حیدر قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے :
’’میری زندگی کے سارے نشیب و فراز لا شعوری طور پر میرے شعور کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لہٰذا میری عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور سوالات ہی میرے کسی نظام فکر کی تشکیل کا باعث بنے ہوں گے اور لا شعوری طور پر سہی کسی نہ کسی رنگ میں میری تخلیقات میں در آئے ہوں گے۔‘‘
(جواز جعفری سے گفتگو
مشمولہ حیدر قریشی کے انٹرویوز مرتب سعید شباب)
حیدر قریشی کے اس اقرار کے باوجود کہ انہیں تصوف سے دلچسپی ہے، ان کی کہانیوں کا خام مواد حقیقی زندگی کے منظر نامہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ تصوف درویشی اور کسی حد تک گوشہ نشینی کا احساس دلاتا ہے لیکن اگر تصوف کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اپنے وقت کے تمام بڑے صوفی، اپنے عہد سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ کسی نے درست کہا ہے کہ ان کی محفلیں عوامی دربار تھے جن میں ہر شخص اپنے مسائل کے ساتھ موجود ہو تا تھا ۔روحانیت ان کا باطنی سفر تھا، گو یا وہ دودنیائوں میں رہتے تھے۔ حیدر قریشی کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے، یہ ذکر یوں ہوا کہ حیدر قریشی بھی دو دنیائوں کا مسافر ہے، ایک اس کا باطنی مکاشفہ اور دوسرے ارد گرد کی دنیا کا عملی تجربہ ۔ چنانچہ اس کی کہانی دو سطحو ںپر اپنی تفہیم کراتی ہے، اس کا خمیراپنے عہد کی سماجی وسیاسی صورتِ حال سے اٹھتا ہے اورفکری طور پر وہ ایک اَن دیکھی دنیا کے اسرار بھی رکھتی ہے کہ قاری جس سطح پر چاہے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
حیدر قریشی نے متعدد بار کہا ہے کہ میں خوابوں اور حقیقتوں کے درمیان زندگی بسر کر رہا ہوں، پرانی اصطلاحوں میں وہ بیک وقت حقیقت اور آدرش کے درمیان کہیں جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک حوالہ سے یہ مسلسل عذاب اور سلگتے رہنے کی صورت بھی ہے کہ حقیقت اور آدرش دو مختلف منطقے ہیں۔ صرف حقیقت کو سب کچھ سمجھ لینے والا خوابوں سے محروم ہو جاتا ہے اور ہمیشہ خوابوں میں رہنے والا حقیقت سے دور ہو جاتا ہے۔ سچا ادیب ان دونوںکے درمیان درمیان ہو تا ہے۔ حیدر قریشی کی کہانیاں اپنے عہد کی سچائیاں ہیں لیکن ان کی اندرونی پرتوں میں خوابو ں کی لذت بھی موجود ہے ، جو ہر بڑے ادیب کا خاصہ ہوتی ہے۔
حقیقت اور خوابوں کے درمیان جو کشمکش ہے وہی زندگی ہے، اس حوالے سے حیدر قریشی کے تخلیقی عمل کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی ہر کہانی میں دو سطحوں پر موجود ہیں ، اول معاشرے کے ایک نقاد اور دوسرے معاشرے کی موجود صورتِ حال سے اوپر اٹھ کر تخلیقِ انسان کے بنیادی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے ایک صوفی کی حیثیت سے ، اس کا اظہار بھی دونوں طرح ہوا ہے۔ ان کی بعض کہانیاں سیدھے سادے معاشرتی مسائل سے متعلق ہیں اور ان کا بیانیہ بھی تفہیم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتا ، لیکن ان کی بعض کہانیوں کے موضوع گنجلک اور باطنی کشف کی روداد ہیں۔ایسی کہانیوں کے بیانیہ میں انہوں نے اسطور کے ساتھ ساتھ مذہبی کتابوں خصوصاً بائبل کے اسلوب کی پیروی کی ہے۔ بشارت ان کے یہاں ایک خاص استعارہ بھی ہے اور سچائی کی راہنمائی کرنے والی ایک علامت بھی۔
