی کا عمل متنوع اُسلوبیاتی مظاہر میں ڈھل کر مجسم ہوتا ہے۔یہ اُسلوب جہاں سادگی اور سنجیدگی کا زائیدہ ہے وہاں بے ساختگی،بے تکلفی اور مدعا نویسی کو بھی ہم راہ رکھتا ہے۔ایجاز و اختصار اور خیال کی ارفعیت جیسے اہم عناصر اپنے مقام پر نظر آتے ہیں۔
اُسلوب کی سنجیدگی کا بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ناقدغیر ضروری مباحث کے بجائے اصل موضوع کے حوالے سے بات کرتا ہے۔اس طرح ناقد کے اپنے افکار و نظریات اور افتاد طبع پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔یہ اُسلوب کا وہ آہنگ ہے جہاں فکر و تخیل اُفقی اور عمودی سطحوں پر اظہار کی قوت حاصل کرتے ہیں۔حیدر قریشی نے اس سنجیدگی کو داخلی اور خارجی حوالوں سے منکشف کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اگر ان کے ہاں بھی دوسرے نقادوں کی طرح شوخ و شنگ جملے اور تجزیات در آتے ان کی مدعا نویسی اور منطقیت کو سخت نقصان پہنچتا۔یہ سنجیدگی ان کی پختہ فکری اور شخصی وقار کا لازمی حصہ ہے۔یہی معیاری اُسلوب ان کی تنقیدی کو معتبر بناتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ حامد اللہ افسر،تنقیدی اُصول اور نظریے،کوہ نور پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۶۴ء،ص۱۹۲۰
Cuddon.,A Dictionary of Literary Terms,Penguine,1992,London,PNo16 6- 2
۳۔ شمس الرحمن فاروقی،تعبیر کی شرح،اکادمی بازیافت،کراچی،۲۰۰۴ء،ص۶۹
۴۔ شمس الرحمن فاروقی،تعبیر کی شرح،ص۶۹
۵۔ شمس الرحمن فاروقی ،تعبیر کی شرح،ص۶۹
۶۔ ڈاکٹر وزیر آغا،تنقید اور جدید اردو تنقید،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی،۱۹۸۹ء،ص۱۶
۷۔ ڈاکٹر سلیم اختر،تنقیدی اصطلاحات (توضیحی لعنت) سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۱ء،ص۹۶
۸۔ حیدر قریشی،مغربی ممالک میں اردوکی صورت حال(مضمون)،مشمولہ، تاثرات،
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،۲۰۱۲ء،ص۲۷
۹۔ حیدر قریشی ،مغربی ممالک میں اردو کی صورت حال(مضمون) ص۲۸
۱۰۔ مغربی ممالک میں اردو کی صورت حال(مضمون) ص ۲۹،۲۸
۱۱۔ مغربی ممالک میں اردو کی صورت حال(مضمون) ص،۳
۱۲۔ ڈاکٹر جمیل جالبی،ادب کی صورت حال(مضمون) مشمولہ معاصر ادب،سنگ میل پبلی
کیشنز،لاہور۔۱۹۹۱ء،ص۱۶
۱۳۔ حیدر قریشی، یورپ کی نوآباد اُردو بستیوں میں اُردو کا مستقبل (مضمون) مشمولہ ،تاثرات، ص ۲۵، ۲۴
۱۴۔ مغربی ممالک میں اُردو کی صورتِ حال(مضمون) ص ۳۰
۱۵۔ حیدر قریشی، ڈاکٹر حامد اشرف کی تنقید نگاری (مضمون) مشمولہ، تاثرات، ص ۹۷
۱۶۔ ڈاکٹر حامد اشرف کی تنقید نگاری، ص ۹۷
۱۷۔ حیدر قریشی، ’’تاثر اور تنقید‘‘ عبدالرب اُستاد کے مضامین کا مجموعہ (تبصرہ) مشمولہ تاثرات، ص ۹۶
۱۸۔ حیدر قریشی ،’’تاثر اور تنقید ‘‘، ص ۹۵
۱۹۔ حیدر قریشی، نئے تنقیدی مسائل اور امکانات (تبصرہ) مشمولہ، تاثرات، ص ۹۹
۲۰۔ نئے تنقیدی مسائل اور امکانات (تبصرہ) ص ۱۰۰
