میں ذاتی طور پر بہت سست انسان ہوں۔ شاید آپ یقین نہ کریں مگر ایسا حقیقت ہے کہ افسانے لکھتا ہوں اور باوجود دو سال تک حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کا سیکریٹری رہنے کے میرے ساتھ ہوٹل کی میز پر بیٹھنے والے میرے دوستوں کو بھی اس کا علم نہیں ہے ۔ اور اس سستی کے عالم میں مجھے ایم فل بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد نہایت شفیق اور مہربان شخصیت کے علاوہ ہر دلعزیز استاد بھی ہیں اور وہ اپنے طلبہ کے مزاج سے بخوبی آشنا بھی ہیں۔ ایم فل کے کورس ورک میں طلبہ کو کچھ مختصر مقالے لکھنا ہوتے ہیں ایسے ہی ایک دن مجھے اچانک ڈاکٹر صاحب نے ایک کتاب ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘تھما دی اور حکم صادر کیا کہ اس پر مقالہ لکھ لاؤ۔کتاب کیا تھی ایک پنڈورا باکس کھل گیا۔یوں میں حیدر قریشی سے پہلی با ران کی کہانیوں میں متعارف ہوا۔مختلف ادبی رسالوں میںافسانوں پر چھپنے والے تنقیدی مضامین میں تو گاہے بگاہے ان کا نام پڑھ رکھا تھا مگر جب تک ہم کسی تخلیقی فنکار کے تخلیقی کام سے آشنا نہیں ہوتے اس پر ہونے والی تنقید کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان افسانوں نے مجھ پر ایک تحیّر سا طاری کردیا۔ کافی دن گذر گئے تو میں ایک دن کلیات اٹھائے ڈاکٹر صاحب کے حضور پیش ہوا کہ آپ ہی رہنمائی کریں میں تو ان کہانیوں کا کوئی ا یک سرا پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ تب انھوں نے ان کہانیوں میں موجود کچھ اہم مسائل کی نشاندہی کی اور میں یہ سمجھا کہ اب راستہ آسان ہوگیا مگر ایسا کہاں تھا۔اب اس تحیر نے دائرہ پھیلا لیا۔اس مشکل کا کیا اپائے ہو؟ایک آسان اور لگا بندھا طریقہ تو یہ ہے کسی افسانہ نگار کے بارے میں دوسرے ’’ثقہ بند ‘‘ ناقدوں کی رائے میں کچھ ردو بدل کرلیا جائے ۔ آسانی کون نہیں ڈھونڈتا؟ میں نے بھی افسانے پر تنقیدکی کافی کتابیں چھان ماریں مگر چھان بورا ہی ہاتھ لگا سو خود کو اسی پہلے قدم پر کھڑا پایا۔ آج کل کیا جب سے ادب پر ایک خاص گروہ کا قبضہ ہوا ہے تنقید و تاریخ میں صرف انہیں کا نام لیا جاتا ہے جو بیعت ہیں۔ورنہ تو گذشتہ ۴۵سال منٹو کا بھی ذکر نہیں ہوا خیر وہ تو تخلیق کار ہی بڑا ہے اور کسی کا کوئی چارہ نہیں چلتا۔ حیدر قریشی کا تعلق کسی بھی ادبی مجاوروں کے گروپ سے نہیں ہے تو ان کا ذکر خیر کیوں ہو؟ بس کہیں کہیں’’جہاں زوروں سے منوایا گیا ہوں‘‘۔
کچھ ایسا بھی ہے کہ ادبی مراکز سے دور بیٹھے تخلیق کار نظر انداز ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اور ان مراکز سے دوری ملک کے اند ہو یا بیرون ملک ہو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
حیدر قریشی کی شخصیت بہت ہمدرد اور رکھ رکھاؤ کی مالک ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ان افسانوں کا جائزہ لینا نصابی ضرورت کا ہی سہی مگر بہت مشکل کام تھا۔تاہم اسے میرے ساتھ ہر سطح پر حیدر قریشی کے تعاون نے ممکن بنادیا۔ نصابی ضرورت پوری ہونے کے بعد میرے ذہن میں یہ خیال موجود تھا کیوں نہ اب اس مختصر مقالے کو باقاعدہ کسی کتاب کی شکل دے دوں ۔اس خواہش کا اظہار ڈرتے ڈرتے میں نے حیدر قریشی سے کیا اور ان کی رضامندی بھی حاصل کرلی مگر کیا کروں اس سست طبیعت کا کہ یہ کتاب محض میری وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔
حیدر قریشی کے ہاں افسانہ کے معنی کیا ہیں اور وہ افسانے سے کونسی سماجی ضروریات کا ادراک کرکے اسے تخلیقی اظہار کا حصہ بناتے ہیں۔اور وہ اس میں کتنے کامیاب رہے ہیں یہ تو ان کے قاری زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔بطور ایک طالب علم کے میں ان افسانوں کی تفہیم کہاں تک کرسکا ہوں اورافسانے پر تنقید کے حوالے سے مجموعی اردو افسانے میں حیدر قریشی کے افسانوں کے موضوعات کو کس حدتک سمجھ سکا ہوں اس کا فیصلہ بھی حیدر قریشی کے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔اور میں
سمجھتا ہوں کہ ان کے قارئین کی تعداد اچھی خاصی ہے اور ان کی رائے صائب ہے۔
کسی افسانوں کی کتاب پر اسقدر طویل تبصرہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ میں نہ تو کوئی نقاد ہوں اور نہ ہی آئندہ نقاد بننے کا ارادہ رکھتا ہوں۔اس لیے میری ان معروضات کوکسی نقاد کی رائے نہ سمجھا جائے اور نہ ہی میں ایسا کوئی صاحب مطالعہ شخص ہوں کہ ان افسانوں کی تمام سمتوں کا سراغ لگا سکتا اور حیدر قریشی کے نمایاں رحجانات کا ادراک کر سکتا۔تاہم ایک خواہش تھی اور اس کی تکمیل کے لیے اپنی سی کوشش بھی کی ہے البتہ اپنی ناکامی کا اعتراف خود مجھے ہے۔اگر کہیں حیدر قریشی کے فن کو سمجھنے میں کامیاب ہوا ہوں تو آپ کی حوصلہ افزائی کا منتظر رہوں گا۔
میری خواہش تو یہ بھی تھی کہ حیدر قریشی کی خاکہ نگاری کا بھی ایک مطالعہ اس کتاب میں شامل کرتا مگر میری کوتاہیوں نے اس کتاب کو مزید تاخیر کا شکار کردینا تھا۔ اب اگر میں اپنے ایم فل کے مقالے کو جلد مکمل کرسکا تو میں حیدر قریشی کی دیگر تخلیقی جہات شاعری اور خاکہ نگاری کو بھی سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ دراصل کوئی بھی تخلیقی فنکار اپنے پورے تخلیقی کام میں ہی اپنی ذات و نظریات کا مکمل اظہار کرتا ہے۔
حیدر قریشی کا نظریہ زندگی کیا ہے ؟ اور کیا وہ اپنے نظریے کو اپنے تخلیقی اظہار کا شعوری لازمہ خیال کرتے ہیں ؟ کیا کسی بھی نظریے کو تخلیق میں ضرور اظہار پانا چاہیے۔ چاہے وہ اس تخلیق کا تخلیقی حصہ بن بھی پائے یا نہ بنے؟یہ سوال گنجلک بھی ہیں اور اختلافی بھی۔البتہ افسانے کا بنیادی لازمہ کہانی ہے چاہے اس میں نظریہ موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر فنکار کا زندگی کے بارے میں نظریہ یا نقطہ نظر اس کی تخلیق میں رچ بس کر آئے اور وہ اس کا تخلیقی حصہ معلوم ہو تو اس میں قباحت بھی کیا ہے۔ یقیناََ اسے فوراََ مقصدی ادب کہہ دیا جائے گا۔ ادب کا کسی نہ کسی سطح پر کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے کیونکہ ادب کا تعلق اپنے معاشرے سے قریبی نہ سہی ’عملی‘ ضرور ہے۔۶۰ء کے نئے لکھنے والوں نے مقصدی ادب میں کیڑے نکالنے کا کام کیا اور ایسا انہوں نے ترقی پسند تحریک کے رد عمل میںکیا۔بات طویل ہوتی جارہی ہے بنیادی مقصد یہی تھا کہ میں ان کہانیوں کو سمجھنے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ آپ پر ہے اور آپ کی حوصلہ افزائی اور رائے کا منتظر رہوں گا۔
٭٭٭٭