شیو راج سنگھ ’بے چین‘
واقعہ قریب 30 سال پہلے کا ہے۔ میں پالی مکیم پور کے پرائمری اسکول میں سوتیلے بھائی روپ سنگھ کے ساتھ پڑھنے جانے لگا تھا۔ پہلی کتاب کے سارے حروف پڑھ گیا تھا۔ روپ سنگھ مجھ سے ڈیڑھ
دو سال بڑا تھا۔ لیکن ہم دونوں کا داخلہ ایک ساتھ ایک ہی کلاس میں کیا گیا تھا۔ سال بھی نہیں گزرا ہو گا تب تک ایک اور موڑ اس واقعہ میں آیا۔ ہوا یہ کہ روپ سنگھ پہلی کتاب کے حرف بھی یاد نہیں کر پایا۔ اسکول میں اس کا دھیان پڑھائی سے زیادہ اسکول کی باہری چیزوں میں رہتا۔ وہ اسکول سے چوری چھپے بھاگ جاتا تھا تو چاچا چھوٹے لال اور ڈالچند اسے کبھی مٹر، کبھی مونگ پھلی یا دوسری کھانے کی چیزیں دیتے۔ ماسٹر نے مارا ہے املا نہیں لکھ پانے کی سزا کے طور پر۔ تو وہ اسے پیار سے گھر ہی روک لیتے تھے۔ میں اسکول میں ہی رہتا۔ کبھی بھی کلاس چھوڑ کر نہیں بھاگتا تھا۔ املا ہویا جوڑ گھٹانا۔ میں سب سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ روپ سنگھ کا اسکول میں اکھڑتے جانا اور میرے جمے رہنے کا انجام میرے لیے بھی اچھا نہیں ہوا۔استاد گاؤں کے ہی رہنے والے تھے۔ پتا بھکاری لال اور ان کے بھائیوں کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ راستے سے گزرتے ہوئے بھکاری لال کے یہ پوچھے جانے پر کہ ’’ماس صاحب ہمارے بچے کیسے چل رہے ہیں ؟‘‘ کے جواب میں انھوں نے صاف جواب دیا ’’سنو بھائی بھکاری لال ، سچی بات تو یہ ہے کہ تمھارا یہ لڑکا تو پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا اور نہ ہی محنت کرتا ہے۔ چھ ساتھ مہینے میں اسے پورے حروف تک یاد نہیں ہو پائے۔ وہ اسکول سے زیادہ وقت غائب رہتا ہے۔‘‘ ماسٹر کی یہ رپورٹ سن کر بھکاری لال کے تینوں بھائی بہت فکر مند ہوئے۔ ان دنوں میری ماں بھکاری لال کی دوسری بیوی تھی اور چھوٹے لال اور ڈال چند کنوارے تھے۔ ان میں چھوٹے لال تو ساری زندگی کنوارے ہی رہے۔ اس دن ماسٹر جی کے بیانات نے گھر میں حالات خراب کر دیے۔ تینوں بھائیوں کو کھانے پینے کی فکر سے زیادہ اس بات کی فکر نے جھٹکا دیا کہ ان کا روپ سنگھ پڑھنے میں کمزور ہے۔ ان کا ارادہ اسے پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانے کا تھا۔ لیکن مجھے تو وہ اس لیے پڑھنے بھیجتے تھے کہ اس کو اکیلے پڑھائیں گے تو گاؤں بستی کے لوگ کہیں گے کہ اپنے بیٹے کو تو پڑھا رہے ہیں ، سوتیلے کو نہیں پڑھا رہے ہیں۔ ان دنوں ہمارے لیے گھاس کھودنے یا کھیتوں سے فصل کے وقت تھوڑا بہت اناج بین لانے کا کام ہوتا تھا۔ ہم کسی بھاری کام کے لائق نہ تھے۔
