وہ شہد اور زہر میں گوندھے ہوئے
سوئے ہوئے سارے زمانے جاگ اٹھے ہیں
ہماری داستاں تو داستاں در داستاں کا سلسلہ سا ہے
مگر اس بار لگتا ہے کہانی ہی نرالی ہے
نہ اب وہ آریاؤں کے ہلاکت خیز حملے ہیں
نہ دشتِ قیس ہے ،نَے خسرو پرویز کے حیلے
نہ اب تھل کا سفر درپیش، نَے تختِ ہزارہ ہے
نہ اب گجرات کی جانب رواں جانِ بخارا ہے
فقط میں ہوں!
فقط میں ہوں اکیلا۔ تنہا اپنے آپ سے بچھڑا ہوا
پھر بھی تمہاری سادگی کے حُسن میں
یکجا ہوئے جاتے ہیں
لیلیٰ ، شیریں، سسی،ہیر اور سوہنی کے سب جلوے
تمہاری آریائی روح جیسے سرزمینِ دل پہ
پیہم حملہ آور ہے
مگر یہ کیسے حملے ہیں
مسیحائی کی بھی تاثیر رکھتے ہیں
یہیں تک ہوتا گر قصہ تو پھر بھی دل کے بچنے کی
کوئی تدبیر ممکن تھی
مگر اب کے ستم یہ ہے
کہ میں اردو کا اک ٹوٹا ہوا شاعر بھی ہوں جاناں!
جو المانی زمیں تک جانے کیسے آن پہنچا ہوں
جو تم تک آن پہنچا ہوں!