۲۱۔ ایلیٹ ․ٹی․ایس، تنقید کا منصب (مضمون) مشمولہ ایلیٹ کے مضامین، مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی،
سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص ۲۶۰
۲۲۔ ایلیٹ․ٹی․ایس، تنقید کا منصب (مضمون) ص ۲۵۸
۲۳۔ حیدر قریشی، ہمت رائے شرما کی دو کتابیں (مضمون) مشمولہ حاصلِ مطالعہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،
دہلی، ۲۰۰۸ء، ص ۱۰۷
۲۴۔ حیدر قریشی، ’’بے ارادہ‘‘ کے افسانے، مشمولہ حاصلِ مطالعہ، ص ۱۳۷
۲۵۔ حیدر قریشی’’بے ارادہ‘‘ کے افسانے ، ص ۵۱۳۸۲۶۔ آلِ احمد سرور، فکشن کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟ (مضمون) مشمولہ نظر اور نظریے، اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی،
۱۹۸۷ء، ص ۷۱
۲۷۔ حیدر قریشی ،پوپ کہانی اور رضیہ اسماعیل کی کہانیاں(مضمون)مشمولہ ،تاثرات ص ۹۱
۲۸۔ حیدر قریشی ،پوپ کہانی اور رضیہ اسماعیل کی کہانیاں(مضمون)مشمولہ ،تاثرات ص ۹۱
۲۹۔ آلِ احمد سرور، فکشن کیا؟ کیوں؟ اور کیسے(مضمون) ص ۶۰
۳۰۔ حیدر قریشی، کئی چاند تھے سرِ آسماں(مضمون) مشمولہ، حاصل مطالعہ، ص ۱۶۹
۳۱۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں(مضمون) ص ۱۶۹
۳۲۔ کئی چاند تھے سرِ آسمان(مضمون) ص ۱۶۹
۳۳۔ کئی چاند تھے سرِ آسمان(مضمون) ص ۱۷۰
۳۴۔ حیدر قریشی، ایک دن بیت گیا (مضمون) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۱۷۵
۳۵۔ نورالحسن نقوی، فنِ تنقید اور اُردو تنقید نگاری، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۹۰ء، ص ۴۳
۳۶۔ حیدر قریشی ،ایک دن بیت گیا(مضمون) ، ص ۱۷۶
۳۷۔ حیدر قریشی، جمیل زبیری کے سفرنامے، مشمولہ حاصلِ مطالعہ، ص ۸۹
۳۸۔ حیدر قریشی، جمیل زبیری کے سفرنامے، ص ۸۹
۳۹۔ حامد اللہ افسر، تنقیدی اُصول اور نظریے، ص ۲۳
۴۰۔ حیدر قریشی،جمیل زبیری کے سفرنامے، ص ۹۱
۴۱۔ حیدر قریشی، ابنِ بطوطہ کا سفرنامہ، مشمولہ ’’تاثرات‘‘، ص ۱۲۹
۴۲۔ حیدر قریشی، اوراق گم گشتہ (مضمون) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۵۸
۴۳۔ حیدر قریشی،میرا جی،شخصیت اور فن،مشمولہ،حاصل ِ مطالعہ،ص ۳۶۵۴۴۔ محمد حسن عسکری، کچھ اُردو نثر کے بارے میں (مضمون) مشمولہ مجموعہ محمد حسن عسکری، سنگِ میل پبلی کیشنز،
لاہور، ۱۹۹۴ء، ص ۲۹۹
۴۵۔ ڈاکٹر محمد عمر رضا، اُردو میں سوانحی ادب: فن اور روایت، فکشن ہاؤس، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۹
۴۶۔ حیدر قریشی، تمنا بے تاب (تبصرہ) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۱۸۹
۴۷۔ تمنا بے تاب (تبصرہ)، ص ۱۸۹
۴۸۔ تمنا بے تاب (تبصرہ)، ص ۱۸۹
۴۹۔ تمنا بے تاب (تبصرہ)، ص ۱۹۱
۵۰۔ حیدر قریشی، یاد خزانہ(مضمون) مشمولہ حاصل مطالعہ ، ص ۱۹۳
۵۱۔ حیدر قریشی، یاد خزانہ(مضمون)، ص ۱۹۳
۵۲۔ حیدر قریشی، ایک آواز (تبصرہ) ، مشمولہ، تاثرات، ص ۱۳۵، ۱۳۴
۵۳۔ حیدر قریشی، ایک آواز (تبصرہ)، ص ۱۳۵
۵۴۔ حیدر قریشی، اکبر حمیدی کی غزلیں، ایک مطالعہ (مضمون) مشمولہ، حاصل مطالعہ، ص ۲۰۰
۵۵۔ حیدر قریشی، اکبر حمیدی کی غزلیں، ایک مطالعہ (مضمون)، ص ۲۰۹