بھکاری لال اب عجیب کشمکش میں پھنس گئے۔ جسے پڑھانا چاہتے تھے وہ ماسٹر کی نظر میں نہ پڑھنے والا ہے اور جسے دکھاوے کے لیے اور سماجی دباؤسے بچنے کو اسکول بھیجتے ہیں وہ ٹھیک ٹھاک ہے۔ وہ تینوں بھائی مل کر ماسٹر صاحب کے پاس گئے اور بولے ’’صاحب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بڑا نہ پڑھے اور چھوٹا پڑھے!‘‘ ماسٹر جی نے سمجھایا ’’ آپ کا بڑا لڑکا عقل سے بڑا نہیں ہے صرف عمر سے بڑا ہے۔ وہ پڑھ بھی سکتا ہے، دونوں کو ایک ہی کلاس میں چلا پانا ممکن نہیں ہے۔ تم اسکول بھیجتے رہنا چاہتے ہو تو شوق سے بھیجو پر اگلی کلاس میں سوراج ہی جائے گی، روپ سنگھ نہیں۔‘‘ یہ سن کر تینوں بھائی گھر آئے اور روپ سنگھ کے مستقبل کو لے کر فکر مند ہونے لگے۔ بھکاری لال اور ماں میں اکثر جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ وہ میاں بیوی تھے۔ ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری، لیکن ان کے مزاج میں کوئی میل نہیں تھا۔ ہفتے میں چھ دن ان میں آپس میں جھگڑا ضرور ہوتا اور پالن پوسن کرنے والا اور گھر کا مالک ہونے کے ناتے ’ماں ‘ کو مارتا۔ اس دن وہ بدبدا رہا تھا۔ ’’سسری کے گے (یہ) کلٹّر بنے گا۔ ماسٹر کی ہونشا (نگاہ) میں سسرو تیز ہے۔ سارے سبد یاد کر لیے۔‘‘
بھکاری لال ضدی اور گندی گالیاں دینے میں نمبر ون آدمی تھا۔ اس جیسی گندی زبان کے آدمی میں نے کم ہی دیکھے ہیں۔ ’’ایسا لڑکا لے آئی جو میرے لڑکے سے زیادہ ہوشیار ہے۔‘‘ میرا تیرا کا فرق وہ بہت زیادہ کرتا تھا۔ ہم سب اسے ’’دادا‘‘ کہتے تھے۔ (پالی میں باپ کو دادا ہی کہا جاتا ہے) لیکن وہ تھا جدید اور شہری معنی میں بھی دادا ہی۔ اس کی دادا گیری، ’ماں ‘ پر ہی خاص کر چلتی تھی۔ وہ دادا گیری چلا بھی رہا تھا۔
’’چھوڑو آج سے کوئی پڑھنے وڑھنے کی ضرورت نا ہی۔ لا چھوٹو کتابیں لا۔ ان دونوں کی ڈلاّ تو موئی پٹی دے۔‘‘
اور تینوں بھائیوں نے مل کر ایک پلان بنایا۔ سلیٹوں کو اٹھا کر، تختیاں چوکھٹ پر رکھ کر ایک ایک کر توڑی گئیں اور تھیلے سے کتابیں نکال کر جب پھاڑنا چاہا تو ماں نے لپک کر جھٹکے سے کتابیں چھین لیں۔ تب بھکاری نے اچھل کر ’’ماں ‘‘ کی چھاتی پر ایک لات جما دی اور وہ چاروں خانے چت گر پڑی۔ مٹی کے تیل کی ڈلی چولھے کی دیوار پر رکھی تھی۔ بھکاری لال نے اسے انڈیل کر اسے ماچس کی تیلی دکھا دی۔ کتابیں جل اٹھیں ، بعد میں تختیوں نے بھی آگ پکڑ لی۔ اڑوس پڑوس کی عورتیں جمع ہو گئیں۔ ’ماں ‘ کے رونے کے شور نے محلے بھر میں خبر کر دی۔ لیکن وہ ثابت کر رہا تھا کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اس نے صرف سوتیلے بیٹے کی کتاب ، پٹی نہیں جلائی، بلکہ اپنے سگے بیٹے کی بھی جلائی ہے۔ اڑوس پڑوس سے کوئی اس کا اختلاف کرنے نہیں آیا۔ لیکن ’ماں ‘ چیخ چیخ کر بتا رہی تھی۔ ’’جو کالے پیٹ کا آدمی ہے، جاکو بیٹا فیل ہے رؤتو میرے نہ پڑھ جائے جا مارے دار یجار کے نے کتابیں چرائی ہوں۔ بھکریاں بندے یاد رکھئے۔ یہ سوراج ضرور پڑے گو اور تیرے روپا تو کتنوؤجل مر، یہ ناہ پڑھ پائے گو۔‘‘
دو نوں ایک دوسرے کے بیٹے کی عدم فلاح و بہبود کی پیشین گوئی کرنے لگے۔ بستی کے لوگوں کو برا لگا کہ نہیں پڑھانا تو نہیں پڑھاتے۔ مگر کتابیں پٹیاں چولھے پر رکھ کر جلا دینا کہاں کی سمجھداری ہے۔ پریہ ہے ہی برا آدمی ، کہہ کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ دو تین دن تک مجھے حروف کے درشن نہیں ہوئے۔ بستی کے دو تین لڑکے میرے سا تھ کے تھے۔ میں نے چھپ چھپا کر ان کی کتاب میں بنے ک سے کبوتر اور خ سے خرگوش ، گ سے گدھا اور سوتک گنتی یاد کی تھی۔ لیکن بھکاری کو یہ بھی برا لگا جب اسے پتہ چلا کہ میں دوسروں کے گھر جا کر بچوں سے پوچھتا ہوں۔
میں ہر دن یہ جگاڑ دیکھ رہا تھا کہیں سے چار چھ ہاتھ لگیں تو میں ایک کتاب خرید لوں اور اسے کسی ساتھی کے گھر میں چھپا کر رکھ دوں۔ لٹوریا اور بادشاہ نام کے دونوں بھائی میرے لنگوٹیا یار تھے۔ ان کی ماں کے پاس میں مار پیٹ کے ڈر سے چھپا کرتا تھا۔ کئی بار تو رات میں بھی وہیں سوجاتاتھا۔ بستر پر سوتے میں پیشاب نکل جانا میرا بڑا مسئلہ تھا۔ لٹوری کے پاس سوتے ہوئے میرا پیشاب نکل گیا تھا لیکن اس کی ماں بڑی محبت اور لگاؤرکھنے والی تھی۔ اس نے مجھے کوئی سزا نہیں دی۔
وقت گزر رہا تھا۔ ان دنوں دیوالی کے آس پاس پالی میں جوا بہت کھیلا جاتا تھا۔ بھکاری لال کا چھوٹا بھائی ڈالچند چھوٹی موٹی چوری کرنے، جوا کھیلنے اور کشتیاں لڑنے کی وجہ سے لوگوں پر دباؤبنائے ہوئے تھا۔ وہ ایک لوٹا بھر بھینس کا دودھ پیتا تھا۔ اتنے ہی دودھ میں باقی چھ سات ممبروں کا خاندان چلتا۔ سبھی ساتھ رہتے تھے۔ سارے خاندان میں چھوٹے لال بے حد محنتی آدمی تھے۔ کولہو کے بیل کی طرح جٹے رہنا ان کا معمول تھا۔ ان دنوں وہ گاؤں سے باہر کھیر میں بی پی موریے (آج کل کانگریس میں مشہور دلت نیتا) کے چمڑے کے کارخانے میں ستر اسی روپیہ مہینے پر نوکری کر کے گھر بھیجتے تھے اور بھکاری لال مردہ مویشی اٹھانے رنگ چمڑے سے مونڈا (جوتے) جوتیاں ہارے سارے بنانے کا کام کرتے تھے۔ وہ فصل پر کسانوں کو نارے سارے (چمڑے کا سامان) بانٹتے اور گیہوں ، مکا اکٹھا کرتے تھے۔ میں جب اسکول سے روک لیا گیا تھا تو مردار جانور کھینچنے، کچرا وغیرہ اٹھانے اور کھیتوں سے اناج بٹورنے کے کام میں لگ گیا تھا۔ میری بہن اور ماں بھی ہر فصل پر کام پر جاتیں۔ چماریوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان دنوں کام پر جاتے تھے لیکن ڈالچند جسم کو تکلیف دینے والے کام خاص طور پر نہیں کرتا تھا۔ وہ چوری بھی برابر ڈھنگ سے نہیں کر پاتا تھا۔ ہاں وہ آٹے کے گلے بنا کر بھینس بیلوں کو زہر بھی دے دیتا تھا۔ جس سے آمدنی زیادہ ہوتی تھی۔ مارے گئے جانوروں کا گوشت بھی زیادہ جاتا اور اس کی چربی کنستر بھر کر عطر ولی قصائی کے پاس پہنچائی جاتی۔ زمین یا دوسری پیداوار کا کوئی ذریعہ پالی کے چماروں پر نہ تب تھا نہ تیس سال بعد آج ہے۔ نہ تب وہاں تعلیم تھی، نہ اب ہے۔ ڈالچند ان دنوں دھوم سے جوا کھیل رہا تھا، دیوالی سے ایک دن پہلے اس کی جیت ہوئی تھی۔ اس سے وہ بہت خوش تھا اور وہ مٹھائی لے کر آنے والا تھا۔ میں گھر میں گھسا۔ کھونٹی پر ڈالچند کا کرتا ٹنگا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے چور کی طرح جیب ٹٹولنا شروع کی۔ لٹکی ہوئی جیبوں میں کچھ نہ تھا۔ لیکن سینے پر خفیہ جیب بنی تھی۔ اس میں نوٹ بھرے تھے۔ میں نے نوٹوں کی گڈی کو آہستہ سے نکالا اور اس میں ایک کا نوٹ ڈھونڈا۔ ایک روپیہ لے کر باقی روپیہ اسی طرح جیب میں رکھ کر کواڑ بند کر کے میں باہر نکل گیا۔ ماں اس وقت گھر پر نہیں تھی۔ گھر میں گھستے نکلتے، روپیہ چراتے مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔ اس خوشی میں میں جلدی سے پینٹھ بازار سے نکل کر بنیوں کی دکان کی طرف چلا گیا۔ اتنے سارے روپیوں سے ایک روپیہ چرایا ہے، چاچا کو پتہ بھی نہیں ہو گا۔ کتنے روپئے اس کی جیب میں ہیں اور پتہ بھی ہو گا تو جیتے ہوئے روپیوں میں سے ایک روپیہ کی پرواہ وہ کیا کرے گا۔ ایسے سوال میرے ذہن میں اس وقت اُٹھ رہے تھے۔ پینٹھ سے آگے بنیوں کی چھ سات دکانیں ایک کے بعد ایک ہیں۔ میں بیچ کی دکان پہنچا اور کہا، لالہ جی میرے چاچا آپ کو پیسے دیں گے۔‘‘
’’تو دوئی خرید لیں گے۔ تو کیوں آیا ہے؟‘‘