فرحت نواز نے اپنی ایک گفتگو میں کہا ہے کہ’’ حیدر قریشی اپنی تمام تخلیقات میں خود سانس لیتے ہوئے اور زندگی بسر کرتے ہوئے موجود ہیں۔ خود اس طرح کہ ان کی اپنی زندگی کے ساتھ ان سے وابستہ تمام اہم کردار بھی ان کی تخلیقات میں موجود ہیں، بعض کھلی کتاب کی طرح ہیںلیکن ایسی کھلی کتاب جس کے معانی مسلسل کھلتے چلے جاتے ہیں۔‘‘ یہ رائے حیدر قریشی کی حقیقت نگاری کے رویے کی تائید کرتی ہے۔ ہر لکھنے والا سب سے پہلے ایک ماحول اور ایک معاشرے میں زندہ ہوتاہے۔اس کی محبتیں ،دشمنیاں اور نفرتیں اس کے لائحہ عمل کا تعین کرتی ہیںاور بعض کرداروں کو محبت اور بعض کو نفرت کا استعارہ بناتی ہیں۔ قریب کے جاننے والے بعض اوقات ان میں سے اصل چہر ے بھی ڈھونڈھ لیتے ہیں لیکن دوربیٹھا قاری سارے نتائج کو اپنے آس پاس کے ماحول پر منطبق کر کے دیکھتا ہے یہ آفاقی سچائیوں کے زمرے میں آتا ہے کہ کسی کہانی کار کے کردار ان کے عمل اور افکار کس حد تک دوسروں کے لیے قابل قبول ہوتے ہیںلیکن یہ صرف کہانی کی اوپری پرت ہے۔ ہر کہانی کے اندر ایک اور کہانی ہوتی ہے اور جو افسانہ نگارکہانی کی ظاہری سطح کے اند رایک اور کہانی پیدا کر دینے کا فن جانتا ہے وہ بڑا افسانہ نگار ہے، حیدر قریشی کی اکثر کہانیوں میں یہ خوبی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرحت نوا ز نے اگر ایک طرف حیدر قریشی کی کہانیوں کی حقیقی صورت حال کا ذکر کیا ہے تو ڈاکٹر سعاد ت سعید کے نزدیک ’’حیدر قریشی نے دور جدید کے سائنسی اور تکنیکی انقلاب اور تہذیب نو کی کنہ کی تنقیدی تفہیم کی ہے۔‘‘
سچا ادیب آگہی کی جس اذیت سے گزرتاہے اس کا اظہارحلاج کی طرح ہو جائے تو موت کا پھندا ہر وقت منتظر ہے اور اظہار نہ ہو تو سچائی کا کرب اندر ہی اندر کاٹتا رہتا ہے، توڑتا رہتا ہے۔ اس اندرونی توڑ پھوڑ کا اظہارکس سطح پر ہو یہی ادیب کے مقام کا تعین کرتا ہے، خود حیدر قریشی کو بھی اس کا احساس ہے ڈاکٹر وزیر آغا سے ایک گفتگو میں انہوں نے کہا’’ لکیر کے فقیر معاشرہ میں آزادانہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے ایک طرف آگہی کی اذیت ہوتی ہے اور دوسری طرف معاشرے کی ملامت۔۔‘‘۔۔ اور یہ تو بالکل سچ ہے کہ آگہی کی اذیت ہی سے گزر کر بڑا ادب تخلیق ہوتاہے۔ اب اس حوالے سے حید ر قریشی کی کہانیوں کو دیکھ لیں تو صورتِ حال واضح ہو جاتی ہے ۔ ان کی کہانیاں بظاہر سیدھی سادی ہوں یا کسی فکری مکاشفہ کی دریافت ان میں آگہی کا کرب پوری طرح موجود ہے ،یہی ایک سچے فنکار کی پہچان اور جواز ہے۔
ہر فنکا رکے ذاتی کوائف کسی نہ کسی حوالے سے اس کے فن پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کی فکر کا تعین بھی کرتے ہیں۔ کسی ایک ملک میں رہتے ہوئے ہر ادیب ایک عذاب سے گزر رہا ہوتا ہے کہ اس کے آس پاس جو بے انصافی ہو رہی ہے اس کے مداوے کے لیے وہ کیا کرے۔ وہ اپنے آپ سے بھی لڑتا ہے اور معاشرے کی مجموعی خرابیوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے۔ ٹوٹتا ہے، جڑتا ہے اور اپنا اظہار کرتا رہتا ہے لیکن حیدر قریشی کو دوہرے عذاب سے گزرنا پڑا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں اسے وطن چھوڑنا پڑا اس کے بارے میں جو از جعفری کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’آپ نے بخوشی وطن چھوڑا یا جلا وطن کیے گئے‘‘ حیدر قریشی نے کہا ’’جلا وطن تو نہیں کیے گئے لیکن وطن کو بخوشی نہیں چھوڑا۔