ڈاکٹر وزیر آغا(لاہور)
پتھر ہوتے وجود کا دکھ"بہت عمدہ افسانہ ہے۔ اگر آپ اسی رفتار اور انداز سے آگے بڑھتے رہے تو بہت جلد صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار ہونے لگیں گے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوگندر پال(دہلی)
افسانہ نگار کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے کردار زندگی کر کر کے اپنی کہانیاں بناتے ہوئے محسوس ہوں اور ان کہانیوں کے تناظر میں اگر پانی میں آگ لگنا یا انسانی وجود کا پتھرا جانا ہی تخلیقی طور پر صحیح ہوتو ایسے سانحات کو انہونا قرار دے کر ان سے ہاتھ نہ کھینچ لیا جائے۔ ایسا کرنا افسانوی واقعیت کو مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔حیدر قریشی کے یہاں ایمان کا کراماتی عمل کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ ایمان زندہ رہے تو معجزوں کا رونما ہوتے چلے جانا بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتا ۔ حیدر قریشی کے ایمان کی توانائی اسے انہدام کی ہیبت سے محفوظ رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے انہدام کے انہدام کا پورا یقین ہے اور اس قیامت کا نظارہ کرنے کے لئے وہ اپنی آنکھیں واکئے ہوئے ہے۔ ہرچہ بادا باد!۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی اسی وسیع تر زندگی کی دریافت کے لئے اپنی کہانیاں تخلیقتا ہے۔ اپنے اس کھلے کھلے راستے کو طے کر کے اسے دوریا نزدیک کسی شیشے کے محل میں اقامت نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ راستوں سے راستوں تک پہنچنا ہے اور ہر راستے پر تباہ حال زندگی کی باز آباد کاری کئے جانا ہے۔ وہ لکھ لکھ کر گویا کچھ بیان نہیں کر رہا ہوتا ، بلکہ اپنے لکھے ہوئے کو کر رہا ہوتا ہے اور اسے ایسا کرتے ہوئے پا کر بے لوث انسانی رشتوں پر باور کر لینا غیر مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسرجیلانی کامران (لاہور)
حیدرقریشی کے افسانوں کی دنیا عصر حاضر کے حالات، واقعات اور امکانات سے رونما ہوتی ہے۔ اور رونما ہوتے ہی انسانوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس مقام تک حیدرقریشی اجتماعی کیفیت کو ہمراہ لے کر چلتے ہیں۔ لیکن بہت جلد یہ اجتماعی کیفیت اپنے بطن سے انفرادی کیفیت اخذ کرتی ہے۔ اس تخلیقی عمل کے ساتھ ضمیر متکلم آشکار ہوتی ہے اور یہ صور ت حیدرقریشی کے افسانوں کو اور ان افسانوں کے مرکزی انسان کو انفرادیت فراہم کرتی ہے۔
نئے افسانے کے آداب اور مزاج کی روشنی میں یہ کہنا غالباً غلط نہ ہو گا کہ نیا افسانہ اپنے منظر کی بجائے اپنے انسان کے گرد گردش کرتا ہے اور اس کا انسان ہی اس کا محور ہے۔ لیکن نئے افسانے کے لکھنے والے عموماً حالات اور فرد کا رشتہ تخلیق کرتے ہوئے فرد کے مقابلے میں حالات کو بے حد طاقت ور بتاتے ہیں اور اس تناسب سے فرد کی انا کو برابر کمزور ہوتے دکھاتے ہیں۔ ایسا فرد افسانے کی دنیا میں حالات کے جبر سے شکست کھاتا ہے اور حالات کے پیدا کئے ہوئے ماحول میں اپنے ٹوٹے ہوئے وجود ہی کی نشاندہی کرتا ہے۔حیدرقریشی کے افسانوں میں ایسے حالات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے ان افسانوں کا انسان وجود کی شکست و ریخت سے دو چار نہیں ہوتا۔ اس کی انا برابر قائم رہتی ہے اور وہ ہر لمحے حالات کو غلبہ پانے سے روکنے کی سعی کرتا ہے۔ ایسا انداز نظر اس لحاظ سے بھی قابل توجہ ہے کہ افسانہ جس دنیا کی نشاندہی کرتا ہے اس میں فرد کا طرز عمل تہذیبی رویوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ فرد کے ٹوٹنے سے تہذیبی شعور میں درزیں رونما ہوتی ہیں۔ حیدرقریشی کا افسانہ اس تہذیبی دوراہے کا ازالہ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیدرقریشی نے ان افسانوں کے ذریعے کہانی کے کینوس کو وسیع کرتے ہوئے نئے امکانات کی طرف اشارا کیا ہے اور اس سچائی کو نمایاں کیا ہے کہ Limit Situationکے دوران انسان صرف کرب ہی کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ اس کا وجود ہی پاش پاش ہوتا ہے بلکہ اس کے نطق سے اس کی اپنی تاریخ گفتگو کرتی ہے۔ ہمارا افسانہ تاریخ کے اس مکالمے سے شاید اب تک غافل تھا۔ حیدرقریشی نے اپنے افسانوں کی راہ سے تاریخ کے اس مکالمے کو سننے کی سعی کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیویندر اسر (دہلی)
حیدر قریشی تاریخ کے جھروکے میں جھانکتے ہیں، تہذیبوں کی سرحدوں کو عبور کرتے ہیں، مذہبی صحیفوں کی نظریاتی اور روحانی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔ انسان کی روح میں اترتے ہیں ، اسکے دل کو بلوتے ہیں، اس کے تصور کے ساتھ اڑان بھرتے ہیں اور جسم کی لذت سے بھی آشنا ہوتے ہیں اور یوں کہانیاں روپ بدل بدل کر شیشا گھر میں اترتی چلی جاتی ہیں۔ حیدر قریشی کی کہانیوںکی دنیاایسے کرداروں سے آباد ہے سچائی کا المیہ جن کی قسمت بن چکا ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی کہانیوں کے اردو مجموعے کا نام "روشنی کی بشارت"رکھا ہے۔ ظاہر ہے ایسی کہانیوں میں اس نوع کا سچ نہیں ہے جسے اکثر ہم مجسم کائناتی سچ، سماجی سچ یا نام نہاد بھوگا ہوا سچ کہتے ہیں، کیونکہ ایسی کہانیوں میں دل کا بے انت پاتال ہے، روح کا سارا آکاش ہے، جسم کی حدوں کو توڑتا ہوا تفکر اور قوت متخیلہ ہے--- انسان اپنی کل ثقافت، جامع تاریخ،اپنے تمام گناہ و ثواب کی پونجی لئے اپنے آپ سے مخاطب ہے۔ میں کون ہوں؟ کہا ںسے آیا ہوں؟ کدھر جا رہا ہوں؟ ---یہ ایسے سوالات ہیں جو مجھے بھی مسلسل ستاتے رہتے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ میں کیوں ہوں؟ یہ جیون کیا ہے؟ میں کیوں زندہ ہوں؟ موت کیا ہے؟ روح ، غیرروح ، وجود ، عدم وجود، انسان، خدا ، خلا!! حیدر قریشی کی کہانیاں ایسے ہی سوالوں سے پریشان ہیں اسی لئے ان کی کہانیوں میں مجسم وارداتوں کی بجائے تفکر اور احساس کی لطافت ہے۔ ایسی کہانیوں میں "ایک کافر کہانی" "روشنی کی بشارت"اور "روشن نقطہ"بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اب آپ چاہیں تو انہیں پراسرار صوفیانہ مزاج کی کہانیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔دراصل حیدر قریشی کی کہانیاں کائناتی انسان ، خدا، روح، ثقافت اور ثقافتی وراثت کے ازلی سوالوں کی کہانیاں ہیں۔ ایسی کہانیاں اردو میںبہت کم لکھی گئی ہیں۔ کسی ایک مصنف کے ہاں ایسی ایک دو کہانیاں نظر آجائیں گی لیکن کوئی ایک ہی مصنف ان ازالی سوالوں ، نظریات اور حسیات سے جھوجھتارہے ایسا کوئی دوسرا کہانی کار میری نظر میں نہیں ہے۔۔۔۔حیدر قریشی کی کہانیاں ایک نئی تخلیقی روایت کی شروعات ہیں جو واقعاتی تسلسل اور کہانی پن پر مبنی ہو کر سوال، شک اور فکر کی بنیاد پر کہانی کا شفاف شیشا گھر تعمیر کرتی ہیں۔ اس شیشا گھر میں ہم داخل ہونے کے لئے آزاد ہیں لیکن اس سے باہر نکلنے کے رستے بند ہیں، صرف ایک چھوٹا سا روشن دان کھلا ہے، ہمارے دل کا ---جس میں نہ جانے کہاں سے روشنی کی کرن چھٹک کر آرہی ہے جس کے ساتھ ساتھ چل کر ہم وقت کے اس نقطہ پر پہنچتے ہیں جہاں سچ ہمارا منتظر ہے۔