’’کتابیں تہو کر پوں کوں۔‘‘ کہہ کر میں دکان سے نیچے اتر کر جدھر سے چاچا چھوٹے لال آ رہے تھے اس طرف کو لوٹ آیا اور شری نواس کی کوٹھی کے سامنے شاستری جی کے مکان کے پیچھے چل رہی پتلی نالی میں میں نے وہ ڈبیہ پھینک دی۔ (میرا قیاس تھا کہ وہ مجھے بعد میں مل جائے گی۔ اور آگے بڑھ گیا۔ چھوٹے لال اُن دونوں بھائیوں کے نجی معاملات میں ملوث تھے۔ انھوں نے ہم بچوں کو غلطی پر کبھی مارا نہیں اور وہ ڈانٹ پھٹکار بھی بس زبانی ہی رکھتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے پاس جاتے ڈر نہیں لگتا تھا۔ میں جیسے ہی ان کے پاس گیا انھوں نے پکڑ کر میری جیبیں ، پاجامہ ، کچھا اور اس کے ازار بند کی جگہ ٹٹول کر دیکھی اور پوچھا، ’’تو روپیہ لایا۔‘‘
’’نہ، نہیں تو؟‘‘
’’تو دکان پر کیا کرنے گیا تھا؟‘‘
’’کتاب پوچھنے۔‘‘
’’وہ تسلی کے لیے دکان پر گئے۔ لالہ نے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی کہا ’’چھوٹے لال بناپیسے کے بچوں کو کیوں بونی کے وقت بھیج کر دکانداری خراب کرتے ہو۔‘‘
چاچا نے فوراً میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کی جانب واپس ہوئے۔ چلتے چلتے وہ بتا رہے تھے ’’ڈالا کا ایک روپیہ جیب سے کون نکال لیا۔ اس نے گھر میں اودھم مچا رکھا ہے۔ تیری ماں پر بے مطلب ہی شک کر رہا ہے۔ وہ جب سے گھر میں آئی ہے گھر کی حالت سدھر گئی ہے۔ یہ ڈالا پاگل کہاں سمجھتا ہے یہ سب باتیں۔‘‘
وہ بولتے جا رہے تھے گھر سے روپیہ چرا کر جانے اور دکانوں پر کتاب کی تلاش میں گھومنے میں اور پھر چھوٹے لال چاچا کے ساتھ گھر لوٹنے میں آدھا پون گھنٹہ تو لگ ہی گیا ہو گا۔
گھر عام راستے سے تھوڑا اندر گلی میں تھا۔ اس سے پہلے صرف ایک گھر تھا۔ عام راستے پر پتا بھیکاری لال کی جوتیاں بنانے کی دکان تھی۔ ان دنوں کئی گھروں میں جوتیاں بنائی جاتی تھیں اور پینٹھ کے دن سب لوگ لائن سے انھیں پینٹھ میں پیش کرتے تھے۔ اسی دن وہ باہر بیٹھے نئی جوتیاں تیا ر کر رہے تھے۔ جب میں روپیہ چرا کر گیا تھا انھیں کام کرتے چھوڑ گیا تھا۔ چاچا کے ساتھ لوٹا تو دیکھا میری ماں قصائی کے ذریعہ کاٹی جا رہی گائے کی طرح زور زور چیخ رہی تھیں۔ ماں کی چیخ مجھے بہت دور سے سنائی پڑ گئی تھی۔ میں دوڑ کر ماں کے پاس پہنچا۔ تب گلیارے میں پڑی ماں کراہ رہی تھی۔ اس کی کمر پر بھکاری لال نے پہلا وار پھر ہے (وہ لکڑی جس پر چمڑا کاٹا جاتا ہے) سے کیا تھا۔ اس کے بعد ڈالچند نے ماں کے جسم پر لاٹھیاں برسائی تھیں۔ سر چھوڑ کر سارا جسم ڈلا نے توڑ دیا تھا۔ ماں چیختے کراہتے بے ہوش ہو گئی تھی۔ بیربل بابا کی گھر والی نے منہ میں پانی ڈالا۔ پوری بستی کے چمار اور راستے سے گزرنے والے جاٹ، بنئے، بامن سب جمع ہو گئے تھے۔ ’’ڈلّا تو راکشش ہے، بھکریا تو نے تو اپنی بہو کو مارا ہی، ڈلّا سے کیوں پٹوایا۔‘‘
