ہوا سفاک لہروں کی طرح
یخ بستہ تیروں سے مسلسل حملہ آور ہے
کبھی تیروں کی اک بوچھار سی
جب بند دروازے پہ پڑتی ہے تو بچے
ایک لحظے کے لئے خوف اور حیرت سے
ہمارے منہ کو تکتے ہیں
اور اپنے آپ ہی پھر کھلکھلا کر ہنس بھی پڑتے ہیں
اگر اس وقت پھاگن کی ہوا سفاّک نہ ہوتی
تو میں اس بند کمرے میں
حَسیں بچپن کے ایسے جگمگاتے
اور سہانے دن کہاں پاتا
جہاں گردی کے چکر میں
ہمیشہ کی طرح کھویا ہوا ہوتا
یہ پھاگن کی ہوا سفاک بھی ہے مہرباں بھی ہے!