‘‘وہ بڑی فراخ دلی سے اپنی جلا وطنی کو ’’خود ساختہ ‘‘کہتے ہیں۔ یہاں اس جلا وطنی کا تجزیہ کرنے کی گنجائش نہیںلیکن اس دوہری اذیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جس سے حیدر قریشی گزرے ہیں، شاید ابھی تک گزر رہے ہیں ۔۔۔پاکستان چھوڑنے سے پہلے ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’روشنی کی بشارت‘‘ شائع ہو چکا تھا۔ اس مجموعہ کے ایک افسانہ پر وہ صورتِ حال پیدا ہوئی جس کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ صورت حال تو کئی برس سے موجود تھی اس حد تک کہ حیدر قریشی کو روز گار سے محروم ہونا پڑالیکن یہ ایک افسانہ جواز بن گیا۔
’’روشنی کی بشارت‘‘ ایک استعاراتی نام ہے۔ اس مجموعے کی کہانیاں دونوں سطحو ں پر معنوی پرتیں کھولتی ہیں۔ سیدھی سی کہانیاں بھی عام معنوں ہیں اکہری نہیں۔ سادہ معنویت میں بھی ان کا جواز موجود ہے۔اس مجموعہ کی جو کہانیاں فکری دبازت کا پہلو لیے ہوئے ہیں ان کا اسلوب بھی نیم استعاراتی ،استعاراتی اور کہیں علامتی ہے۔ ان میں اساطیری اسلوب کی جھلک بھی ہے اور کتاب مقدس کے بعض استعارے بھی اپنے عصر سے جوڑے گئے ہیں۔ جدید افسانے میں اس مجموعہ کی اہمیت ہے اور جدید افسانے کے ذکر میں اسی کا حوالہ ہمیشہ موجود ہوتاہے۔ ناصر عباس نیّر نے ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے کہا ہے کہ ستر کی دہائی والی نسل نے اوّلاً جدید یت کے اثرات قبول کیے اور بعد ازاں اس جدیدیت کا محاسبہ کیا۔ محاسبہ کرنے والوں میں حیدر قریشی بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جب کوئی تحریک یا رجحان فیشن کی طرح مقبول ہوتا ہے تو اصل اور نقل کا فرق مشکل ہو جاتا ہے۔ ہربڑی تحریک کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں کتنے ہی لوگ صرف نقادوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ترقی پسند بن بیٹھے تھے یہی کچھ ساٹھ کے بعد بھی ہوالیکن ستر میں محاسبہ کرنے والے ستّر کے بعد کے لوگ ہی نہیں خود ساٹھ کی دہائی کے اچھے لکھنے والے بھی اپنا محاسبہ کر رہے تھے، پھر یہ کہ خارجی منظر نامہ میں ایک بڑی تبدیلی آئی تھی۔ موضوعات کے حوالے سے اور وہ کہانی جو ترقی پسند تحریک کے زمانے میں بالکل خارجی اور ساٹھ کی دہائی میں رد عمل کے طور پر باطنی ہو گئی تھی، ستّر میں مجموعی طور پر خارج اور باطن کے امتزاج کی صورت ظاہر ہوئی اور صرف ستّر کے بعد کے لکھنے والوں کی سوچ نہیں تھی ،خود ساٹھ کے لکھنے والے جواب مستحکم ہو گئے تھے اور عجز فن کی منزل سے بھی نکل آئے تھے، اس تبدیلی کے محر ک تھے۔ انتظار حسین ، انور سجاد، خالد حسین اور منشا دیاد کی ساٹھ اور ستّر کی کہانیوں میں یہ تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے، اس لیے یہ دعویٰ کہ یہ تبدیلیاں ستّر کی نسل کی دین ہیں، درست نہیں، انہیں کسی ایک نسل کی بجائے مجموعی اور عصری ارتقاء کے حوالے سے دیکھا جانا چاہیے۔
حیدر قریشی کا پہلا افسانوی مجموعہ ۱۹۹۲ء میںچھپ گیا تھا۔اس مجموعے کی کہانیاں’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘،’’ روشنی کی بشارت‘‘ ،’’حوا کی تلاش‘‘ ، ’’اپنی تجرید کے کشف کا عذاب‘‘ اور ’’ایک کا فر کہانی‘‘ اپنے عنوانات ہی سے اپنی فکری سمت کا تعین کرتی ہیں، ان کہانیوں میں تصوف کی وراثت کہانی کے باطن میں موجود ہے۔ اسلوب کے حوالے سے بھی یہ کہانیاں دبیز اسلوب کی ذیل میں آتی ہیں ۔ جب یہ مجموعہ چھپا تھا اس وقت بھی اسے جدید اور اردو افسانہ میں شامل کیا گیا تھا۔
