آئمہ جب سے حلیمہ کو روتا چھوڑ کر آئی تھی تب سے مسلسل کمرے کے چکر کاٹے جا رہی تھی
کیا مجھے بھائی کو کال کرنی چاہیے یا نہیں اگر بی جان کو پتا لگ گیا تو کیا ہو گا
وہ مسلسل اسی بات پر غور وفکر کر رہی تھی بی جان کا خوف اسے کوئی فیصلہ نہیں کرنے دے رہا تھا
پر میں حلیمہ کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی میں کبھی بھی اس کی شادی زمان شاہ جیسے درندے سے نہیں ہونے دوں گی مجھے ہمت کرنا ہو گی
آئمہ نے آخر کار فیصلہ کر ہی لیا تھا بس اسے رات ہونے کا انتظار تھا جب سب لوگ سو جاتے
آدھی رات کو جس وقت گھر کے سب افراد سو چکے تھے گھر میں مکمل سناٹا تھا تب آئمہ دبے پاؤں کمرے سے نکلی تھی اور انتہائی احتیاط سے ادھراُدھر نظریں دوڑاتی سیڑھیاں اترنے لگی اور محتات قدم اٹھاتی لاؤنج میں رکھے لینڈلائن کی طرف بڑھی اور زین کا نمبر ڈائل کرنے لگی دل کی دھڑکن معمول سے تیز ہو گئی تھی
بیل جا رہی تھی اور آئمہ کا خوف بڑھتا جا رہا تھا اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئی تھیں
تیسری بیل پر کال اٹیٹنڈ کر لی گئی تھی
ہیلو
دوسری طرف سے زین کی نیند میں ڈوبی آواز گونجی تھی
ہیلو بھائی۔۔۔۔۔۔
زین کی آواز سنتے ہی اس کی آنکھوں میں نمی اتری تھی آج وہ تین مہینے بعد اپنے بھائی کی آواز سن رہی تھی
آئمہ کیسی ہو میری گڑیا گھر میں سب ٹھیک تو ہیں نہ ماما بابا حلیمہ اور۔ ۔۔۔۔
زین نے ایک ہی باری میں سارے سوال پوچھے تھے پر آئمہ کی سسکی سن کر بیچ میں ہی رک گیا تھا
آئمہ کیا ہوا بتاؤ تو ۔۔۔۔۔۔
زین کی فکرمند آواز ایئر پیس میں سے گونجی تھی
اور پھر بنا سانس لئے آئمہ نے ساری بات زین کے گوش گزار کر دی تھی
اور زین کے چہرے پر پھیکی سے مسکراہٹ ابھری تھی
بڑی جلدی بتا دیا ویسے تم نے ۔۔۔۔یعنی کل ہانی کی شادی ہے اور تم مجھے آج بتا رہی ہو بہت جلدی خیال نہیں آگیا تمہیں اپنے بھائی کا
زین نے اس سے شکوہ کیا تھا
بھائی آپ کو بی جان کا تو پتا ہے نہ وہ ہر کسی پر نظر رکھے ہوئی ہیں کہ کہیں کوئی آپ سے رابطہ نہ کر لے بس اسی لیے
آئمہ نے نم آواز میں وضاحت دی تھی
تم پریشان نہ ہو بے شک میں گھر میں نہیں رہتا پر مجھے وہاں کی ہر ایک بات کا پتہ ہے تم بے فکر رہو حلیمہ صرف میری ہے اور میری ہی رہے گی اب تم بے فکر ہو کر سو جاؤ میں سب سنبھال لوں گا ۔۔
پر بھائی وہ زمان۔۔۔۔
جب تک تمہارا بھائی زندہ ہے تمہیں کسی بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں چلو اب رکھتا ہوں کل انشااللہ ملتے ہیں
اوکے بھائی اللّه حافظ
آئمہ نے مزید اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا کہ وہ کیا کرے گا، کیسے کرے گا اسے بس یقین تھا کہ اگر اس کے بھائی نے کہہ دیا ہے تو وہ ضرور آئے گا فون بند کرتے ہی اس نے احتیاطاً ادھر اُدھر نظر دوڑائی تھی اور تیزی سے بغیر کوئی آواز پیدا کیے اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی
________________________________________
یہ سچ تھا کہ زین کو شروع سے ہی اینکر بننے کا اور میڈیا میں جانے کا شوق تھا پر کبھی اس کے اس شوق نے شدت اختیار نہیں کی تھی پر جب سے یونیورسٹی میں سمرین والا واقع ہوا تھا جس میں زمان اور اس کا دوست دلاور سیٹھ تھا جو کہ بہت ہی گھٹیا آدمی ہونے کے ساتھ نشے کا عادی بھی تھا زمان اور دلاور اس کے یونی فیلو تھے ان دونوں نے مل کر سمرین جیسی نہ جانے کتنی معصوم لڑکیوں کی زندگی برباد کی تھی