۵۶۔ کرامت علی کرامت، شاخِ صنوبر (شعری مجموعہ)، تبصرہ حیدر قریشی، مشمولہ، تاثرات، ص ۱۳۳
۵۷۔ شاداب احسانی، پسِ گرداب (شعری) مجموعہ)، تبصرہ حیدر قریشی، مشمولہ تاثرات، ص ۱۴۳
۵۸۔ حیدر قریشی، ہم کہ ٹھہرے اجنبی (مضمون)، مشمولہ تاثرات، ص ۱۵۸
۵۹۔ ہم کہ ٹھہرے اجنبی (مضمون) ص ۱۵۹
۶۰۔ حیدر قریشی، پروین شاکر، نسائی شاعری کی آن (مضمون) مشمولہ، حاصل مطالعہ، ص ۱۹۷
۶۱۔ حیدر قریشی، پروین شاکر، نسائی شاعری کی آن (مضمون) ص ۱۹۷
۶۲۔ ممتاز حسین، تنقید کے چند بنیادی مسائل، (مضمون) مشمولہ ادب اور شعور، اُردو مرکز، کراچی،
۱۹۶۱، ص ۱۸۰
۶۳۔ سید خالد جامعی، سرقے کی روایت تاریخ کی روشنی میں (مضمون) مشمولہ جریدہ، شمارہ نمبر ۲۷،
شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ، جامعہ کراچی، ۲۰۰۴ء، ص۱
۶۴۔ غلام محمد قاصرؔ، بحوالہ اُردو غزل کا انتقام از حیدر قریشی، مشمولہ تاثرات، ص ۱۸۹
۶۵۔ اُردو غزل کا انتقام ، ص ۱۸۹
۶۶۔ اُردو غزل کا انتقام، ص ۱۹۲
۶۷۔ حیدر قریشی ،عمران شاہد بھنڈر کی مضحکہ خیزیاں، جعل سازیاں اور سرقہ، مشمولہ تاثرات، ص ۲۰۹
۶۸۔ حیدر قریشی ،عمران شاہد بھنڈر کی مضحکہ خیزیاں، جعل سازیاں اور سرقہ، مشمولہ تاثرات، ص ۵۲۰۹۶۹۔ حیدر قریشی، پروین کمار اشک کے ماہیے (مضمون) مشمولہ اُردو ماہیا تحقیق وتنقید، الوقار پبلی کیشنز،
لاہور، ۲۰۱۰ء، ص ۱۴۹
۷۰۔ حیدر قریشی، نذیر فتح پوری کے ماہیے (مضمون) مشمولہ، اُردو ماہیا تحقیق وتنقید، ص ۱۵۶
۷۱۔ حیدر قریشی، پیپل کی چھاؤں میں (پیش لفظ) مشمولہ اُردو ماہیا تحقیق وتنقید، ص ۴۲۸
۷۲۔ ممتاز حسین، تنقید کے چند بنیادی اُصول (مضمون) مشمولہ ،ادب اور شعور، اُردو مرکز، لاہور، ۱۹۶۱ء،
ص ۱۶۹
۷۳ حیدر قریشی، عرضِ حال (دیباچہ) مشمولہ تاثرات، ص ۱۰
۷۴۔ عرضِ حال (دیباچہ)، ص ۱۰
۷۵۔ عرضِ حال (دیباچہ) ص ۱۰
۷۶۔ عرضِ حال (دیباچہ) ص ۳۱۰۷۷۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر، جدیدیت کی فکری اساس، مشمولہ، نقاط، شمارہ نمبر ۵، دسمبر ۲۰۰۷ء، پورب اکادمی،
اسلام آباد،ص ۴۴
۷۸۔ حیدر قریشی، ابتدائیہ (دیباچہ) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۱۰
۷۹۔ حیدر قریشی، ابتدائیہ (دیباچہ)، ص ۹
۸۰۔ حیدر قریشی، عبداللہ جاوید کثیر الجہت ادیب (مضمون) مشمولہ، تاثرات، ص ۴۵
۸۱۔ حیدر قریشی، تاثر اور تنقید، (مضمون) مشمولہ تاثرات، ص ۹۵
۸۲ حیدر قریشی، ’’بے ارادہ‘‘ کے افسانے (مضمون) مشمولہ، حاصل مطالعہ، ص ۱۳۷
۸۳ محمد حسن عسکری، تنقید کا فریضہ (مضمون) مشمولہ مجموعہ حسن عسکری، ص ۲۶۰
۸۴۔ حیدر قریشی، تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اُردو کا منظر (مضمون) مشمولہ، حاصل مطالعہ، ص ۲۷
۸۵ تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اُردو کا منظر، ص ۲۷
۸۶۔ حیدر قریشی،ناصر عباس نیر کی ادبی شخصیت(مضمون)مشمولہ،تاثرات،ص۱۵۷
۸۷۔ حیدر قریشی، نئے تنقیدی مسائل اور امکانات (مضمون) مشمولہ، تاثرات، ص ۹۹
