میرے افسانوں پر کامران کاظمی نے اپنے ایم فل کورس ورک کا مختصر مقالہ ڈاکٹر رشید امجد کی نگرانی میں ۲۰۰۶ء میں لکھا تھا۔یہ مقالہ کتاب کے طور پر چھپنے والا تھا لیکن پھر یہ سارے متعلقین کی اپنی اپنی مصروفیات یا ترجیحات میں گم ہو گیا۔اب کلثوم رقیّہ نے اس گم شدہ مقالے کو نہ صرف از سرِ نو دریافت کیا ہے بلکہ اس کی ترتیب و تدوین کرکے اسے شائع کرنے لگی ہیں۔ میرے لئے یہ بڑی خوشی کی خبر ہے ۔میں کلثوم رقیّہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں مبارکبادپیش کرتا ہوں۔
کلثوم رقیّہ نے میرے بعض ا فسانوں کے بارے میں چند سوال کئے تھے اور خاص طور پر میرے اب تک کے آخری افسانوں کو سمجھنے میں اپنی مشکل کا ذکر کیا تو مجھے مناسب لگا کہ اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں کی گئی اپنی کچھ پرانی باتوں کو بھی دوبارہ بیان کر دوں اور کچھ نئی باتیں بھی اسی تناظر میں کر دوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتباس
’’اس سارے مطالعہ سے گزرتے ہوئے مجھے اپنی لکھی ہوئی کئی پرانی تحریریں نئے حالات کے تناظر میں بہت ہی تازہ دکھائی دیں۔ایسے لگتا ہے جیسے بیس پچیس سال پہلے کی تحریریں وجدان کی کسی ان جانی سطح سے لکھی گئی تھیں۔اس کے لئے مجھے تخلیقات میں سے متعدد مثالیں ملی ہیں یہاں صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔
اس وقت ساری اسلامی دنیا عمومی طور پر اور پاکستان خصوصی طور جس قسم کے حالات سے دو چار ہے۔اندرونی اور بیرونی دونوں طور پر حالات اتنے تکلیف دہ ہیں کہ ایسے لگتا ہے ہمارے لئے کوئی راہِ نجات نہیں رہی۔اس صورتحال کو میرے ۱۹۸۰ء میں شائع ہونے والے ایک افسانے میں یوں دیکھا جا سکتا ہے:
’’مجھے عجیب سی بے بسی کا احساس ہوتاہے۔ بے چارگی اور مایوسی کے اندھیرے چاروں طرف رقص کررہے ہیں۔ یوں لگتاہے جیسے انہوں نے میرے اندر والے فنکارکو قتل کردیا ہے اور میں اپنی لامتناہی تلاش کے سفر میں ایک ایسے ٹیلے پر کھڑاہوں جس کے ایک طرف سربفلک دشوار گزار پہاڑ ہیں اور دوسری طرف گہراناقابل عبورسمندر۔ ایک طرف سینکڑوں اژدہوں اور عفریتوں کی پھنکاریںہیں تودوسری طرف آبی بلاؤں کی چیخیں۔میں اپنے آپ کو پکارناچاہتاہوں مگر میری صدا بھی کہیں کھوگئی ہے۔۔۔۔۔تب میری تجرید کی ساری معنویت مجھ پر آشکار ہوتی ہے۔۔۔۔یہ معنویت اتنی گھناؤنی اور مکروہ ہے کہ میں کسی کو بھی اس سے آگاہ کرکے خوفزدہ نہیں کرناچاہتا۔ کیونکہ یہ معنویت صرف میری نہیں۔ ۔۔ہم سب کی ہے۔ شاید اسی لئے وہ مقدس آواز بھی اب نہیں آرہی ہے جس نے کہا تھا:’’خارجی دنیاکو بھی تمہارے اس کشف کا ادراک ہونا چاہیے!‘‘(افسانہ ’’اپنی تجرید کے کشف کا عذاب‘‘)
امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ذریعے اس وقت جو نام نہاد صلیبی جنگ شروع کی گئی ہے،اس کے دیگر مقاصد سے قطع نظر اگر اسے صرف صلیبی رنگ میں ہی لیا جائے تب بھی یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی باہمی لڑائی ہے۔بنی اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد کی ایک شاخ ہیں جن سے یہودی اور مسیحی مذاہب نکلے۔۔۔جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت محمد ﷺ ہوئے جو دینِ اسلام کے بانی ہیں۔اس وقت امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو مذہب کے ساتھ خاندانی سطح پر دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے ساتھ وہی سوتیلا سلوک کر رہی ہے جو ماضی بعید میں ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے۔۔۔