تب سے زین نے طے کر لیا تھا کہ وہ ضرور ایسے درندوں کا چہرہ سب کے سامنے لائے گا جو عورت کو صرف اپنی ہوس کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کے بعد ان کو کسی کچرے کی طرح ڈال کر اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے آگے کسی اور کی تلاش میں بڑھ جاتے ہیں اور نہ جانے کتنی لڑکیوں کی عزت پامال کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں اور ہماری عدالتیں ان اثروسوخ والے لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی یہاں تک کہ پولیس بھی رشوت لے کر کیس ہی ختم کر دیتی ہے۔ ۔۔
_________________________________________زین کا لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا ان کے پیپرز ہونے میں کچھ ہی دن باقی تھے جب وہ شایان کے ساتھ بیٹھا اپنے نوٹس بنانے میں مصروف تھا جب سمرین ان کے پاس اپنی شادی لا کارڈ لے کر آئی تھی
سمرین ان کی اچھی کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی گروپ میمبر بھی تھی زین اور کی اس کے ساتھ اچھی بول چال تھی سمرین کا تعلق مڈل کلاس سے تھا وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی زین نے اسے ہمیشہ عبایا میں دیکھا تھا اور وہ اس کی دل سے عزت کرتا تھا
السلام عليكم کیسے ہیں آپ لوگ ؟سمرین نے آتے ساتھ ہی ان پر سلامتی بھیج کر خیریت دریافت کی تھی
وعلیکم السلام ہم بلکل ٹھیک ہیں الحمداللہ تم بتاؤ کیسی ہو ؟
شایان نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے اس کی خیریت معلوم کی تھی
الحمداللہ ٹھیک ہوں آپ لوگوں کو اپنی شادی ک کارڈ دینے آئی تھی پیپرز کے ایک ہفتے بعد میری شادی ہے شایان بھائی اور زین بھائی آپ دونوں ضرور آئیے گا
اوہ مبارک ہو بہت بہت اللّه تمہارے نصیب اچھے کرے۔۔۔ زین نےاسے دعا دی تھی شکریہ بھائی ۔۔۔
کچھ دیر وہ ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے تھے پھر لیکچر لینے کے لیے کلاس کی طرف بڑھ گئے تھے
اس ملاقات کے بعد ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی کیونکہ پیپرز سے چند دن پہلے چھٹیاں ہو گئی تھیں
پھر جب پیپرز شروع ہوئے تو ان کی سلام دعا ہو جاتی تھی لاسٹ پیپر والے دن سب سٹوڈنٹس نے پارٹی ارینج کی تھی کیونکہ انہیں اب سے یونیورسٹی کو الوداع کہنا تھا اور پریکٹکل لائف سٹارٹ کرنی تھی ان کی کلاس نے چھوٹی سی فیئر ویل پارٹی ارینج کی تھی
اس دن زین اور کی کلاس کے علاوہ اور بھی کلاسیس تھیں جن میں زمان شاہ کی کلاس بھی تھی
سب لوگ پیپر سے فارغ ہو کر گراؤنڈ میں جمع ہو گئے تھے پارٹی شام تک جاری رہی تھی زین اور کے گروپ نے خوب انجوائے کیا تھا
دیر ہونے کی وجہ سے سمرین کی شٹل مس ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ پیدل ہی یونی کے گیٹ کے طرف جا رہی تھی تب زین نے اسے گھر تک چھوڑنے کی آفر دی تھی پر اس نے منع کردیا تھا زین بھی چلا گیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ حد سے زیادہ محتاط ہے
اوکے پھر دھیان سے جانا ۔۔۔۔
زین نے اسے تاکید کی تھی
جی بھائی ۔۔۔سمرین نے اس کی طرف مسکراہٹ اچھالی تھی