جہاںسچ سے ہم معانقہ کرتے ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر قمر رئیس(دہلی)
"کہانیاں علامتی ہیں لیکن معاصرجدید کہانیوں سے الگ اور انوکھی۔ یہاں تاریخ کنگناتی ہے۔ انسانی تہذیب سرگوشیاں کرتی ہے اور ان کی کوکھ سے آج کے جلتے ہوئے مسائل پھنکار مارتے نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پرکشش کہانیاں جو سوچنے پر اکساتی ہیں"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
"حیدرقریشی بظاہر ادب کی کئی اضاف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کر رہے ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ افسانے کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اسرار کی گتھیاں ان پر بانداز دگر کھولتی ہے۔ "روشنی کی بشارت"ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن وہ نئے افسانہ نگار نہیں۔ ان کا شمار ساتویں دہے کے ان افسانہ نگاروں میں کرتا مناسب ہوگا جو تجریدیت سے معنی کا نیا مدار طلوع کرتے اور سوچ کو نئی کروٹ دیتے ہیں۔"روشنی کی بشارت" کے افسانوں میں حیدرقریشی کرنوں کے تعاقب میں سرگرداں نظر آتا ہے لیکن جب اسے سدھارتھ کا معصوم چہرہ نظر آجاتا ہے تو اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کل جگ میں زندہ رہنے کا جواز موجود ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر حمید سہروردی(گلبرگہ)
حیدرقریشی کے افسانے پر یم چند اور یلدرم کے اسلوب و مزاج کی آمیزش اور آویزش سے اپنا ایک نیا افسانوں مزاج اور ڈکشن تیار کرتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہم سب کا تجربہ بن جاتا ہے۔ ان کی بصیرت تیز اور روشن ہے اور وہ افسانے کی میڈیم سے روزمرہ زندگی کے انگنت تجربوں کو کچھ اس طرح سے گرفت کرتے ہیں کہ زبان و قلب سے بے ساختہ حیرت اورا ستعجاب کے کلمات ادا ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے رنگ و مزاج کو اپنے ہر افسانے میں افسانوی زبان کے تخلیقی و اکتسابی امتزاج کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی خوبی نہ صرف ڈکشن میں ہے بلکہ موضوعات کے برتائو میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
میں ذاتی طور پر حیدرقریشی کو جدید تر افسانوی میدان میں کامیاب و کامران سمجھتا ہوں۔ ان کا یہی انداز توازن و تناسب کے ساتھ برتا جائے تو وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے اور وہ حضرات جو جدید اور جدید تر افسانے کے باب میں شاکی ہیں اطمینان حاصل کرلیں گے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی(کراچی)
"حیدر قریشی الہامی قصص ، اساطیر ، ذاتی اور معاشرتی مسائل کو آپس میں مدغم کر کے ایک ایسا آئینہ تخلیق کرتے ہیں جس میں پیدائش سے موت تک زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ بیشتر کہانیوں میں میجر کردار خود کہانی کار کی ذات ہوتی ہے اور اس طرح حیدرقریشی فلسفیانہ ،مذہبی اور اخلاقی قدروں پر رائے بھی دیتے ہیں تو کسی غیر متعلق یا خارجی خیال آرائی کا احساس نہیں ہوتا اور سب کچھ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
