میں وہی ہوں کنواریاں جس کے لئے ہزاروں برسوں سے انتظار کررہی تھیں۔
اور میں وہی ہوں۔۔چاندسورج اور ستارے جس کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔
اور میں وہی ہوںجو اپنے باپ کے تخت کا حقیقی وارث ہے۔
میں سوتیلے جذبوں کاشکار ہوں۔
میرے سوتیلے عزیز تاریخ کو جتنا مسخ کرلیں مگر وہ میرے باپ کا نام کیوں کرمٹاسکیں گے کہ پھروہ خود بھی بے شناخت ہوجائیں گے۔
میں ابراہیم کا بیٹا ہوں۔
میں ابراہیم کا پوتا ہوں۔
میں آل ابراہیم سے ہوں۔
آگ ابراہیم کے لئے گلزار ہوگئی تھی تو مجھے کیونکر نقصان پہنچاسکے گی۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یہ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔‘‘
میں انتظار کرتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خوف سے چلّایا:’’پانی۔۔۔۔!‘‘
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منھ سے لگادیا۔
گلاب کا پودا کچھ اور پھیل گیااس کے سبز پتوں میں ایک اور سرخ پتہ ابھرآیا۔
تیسرے درویش نے خوفزدہ آنکھوں سے یہ منظر دیکھااور دم توڑدیا۔
باقی دونوں درویشوں نے دیکھا کے بے انت پھیلے ہوئی صحرا نے خود کو آدھا سمیٹ لیا ہے ،رات کا تیسرا پہر گزر چکاتھا۔ گلاب شہزادے کی کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہی پنوں تھا اور میں ہی مجنوں تھا، میں ہی فرہاد تھا اور میں ہی رانجھا تھا،میں ہی کرشن تھا اور میں ہی مہندرا تھا۔۔۔۔۔ میں ہر روپ میں تمہیں ڈھونڈتا تھا اور تمہارے جتنے بھی نام تھے سسّی، لیلیٰ، شیریں، ہیر، رادھا۔ مومل سب ایک تھے اور میرے بھی جتنے نام ہیں سب ایک ہیں۔۔۔۔ لیکن ہم صدیوں سے ایک دوسرے کی تلاش اور جستجو میں حصے بخرے ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہمارے ہر حصے میں دکھ کی ایک کہانی بنتی چلی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ غریب بادشاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان خواتین کی طرف دیکھتاہوں۔ ان میں سے ایک بے حد خوبصورت عورت مجھے بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ مجھے عجیب سا محسوس ہوتاہے۔ اس کی نگاہوں سے سورج کی کرنیں میری جسم پر اترنے لگتی ہیں اور میں جیسے ایک دم جوان ہونے لگتاہوں۔ پانچ سے دس، دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس اور بیس سے پچیس۔ اب میں پچیس سال کا بھرپور جوان ہوگیاہوں۔ مگر گاڑی کا سارا منظر بدل چکا ہے۔ دھند کا سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق کے روایتی قصوں میں ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں مگر رات کو کسی سے چوری چھپے ملنے جانا میری زندگی کا پہلا تجربہ ہے۔ گہری سیاہ رات میں پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں لیکن جب میں اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک دینے لگتاہوں تو اچانک روشنی میں نہاجاتاہوں۔ مجھے لگتاہے سارا شہر میرے تعاقب میں نکل آیاہے اور میں رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیاہوں۔ میں گھبراکرچاروں طرف دیکھتا ہوں۔ میرے چاروں طرف گھوراندھیرا ہے، پھر میں کس روشنی میں نہاگیاہوں؟ کہیں یہ مرے اندر کی روشنی تو نہیں؟۔۔۔۔ مرے شجرے کی روشنی؟
آپ بیتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں ماسوائے اللہ سے زائد ہوگیا پھر جب میں نے اپنے آپ کو بلایاتو حق تعالیٰ سے آواز آئی میں نے خیال کیاکہ اب میں خلقت سے آگے بڑھ گیا ہوں ۔۔۔۔میں لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے محرم ہوگیاپھر تسبیح کرنے لگااور وحدا نیت میں جب طواف کرنے لگا تو بیت المعمور نے میری زیارت کی، کعبہ نے میری تسبیح پڑھی، ملائکہ نے میری تعریف کی۔ پھر ایک نور نمودار ہواجس میں حق تعالیٰ کا مقام تھا۔ جب اس مقام میں پہنچا تو میری ملکیت میں کوئی بھی چیز نہ رہی۔‘‘
