(صلاح الدین پرویز کی ایک نظم پڑھ کر)
صلاح الدین!
میری اور تمہاری دکھ کہانی ایک جیسی ہے
تمہاری دکھ کہانی کے سبھی کردار
میری داستاں میں صرف اپنے نام کی
تبدیلیوں کے ساتھ آتے ہیں
وہی سفّاک اور بے رحم،
نفرت کے پجاری
زندگی میں زہر سا گھولے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔
دھرتی کو بدل لوں،
سوچ کے انداز کو،ایمان کو اور
زندگی کے گیان کو بھی چھوڑ دوں
تب بھی یہ ظالم لوگ
سُکھ کا سانس لینے ہی نہیں دیتے
خدا جانے یہ مجھ سے کس لئے خائف ہیں؟
کیوں مجھ کو ڈراتے ہیں؟
صلاح الدین !
ان سفّاک کرداروں کی سفّاکی سے
اتنا جان پایا ہوں
کہ میں جیسے منو کے دور کا شودر ہوں
اپنے ہر جنم، ہر دَور میں،ہر حملہ آور کا نشانہ ہوں
صلاح الدین ،
میری اور تمہاری دکھ کہانی ایک جیسی ہے
تو پھر اس دکھ کا رونا کیوں تمہارے سامنے روؤں
چلو اس دکھ کہانی کے ملن کی اس خوشی میں
میری جانب سے مبارک باد اور پُرسہ !