اَسیرِ انا سے کوئی بھی
توقع عبث ہے
وہ صرف اپنی جھوٹی اَنا،
خود پسندی کا قائل
مگر میں کہ اپنی اَنا کا بھی منکر
مِرے عشق میں جسم سے رُوح تک جذب ہو کر
فنا میں بقا کی حقیقت کے مفہوم و معنی نہاں
خوشبوئیں
جذب ہوکے ہواؤں میں
اپنا سبھی کچھ
ہواؤں کو جب سونپ دیتی ہیں
پھیلی ہوئی وسعتوں میں
مہکتی فضاؤں کی صورت
’’نہ ہونے‘‘ میں ’’ہونے‘‘ کا عرفان کرتی ہیں
لیکن جو ا پنی سبھی خوشبوئیں
اپنے اندر سمیٹے
خود اپنی ہی خوشبو میں سرشار ہے
جانتا ہی نہیں ہے
کہ خوشبو جو اندر ہی سمٹی رہے
تو پھر آخر وہ گہرے تعفّن میں ڈھل کر
دلوں کی معطر فضائیں بھی مسموم کرتی ہے
اب اس اسیرِ انا کو جب اس کی خبر بھی نہیں ہے
تو پھر اس سے حیدر
کوئی بھی توقع عبث ہے!