بی جان کی بات پر کمرے میں طویل خاموشی چھا گئی تھی
بی جان آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟؟
حمدان شاہ نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا تھا
حمدان صاحب ششدر ہی تو رہ گئے تھے بی جان کی بات پر........
میرا یہ آخری فیصلہ ہے اور جو کوئی اس فیصلے کے خلاف گیا وہ ہم سے اپنا رشتہ ختم سمجھے
بی جان نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا
زین جو کب سے اپنے آپ پر ضبط کر کے بیٹھا تھا ایک جھٹکے سے اٹھا تھا اور کمرے سے نکل گیا تھا
بی جان ابھی وہ بچہ ہےاسے تھوڑا وقت تو دیں وہ سمجھ جائے گا
نعیمہ بیگم زین کا دفاع کرتے ہوئے بولی تھیں
بی جان نے ایک تنفر بھری نظر ان پر ڈالی تھی
ہم نے فیصلے کا اختیار تمہارے لاڈلے کے ہاتھ میں دیا ہے وہ جو چاہے فیصلہ کرے اور اگر وہ اپنی اس بے جا زد کو نہیں چھوڑے گا تو یقیناً اسے یہ گھر چھوڑنا ہو گا
بی جان انتہائی سپاٹ لہجے میں بولی تھیں
رئیسہ بیگم اپنے آنکھوں کی نمی چھپاتی کمرے سے باہر نکل گئیں تھیں اور ان کے پیچھے باری باری سب کمرے سے چلے گئے تھے
________________________________________
زین جیسے ہی کمرے سے نکلا سامنے ہی اس کا زمان شاہ سے ٹکراؤ ہوا تھا زین کو دیکھتے ہی زمان شاہ کے لبوں پر کمینی مسکراہٹ ابھری تھی اور زین کی بھی جیسے ہی نظر پڑی تھی اس کے ماتھے کی رگیں ابھری تھیں اور وہ غصے میں اس کی طرف بڑھا تھا
مل گیا سکون تمہیں آگ لگا کر اگر تم سوچ رہے ہو کہ تمہاری اس حرکت کی وجہ سے میں تمہارے اس ذلیل دوست کو چھوڑ دوں گا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے تم نے بی جان کو ایڈ دکھا کر کوئی تیر نہیں مار لیا اور وہ بھی وہ اشتہار جو صرف تعلیم کے فروغ کے لیے بنایا گیا ہے تم اس کا اس طرح استعمال کرو گے اس قدر گر جاؤ گے مجھے پتا نہیں تھا اگر چاہوں تو میں بھی سب کو تمہاری سرگرمیوں اور تمہاری گھٹیا کمپنی کے بارے میں بتا سکتا ہوں پر میں سہی وقت کا منتظر ہوں اور یاد رکھنا میں تمہارے اس قاتل دوست کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا چاہے اس کے لیے مجھے کوئی انتہائی قدم ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے
زین شاہ نے دھاڑتے ہوئے کہا تھا
زمان شاہ کی آنکھوں میں غصہ ابھرا تھا پر وہ غصے کو قابو کرتا کمینگی سے قہقہہ لگا گیا تھا
چلو دیکھتے ہیں تم آخر کہاں تک جاؤ گے جس کے پیچھے تم پڑے ہو وہ اتنا آسان شکار نہیں ہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگے گی ڈیئر
زمان شاہ ڈھٹائی سے بولا تھا اس سے پہلے زین کوئی جواب دیتا رئیسہ بیگم آتی دکھائی دیں تھیں اور زین اسے ہاتھ سےتمہیں تو بعد میں دیکھ لوں گا اشارہ کرتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا
________________________________________
ہانی تم رو رہی ہو
آئمہ حلیمہ کے کمرے میں داخل ہوئی تو حلیمہ بے تحاشا رو رہی تھی آئمہ بھاگ کر ہانی کے پاس آئی تھی
حلیمہ نے آئمہ کو دیکھ کر جلدی سے اپنا منہ دوسری طرف کیا تھا اور اپنے بازو سے صاف کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ ہاتھ مہندی سے بھرے تھے
آئمہ نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو کیے تھے
اب مجھ سے بھی چھپاؤ گی اپنے آنسو ۔۔۔۔
آئمہ نے اداسی سے مسکرا کر اسے گلے لگایا تھا آئمہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا جسے وہ مہارت سے چھپا گئی تھی
حلیمہ آئمہ کے گلے لگ گر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی
اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا بتاؤ اس سب میں میرا کیا قصور تھا تمہیں پتہ ہے بچپن سے میں نے اس کا نام اپنے نام کے ساتھ سنا ہے اور پتہ ہے میں اس سے جب سے محبت کرتی ہوں جب مجھے محبت لفظ کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا اور اب مجھے ایک دم سے کہہ دیا گیا وہ تمہارا نہیں ہے اور مجھے ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ رہے ہیں جس نے آج تک مجھے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا
آئمہ کے گلے لگ کر وہ سسک سسک کر اپنا درد بیان کر رہی تھی وہی تو اس کی واحد جان سے پیاری سہیلی تھی جس سے وہ اپنا ہر دکھ درد شیئر کرتی تھی