’’ارے ساب سسر کی.... اس کو کھانے کی کمی نہیں ہے۔، ہم تین بھائی کما کے اس کا پیٹ بھرتے ہیں ، اس کی اولاد کو کھلاتے ہیں۔ تب بھی اس نکمی نے ایک روپیہ پر نیت گاڑ لی۔ اگر ضرورت تھی تو مانگ لیتی۔‘‘
ڈلاّ فتح مندی کے غرور میں چار پائی پرتن کر بیٹھا تھا۔ وہ پہلوان بھی تھا اور چور جواری بھی۔ اس کا بستی بھر پر دبدبہ تھا۔ ’’سسری نے ایک روپیہ چرا کر اپنی عادات شروع کی ہے۔ ارے سسری ہم سارے بڑے سے بڑے طرم خاں کی جیب میں سے نکال لائے۔ تو نے ہماری جیب میں ہاتھ ڈالے۔‘‘
’’مت اٹھاؤدادی کو۔‘‘ چھوٹے لال کا دل پسیج رہا تھا۔ ڈلا تو نشے میں ہے کیا؟ ارے ایسی کیا بات تھی، میں دے دیتا تجھے ایک کے دس۔ تو نے اس کی سب ہڈیاں توڑ دیں۔‘‘
چھوٹے لال ماں کے تئیں احسان مند تھے۔ پچھلے سال جب وہ شدید بیمار پڑے تھے تو انھیں خون چڑھانے کے لیے گھر میں پیسہ نہیں تھا۔ ڈلّا کماتا نہیں تھا۔ اس کی آمدنی کا ذریعہ جوا چوری یا ایک مردہ جانور کی کھال اتار لانا تھا۔ چھوٹے لال کو بچایا نہیں جاسکتا تھا بغیر خون چڑھائے اور خون کے لیے پیسے نہیں تھے تو ماں انترولی ڈاکٹر کے پاس پہنچی تھی۔‘‘ میرا خون چڑھا دو ڈاکٹر صاحب، میں بہت تگڑی ہوں۔‘‘ واقعی ماں کا جسم بہت سڈول اور مضبوط تھا۔ یہ نعمت انھیں وراثت میں ملی ہوئی تھی۔ نانا نانی بہت تگڑے تھے۔ اسی لیے ان کی اولادیں پانچ بیٹیاں ، دو بیٹے بھی کافی ہٹّے کٹّے اور بھاری بھرکم تھے۔ ماں کا خون چھوٹے کے خون سے مل نہیں پایا تھا تو مول خریدنے کے لیے ماں نے بھکاری لال سے کہا تھا۔ اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ تو میرے باپ کے بنائے ہوئے جو کھڑوے ماں کے پاس تھے اور جنھیں وہ میرے مرے ہوئے پتا کی یادگار کے طور پر سنبھال کر رکھتی تھی۔ ایک جان بچ جائے، یہی اچھا ہو گا.... یہ جان کر وہ بولی تھی۔ ’’تم گروی رکھ دو۔‘‘ صراف نے کہا ’’یہ ایک سو پچیس روپئے میں گروی نہیں رکھے جاسکتے ، انھیں بیچ دو۔‘‘چھوٹے کے علاج کے لیے قریباً سو روپئے کی ضرورت تھی۔ اسی روپئے میں ماں کے کھڑوے بکے۔ اس طرح اونے پونے داموں میں خرید لینے سے ہی ہمارے دیش کے جمع خوروں کی چاندی ہوتی ہے۔ اس طرح وہ پیسے علاج میں لگے اور چھوٹے تب ٹھیک ہوئے تھے۔ اس وجہ سے وہ ماں کے احسان کو محسوس کرتے تھے۔
اس دن پورے دن گھر میں چولھا گرم نہیں ہوا۔ رات میں کراہتے ہوئے میری بہن سے کہتا تھا ’’بیٹا کچھ دانے بھونج کر چکھ لو۔بھیا کو دے دو۔‘‘ میں اپنے جرم کی وجہ سے دکھی تھا۔ چور تھا اور سزا پالی ماں نے۔ وہ بھی اتنی سخت جسے زندگی بھر بھلایا نہیں جاسکتا۔