ایک کافر کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ میں اپنے وقت سے پچاس برس پہلے آیاتھا اور جب پچاس برس بعدمیںدوبارہ آیاتھا تو میں نے یہ دیکھا تھاکہ میں اپنے وقت سے ایک صدی پہلے آگیاہوں۔۔۔۔ پھر جب میں ایک صدی بعد آیا تو میری آمد اپنے وقت سے دو سو سال پہلے تھی۔ اور جب میں دو سو سال بعد آیاتو میری آمد میں چار سوسال رہتے تھے اور پھر جب میں چار سو سال بعد آیاتو میں اپنے وقت سے آٹھ سو سال پہلے آیا ہوا تھا۔ اور اب جب میں آٹھ سو سال بعد آیاہوں تو مجھے یقین ہوگیاہے کہ میں اپنے وقت سے سولہ سو سال پہلے آگیاہوں۔
میں جو روشنی کی بشارت ہوں۔ ہر لحظہ اس دنیا سے دور ہورہاہوں وہ کون سی صفر مدّت ہے۔ جس میں یہ تمام صدیاں اور زمانے سمٹ آئیں گے اور میری آمد قبل از وقت نہ ہوگی۔
روشنی کی بشارت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی ابوکو’’باؤجی‘‘ کہاکرتی تھیں۔ میں نے بھی ایک بار ریٹو کے ابو کو ’’باؤجی‘‘ کہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے ۔۔ ۔ ۔ میرے سوچتے سوچتے کتنے برسوں کافاصلہ طے ہوگیاہے۔ آئینے میں اب امی کے خوبصورت اور جوان چہرے کی جگہ نحیف و لاغر چہرے نے لے لی ہے، مگر ٹی بی زدہ امی بھی مسکرارہی ہیں۔
’’امی آپ نے دکھ کے لمحوں کی ہر سانس میں ابو کا ساتھ دیا تھا پھر اب خوشی کے لمحوں میں کیوں منہ موڑ گئی ہیں؟‘‘
’’بیٹی!اسے مقدر کہتے ہیں‘‘امی بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیتی ہیں۔
’’امی اگر اسے مقدر کہتے ہیں تو پھر ظلم کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’مقدر کے آگے ہر کوئی بے بس ہوتاہے بیٹی!‘‘
’’میں ایسے ڈراؤنے مقدرکی آنکھیں پھوڑدوں گی‘‘میں چیخ اٹھتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی بے دم ہوکر نیچے گرجاتی ہوں۔
مامتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ’’شاید میں آپ لوگوں کی بحث کو کسی حتمی نتیجے تک پہنچاسکوں!‘‘ اجنبی پر خلوص لہجہ میںکہتاہے۔
’’ہماری بحث کاموضوع جنت بدر ہونے کا سبب یعنی گندم ہے‘‘ میں وضاحت کرتاہوں۔
’’کیا واقعی تمہیں جنت بدر کرنے کا سبب گندم ہی ہے؟‘‘
’’مجھے یادتو کچھ ایسے ہی پڑتاہے ‘‘میں ذہن پر زور دیتے ہوئے بتاتاہوں۔
’’مولوی صاحبان بھی یہی بتاتے ہیں‘‘وہ میرے موقف کی تائید کرتی ہے۔
’’مجھے شک پڑتا ہے آپ نے گندم کی بجائے اس کا بھوسہ کھالیاہوگا‘‘
اجنبی کی اس بات پر ہم احمقوں کی طرح ہنستے ہیں۔
اندھی روشنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کسی تھکے ہارے، افسردہ شہزادے کی طرح ایک خوبصورت ڈیپارٹمنٹل سٹور میں داخل ہوتاہوں۔ مگر ایک دم گھبراکے پیچھے پلٹنے لگتاہوں۔ سامنے کوئی وحشت زدہ آدمی کھڑاہے۔ میں پیچھے ہٹتے ہوئے پھر رک جاتاہوں۔ سامنے تو بڑا سا قد آدم آئینہ نصب ہے۔
’’توکیا۔۔۔۔۔؟کیا۔۔۔۔یہ۔۔۔۔میں ہوں؟‘‘
میں خود کو پہچاننے سے انکارکردیتاہوں۔ مگر بالآخر مجھے تسلیم کرناپڑتاہے کہ یہ میں ہی ہوں۔ اپنی پہچان کو تسلیم کرتے ہی مجھے پہلی دفعہ اپنی برہنگی کااحساس ہوتاہے۔ اسی اثنا میں آئینے میں مجھے بالکل اپنے ہی جیسی ایک وحشت زدہ عورت نظرآتی ہے۔ میں تیزی سے پلٹتاہوں۔
حوا کی تلاش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے عجیب سی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ بے چارگی اور مایوسی کے اندھیرے چاروں طرف رقص کررہے ہیں ۔ یوں لگتاہے جیسے انہوں نے میرے اندر والے فنکارکو قتل کردیاہے اور میں اپنی لامتنا ہی تلاش کے سفر میں ایک ایسے ٹیلے پر کھڑاہوں جس کے ایک طرف سربفلک دشوار گزار پہاڑ ہیں اور دوسری طرف گہراناقابل عبورسمندر۔ ایک طرف سینکڑوں اژدہوں اور عفریتوں کی پھنکاریںہیں تودوسری طرف آبی بلاؤں کی چیخیں۔میں اپنے آپ کو پکارناچاہتاہوں مگر میری صدا بھی کہیں کھوگئی ہے۔ اپنی تجرید کے کشف کا عذاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اس قطرے کی بے بسی پر رحم آنے لگا۔میں خود کو ہواؤں کے ساتھ اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
میں نے تقدیر کو خشکی کے راستے سے بھی شکست دی۔ پانی کے راستے سے بھی شکست دی۔ اور اب آسمان کے راستے سے بھی میں نے اسے شکست دے دی تھی۔۔۔۔۔میں اپنی عظمت کو خود ہی حیرت سے دیکھنے لگا!
