مِری آنکھوں کی برساتیں
جو شب بھر تِیرگی سے بجلی کے کوندوں
کے ملنے اور بچھڑنے کا تسلسل دیکھ کر
اپنے سبھی دکھ بھول بیٹھی تھیں
تری مہکی ہوئی زلفوں کو
اور ہنستے ہوئے ہونٹوں کو اس کی کیا خبر ہوگی
خزاں کی آخری ہچکی
بہار آ نے کی پہلی چاپ سے ملنے لگی
تو میری آنکھوں کی گھٹاؤں نے گواہی دی
مگر جب صبح دم سورج نے اپنی نرم کرنوں سے
دھنک کے رنگ بکھرائے
تو آنکھوں پر کھُلا جانم
خزاں کی آخری ہچکی
بہار آنے کی پہلی چاپ سے جب تک نہیں ملتی
خزاں جاہی نہیں سکتی، بہار آ ہی نہیں سکتی
میں اپنی آخری ہچکی پہ ہوں
اب جلد آ جاؤ!