زین بھی جواباً مسکرایا تھا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا تھا
________________________________________
پیپز ختم ہونے کے بعد آج زین بیٹھا سکون سے ناشتہ کر رہا تھا وہ آخری پیپر دینے کے بعد کافی دیر تک سویا تھا اور صبح کافی دیر سے اٹھا تھا
ناشتے سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں آگیا تھا اور موبائل یوز کرنے لگا تھا تبھی اس کی نظریں ایک نیوز چینل کی ہیڈ لائن پر رکی تھی جس میں اس کی یونیورسٹی کا نام تھا اس نے غیر ارادی طور پر اس پر کلک کیا تھا اور اس کے بعد جو اس نے پڑھا تھا اس نے اس کے ذہن کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا
سامنے سکرین پر سمرین کی زخمی حالت میں لی گئی تصویر تھی اور نیچے لکھا تھا
"کل رات ایک اور لڑکی درندوں کی ہوس کے بھینٹ چڑھ گئی کل رات یہ لڑکی انتہائی زخمی حالت میں مال روڈ پر بیہوش پڑی ملی جسے مقامی لوگوں نے اسپتال پہنچایا گیا رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے"
زین کتنے ہی لمحے ساکت بیٹھا رہ گیا تھا اسے اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل لگ رہا تھا اس نے دل ہی دل میں دعا کہ تھی کہ ایسا نہ ہو اور سمرین کا نمبر ملایا تھا جو کہ پاور آف جا رہا تھا پھر زین کا دو ہفتوں تک اس سے کوئی رابطہ نہ ہو پایا تھا لیکن وہ اپنی کلاس فیلو اور سمرین کی بہترین دوست نگینہ سے مسلسل رابطے میں تھا نگینہ تین بار ان کے گھر جا چکی تھی پر ان کا گھر بند تھا
اور دو ہفتے بعد جب سمرین کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کیا گیا اور وہ گھر آئی تو نگینہ سے اس خبر کی تصدیق ہو گئی تھی اور زین سے رہا نہ گیا تھا وہ شایان کو ساتھ لے کر اس سے ملنے گیا تھا
اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ جس کسی نے اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا کیونکہ اس نے سمرین کو ہمیشہ بہنوں کی طرح ٹریٹ کیا تھا اور وہ اسے بہن ہی سمجھتا تھا
پر وہاں جانے پر اسے جو حقیقت پتا چلی تھی وہ اس کے حواسوں کو مکمل طور پر سلب کر چکی تھی سمرین کا گناہگار کوئی اور نہیں اس کا کزن زمان تھا جس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر یہ سب کیا تھا جو کہ دلاور سیٹھ تھا
_________________________________________یہ سچ تھا کہ اس کی زمان شاہ سے کبھی نہیں بنی تھی وہ دوہی لڑکے تھے اپنے خاندان میں جس کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی کمپیٹیشن رہا تھا زین کو شروع سے ہی زمان سے چڑ تھی اور زین اس بات کو آج تک نہیں سمجھ سکا تھا کہ ایسا کیوں ہے زین اور زمان شاہ کم ہی ملتے اور بات کرتے تھے
زین جانتا تھا کہ زمان کی کمپنی اٹھنا بیٹھنا انتہائی لوفر اور گھٹیا لوگوں میں ہے پر اسے اندازہ نہ تھا کہ زمان اس قدر گرا ہوا ہے
زین اپنے آپ کو سمرین کے سامنے گنہگار سمجھ رہا تھا جو بھی تھا وہ تھا تو اس کا کزن ۔۔۔۔
دلاور سیٹھ ایم این اے کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ہر جائز ناجائز کام کرتا تھا اس سے کوئی پوچھ گوچھ کرنے والا نہ تھا وہ نشے کا عادی تھا اس کے علاوہ وہ مختلف جگہ پر ڈرگ بھی بیچتا تھا پولیس جاننے کے ناوجود کوئی کاروائی نہ کرتی تھی