بے ترتیب زندگی کے چند ادھورے صفحے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی جادو کے کھیل ہیں، قسمت کے کھیل ہیں۔۔۔۔ہم جو زندہ ہیں کیا واقعی ہم زندہ ہیں؟‘‘
وہ میرے بے حد قریب آجاتی ہے اور میں گھبراکر آنکھیں نیچی کرلیتاہوں۔وہ کہے جارہی ہے:
’’کیاواقعی ہم زندہ ہیں؟۔۔نہیں۔۔ہم بھی قسمت کے جادوئی پنکھے کی ہوا کی زد میں آئے ہوئے مردہ کیڑے ہیں۔ جو صرف ہوا کے دباؤ سے متحرک ہوکر زندہ معلوم پڑتے ہیں۔‘‘
پتھر ہوتے وجود کا دکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’دادااَبواور کیا ہوتاتھاآپ کے زمانے میں؟‘اس بار میرے پوتے کے لہجے میں شرارت کی چمک تھی۔میں نے ایک لمباسانس لیااور پھر بتانے لگا’اُس زمانے میں ریڈیو،ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، فیکس،کمپیوٹر۔۔۔۔‘
’دادا اَبو! یہ ریڈیو کیا ہوتا تھا؟‘
’یہ ایک چھوٹاسابکس ہوتاتھا۔ اس کے بٹن گھمانے سے کبھی گیت سنائی دیتے۔ کبھی ساری دنیا کی خبریں، کبھی لوگوں کی گفتگو۔‘
’اور ٹیلی ویژن ؟‘
’ریڈیووالی ساری چیزیں ٹیلی ویژن پر سنائی بھی دیتی تھیں اور دکھائی بھی دیتی تھی۔ یعنی اگر کوئی آواز آرہی ہے تو اس کا چہرہ بھی دکھائی دیتااور وہ شخص ہماری طرح ہی چلتا پھرتا اور بولتا نظر آتا تھا ‘
ننھے منے معصوم بچوں نے میری بات سن کر اتنے زور سے قہقہے لگائے کہ میں خفیف سا ہوگیا۔ وہ مجھ سے پہلے زمانے کی اور دلچسپ باتیں سنناچاہتے ہیں مگر میں کہتاہوں۔ پیارے بچو!میں اب تھک گیاہوں اس لیے باقی باتیں کل سناؤں گا۔
پھر میں ان کے جھونپڑے سے نکل آتاہوں۔جھونپڑے سے باہر آکر یونہی خیال آیا اور میں رُک کر بچوں کی آوازیں سننے لگا۔ میرا ایک پوتاکہہ رہاتھا: ’دادااَبوزیادہ بوڑھے ہوگئے ہیں اس لئے اچھی اچھی کہانیوں کو اپنے زمانے کے واقعات سمجھنے لگ گئے ہیں۔‘
میرے باقی سارے پوتے پوتیاں اس کے تبصرے کی تائید میں ہنس رہے تھے‘‘
کاکروچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پیرسائیں!اس بھول بھلیاں سے نکلنے کی کیاصورت ہے؟‘‘
مجھے بھی مجذوب فقیرسے کچھ خوف محسوس ہونے لگا۔
’’توحیدِ خداوندی پہ کامل ایمان‘‘ پیرسائیں نے مجذوب فقیر کودیکھ کر تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
’’توپھر مجھے توحیدکابھیدسمجھادیں‘‘
’’توحیدکابھید!‘‘پیرسائیں کی آواز لرزی’’تم نے سنانہیں۔جوتوحید کے بارے میں سوال کرتاہے وہ جاہل ہے۔ او رجو کوئی جواب دے کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتاہے وہ مشرک ہے کیونکہ ’بے مثال‘کے بارے میں بتانے کے لئے اسے کسی مثال کاسہارا لیناپڑے گا‘‘پیرسائیں کی لرزتی آواز اب جوش سے بھرنے لگی تھی۔ ’’اور جو توحید کی معرفت کا دعویٰ کرے وہ ملحد ہے کیونکہ خدالامحدود ہے اس لئے اس کاعرفان کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتااور۔جوتوحید کو نہ سمجھے وہ کافرہے‘‘
روشن نقطہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شاہ جی نے ایک پیرجی کا احوال سناکرحیران کردیا۔ شاہ جی اُن پیرجی سے بے حد متاثر نظرآرہے تھے۔کہنے لگے:
’’میں نے پیرجی سے پوچھایہ آپ نے اتنابڑا مزار کیوں بنارکھاہے؟
میری بات سن کر مسکرائے اور بولے’’یہ تو صرف لوگوں کو جمع کرنے کابہانہ ہے کیونکہ من حیث القوم ہم مردہ پرست ہیں۔ زندوں کو مارڈالتے ہیںاور مرے ہوؤں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ بس اسی وجہ سے مزار بنوانا پڑا۔‘‘
میں پیرجی کی صاف گوئی سے بڑا متاثرہوا۔پھر ان کے علم کا اندازہ لگانے کے لئے ان سے الم کے معنی پوچھے۔ انہوں نے مجھے ششدر کر د یا ۔
’’یہ نفس کی تین حالتوں کا بیان ہے۔ امّارہ۔لوّامہ۔ مطمئنہ‘‘
پیرجی نے علم و معرفت کی اتنی بڑی بات ہلکے پھلکے انداز میں بیان کردی۔میں تب سے اب تک اسی عارفانہ سرور میں بھیگاہواہوں‘‘
شاہ جی کی پیرجی سے ملاقات کی روداد نے مجھے بھی مسحور کردیا۔
