وہی موسم، وہی رستے،
وہی شام و سحر،یکسانیت،بے کیف سے لمحے
گنہ کی رغبتیں،اشکِ ندامت
نیکیوں کی لذتیں
اسرار جتنی ہو چکے ہیں منکشف،
اپنا تحیر کھو چکے ہیں
اب مسرّت غم زدہ ہے
اور حیرت کی چمک بجھنے لگی ہے،
جستجو سونے لگی ہے
بدن سے روح تک کے کتنے ہی اسرار تھے
جو کھل چکے کب کے
کسی تپتے ہوئے صحرا کی گرمی پی گئے درےا
عجب سیرابیاں تھیں ،پیاس کی لذت ہی کھو بیٹھے
نہ اب کوئی غزل یا ماہیا کہنے کی
اندر سے کوئی تحریک ہوتی ہے
نہ سردی اور گرمی میں کوئی تفریق ہوتی ہے
چلو ٹھہرے ہوئے ان موسموں میں
کوئی تبدیلی سی لاتے ہیں
تحیر کی نئی دنیاؤں کی سوئی ہوئی سی
جستجو بیدار کرتے ہیں،مسّرت کو ہنساتے ہیں
چلو اس بلب کا سوئچ آف کر کے
موم بتی کو جلاتے ہیں
قلم کاغذ اٹھاتے ہیں
کئی برسوں کی اس یکسانیت کی گرد کو
سر سے جھٹکتے ہیں
ذرا رستہ بدلتے ہیں
چلو اک نظم لکھتے ہیں!