زین سیدھا ہاسپٹل آیا تھا حمدان صاحب اور امجد صاحب اسے سامنے ہی ایمرجنسی کے باہر ہی کھڑے تھے زین بھاگ کر ان کی طرف آیا تھا آج تین مہینے بعد وہ اپنے باپ کو دیکھ کر وہ آبدیدہ ہو گیا تھا
بھاگ کر حمدان صاحب کے گلے لگا تھا حمدان صاحب کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے
یہ بھی سچ تھا کہ انہوں نے اس کی حمایت نہیں کی تھی پر وہ اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی بی جان کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے سکے تھے
امجد صاحب بھی بہت محبت سے زین سے ملے تھے بابا اب بی جان کی طبیعت کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہیں نہ ۔۔۔۔
زین نے فکرمندی سے پوچھا تھا
اب وہ ٹھیک ہیں بس زیادہ ٹینشن لینے کی وجہ سے ان کی حالت بگڑ گئی تھی ان کو تھوڑی دیر میں ڈسچارج کر دیں گے وہ اندر ہیں تم ان سے جا کر مل لو ۔۔۔حمدان صاحب نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا
وہ سر کو جنبش دیتا اندر کی طرف بڑھا تھا
بی جان سامنے والے بیڈ پر بیڈ کے سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھیں تھیں ان کی آنکھیں بند تھیں ان کے ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی ان چند گھنٹوں میں وہ سالوں کی بیمار لگنے لگی تھیں
بی جان ۔۔۔زین نے ان کے قریب جا کر ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ نرمی سے رکھتے ہوئے کہا تھا
بی جان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا بی جان کی آنکھوں سے کئی آنسو ٹوٹ کر گرے تھے
زین نے اپنی ہتھیلیوں سے ان کے آنسو صاف کیے تھے
بی جان نے اسے پاس پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا
پھر وہ اس سے مخاطب ہوئی تھیں
زین ہمیں معاف کر دو ہم نے اپنی انا میں تمہیں خود سے دور کیا اور پھر اسی انا کے ہاتھوں اپنی جان سے پیاری پوتی کی زندگی کو جہنم بنانے چلی تھی تم نے آج ہماری آنکھیں کھول دی
تم سچ کہتے ہو انسان چاہے زندگی کے جس شعبے میں بھی کام کرے یہ اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اس میں اپنے لیے اچھا کام چنے یا برا۔۔۔۔
آج ہمیں تم پر فخر ہے کہ تم ایک لڑکی کو انصاف دلانے کے لیے آخری حد تک گئے اب ہم تمہیں اپنے آپ سے اور تمہارے ماں باپ سے اور دور نہیں رکھ سکتے تم بس آج ہی واپس آ جاؤ آج اسی مقررہ وقت پر تمہارا اور حلیمہ کا نکاح ہو گا جس وقت پہلے حلیمہ کا نکاح طے ہونا قرار پایا تھا بس اب ہم تمہاری اور کوئی بات نہیں سنیں گے
بی جان نے بات کے اختتام پر لہجے کو روب دار بناتے ہوئے کہا تھا
زین نے حیرت سے بی جان کو دیکھا تھا اور ان کے لہجے پر مسکرا دیا تھا
اور بی جان بھی جواباً مسکرا دیں تھیں
________________________________________
بی جان کو کچھ دیر بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا حلیمہ اور آئمہ بی جان کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر ان کی طرف دوڑی تھیں اور ان کے گلے لگ کر رونے لگی تھیں
ہائے ہائے لڑکیوں پاگل ہوئی ہو کیا گھر میں خوشی کا موقع ہے اور تم رونا دھونا ڈال رہی ہو
بی جان ان کے رونے سے اکتائی تھیں
ان دونوں نے ان سے الگ ہوتی ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا تھا
بی جان یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔۔۔آئمہ نے ان سے پوچھا تھا
آج ہی زین اور حلیمہ کا نکاح ہو گا اور یہ ہمارا فیصلہ ہے
بی جان پھر سے اپنے پرانے انداز میں بولی تھیں اور حلیمہ بس حیرت سے انہیں دیکھے جارہی تھی
آئے ہائے پاگل ہوئی ہو کیا جو ندیدوں کی طرح دیکھے چلی جا رہی ہو جاؤ جا کر اپنے کمرے میں بیٹھو اور آئمہ تم جاؤ اس کے ساتھ اور اس کو سہی سے تیار کرو
بی جان ۔۔۔۔۔آئمہ نے کچھ کہنا چاہا تھا
بس اب کوئی سوال نہیں دیر ہو رہی ہے جلدی جاؤ اور پھر زین کا کمرہ سیٹ کرواؤ
جی بی جان ۔۔آئمہ نے تعبداری سے کہا تھا اور حلیمہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے کی طرف دھکیلا تھا جو اب تک حیرت سے بی جان کو تکے جا رہی تھی
________________________________________
نکاح بخیرو عافیت سے انجام پایا تھا نکاح کے بعد چھوٹی موٹی رسمیں سادگی سے کر کے حلیمہ کو زین کے کمرے میں لے جایا گیا تھا
حلیمہ اس وقت زین کے بیڈ پر بیٹھی کمرے کی سجاوٹ کا معائنہ کر رہی تھی جسے آئمہ نے انتہائی کم وقت میں بیت خوبصورت سجایا تھا تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی اور حلیمہ نے فٹافٹ اپنا گھونگٹ منہ پہ کیا تھا
زین اس کی اس حرکت پر مسکرا دیا تھا