دو کہانیوں کی ایک کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بتایاکہ وہ دریاکے دوسری طرف والے شہر کا باسی ہے اور ایک چھوٹے سے پُل سے واقف ہے جہاں سے پیدل دریاپار کیاجاسکتاہے۔ وہ بغیرسوچے سمجھے اس شخص کے ساتھ چل پڑا۔ یہ بمشکل دو فٹ چوڑا پُل تھاجس کے ایک طرف لوہے کے پائپوں کاجنگلہ سابناتھااور دوسری طرف سے بغیر جنگلے کے تھا۔ ا س نے آدھاپُل بے خیالی میںپارکرلیاتو اسے احساس ہواکہ وہ تو پُل صراط پر چل رہاہے۔ اس نے جنگلے کو پکڑے ہوئے اوپر دیکھا۔ ریلوے لائن والے پُل پر چندھیا دینے والی روشنی تھی۔ وہاں مزدور کام کررہے تھے۔ اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ نیچے نظر دوڑائی تو گرمیوں کا چڑھتاہوادریاتھا۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔تب اسے جتنی دعائیں یادتھیں اس نے ان کا وِرد شروع کردیاان میں علم میں اضافے سے لے کر والدین کی مغفرت تک کی کئی غیر متعلق دعائیں بھی شامل تھیں۔نہ وہ اوپر دیکھ سکتاتھانہ نیچے۔ تب اس نے اپنے آگے والے ہم سفر کو دیکھاتو وہ غائب تھا۔ خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ کون تھااور کیوں مجھے یہاں تک لاکرغائب ہوگیا۔ دریا کے دوسری طرف والے شہر کے رہنے والے نے مجھے دھوکہ کیوں دیا؟ ان خیالوں اور سوالوں کے ساتھ اس نے بے بسی سے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی۔ ایک طرف گہری تاریکی تھی اور ایک طرف ٹرین کے پُل پر ہونے والی تیز روشنی۔ گھبراہٹ میں اس کا ایک ہاتھ جنگلے سے ہٹ گیا۔ اس نے نیچے کی طرف دیکھا جہا ںدریا کا چڑھتاہوا پانی تھا، اضطراری طورپر اس کا دوسرا ہاتھ بھی جنگلے سے ہٹ گیا۔ اس کے قدم لڑکھڑائے تھے۔ پھر اسے وہی آواز سنائی دینے لگی: چھلانگ لگادو۔۔۔۔ نیچے چھلانگ لگادو۔ پھر دریا میں گہری چھپاک کی آواز اس نے خود ہی سنی تھی۔
اس کے بعد اسے ایسا لگا جیسے اس کی ماں اسے نہلارہی ہے۔ اس نے اس کے منہ پر صابن مَل دیاہے۔ بھائی نے نلکے کی ہتھی تیز چلانی شرع کردی ہے۔ گھبراکر وہ تھوڑاسا تڑپاتو ماں نے بے تاب ہو کر اسے سینے سے لگالیا۔ اس کی ساری گھبراہٹ دور ہوچکی تھی۔
گھٹن کا احساس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ڈرتے ڈرتے کنڈی کھولی تو نئی چوہدرانی سامنے کھڑی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے آگ برس رہی تھی۔ انہوں نے قہر بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور’’ نمک حرام‘‘ کہہ کر بیڈروم کادروازہ زور سے اندر سے بندکرلیا۔
بتائیے بھلا میں نے نمک حرامی کہاںکی ہے۔ خدا کی قسم میں نمک حرام نہیں ہوں۔ چوہدری اللہ دتہ صاحب کل رات کے کہیں گئے ابھی تک واپس نہیں آئے۔وہ آجاتے تو وہ خود گواہی دیتے کہ بھولااور سب کچھ ہوسکتاہے لیکن نمک حرام نہیں ہوسکتا۔ پر یہ چوہدری اللہ دتہ صاحب کل رات سے اچانک کہاں چلے گئے ہیں اور ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے؟
اور وہ بیڈروم کی کنڈی باہر سے کس نے لگائی تھی؟
رب جانے یہ کیاچکرہے! بھولے کی پریشانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکلیف اور اذّیت کے عالم میں ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ ’’جئے ہند‘‘ اور ’’ست سری اکال‘‘ کے سارے نعرے بھی اسے ریپ کرتے رہے اور اسے اس کا نیانام یادکراتے رہے۔وہ چیخی چلائی تو لیڈر سکھ نے دھمکی دی کہ اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ اپنے گروہ کے باقی سات جوانوں کو بھی اندرمدعوکرلے گا۔ تب وہ نہایت بے بسی کے ساتھ سسک پڑی اور درست ہوگئی اور اسے یقین آگیاکہ اس کا نام رشیدہ نہیں پرکاش کورہے او رپھر وہ سچ مچ پرکاش کوربن گئی۔ لیڈر سکھ سریندرسنگھ کی بیوی!
اس کے اندرکی رشیدہ کبھی اس سے گزرے ہوئے، بھوگے ہوئے اور سنے ہوئے واقعات کی کوئی بات کرتی تووہ اسے سختی سے ڈانٹ دیتی۔کسی نعرے کا مطلب پوچھتی تو اسے ٹوک دیتی۔ سکھوں کے دور میں مسلمانو ںکی اذانوں پر پابندی کی بات ہویا مغلیہ دور میںگوروگوبندسنگھ جی کے بچوں کے قتل کاواقعہ، پاکستان کا مطلب لا الٰہ الااللہ ہو یا پلید ستان۔وہ تو اپنا مطلب، اپنے معانی گم کر بیٹھی تھی۔ اس کے لئے اب ہر چیز بے معنی تھی۔ شناخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری دنیا، سارے معاشرے، سارے فرقے، سب کے نزدیک مجرم وہی ہے جو پکڑاجائے۔جو مہارت کے ساتھ جی بھر کر گناہ کرے، جرائم کامرتکب ہو لیکن پکڑانہ جائے وہ متقی، پرہیزگار اور مومن ہے۔ بارہایہ خیال آئے کہ انور صاحب کو جاکر ان کی بیگم کے کرتوت بتادوں، پھر سوچتاچلو انور صاحب پر ایک قیامت توگزر چکی اب انہیں ایک اور قیامت سے کیوں دوچار کروں۔ جیسی بھی سہی ان کی زندگی گزر تو رہی ہے، گھر بسا تو ہوا ہے۔ آخر میں نے راز افشا کرنے کی بجائے پردہ پوشی کرنے کو ترجیح دی۔ انکل انیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں وہ اوڈیس(Odysseus)ہوںجسے کوئی ہومرنصیب نہیں اس لیے مجھے اپنے کردار کے علاوہ ہومر کے حصے کا کام بھی خود کرناہے۔ کئی صدیوں کے بعد جب تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے تو سب کچھ عین اسی طرح نہیں ہے جیسا پہلے تھا۔ تاہم تاریخ کے مرکزی کردار تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بڑی حد پہلے جیسے ہیں۔ واقعات کی نوعیت میں بعض بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں اس کے باوجود واقعات کا انجام بہرحال پہلے سے کہیں بہتر ہونے کی امید ہے۔