حیدرقریشی کی کہانیاں زمینی زندگی کے معمولی واقعات سے شروع ہوتی ہیں جنہیں فلو بیر کے لفظوں میں SLICES OF LIFEکہا جا سکتا ہے مگر ان میں جلد ہی مذہبی، عقیدتی اور رحانی رنگ بکھرنے لگتا ہے اور ان کی اٹھان عمودی ہوجاتی ہے۔ پھر ان کہانیوں کی فضا زمین اور آسمان کے بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اکثر کہانیوں کا اسلوب داستانی معلوم ہوتا ہے لیکن لہجہ کا دھیما پن، علامتوں ، تمثیلوں اور تلازمے کا استعمال انہیں داستانی رنگ سے الگ بھی کرتا ہے۔کہیں کہیں مذہبی عقائد کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر جمالیاتی طور پر ان میں نہ کوئی خطابیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کسی آئیڈیل یا انفرنل دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب ہوتی ہے۔ حیدر قریشی کی کہانیوں میں زبان اور حوالہ جات اس وقت، زمانے اور علاقے کی حدوں کا تاثر ضرور دیتے ہیں جب اور جہاں ان کی کہانیوں نے جنم لیا کیونکہ اس سے کسی تخلیق کار کو مفر نہیں، لیکن ان کہانیوں کا مجموعی سپکڑم زمان اور مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے کا قاری ان کہانیوں میں امکانی سچائی دیکھ سکتا ہے"۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکرم محمود(امریکہ)
آپ کے پانچ افسانے پڑھے ہیں۔کیا بات ہے۔بتا نہیں سکتا کہ کیسا لطف آیا۔بلا مبالغہ بار بار ایسا محسوس ہوا کہ کسی کیفیت نے میرے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ افسانہ ختم ہونے پر بھی یہ گرفت ختم نہیں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر نجمی(تھانے)
’’ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے آپ کی کتاب ملی۔اس کتاب نے زخم پر مرہم کا کام کیا۔اب تک میں آپ کی شاعری کا قتیل رہا ہوں لیکن اس کلیات میں شامل آپ کی نثر نے مجھے مبہوت کر دیا ہے۔ خاص کر آپ کے افسانے تو بہت خوب ہیں۔پتہ نہیں کیوں ہمارے نقادوں کو اس پر گفتگو کرنے کی توفیق نہیں ہوئی؟‘‘(اشعر نجمی کی ای میل بنام حیدر قریشی ۹ مارچ ۲۰۰۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان عالم(مانسہرہ)
روشنی کی بشارت پر رائے
واہ بھائی واہ۔۔مزہ آگیا۔کہاں سے بول رہے ہیں آپ۔۔۔بڑی مبارک کیفیت میں یہ افسانہ تخلیق ہوا ہے۔مزہ آگیا۔ جان عالم
میں انتظار کرتا ہوں پر رائے
واہ بھائی۔۔۔کیا خوب افسانہ ہے۔مجھے اس کی ان پیج کاپی بھیجیں۔۔۔۔اس پر بات کرنا آسان نہیں۔۔۔۔اس کے لیے عالمِ ارواح میں یومِ الست تک جانا ہوگااور پھر انسانیت کے المیوں سے گزرنا پڑے گا۔۔۔خیروشرکی ازلی داستان کا حصہ بننا پڑے گا۔۔۔۔فکر کو سوالوں کے صحرا میں ایڑیاں رگڑنی پڑیں گی۔آگ کاالاؤ۔۔۔بَن باس۔۔۔۔اور پھر اس تلخابے سے پھوٹنے والے چشمے تک کا سفرکرنا پڑے گا۔اور آخر کار جب سب ہاتھ میں آئے گا۔۔۔تو سب کو چھوڑ دینے کا اعلان کرکے سب کو محبت میں گرفتار کر لیا جائے گا۔یہ اتنا آسان نہیں۔اس پہ کہنا اتنا آسان نہیں۔اسی لیے اس پر کوئی بولا نہیں۔میں ابھی اسے پڑھ کر اس میں اتر گیا۔۔۔تھک گیا۔۔۔۔آپ نے تین چار صفحات میں زندگی بھر کا چکر لگوا دیا ۔۔ ۔۔واہ ۔۔۔جزاک اللہ۔۔۔۔جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ جاوید(کینیڈا)
’عمر لا حاصل کا حاصل ‘میں درج شدہ سارے افسانے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے اردو افسانے کی مروجہ حدوں کو پار کرنے کی ہمت جٹائی ہے ۔ اس سے قبل ہمت، جسارت اور بغاوت کے القاب ان افسانہ نگاروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو روایتی موضوعِ ممنوعہ یعنی جنس کو اپناتے تھے۔ جنس کے بعد سیاسی اور مزاحمتی موضوعات کا معاملہ آتا ہے۔ حیدر قریشی ان موضوعات کے دلدادہ نکلے جو مجذوبوں کو ساجتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات کے جوابات کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں جو قریب قریب لا جواب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بڑا کام ہے اور شاید اسی سبب سے ان کے مختصر لیکن ’بڑے افسانے‘ قاری کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ آخری سطر پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتے سوچنے پر مائل اور دہرانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے ذاتی زندگی کے کسی تجربے سے گزرنا ۔ ایسے تجربے سے جو سوچ ، کشف اور بشارت سے عبارت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیصر تمکین(انگلینڈ)
یورپ میں مقیم اردو قلم کاروں کی فہرست میں حیدر قریشی صاحب کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ گیاہے۔ویسے تو انہوں نے مختلف اصناف ادب میں اپنی محنت و ریاضت سے ممتاز جگہ حاصل کی ہے لیکن افسانے کے میدان میں ان کی مساعی واقعی بہت قابلِ لحاظ ہیں بعض بالکل ہی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصری کہانی کاروں میں ان کا ایک بالکل ہی علاحدہ اور ناقابلِ انکار تشخص متعین ہوچکا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین(بہاول پور)
حیدرقریشی جہاں شاعری میں اپنے فن کو مکمل طورپر منواچکے ہیں وہاں اُن کے افسانے بھی اُردو ادب میں اپنے منفرد اور جدت و ندرت سے بھرپورہونے کی بناء پر خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود منور(ناروے)
آپ کی کہانیوں سے مجھے کوئی بیتی خوشبو آئی ہے۔ ٹھہریئے میں اگر جلالوں----میں اگر جلا آیا ہوں اور خوشبو میں بھیگتے ہوئے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کا کہانی بننے کا ڈھنگ نویکلا لگا ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیل الرحمن(انگلینڈ)
(روشن نقطہ)اپنی نوعیت کا بہت خوبصورت اور حیدر قریشی صاحب کی مخصوص چھاپ لگا افسانہ ہے۔میرے محدود علم کے مطابق اس رنگ میں ابھی تک حیدر صاحب سے اچھا افسانہ کسی نے نہیں لکھا۔تصوف اور روحانی واردات کا حسین امتزاج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور)
ہمارے برخوردارحیدر قریشی۔۔۔میں انہیںمغربی دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادیب مانتا ہوںاور ان کی صلاحیتوں کے سامنے اپنی ہیچ مدانی کا اعتراف کرتا ہوں ۔حیدر ،ون مین ادبی رائٹنگ کی انڈسٹری ہیں۔پورا رسالہ کمپیوٹر پرہی بیٹھ کر مرتب کرتے ہیں ۔ ۔میرے برخوردار ہیں۔مجھ سے عمر میں دس برس کم،لیکن کام وصلاحیت میں سو سال بڑے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصر ملک(ڈنمارک)
جرمنی میں مقیم اردو ادب کی منفرد و بے مثال شخصیت،حیدر قریشی ہمارے عہد کے وہ ادیب و شاعراور نقادو محقق ہیں کہ جنہیں مشرق و مغرب میں اردوادب کا ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ کہا جانا چاہیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی سے متعلق اب تک ہونے والایونیورسٹی سطح کا تحقیقی کام
۱۔حیدر قریشی شخصیت اور فن۔۔۔۔منزہ یاسمین
( ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ سال ۲۰۰۲۔۲۰۰۰ء)(اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،پاکستان)
۲۔حیدر قریشی شخصیت اور ادبی جہتیں ۔۔۔۔ ڈاکٹرعبدالرب استاد
(تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ۲۰۱۳ء)(گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ،کرناٹک،انڈیا)
۳۔حیدر قریشی۔حیات وخدمات انجم آراء
( ایم فل کا مقالہ سال ۲۰۱۳ء)(کلکتہ یونیورسٹی،کولکاتا،انڈیا)