پر اب زین نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ ان مجرموں کو سزا دلوا کر رہے گا اور ان درندوں کو اتنی آزادی سے نہیں پھرنے دے گا
________________________________________
زین شایان سے بات کر کے فارغ ہوا تھا تبھی اس کے سیل فون پر پروڈیوسر رضا کی کال آئی تھی جن کی مدد سے وہ دلاور سیٹھ اور زمان کا پردہ فاش کرنا چاہتا تھا
السلام عليكم پروڈیوسر صاحب کیسے ہیں آپ ؟
زین نے کال رسیو کرتے ہوئے کہا تھا
وعلیکم السلام میں بلکل ٹھیک ہوں تم سناؤ کہاں تک پہنچا معاملہ ۔۔۔۔۔۔
رضا صاحب نے جواب دے کر سوال پوچھا تھا
سر بس اب سمرین کے گھر والوں کو کسی طرح راضی کرنا ہے باقی سب ہم نے کر لیا ہے دلاور کا ٹھکانہ بھی پتہ لگ گیا ہے بس اب سہی وقت کا انتظار ہے
زین نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا تھا
اوکے پھر جتنا جلدی ہو سکے اس مسئلے کو حل کرو ۔۔۔
جی سر۔ ۔۔۔ انشااللہ بوہت جلد ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے
انشااللہ مجھے اس وقت ک انتظار ہے پھر بات ہو گی تم سے ۔۔۔۔۔
اوکے سر اللّه حافظ
________________________________________
حلیمہ رات سے جب سے زمان شاہ کی کال آئی تھی تب سے انتہائی پریشان تھی اپنی پریشانی تو کہیں بہت پیچھے چلی گئی تھی اور اب صرف اور صرف اسے زین کی جان کی فکر تھی کہیں اس کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے بے شک وپ اسے بغیر بتائے چلا گیا تھا بغیر کوئی وضاحت دیے زین نے اسے جاتے وقت کوئی امید بھی نہ تھمائی تھی پر اسے یقین تھا بھروسا تھا اس پر چاہے کچھ بھی ہو جائے زین اسے اس طرح چھوڑ کر نہیں جا سکتا ضرور کوئی وجہ ہے پر اسے یہ افسوس بھی تھا کہ زین نے اسے کچھ نہیں بتایا وہ اتنا زدی اور بے حس تو کبھی نہیں تھا کہ صرف اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلیے سب کو چھوڑ جاتا اتنا انتہائی قدم اٹھاتا
صبح ہوگئی تھی پر اس کے اندر گھپ اندھیرا تھا آج اس کی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا پر اس کے مطابق آج اس کی بربادی کا دن تھا
رئیسہ بیگم اس کے کمرے میں اسے ناشتہ دینے آئیں تھیںاور اس کی ویران اور سوجی سوجی آنکھیں دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو رویا تھا انہوں نے ٹیبل سائڈ پر رکھی تھی اور اسے گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں
انہوں نے ہمیشہ اسے اپنی بہو کے روپ میں دیکھا تھا حلیمہ انہیں آئمہ کی طرح ہی عزیز تھی
پر آج وہ اسے اپنے بیٹے کے علاوہ کسی اور کا ہوتا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھیں وہ اپنے آپ کو ہانی کا قصور وار سمجھ رہی تھیں
ہانی مجھے معاف کر دو میرے بیٹے کی وجہ سے آج تم جس تکلیف سے گزر رہی ہو میں اس درد کو سمجھ سکتی ہوں وہ ایسا تو بلکل نہیں تھا کہ اتنا بے حس ہو کر چلا جاتا ضرور کوئی بہت بڑی مجبوری ہو گی جس کی وجہ سے وہ چلا گیا ....
تائی امی آپ کیوں مافی مانگ رہی ہیں بس میرے نسیب میں ہی نہیں ہے وہ تو کیسے ملے گا مجھے
روتے ہوئے ہانی نے آزردگی سے کہا تھا اور وہ دونوں کتنی ہی دیر تک ایک دوسرے کے گلے لگے روتی رہی تھیں
________________________________________