۲۷۵۰ سال بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچپن میں ہی میرے اباجی نے ایک طرح سے میرے دل میں اس کا شوق پیدا کیاتھا۔ وہ مجھے قصّے، کہانیاں سنانے کی بجائے بزرگانِ دین کے حالات و واقعات دلچسپ پیرائے میں سناتے۔ ایسے واقعات میں بہت سی باتیں میری سمجھ میں تو نہیں آتی تھیں لیکن انہیں سننے میں انوکھاسامزہ ضرور آتاتھا۔ ایک دفعہ اباجی نے اپنے مرشد کی جڑواں بہن کے بچپن کاایک دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ سنایا:
’’جنت بی بی بڑی اللہ والی تھی۔ بچپن میں ایک دفعہ اس نے خواب دیکھا کہ وہ سمندر کے کنارے کھڑی ہے۔ سمندر کی لہریں اس کی ٹانگوں تک آآکر لوٹ جاتی ہیں۔ بیدار ہونے پر جنت بی بی نے اپنی ماں کو اپنا خواب سنایا۔ ماں اس خواب کو سن کر بے حد حیران ہوئی کیونکہ جنت بی بی کی شلوار بھی گیلی تھی۔‘‘
میں نے اباجی کی بات سن کر بچپنے کی معصومانہ ہنسی کے ساتھ کہا:’’نیند میں ان کی پِشی نکل گئی ہوگی۔‘‘
اباجی میری بات سن کر بے ساختہ مسکرادئیے۔ پھر انہوں نے وضاحت کی کہ جنت بی بی کی شلوار صرف گیلی ہی نہیںتھی۔ اس پر سمندر کی ریت بھی چپکی ہوئی تھی۔ اس واقعہ کی پراسراریت نے میرے دل میں یہ شوق پیداکیاکہ میرے ساتھ بھی اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ پیش آئے۔ بڑا ہوا تو کئی کہانیوں میں اس انداز کے فرضی قصے پڑھے لیکن میری خواہش تو ذاتی تجربے کی تھی۔
بھید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحبان!۔۔۔اس وقت میں اسی برس سے اوپرکاہوگیاہوں۔ اب اس عمر میں کہاں تک جھوٹ بولوں لیجئے آپ کو سچی بات بتاہی دوں۔حمید نامی کوئی شخص کبھی بھی میرا دوست نہیں رہا۔ میرے اندر ساٹھ سال تک تو بہرحال جنس کا طوفان سامچارہا لیکن یہ طوفان کبھی بھی کناروں سے باہر نہیں آیا۔ میری فطرتی بزدلی نے میرے کناروں کو بہت بڑے بندمیں تبدیل کردیاتھا۔ میری جنسی فتوحات کی ساری کہانیاں میری خواہشات کا لفظی بیان تھیں اور بس۔ اس لفظی بیان کی جادو گری کام کرتی رہی ۔مجھے بزدل کہنے والے مجھے حسد بھری نظروں سے دیکھتے اور جل کر من ہی من میں کہہ دیتے ہونہہ یہ تو مکھی بھی نہیں مارسکتا۔ اب وہ سارے دوست مرکھپ چکے ہیں تو پھر مزید جھوٹ بولنے سے فائدہ؟ یوں بھی جنس کا طوفان تو کبھی کا ختم ہوچکاہے۔اب تو میرے اندر اور باہر برف ہی برف ہے۔ (پر یہ ’’خواہش‘‘ ابھی تک کیوں نہیں مری؟)
ابھی ابھی ایک انوکھی بات ہوگئی ہے۔ ہلکی سی دھپ کی آواز کے ساتھ دو جُڑی ہوئی مکھیاں میرے میزپر آن گری ہیں۔ ان کے ’’طرزِ عمل‘‘سے مجھے علم ہوگیاہے کہ ایک نر ہے اور ایک مادہ۔ میں نے کسی وحشت یا کراہت کے بغیر انہیں دلچسپی سے دیکھاہے۔
کاش میرے سارے بچپن کے دوست اس وقت زندہ ہوتے او ریہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔
میں نے اخبار اٹھاکر اسے تھوڑا سا فولڈ کیاہے اور اس کے ایک ہی وار سے نراور مادہ دونوں مکھیوں کو ’’دورانِ عمل‘‘ ہی ختم کردیاہے۔ اعتراف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکوں نے ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ باباجمالی شاہ سے کہا کہ یہ ایک میّت ہے اس کی نماز جنازہ پڑھادیں۔ بابانے نماز جنازہ پڑھانی شروع کردی حالانکہ پیچھے کوئی صف بھی نہیں بنی تھی، نہ ہی کوئی اور نماز جنازہ میں شریک تھا، باباجمالی اکیلے ہی لگے ہوئے تھے، جب انہوں نے آخری سلام پھیراتو لڑکوں نے زور زور سے قہقہے لگانے شروع کردیئے اور کہنے لگے: باباجمالی!یہ تو مولانا عطاء الرحیم کابیٹا جیلاہے اورزندہ ہے۔تب باباجمالی شاہ نے بڑے جلالی انداز میں کہا:
یہ جو کوئی بھی تھااب صرف قیامت کے دن ہی اٹھے گاکیونکہ اس کا جنازہ جمالی شاہ نے پڑھادیاہے۔
تمام حاضرین پرسکتہ طاری ہوگیا۔جیلا واقعی مرچکاتھا۔
٭٭
جو کچھ جیلے ساتھ ہوگیاہے کاش ایسانہ ہواہوتا!