۸۸۔ ایلیٹ، ٹی۔ایس، تنقید کا منصب (مضمون) مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی مشمولہ ایلیٹ کے مضامین،
سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص ۲۵۸
۸۹۔ تنقید کا منصب (مضمون) ص ۲۵۸
۹۰۔ حیدر قریشی، ہرمن ہیسے کا ناول ’’سدھارتھ‘‘ (مضمون) مشمولہ، تاثرات، ص ۳۵
۹۱۔ ہرمن ہیسے کا ناول(مضمون) ’’سدھارتھ‘‘ ، ص ۳۷، ۳۶
۹۲۔ ہرمن ہیسے کا ناول(مضمون) ’’سدھارتھ‘‘ ، ص ۳۸
۹۳ احتشام حسین، تنقید اور عملی تنقید (مضمون) مشمولہ تنقیدی مضامین، مرتب پروفیسر فضل الحق،
ناشر، شعبہ اُردو، دہلی یونیورسٹی،دہلی، ۱۹۹۲ء، ص ۸۳
۹۴۔ ڈاکٹر وقار احمد رضوی، معروضی تنقید کیا ہے؟ (مضمون) مشمولہ اخبارِ اُردو، شمارہ نمبر ۲، جلد ۳۲،
فروری، ۲۰۱۴ء، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ص ۸
۹۵۔ ڈاکٹر وقار احمد رضوی،معروضی تنقید کیا ہے؟ (مضمون) ص ۹
۹۶۔ حیدر قریشی، فرحت نواز کی نظمیں (مضمون) مشمولہ، تاثرات، ص ۷۴
۹۷۔ حیدر قریشی، ہمت رائے شرماجی کی دو کتابیں (مضمون) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۱۰۷
۹۸۔ حیدر قریشی، اکبر حمیدی کی غزلیں، ایک مطالعہ (مضمون) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۲۰۰
۹۹ ۔ ڈاکٹر باقر سجاد رضوی،مغرب کے تنقیدی اُصول، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۲۰۰۵ء، ص ۱۴۷
۱۰۰۔ حیدر قریشی، ڈاکٹر شہناز نبی کی تنقید نگاری (مضمون) مشمولہ، تاثرات، ص ۱۰۵
۱۰۱۔ حیدر قریشی،ڈاکٹر شہناز نبی کی تنقید نگاری(مضمون) ص ۱۰۶
۱۰۲۔ حیدر قریشی، میں اور میں (غلام جیلانی اصغر کے شعری مجموعے پر تاثرات) مشمولہ، تاثرات، ص ۷۱
۱۰۳۔ ڈاکٹر وزیر آغا، ادب میں عصریت کا مفہوم، مشمولہ پاکستانی ادب (حصہ نثر) مرتبین ڈاکٹر سلیم اختر،
ڈاکٹر رشید امجد، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۱۹۹۵ء، ص ۹۱
۱۰۴۔ ڈاکٹر وزیر آغا، ادب میں عصریت کا مفہوم، ص ۹۰
۱۰۵۔ حیدر قریشی، یہ ایک صدی کا قصہ ہے (مضمون) مشمولہ، حاصل مطالعہ، ص ۱۵
۱۰۶۔ حیدر قریشی، اُردو زبان وادب کے چند مسائل (مضمون) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۲۱، ۲۰
۱۰۷۔ حیدر قریشی، اُردو زبان وادب کے چند مسائل، ص ۲۱
۱۰۸۔ حیدر قریشی، عرضِ حال (دیباچہ) مشمولہ تاثرات، ص ۱۰
۱۰۹۔ ڈاکٹر وزیر آغا، چند باتیں وزیر آغا کے ساتھ (مصاحبہ) از شناور اسحاق، مشمولہ نئے مکالمات،
مرتب شاہد شیدائی، عابد خورشید، جمہوری پبلی کیشنز، لاہور ۲۰۱۰ء، ص ۱۳۰
۱۱۰۔ حیدر قریشی، کسک (تجزیاتی مضمون) مشمولہ تاثرات، ص ۱۴۲
۱۱۱۔ حیدر قریشی، میں اور میں (مضمون) مشمولہ تاثرات، ص ۷۰
۱۱۲۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ادبی تنقید اور اُسلوبیات، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۸ء، ص ۱۵
۱۱۳۔ حیدر قریشی، اکبر حمیدی کی غزلیں ایک مطالعہ (مضمون) مشمولہ، حاصل مطالعہ، ص ۲۰۱
۱۱۴۔ حیدر قریشی، کئی چاند تھے سرِ آسماں (مضمون) مشمولہ حاصل مطالعہ، ص ۱۷۰، ۱۶۹