عام مسلمانوں کو عمومی طور پر علم نہیں ہے کہ مسیحی اور یہودی دنیا کی نظروں میں ہمارا شجرہ نسب کیا ہے ۔بائبل کی رُو سے بی بی ہاجرہ کی حیثیت بی بی سارہ کی لونڈی کی تھی۔اور وہ اسماعیل علیہ السلام کو لونڈی کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کی حقیقی اولاد میںشمار نہیں کرتے۔اسی سے ان کی ذہنیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے۱۹۸۲ء میںافسانہ لکھا تھا ’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘۔سوتیلے جذبوں کی اذیت سہتے ہوئے اس افسانے میں تین اہم تاریخی کرداروں کو ایک کردار میں یکجا کیا گیا تھا۔ اس میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حوالے سے جو کچھ آیا تھا اس کی ہلکی سی جھلک یہاں دیکھ لیں۔۔باقی پورا افسانہ تو اپنے پورے تناظر میں ہی پڑھنے سے سمجھ میں آئے گا:
’’میری بے گناہی۔۔۔ میری نیکیاں دنیا نہیں دیکھتی اور میں تہمتوں کی زد میں ہوں۔
میں اذیت میں ہوں کہ میری ماں ابھی تک میری خاطر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔وہ جو بادشاہ زادی ہے۔ میرے سوتیلے بھائی اسے لونڈی اور مجھے لونڈی کا بیٹا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سوتیلے عزیز تاریخ کو جتنا چاہیں مسخ کر لیں مگر وہ میرے باپ کا نام کیونکر مٹا سکیں گے کہ پھروہ خود بھی بے شناخت ہو جائیں گے۔
میں ابراہیم کا بیٹا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ ابراہیم کے لئے گلزار ہوگئی تھی تو مجھے کیونکر نقصان پہنچاسکے گی۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یہ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔‘‘
یہ آسمانی آواز مجھے یقین دلاتی ہے کہ میری ایڑیوں کی رگڑ سے ایک چشمہ پھوٹ بہے گا اور اس کا پانی میری مدد کو آئے گا۔‘‘
اس نوعیت کے اتنے حوالے میرے سامنے آئے کہ انہیں پڑھتے ہوئے مجھے اپنی تخلیقات میں خود ایک انوکھے وجدان کا احساس ہوا۔شاید میں خود کبھی ایسے اشارات کو کسی مضمون کی صورت میں یکجا کر دوں جو اب تک کے حالات میں ظاہر ہو چکے ہیں۔شاید اسی کیفیت کو بھانپ کر جیلانی کامران صاحب نے میرے افسانوں کے حوالے سے لکھتے ہوئے اپنے تجزیہ کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ
’’ان افسانوں میں ایک ایسا رویہ بھی شامل ہے جو کہانی سنتے ہوئے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہانی محض کسی واقعے ہی کی بات نہیں کرتی بلکہ اس سچائی کا ذکر بھی کرتی ہے جو واقعیت کے رگ وریشے میں جاگتی ہے اور سب سے کہتی ہے کہ مجھے پہچانو، میں کون ہوں؟سچائی نے ہمارے زمانے میں افسانے کا لباس پہن رکھا ہے‘‘
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ہم لوگ روایات کے نام پر ابھی تک ماضی سے چمٹے ہوئے ہیں ،ماضی سے جُڑ کر رہنا کوئی بری بات نہیں اگر آپ اس کے ساتھ حال سے باخبر رہتے ہوئے مستقبل کی طرف بھی قدم بڑھاتے رہیں۔ایک بہت ہی ہلکی پھلکی سی ذاتی واردات یاد آگئی۔میں ایک بار انٹر نیٹ پر بیٹھا ہوا ایک ویب سائٹ سے اپنی پسند کا گانا’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سن کر کچھ جذباتی بھی ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ آئی ہوئی ای میلز کے جواب بھی دیتا جا رہا تھا۔