لیکن اس کی ساری ذمہ داری خود اُس پر اُس کے سخت دل مولوی باپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔
بابا جمالی شاہ کا جلال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دراصل ہمارے اندر کی دنیا میں جو کچھ بھی وقوع پذیرہوتاہے وہ اند رہی اندر ہوتاہے۔ باہر کی، ظاہر کی دنیا سے یہ سب کچھ الگ تھلگ ہوتاہے۔ اپنے اندر کی دنیا میں مگن رہنے کے باوجود میں اندر اور باہر کی دنیاؤں کے اس فرق کو بخوبی سمجھتاہوں۔ اباجی کی تصویر سے میرے تعلق کی نوعیت بھی حقیقتاً داخلی تھی۔ ظاہر کی دنیا کے حساب سے توشاید ایسا کچھ بھی نہیں تھالیکن میں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے بھی پوری طرح دیکھاتھاکہ اباجی سچ مچ تصویر کے فریم سے باہر نکلے، اور صوفے پر آکرمیرے ساتھ بیٹھ گئے۔ انہوں نے بڑی شفقت کے ساتھ اپنی پگڑی کی لڑ سے میرے آنسو صاف کئے۔ لیکن آنسو توامڈتے ہی چلے آتے تھے۔جیسے سیلاب بن کر خواہشوں کے اژدہام کو بہالے جاناچاہتے تھے۔ تب اباجی نے بیٹھے ہی بیٹھے مجھے اپنی بانہوں میں بھرکربھینچ لیا۔ شاید وہ بول نہیں سکتے تھے اور اسی طرح مجھے دلاسہ دے رہے تھے۔ پگڑی کی لڑ سے میرے آنسو صاف کئے جانے اور اباجی کا مجھے خود سے لپٹانے کا میرا تجربہ خیالی یاروحانی قطعاً نہیں تھا۔یہ مکمل طورپر جسمانی اور ظاہری وقوعہ تھا۔
مسکراہٹ کا عکس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی کار جس کہانی کے تعاقب میں تھا وہ در اصل ایٹمی جنگ کے بعدکی فضا کے موضوع سے متعلق تھی۔ایٹمی جنگ کے بعد چند انسان روئے زمین پر کسی طرح بچ گئے تھے اور بد قسمتی سے وہ سب الگ الگ مذاہب اور الگ الگ فرقوں کے لوگ تھے۔پانی کے عظیم طوفان، طوفانِ نوح میں اچھے اچھے جوڑوں کو کشتی میں محفوظ کر کے بچا لیا گیا تھا تاکہ دنیا کو اس کے گناہوں کی سزا دینے کے بعد پھر سے زندگی سے لبریز کیا جا سکے۔لیکن یہ کہانی جو کہانی کار کے قابو میں نہیں آرہی، اس میں پانی کے طوفان سے زیادہ بڑا اور ہولناک ایٹمی طوفان آچکا ہے۔اتنی ترقی یافتہ اور ہنستی بستی دنیا پتھر کے زمانے میں چلی گئی ہے لیکن پتھر کے زمانے جیسی بے خبری سے بھی محروم ہو چکی ہے۔پہلے پہل زندہ بچنے والے ایک فرقے کے فرد نے جب دیکھا کہ وہ زندہ بچ گیا ہے تو اُس نے اسے اپنے مسلک کی سچائی قرار دے کرخود کو خداکا پسندیدہ بندہ سمجھ لیا۔لیکن جب معلوم ہوا کہ ایسے کتنے ہی’’ خدا کے پسندیدہ بندے‘‘ بچ گئے ہیں اور وہ سب کے سب متحارب مذاہب اور فرقوں کے افراد ہیں تو پھر ان سب کے درمیان مذہبی مخاصمت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔سب ہی خدا کے نیک بندے ہیں اور سب ہی ایک دوسرے کی تکفیر و تکذیب کرکے اپنی صداقت کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔اتنے بڑے پیمانے پر ہو جانے والی انسانی تباہی اور ساری دنیاوی ترقیات کے خاتمہ کی بھی ان لوگوں کو پرواہ نہیں ہے اور اب بھی یہ سارء بچے کھچے مذہبی لوگ ایک دوسرے کے خلاف اپنا اپنا زہر اگل رہے ہیں۔ایک دوسرے کی تکفیر و تکذیب کر رہے ہیں۔
کہانی کار جو ہمیشہ سے اس دھرتی پر انسانوں کے کے رہنے کی تمنا کیا کرتا تھا،اس منظر پر حیرت زدہ ہے اور سارے فرقہ پرستوں کی پرانی متعصبانہ روش سے تنگ آکردھرتی سے انسانوں کے مکمل خاتمہ کی دعا کرنا چاہتا ہے لیکن اسے سمجھ نہیں آرہی کہ کہانی کو کیسے مکمل کرے ۔کیابدد عا پر کہانی کو ختم کیا جائے یا پھرکوئی آسمانی آفت لا کر سارے بچے کھچے متعصب انسانوں کو ختم کیا جائے۔اگر آسمانی آفت لائی جائے تو کیسی ہو؟کہانی کار ابھی تک اس مسئلے میں الجھاہوا ہے اور کہانی اسی وجہ سے اس کے قابو میں نہیں آرہی۔
کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار ایک مجذوب فقیر اس گاؤں میں آگیا۔بستی کے لڑکوں،بالوں نے اس مجذوب سے باتیں کیں تو انہیں لگا کہ ان کے خدا کے محدود تصور کے بر عکس اس مجذوب کی باتوں میں ایک ایسے خدا کا احساس ملتا ہے جو سچ مچ لا محدود ہے اور جس کی محبت بھی دل دہلا دینے والی ہے۔