زین قدم اٹھاتا حلیمہ کے پاس بیڈ پر آکر بیٹھ گیا تھا اور دھیمے سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا جسے حلیمہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی گرفت سے چھڑوایا تھا
زین نے اپنی مسکراہٹ کو چھپانے کی کوشش کی تھی وہ اس کو منانے کے لیے پہلے سے ہی تیار ہو کر آیا تھا
زین نے اس کا گھونگھٹ اٹھایا تھا اور مبہوت سا اس کو دیکھتا رہ گیا تھا
ریڈ کلر کے لہنگے میں اس کا حسن اور دلکش لگ رہا تھا کلائی چوڑیوں سے بھری ہوئی تھی اور ہاتھ مہندی ست سجے تھے
حلیمہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا وہ تین ماہ بعد اسے دیکھ رہی تھی جسے وہ اپنی نظروں سے ایک لمحے کو بھی دور نہیں کرنا چاہتی تھی اس کی آنکھوں میں نمی ابھری تھی اور اس کی آنکھوں میں پنپتے جذبات سے نظریں چراتے ہوئے نظروں کا رخ موڑا تھا
تبھی زین نے اس کے منہ کا رخ اپنی طرف موڑا تھا
حلیمہ کی آنکھ سےآنسو نکلا تھا
زین نے انتہائی نرمی سے اس کے آنسو کو اپنے ہاتھ کی پشت سے صاف کہا تھا
مانا کہ تم ناراض ہو پر اس طرح سے تو تکلیف نہ دو تمہیں مجھ پر ترس نہیں آتا
زین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بے بسے سے کہا تھا
حلیمہ نے ایک بار پھر اس کا ہاتھ جھٹکا تھا
تمہیں مجھ پر ترس نہیں آیا تو میں تم پر کیوں ترس کھاؤں تم بھی تو مجھے بغیر واپس آنے کی امید دلائے بغیر کچھ کہے چھوڑ گئے تھے
حلیمہ نے لہجے میں ناراضگی سموئے کہا تھا
زین نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ محبت سے تھام لیا تھا
اگر میں کہوں کہ اس وقت میں بہت مجبور تھا گھر سے جانا میری مجبوری تھی پر تم شاید سمجھ بیٹھی کہ تمہاری زندگی سے چلا گیا ہوں تو میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا مس حلیمہ زین شاہ زین شاہ اپنے آپ سے تو غافل ہو سکتا ہے پر تمہاری ذات سے نہیں اور زین شاہ مرتے دم تک تمہں کبھی نہیں چھوڑے گا اور یہ زین شاہ کا وعدہ ہے اور مجھے وعدے نبھانے آتے ہیں ۔۔۔تو کیا تم اب بھی مجھے معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہانی
اور حلیمہ زین شاہ کی اس بات پر اس کے گلے لگ گئی تھی اور زین شاہ نے بھی اس کے گرد مظبوط حصار باندھ لیا تھا آج ان کے عشق کی تکمیل ہو گئی تھی
________________________________________
سمرین نے جاب کر لی تھی اس نے حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا تبھی شایان کا پرپوزل آیا تھا جو اس کے گھر والوں کیلئے بہت بڑی بخوشخبری تھی پر سمرین کسی طور اس رشتے کیلئے راضی نہ تھی تبھی شایان نے اس سے ایک بار ملنے کی خواہش کی تھی جس پر سمرین گھر والوں اور زین کے ہزار بار منانے کے بعد راضی ہوئی تھی
اس وقت شایان کیفے میں بیٹھا سمرین کا انتظار کر رہا تھا تبھی سامنے سے سمرین آتی دکھائی دی تھی
شایان نے ایک گہری سانس بھری تھی
سمرین جھجھکتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی اور سلام کیا تھا
شایان نے جواب دیتے ہوئے اسے اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا
شایان نے گلا کھنکھارتے ہوئے بات کا آغاز کیا تھا
تو مس سمرین کیا آپ بتانا پسند کریں گی کہ آپ بار بار انکار کر کے میرے جذبات کو کیوں روند رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔
آپ کون سے جذبات کی بات کر رہے ہیں وہ جذبات جو صرف میری حالت پر ترس کھا کر ابھر آئے ہیں آپ صرف یہ رشتہ مجھ سے ہمدردی میں کر رہے ہیں میں آپ کے قابل نہیں ہوں
کہتے ہوئے سمرین کا لہجا بھیگا تھا
اچھا تو میں آپ پر ترس کیوں کھاؤں گا آپ لنگڑی ہیں گونگی ہیں یا بہری ہیں جو میں آپ سے صرف ترس کھا کر شادی کرنے کی خواہش کروں گا سمرین آپ کی سوچ انتہائی غلط ہے آپ نے مجھے بہت ہرٹ کیا ہے میرے جذبات کو نفی میں کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔میں ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں جو باحیا ہو جو باوقار ہو آپ کے ساتھ جو بھی ہوا مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا اب میں آپ کا انکار نہیں سنوں گا بس اب آپ گھر جاتے ہی اس رشتے کیلئے ہاں کر دیں گی آپ کے انکار کی وجہ بلکل بھی ٹھوس نہیں ہے میں اس فضول وجہ کی بنیاد پر آپ کو نہیں کھو سکتا دیٹس اٹ ۔۔۔۔
شایان نے تحکم بھرے انداز میں کہا تھا ویٹر کو آواز دے کر آرڈر دینے لگا تھا
اور سمرین اس شخص کو دیکھے گئی تھی جو اس کیلئے کسی فرشتے سے کم نہیں تھا وہ اس کیلئے اللّه کی طرف سے انعام تھا اور وہ اس سے انکار کر کے اس انعام سے محروم نہیں رہنا چاہتی تھی
________________________________________