اپنے اس عمل سے میں نے بعد میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماضی سے کٹ کر نہیں رہنا لیکن ماضی کے چکر میں حال اور مستقبل سے غافل ہوجانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اخلاقی قدریں بھی دو طرح کی ہیں ایک تو وہ جن کی حیثیت مستقل نوعیت کی ہے،دوسری وہ جو زمانے کے ساتھ بدلتی جاتی ہیں۔مثلاََ ایک طویل دور تک سینہ تان کر لڑنا اور سینے پر زخم کھانا بہادری کی علامت تھا۔اب ہولناک بموں کے دور میں ایسا کرنا بہادری نہیں بلکہ سیدھی سی بے وقوفی ہے۔ایک قدر جو ہمارے بچپن تک بہت اہم رہی یہ تھی ’’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔جو کھیلو گے ،کودو گے ،ہوگے خراب‘‘۔آج کے دور میں سپورٹس کے سٹارز کی جو حیثیت ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والوں کی جو بے توقیری ہے،اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بہت سی قدریں کس حد تک بدل کر رہ گئی ہیں۔ بہر حال وقت کی رفتار تو اپنے بہاؤ میں رہتی ہے۔‘‘
(یادوں کے باب ’’میری عمر کا ایک سال‘‘سے اقتباس۔مطبوعہ دو ماہی’’ گلبن‘‘ لکھنئو۔ مئی،جون ۲۰۰۴ء) ۔۔۔۔یہی باب سال ۲۰۰۴ء کے شروع میں ہی روزنامہ’’جنگ‘‘لندن کے ادبی صفحہ پر دو قسطوں میں شائع ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتباس
نذر خلیق:’’ میری محبتیں‘‘ آپ کے خاکوں کا مجموعہ ہے اس کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے افسانہ نگار حیدر قریشی کوئی اور ہے اور خاکہ نگار حیدر قریشی کوئی اور ہے یہاں آپ کا اسلوب افسانوی اسلوب سے بالکل مختلف ہے ایسا کیوں ہے ؟
حیدر قریشی:اس سوال کا جواب دو جمع دو چار کی طرح تو نہیں دے سکتا۔اس کے جواب کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں ایسے پہلو بھی جو ایک دوسرے سے متصادم ہوں۔آپ کے سوال کے بعد غور کرتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ میری بالکل ابتدائی کہانی مامتا اور اب تک کی آخری کہانی مسکراہٹ کا عکس،یہ دونوں کہانیاں براہِ راست ہمارے گھر کی کہانیاں ہیں ۔
ما متا میں ،میں نے اپنی بیوی کے دکھ کو محسوس کیا تھا اور اس کی کہانی کو خود میں محسوس کرکے لکھا تھا۔ادبی زندگی میں یہ پہلی کہانی تھی جسے لکھنے کے بعد میں سچ مچ رویا تھا۔دوسری کہانی خود میرا اپنا نفسی تجربہ تھا جو یہاں جرمنی میں مجھے پیش آیا۔اسے آپ سوتی جاگتی حالت کا تجربہ کہہ سکتے ہیں۔اس تجربہ کے دوران مجھے جو کچھ پیش آیا وہی کچھ مجھے اس کہانی کو لکھنے کے بعد پیش آیا۔یعنی میں جی بھر کر رویا۔تو میرے بھائی میری کہانیوں میں تو میری زندگی کے کئی کردار آئے ہیں۔خاکہ نگاری اور افسانے کی اپنی اپنی حدود ہیں۔لیکن’’ مسکراہٹ کا عکس ‘‘میں تو جیسے یہ حدود ایک دوسرے سے مل گئی ہیں۔
(حیدر قریشی سے لیئے گئے ڈاکٹر نذر خلیق کے انٹرویو’’انٹر نیٹ کے ذریعے مکالمہ‘‘سے اقتباس۔
مطبوعہ کتاب ’’حیدرقریشی سے لیے گئے انٹرویوز‘ مرتب سعید شباب۔خان پورمطبوعہ ۲۰۰۴ء
سہ ماہی ’’توازن مالے گاؤں،شمارہ ۴۰۔۔۔عمرَ لا حاصل کا حاصل عوامی ایڈیشن ،دہلی،۲۰۰۵ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور وضاحت