مجذوب نوجوانوں کو بتا رہا تھا کہ خدا خود کہتا ہے کہ جو مجھے ڈھونڈتا ہے،وہ مجھے پا لیتا ہے۔اور جو مجھے پالیتا ہے وہ مجھے دیکھ لیتا ہے۔ جو مجھے دیکھ لیتا ہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے۔جو میرا عاشق ہو جاتا ہے،اُسے میں قتل کر دیتا ہوں اور جسے میں قتل کر دیتا ہوں ،اُس کا خون بہا میں خود ہوجاتا ہوں۔
تب نیک بندوں کی اس بستی کی بڑی عبادت گاہ کا منتظم وہاں سے گزر رہا تھا۔اس نے مجذوب کی یہ بات سنی تو پہلے اسے بھی یہ بات بہت اچھی لگی لیکن پھر یکدم اسے خیال آیا کہ یہ تو اس کے پختہ عقائد اور ایمان سے ہٹ کر بات کی گئی ہے۔صراطِ مستقیم سے ہٹی ہوئی بات کتنی ہی خوبصورت اور دل کو بھانے والی کیوں نہ ہووہ سراسر گمراہی اور ضلالت ہے۔چنانچہ اس نے اسی وقت بستی کے بہت سارے نیک بندوں کو جمع کرکے صلاح مشورہ کیا اور اپنی نئی نسل کو کسی بھی طرح کی گمراہی اور ضلالت سے بچانے کے لیے فیصلہ کیا کہ یا تو یہ مجذوب نیک بندوں کی بستی کو چھوڑ دے یا پھراسے قتل کردیا جائے۔ فیصلہ بظاہر یہی تھا لیکن حقیقت میں یہ طے ہوا تھا کہ مجذوب کو قتل کر دیا جائے گا۔ اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نیک بندوں کے سر پنچ مجذوب کے ٹھکانے پر پہنچے تو مجذوب غائب تھا۔جیسے اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
نیک بندوں کی بستی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کچھ مجھ پر گزرا، یا میں نے محسوس کیا وہ سب کیا تھا؟کیا میں نے کوئی کشفی نظارہ سا دیکھا تھا یا کسی روشنی نے مجھے اپنے وقت سے چند منٹ پہلے کا سفر کراکے پھر واپس اپنے مقام پر چھوڑ دیا تھا؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔لیکن کچھ سمجھ آبھی رہی تھی۔
کل رات والے نظارے یا تجربے کے بعدساری رات مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آسکی تھی اورآج جب میں جاب پر جانے لگا ہوںتو طبیعت کافی بوجھل ہے۔گھر سے باہر نکلا تو گہرے بادل اور دھند ایک دوسرے میں مدغم دکھائی دئیے۔ہیٹرس ہائم ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو ریلوے کے عملہ کی طرف سے اعلان ہو رہا تھا کہ ویزبادن سے فرینکفرٹ جانے والی ٹرین دس منٹ لیٹ آرہی ہے۔دھندلی فضا نے ریلوے اسٹیشن کی روشنیوں کو بھی مدھم کررکھا ہے ۔اس دوران فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین اپنے ٹھیک وقت پر آگئی اور میں اپنی عجیب سی عادت کے مطابق دیکھنے لگتا ہوں کہ شاید میرا بیٹا اس میں سے اُتر کر آرہا ہو۔فضا کی دھندلاہٹ کے باوجود واقعی میرا چھوٹا بیٹا انجن کے ساتھ والے ڈبے سے نیچے اُترا ہے اور میری طرف آرہا ہے ۔ میرے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ہے۔لیکن جیسے جیسے میرا بیٹا قریب آتا جا رہا ہے،میری مسکراہٹ، حیرت آمیز ہوتی جا رہی ہے۔کیونکہ اب وہ میرا بیٹا نہیں لگ رہا بلکہ صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ میرے ابا جی میری طرف آرہے ہیں۔میں ابا جی کا استقبال کرنے کے لئے ان کی طرف آگے بڑھ کر جاتا ہوں۔لیکن جب ان کے قریب پہنچتا ہوں تومیری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔یہ تو میں خود ہوں!
میں اپنے آپ سے گلے مل رہا ہوں اور ایسے لگ رہا ہے کہ میں خود سے نہیں بلکہ اپنے سارے آباو اجداد اور اپنی ساری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو گلے مل رہا ہوں۔ اسی حالت میں دیکھتا ہوں کہ فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین آرہی ہے۔دور سے اس کی ہیڈ لائٹ کی چمک اسٹیشن کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہے۔
مجھے رات والا واقعہ یاد آجاتا ہے اور میں مزید کسی حیرت میں پڑے بغیریقین کر لیتا ہوں کہ فرینکفرٹ سے آنے والی جو ٹرین کچھ دیر پہلے آچکی تھی،وہ در اصل اب آرہی ہے،ٹرین اسٹیشن پر رُک رہی ہے اور میں اس کے سب سے اگلے ڈبے میںسے اپنے اترنے کا انتظار کرنے لگتا ہوں!