آئمہ نے اس کی کمر کو تھپک کر تسلی دی تھی آئمہ کی آنکھیں بھی اپنی لاڈلی دوست کے دکھ سے بھیگ گئی تھیں جہاں اسے اپنی دوست کی تکلیف میں تڑپ رہی تھی وہیں اپنے بھائی کی محبت کھونے کا خوف بھی تھا وہ اس کیلئے کچھ بھی کر سکتی تھی اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا چاہے کچھ بھی ہو جائے حلیمہ شاہ کو زین شاہ کے علاوہ کسی کا نہیں ہونے دے گی
اچھا اب چپ ہو جاؤ انشااللہ اللّه بہتر کرے گا چلو اب سو جاؤ صبح پارلر بھی جانا ہے
آئمہ اپنے آنسو صاف کرتی اس سے الگ ہوئی تھی اور نرمی سے اس کے گال کو چھو کر اس سے مخاطب ہوئی تھی اور دروازہ بند کر کے چلی گئی تھی
حلیمہ شاہ کے آنسو ایک بار پھر جاری ہوئے تھے اور بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں لیٹ گئی تھی
________________________________________
ہاں بولو شان کچھ پتہ چلا دلاور سیٹھ اور اس کے دوستوں کا
زین نے کال اٹینڈ کرتے ہی شایان کو مخاطب کیا تھا جو کہ اس کا بہترین دوست تھا
زین ابھی پتہ نہیں لگ پا رہا وہ لوگ کہاں ہیں پر تم فکر نہ کرو جیسے ہی ان میں سے کسی کا نمبر آن ہوا ہم فوراً ٹریس کریں گے پر تم زمان پر بھی نظر رکھو
شایان نے جواب دیا تھا
ٹھیک ہے پر جلد از جلد ان کے ٹھکانے کا پتہ لگاؤ تاکہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے کسی بھی طرح ہمیں ان کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے لانا ہوگا اس درندے کو اب اور آزادی نہیں ملنی چاہیے
زین تم بے فکر رہو ہم جلد از جلد پتہ لگاتے ہیں تم ریلیکس رہو اوکے جیسے ہی کچھ پتہ چلتا ہے تو میں تمہیں بتاتا ہوں
اوکے پھر بات ہو گی خدا حافظ
شایان کے کال کاٹتے ہی زین سر تھام کر بیٹھ گیا تھا بی جان کی بات نے اسے اپ سیٹ کر کے رکھ دیا تھا
زین۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلیمہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے زین کو آواز دی تھی
ہاں بولو کیا ہے ؟؟؟زین پھاڑ کھانے والےمیں بولا تھا
حلیمہ نے ڈرتے ڈرتے چائے کا کپ آگے کیا تھا
وہ میں چائے دینے آئی تھی
حلیمہ نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا اسے ہمیشہ سے ہی زین کے غصے سے ڈر لگتا تھا وہ غصے کا بہت تیز تھا
نہیں چاہیے مجھے کوئی چائے وائے چلی جاؤ اس وقت یہاں سے
زین انتہائی سخت لہجے میں بولا تھا پتہ نہیں ہانی کو دیکھ کر اس کا غصہ اور بڑھ گیا تھا شروع سے ایسا ہی تو ہوتا آیا تھا اس کا غصہ حلیمہ پر اترتا تھا اس وقت تو حلیمہ چپ چاپ سن لیتی تھی پر بعد میں ہزار منتیں کر کے منانا پڑتا تھا اور اس بار بھی اس کا سارا غصہ اسی پر اتر رہا تھا
زین کھانے پینے سے کیا ناراضگی ہے بھلا تمہاری میں اتنی محنت سے بنا کر لائی ہوں پلیز پی لو
ہانی نے ایک بار پھر کپ زین کی طرف بڑھایا تھا جو زین نے غصے میں پیچھے دھکیلا تھا کپ میں سے گرم چائے اچھلتی حلیمہ کے ہاتھ پر گری تھی اور کپ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوا تھا
ہانی کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تھے
زین ایک دم ہوش میں آیا تھا اور اس کی طرف بڑھا تھا
ایم سو سوری ہانی میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا
زین نے ہانی کا ہاتھ تھام کر کہا تھا جہاں پر چائے گری تھی اس جگہ پر جلدی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ندامت سے کہا تھا
تم یہاں بیٹھو میں ابھی پیسٹ لے کر آتا ہوں
اسے کندھوں سے تھام کر بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا تھا اور واشروم کی طرف بھاگا تھا
ہانی کو رونا ہاتھ جلنے پر نہیں بلکہ زین کے رویے پر آیا تھا
زین نے ٹوتھ پیسٹ حلیمہ کے ہاتھ پر لگائی تھی اور پھر اس کا چہرہ تھام کر اس کے آنسو صاف کیے تھے
ایم رئیلی سوری میں اس وقت بہت غصے میں تھا مجھے معاف کر دو
حلیمہ نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹائے تھے اور اس کے کمرے سے نکل کر بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں جاکر دروازہ بند کر لیا تھا زین اپنے آپ کو لعنت مامت کرتا رہ گیا تھا
________________________________________