’’حوا کی تلاش‘‘(اوراق فروری ۱۹۸۱)،’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘(اوراق اپریل ۱۹۸۲ء) ،’’ کاکروچ‘‘(صریر فروری ۱۹۹۲)۔۔۔یہ تینوں کہانیاں ایٹمی جنگ کے بعد کی فضا کے موضوع پر ہیں۔۱۹۸۱ء تک اردو میں اس موضوع کو کسی اور افسانہ نگار نے بالکل مس نہیں کیا تھا۔پہلی کہانی مذہبی حوالوںسے،دوسری کہانی تیل کی دولت کے اشارے کے ساتھ سیاسی حوالے سے اور تیسری کہانی سائنسی حوالے سے ایک ہی موضوع کو الگ الگ انداز سے دیکھتی ہیں۔ان کے علاوہ افسانہ ’’گھٹن کا احساس‘‘ میں بھی اور افسانہ’’ کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘ میں بھی ضمناََ ایٹمی جنگ کے موضوع کو مس کیا گیا ہے۔یوں خدا اور کائنات کے بارے میں غور اور جستجو کے ساتھ اس دھرتی کی بقا کا مسئلہ بھی بنیادی اہمیت اختیار کر گیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی کہانیاں اور پرانی باتیں
محترمہ کلثوم رقیّہ صاحبہ نے میرے افسانوں کے دو مجموعوں کے افسانوں کے بعد کے پانچ افسانوں کے بارے میں چند سوالات پوچھے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان میں سے ’’کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘پر تو ڈاکٹر کامران کاظمی کے مختصر مقالہ میں مناسب بات ہو چکی ہے اور ’’نیک بندوں کی بستی‘‘ تو ویسے ہی سادہ سی کہانی ہے۔باقی تین کہانیوں کے حوالے سے چند باتیں عرض کر دیتا ہوں۔
’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘زندگی کے پر اسرار تجربوں اور قریبی رشتوں سے بندھی ہوئی کہانی ہے۔صوفیانہ لہریں اور وجدانی کیفیات میرے افسانوں میں پہلے سے موجود ہیں۔اسی طر ح قریبی رشتوں سے بھی میں ہمیشہ سے جڑا ہوا ہوں۔اب اس میں تجربے کی نوعیت پہلے تجربوں سے زیادہ گھنی ہو گئی ہے اور رشتوں سے وابستگی بھی اپنی جڑیں مزید مظبوط کر چکی ہے۔اس لحاظ سے یہ پہلی کہانیوں کے تسلسل میں آگے کا سفر ہے۔
جنسی نفسیات کے حوالے سے میں پہلے بھی چند افسانے لکھ چکا ہوں۔’’کار اور شیرنی‘‘ بھی اسی کا تسلسل ہے لیکن پہلے والے افسانوں میں اور’’کار اور شیرنی‘‘ میں بھی آپ کونمایاں فرق دکھائی دے گا۔اس موضوع پر مزید غور کرتے ہوئے اورانسانی زندگی کی اس اہم سرگرمی سے گزرتے ہوئے بڑھتی عمر کے ساتھ نیا کچھ بھی منکشف ہوا ہے جو آپ کو’’کار اور شیرنی‘‘میں دکھائی دے گا۔
’’کہانی کی کہانی‘‘کو قدرے پیچیدہ سمجھا گیا ہے پھر اس میں دو تین ضمنی سوال بھی اٹھائے گئے ہیں۔کسی فلم ایکٹریس کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں؟۔۔پھر اس کا نام اتنا واضح کیوں بیان کیا گیا؟
مجھے دوسری خوبصورت ایکٹریسوں کے نام بھی بتائے گئے کہ یہ بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔ ۔۔۔یہ سوال بھی ہوا کہ افسانہ،کہیں خاکہ نما،کہیں مضمون اور کہیں کچھ اور لگنے لگتا ہے۔یہ سارے سوال درست ہیں۔
’’کہانی کی کہانی‘‘اس پیچیدہ کائنات کی کہانی کی ہلکی سی جھلک ہے۔اتنی پیچیدہ کائنات ہے تو کچھ نہ کچھ پیچیدگی تو محسوس ہونا ہی تھی۔تاہم یہ ایسی پیچیدہ بھی نہیں کہ بالکل سمجھ سے باہر ہو جائے۔مثلاََ اس میں دائرے کو اہمیت اور فضیلت دی گئی ہے۔اسے توحید کی علامت سمجھ لیں۔اس سے کسی دوسرے عقیدے کی تکذیب بھی نہیں کی گئی بلکہ جتنے بھی تصورات ہیں انہیں کسی جیومیٹری یا اور حساب سے کوئی صورت دے دیں تو وہ ساری مثلث،مربع،مستطیل شکلیں اپنی جگہ موجود ہیں لیکن دائرے نے ان سب کا احاطہ کیا ہوا ہے۔پھردوسری ہر صورت کا آغاز بھی ہے اور اختتام بھی لیکن دائرے کے کسی آغازیا اختتام کا تعین کرنا ہی ممکن نہیں۔مفروضے کے طور پر جس جگہ کو آپ دائرے کا اختتام قرار دیں،وہیں سے اس کا آغاز ہورہا ہے اور یہی میری کہانی کا اختتام اور آغاز ہے۔