اپنے وقت سے تھوڑا پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن میں زیبرا کراسنگ پر رکا ہوا اپنے پیدل رستے کے سگنل کے کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔جیسے ہی میرا اشارا کھلا،سڑک پر زیبرا کراسنگ کے قریب شیرنی کے لوگو والی وہی گاڑی آکر رُکی۔میں سیدھا دیکھنے کی بجائے اس کی طرف گردن موڑ کر اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا اور اسی حالت میں سڑک کراس کررہا تھا۔اسی حالت میں ، میں نے دیکھا کہ شیرنی کے لوگو والی کار کی مالکن مجھے خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی۔سڑک پار کرکے میں رک گیا۔پلٹ کر دیکھا تو وہ سگنل کھلتے ہی آگے کی طرف نکل گئی تھی۔میں کچھ دیر تک وہاں یونہی کھڑا رہااور پھر زیبرا کراسنگ کی طرف مڑ کر واپسی کا ارادہ کیا۔مجھے اندازہ نہیں کہ میں کدھر جا رہا تھا ۔ مجھے یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ ٹریفک سگنل کس طرف سرخ ہے اور کس طرف سبز ہے۔۔۔میرا رستہ کھلا ہے یا نہیں۔۔۔میں کچھ دیکھے بغیر چل پڑا،تب ہی دوسری طرف سے شیرنی کے لوگو والی وہی گاڑی ریورس میں آتی دکھا ئی دی۔لیکن اب کبھی وہ شیرنی کے لوگو والی کار لگتی تھی اور کبھی سچ مچ کی شیرنی۔۔۔جس کا چہرہ بالکل کار کی مالکن جیسا تھا۔ایک قد م پر شیرنی اور ایک قدم پر کار ۔۔۔۔اس کے دونوں روپ ادل بدل رہے تھے اور پھر مجھے پتہ نہیں چلا کہ کار کی ڈگی زور سے میرے جسم کے درمیانے حصے سے ٹکرائی تھی یا لوگو والی شیرنی نے لوگو سے چھلانگ لگا کرمجھے اپنے جبڑوں میں دبوچ لیا تھا۔میرے جسم کا درمیانہ حصہ خون سے لت پت تھا،میں سڑک کے بیچ میں پڑا ہوا تھا۔میری جان نکل چکی تھی لیکن شاید تھوڑی سی باقی تھی۔
میں نے گھبراہٹ کے عالم میں اپنے خون میں لت پت حصے کو ہاتھ لگایا۔اور اطمینان کا سانس لیا۔
اللہ کا شکر ہے، وہ خون نہیں تھا۔
کار اور شیرنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا پیراگراف
یہ کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اس کا اختتام ہوتا ہے۔فلیش بیک کی تیکنیک سے نہیں بلکہ سچ مچ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں یہ ختم ہوتی ہے۔لیکن کیسے؟
کوئی بھی کہانی جب شروع ہوتی ہے تو سیدھ میں آگے بڑھنے لگتی ہے۔بے شک اس میں کچھ نشیب و فراز بھی آتے ہیں،کچھ موڑ بھی آتے ہیں،ٹیڑھے میڑھے رستوں سے بھی گزرہوسکتا ہے، گلیوں، سڑکوں، شاہراہوں، فٹ پاتھوں سے پگڈنڈیوں تک کئی مقامات پیش آسکتے ہیں۔ جنگلوں ، دریاؤں، سمندروں اور صحراؤں سے بھی گزرنا پڑ سکتا ہے۔لیکن ایسے ہر مقام سے گزرتے ہوئے بھی کہانی کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔یہ صراط مستقیم ہو یا زگ زیگ لیکن آگے تو چلنا ہوتا ہے۔پر یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کہانی اپنے اختتام سے کیسے شروع ہو۔
آخری پیرا گراف
تب میں نے کہانی کو بتایا کہ مرد ہو یا عورت ، سارے انسان اپنی اصل میں ایک ہیں۔کوئی اپنی کھوج میں نکلے یا خدا کی جستجومیںنکلے۔کائنات کے کسی بھید کو سمجھنا چاہے یااپنے اندر کے اسرار کو جاننا چاہے سب کا رخ ایک ہی طرف ہوجاتا ہے۔وہاں سارا اچھا، برا،گناہ ،ثواب،پاکیزگی ، ناپاکی،دیوانگی،دانش،جسم،روح،سب ہم آمیز ہو جاتے ہیں،اور جیسے سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔لیکن یہ تب ہوتا ہے جب آپ کا مرکزِ جستجوآپ کو نظر اٹھا کر دیکھتا ہے۔اسے نظرِ کرم کہیں یا محبوب کی نگاہ،بس ساری کائنات اور اس کے سارے اسرار اُس کی آنکھ کے اٹھنے پر منکشف ہوجاتے ہیں۔
میری تقریر ختم ہوئی تو کہانی کی کھنکتی ہنسی سے ماحول مترنم ہو گیااور ساتھ ہی کہانی کی آواز آئی میری طرف دیکھو!
میں نے کہانی کی طرف دیکھا،اُس کی خوبصورت غلافی آنکھیں اُٹھی ہوئی تھیں،وہ مجھے محبت سے دیکھ رہی تھی اوراس کی آنکھ سے ساری کائنات کے سارے اسرارمنکشف ہوئے جا رہے تھے۔ سارا اچھا، برا،گناہ ،ثواب،پاکیزگی ، ناپاکی،دیوانگی،دانش،جسم،روح،سب ہم آمیز ہوئے جا رہے تھے ،سب بے معنی ہو ئے جا رہے تھے۔جیسے از سرِ نو تخلیق کائنات ہونے لگی تھی۔
ایک دائرہ تھا جو مسلسل گھوم رہا تھا۔مثلث،چوکور،مستطیل،مربع سارے عقائد، تصورات، خیالات،سارے زمانے، زمینیں، اجسام،ارواح اور ان سب کی ضرورت کی ہر شے کی کلبلاہٹ اس دائرے کے اندر محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔یہ ازل اور ابد کا عالم تھا جہاں لا محدود دائرہ مسلسل متحرک تھا،رقص فرما تھا،اپنا ہی طواف کر رہا تھا ۔یہاں ساری سیدھیں دائرے کے اندر تھیں۔دائرہ خود بس دائرہ در دائرہ تھا۔ جہاں جو کچھ اختتام پذیر تھا وہیں سے وہ شروع ہو رہا تھا۔دائرے کے اختتام اور شروع کا تعین کون کر سکتاہے؟
کہانی میرے سامنے تھی،میں اسے دیکھ رہا تھااوراس کی غلافی آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں۔
کہانی میرے سامنے رقص کر رہی تھی اور میں اس کے گرد طواف کر رہا تھا۔
دائرہ در دائرہ ہوتے ہوئے لا محدوددائرے میں کہانی جہاں جہاں ختم ہورہی تھی وہیں وہیں شروع ہو رہی تھی۔
کہانی کی کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