حیدر قریشی کا دوسرا مجموعہ ’’قصہ کہانیاں‘‘(پہلے مجموعے کی کہانیوں سمیت’’افسانے ‘‘کے نام سے) ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ ہر جینوئن ادیب کا دوسرا مجموعہ پہلے مجموعے سے اگلا قدم ہوتاہے ، سوچ کے حوالے سے بھی اور اسلوب کے حوالے سے بھی لیکن ان میں ایک باطنی تسلسل بھی ہوتا ہے جو ادیب کی بنیادی پہچان ہے۔ حیدر قریشی کے دوسرے مجموعہ میں بھی کئی کہانیاں ان کے پہلے مجموعہ کے فکری تسلسل اورا یک قدم آگے کے سفر کی روداد ہیں، مثلاً ’’دو کہانیوں کی ایک کہانی‘‘ میں ’’منطق الطیر‘‘ بھی موجود ہے اور شاہ جی کے روپ میں ایک صوفی بھی جو قدم قدم اپنے مرید کی فکری راہنمائی کرتا ہے۔
حیدر قریشی کو فکری طورپر میں ایک جدید ترقی پسند افسانہ نگار سمجھتا ہوں کیونکہ ان کے افسانے سماجی زندگی کے خمیر سے تیا رہوتے ہیں اور معاشرے کے دکھ اور مظلوم کی بے بسی ان میں موجود ہے اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے موضوعات ترقی پسند ہیںاور معاشرے کو بدلنے کا آدرش رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی کہانیوں کو سیدھے بیانیہ میں پیش نہیںکیا بلکہ تخلیقی تجربے سے گزر کر ان کے لیے اظہار کی ایسی زبان وضع کی ہے جس میں استعارہ اور علامت دونوں موجود ہیں بلکہ اکثر انہوں نے تصوف کی اصطلاحات اور اساطیری حوالوں سے بھی کام لیا ہے جو انہیں جدید بناتے ہیں۔حلقہ اربابِ ذوق نے موضوع کے ساتھ ساتھ فن پارے کی ادبی حیثیت کو بھی ضروری قرار دیا تھا۔ سات اور بعد کی ادبی نسلوں کی تربیت زیادہ تر حلقہ ہی میں ہوئی ہے۔ حیدر قریشی بھی فکری طور پر حلقہ ہی کے پروردہ ہیں اس لیے ان کے افسانوں میںموضوع کی وسعت کے ساتھ ساتھ فنی حوالے بھی موجود ہیں اور وہ فنی جمالیات کے پوری طرح قائل ہیں۔
حیدر قریشی شاعر بھی ہیں، شاید افسانے کی طرف وہ بعد میں آئے ہیں۔ شاعر ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کا جملہ شعری خوبیوں یعنی لفظوں کے دروبست ، اختصار، معنوی د بازت اور تخلیقی جمالیات سے آراستہ ہے۔ادھر کچھ عرصہ سے انہوں نے باقاعدہ تنقید بھی لکھی اور یادداشتوں کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی موضوعات کو بھی اپنا یا ہے، یہ ان کی ہم جہتی کا اظہار ہے لیکن میرے نزدیک ان کی دوحیثیتیں زیادہ نمایاں ہیں، ایک شاعر اور دوسرے افسانہ نگار ، یہ دونوں تخلیقی حیثیتیں ہیں اور غیر محسوس طور پر ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ حیدر قریشی کے افسانوں کا اختصار ، جملہ کی گرفت، ہر جملے کا دوسرے جملے سے ایسے جڑا ہونا جیسے زنجیر کی کڑیاں ہوں،مترنم لفظوں کا انتخاب اور کہانی کی مجموعی بُنت میں ماورائی تخلیقی ذہن ، ان کی شاعر ذات کی دین ہے۔
حیدر قریشی کے دونوں افسانوی مجموعے ان کے فنکارانہ سفر کے دو مرحلے ہیں ان میں ایک فنی اور فکری ارتقاء ہے جو ان کی اگلی منزل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کے مجموعی سفر میں بھی یہ دونوں مجموعے اپنی اہمیت اور پہچان رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