فلم ایکٹریس کا نام دینے میں کوئی حرج نہیںہے۔ہمارے عقائد کی دنیا میں پیاسے کتے کو پانی پلانے والی طوائف کی بھی بخشش ہو جاتی ہے اور طوائف کو بھی سچے خواب آ سکتے ہیں۔یہ کہانی نیکی اور ثواب کے روایتی تصور سے ہٹ کر انسانیت کی کسی ارفع سطح سے متعلق ہے۔فلمی دنیا بھلے گلیمر کی دنیا ہے لیکن اب تو ایک دنیا اس کی اسیر ہے۔بے شک بے شمار دوسری خوبصورت ہیروئنیں ہیں ۔ جہاں تک خوبصورتی کا تعلق ہے،شوبز سے وابستہ ساری خواتین ہی خوبصورت ہوتی ہیں۔میں ماہی گل کی جگہ کسی اور کا نام لکھتا تو تب بھی یہی سوال ہو سکتا تھا کہ یہی کیوں؟
باقی ماہی گل اب کوئی سپر سٹار نہیں ہیں،اچھی اداکارہ ہیںلیکن فلمی دنیاسے تقریباََ کنارا ہی کر چکی ہیں لیکن ان کا مجموعی تاثر ایسا ہے کہ میری کہانی میں وہی آ سکتی تھیں۔میں ایک زمانے میں سادھنا کی فلمیں وضو کرکے دیکھا کرتا تھالیکن وہ بھی ’’کہانی کی کہانی‘‘ میں نہیں آ سکیں۔پاکستان میں نیر سلطانہ اور زیباسے لے کر رانی تک جادوئی حسن والی متعدد ہیروئنیں تھیں۔انڈوپاک کے مزید نام لینے لگوں تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی۔ہاں ایک نام ہے فردوس کا۔۔۔اگر ماہی گل کی جگہ کوئی اور نام دیتا تو وہ فردوس کا ہو سکتا تھالیکن یہ سب کچھ میں نے غوروخوض کرکے طے نہیں کیا تھا۔بات ہی کچھ ایسی تھی کہ ماہی گل خودکہانی میں آ گئیں۔ اور آ گئیں تو بس آ گئیں۔
’’کہانی کی کہانی‘‘ میں بعض دوسری اصناف جیسے تاثر کی بات ایک حد تک درست ہے۔
سہ ماہی ’’شعروسخن‘‘ کے مدیر جان عالم کو جب میں نے یہ افسانہ بھیجا تو انہوں نے بھی بعض دوسری اصناف کے مدغم ہونے کی طرف توجہ دلائی۔تب میں نے انہیں بتایاکہ ایسا بیس سال پہلے سے ہو رہا ہے اور میں نے خود اس صورت حال کا ذکر کر رکھا ہے تو وہ مطمئن بلکہ خوش ہو گئے کہ آپ کو اس کا ادراک ہے اور آپ شعوری طور پر ایسا کر رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔
بہت پہلے سے اس کا ادراک ہونے کا ایک ثبوت تو اسی مضمون میں ڈاکٹر نذر خلیق کے انٹرویو میں موجود ہے جس میں میں نے کہا ہے کہ
’’خاکہ نگاری اور افسانے کی اپنی اپنی حدود ہیں۔لیکن’’ مسکراہٹ کا عکس ‘‘میں تو جیسے یہ حدود ایک دوسرے سے مل گئی ہیں۔‘‘
یہ ۲۰۰۳ء یا ۲۰۰۴ء کا انٹرویوہے۔’’مسکراہٹ کا عکس‘‘میرے ابا جی کے حوالے سے اہمیت کا حامل افسانہ تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ‘‘ میں بھی اباجی کا مرکزی کردار موجود ہے۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کا باب ’’روح اور جسم‘‘پہلی بار ’’جدید ادب‘‘جرمنی کے شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا تھا۔اس میں میرے یہ الفاظ دیکھ لیں۔
’’ان دنوں میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میری مختلف اصنافِ ادب میں تخلیق کاری کا عمل دوسری اصناف میں کچھ کچھ مدغم ہونے لگا ہے۔مثلاَ یادوں کی گزشتہ اور موجودہ قسط میں یادوں کے ساتھ افکار و خیالات کی زیادہ یلغار ہو رہی ہے،یوں یادیں مضمون جیسی صورت اختیار کر رہی ہیں۔اسی طرح میرے آخری تین افسانوں(مسکراہٹ کا عکس،کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار اور اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ) میں یادوں کے گہرے اثرات کہانی کا رُوپ اختیار کر گئے ہیں۔اگرچہ ایسے اثرات میری دوسری کہانیوں اوردیگر تخلیقات میں بھی ہیں لیکن اتنے گہرے نہیں جتنے مذکورہ تین افسانوں میں در آئے ہیں۔‘‘
میرا خیال ہے ابھی اتنا لکھا ہوا کافی ہے۔گفتگو کی گنجائش ہوئی تو اس کے بعد بھی حاضر ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