۴۔حیدر قریشی کی ادبی خدمات ۔۔۔۔عامر سہیل
(تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اُردو،۲۰۱۴ء)(ہزارہ یونیورسٹی،مانسہرہ،پاکستان)
۵۔حیدر قریشی کی شاعری کا مطالعہ ۔۔۔ہردے بھانوپرتاپ
( ایم فل کا مقالہ ،سال ۲۰۱۴ء)(جواہر لال نہرو یونیورسٹی،دہلی۔انڈیا)
۶۔حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کا مطالعہ ۔۔۔رضینہ خان
( ایم فل کا مقالہ سال ۲۰۱۴ء)(جواہرلال نہرو یونیورسٹی،دہلی۔انڈیا)
۷۔حیدرقریشی کی شاعری کی روشنی میںبیرونی ممالک کی اردو شاعری۔’’ تنقیدی مطالعہ اور ترجمہ‘‘ شعرالمھجرعندحیدرقریشی’’دراسۃ تحلیلیۃ نقد یۃ مع الترجمۃ‘‘
احمد عبدربہ عباس عبدالمنعم (ایم اے کا مقالہ سال ۲۰۱۵ء)۔ازہر یونیورسٹی۔قاہرہ،مصر۔یہ مقالہ عربی میں لکھا گیا ہے اور اس کے لیے حیدرقریشی کے چار شعری مجموعوں کا عربی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
۸۔’مجلہ ’’جدیدادب‘‘کی ادبی خدمات‘‘ از کنول تبسم
(ایم فل کا مقالہ۔سال ۲۰۱۸ء)(وفاقی اردو یونیورسٹی۔اسلام آباد)
۹۔رسالہ ’’جدیدادب‘‘کی ادبی خدمات ۔تحقیقی و تنقیدی مطالعہ از محمد شعیب
ہزارہ یونیورسٹی۔مانسہرہ۔ (ایم فل کا مقالہ۔۲۰۱۸ء)
۱۰۔جدید ادب میں شائع ہونے والے مباحث۔۔۔۔شازیہ حمیرہ
ایم اے اردو کاتحقیقی مقالہ۔۔ سال۲۰۰۹۔۔۔۲۰۰۷ء۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ،
۱۱۔حیدر قریشی بہ حیثیت محقق ونقاد۔۔۔۔صغریٰ بیگم
ایم فل کا تحقیقی مقالہ سال ۲۰۱۶،۔۔وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد
۱۲۔حیدرقریشی کی خاکہ نگاری:ایک جائزہ ۔۔ کلثوم رقیّہ
ایم فل کا تحقیقی مقالہ سال ۲۰۲۱۔۔۲۰۲۳ء۔۔الحمد اسلامک یونیورسٹی۔ اسلام آباد
۱۳۔حیدرقریشی کے افسانوں کا مطالعہ۔۔کامران کاظمی۔
پری ایم فل مقالہ۔ سال ۲۰۰۷ء۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی مقالات میں حیدرقریشی کا جزوی مگر اہم ذکر
۱۔اردو میں ماہیا نگاری از ڈاکٹر صبیحہ خورشید
سال ۲۰۰۹ء۔ناگپور یونیورسٹی،ناگپور،انڈیا سے پی ایچ ڈی کا مقالہ
۲۔رحیم یار خان کے جدیدشعراء کا تصورِ محبوب از فرزانہ یاسمین ۔
سال ۲۰۱۷ء ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور،ایم فل کا مقالہ
۳۔ ـ’’ ضلع رحیم یارخان کے شعراء کا خصوصی مطا لعہ‘‘ از محمد بلال قادر۔
ایم فل کا مقالہ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور
۴۔’’خان پور میں اُردو غزل کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ از نذیر بزمی۔
ایم فل کا مقالہ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور
۵۔اُردو میں میراجی شناسی کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ از ساجدہ پروین پی ایچ ڈی کا مقالہ۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔اسلام آباد۔سال ۲۰۱۴ء
۶۔’’لالۂ صحرا‘‘۔۔۔’’ادب جہاں‘‘۔۔۔’’جدید ادب‘‘کی ادبی خدمات از ثنا اظہر۔
ایم فل کا مقالہ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی کی تمام کتابیں اس لنک پر پی ڈی ایف فائلز میں دستیاب ہیں
اورآسانی سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔
https://archive.org/details/@all_books_by_haider_qureshi
اور
حیدرقریشی سے متعلق لکھے گئے یونیورسٹی مقالات،تصنیف اورمرتب کی گئی کتب،رسائل کے نمبرز اور گوشے وغیرہ کا کافی مواد یہاں دستیاب ہے اور آسانی سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
https://archive.org/details/@about_haider_qureshi451