ماں کا منہ سوج گیا تھا، ہونٹ بھی بڑے بڑے ہو گئے تھے۔ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ کسی طرح وہ بولی۔ ’’دادی جار کا روکڑ میں نے چرانا تو دور رہا، دیکھا تک نہیں ، پر قصائی نے میرا پورا جسم توڑ ڈالا۔‘‘ میں اپنا جرم قبول کروں ، یہ اسی وقت سوچ رہا تھا۔ جب سے ماں کو بری طرح پٹتے دیکھا تھا ، ماں پیٹی جاچکی تھی۔ ڈلا کا غصہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ اب میں اپنا گناہ قبول کروں تو جو حال ماں کا ہوا ہے وہی میرا بھی ہو گا۔ اس ڈر سے میں نے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا۔ پر ماں جب رو رو کہتی، ’’میں نے چونی تک کسی کی کمائی کبھی نہیں چھوئی۔ آج ایک روپیہ کیوں چراتی؟ وہ اپنے بچوں میں خود کو چورنی بننے کے ڈر سے روتے کراہتے صفائی پیش کر رہی تھی۔ بہن مایا دیوی نے کہا ’’اماں ، تو نے ایک روپیہ کیوں چرایا؟ پورے گاؤں میں لوگ تجھے چورنی سمجھ رہے ہوں گے؟‘‘ ’’جو جو چاہے سمجھے بیٹا، میرا بھگوان گواہ ہے، چور کون ہے میں نہیں جانتی پر جو چور ہو گا بھگوان اس کے جسم میں کیڑے ڈالے گا۔‘‘ اور نہ جانے کیا کیا وہ بول رہی تھی۔ دیر رات اس کا درد بڑھ گیا تھا۔ ’’ایک گلاس دودھ میں پھٹکری ڈال کر پی لے، بھکاری نے کہا تھا۔ ’’ہلدی پوت دو بچو، تمھاری ماں کے بدن پر۔‘‘ میں اور میری بہن پیٹھ پر ہلدی پوتتے رہے۔ پھر ماں نے جانگوں سے لہنگا اٹھا کر نیلے نشانوں پر ہلدی پتوائی جو پوشیدہ عضو کے پاس تھے اور پھر کراہتے ہوئے اس نے اشارہ کیا مجھے باہر جانے کا۔ میں سمجھ گیا ماں کے پوشیدہ حصوں پر گہری چوٹ لگی تھی۔ بہن نے ہلدی پوتی اور میں تھوڑی دیر بعد پھر گھر میں آیا۔ ماں کی چارپائی کے پاس تسلے میں کنڈوں کی آگ سلگ رہی تھی۔ چھوٹے، ڈلا سب سونے چلے گئے تھے۔ سکائی کراتے کراتے ماں نے پوچھا، ’’بیٹا تو کتاب کی ضد کر رہا تھا، یہ کام تو نے تو نہیں کیا۔؟‘‘
’’نہیں اماں۔ میں نے نہیں کیا۔‘‘ میں صاف جھوٹ بول گیا اور پھر ماں کی پیٹھ کے نشان کو سینکنے لگا۔ جسم پر اُبھرے نشان اور چوری کے روپے سے آنے و الی کتاب کے حروف میں مجھے عجیب سی برابری لگی۔ دوسرے دن صبح نالی میں پھینکی گئی کاغذ کی ڈبّی ڈھونڈ نے گیا پر وہاں نہیں ملی۔ میرے جیسا کوئی اور اسے اٹھا لے گیا ہو گا۔
بھونچال گزر جانے کے بعد کے حالات پر میں بیٹھا سوچ رہا تھا۔ ماں کو سچ بتانا چاہیے یا نہیں ماں کو اس سے تندرستی ملے گی یا نہیں۔ پر میں مہا خود غرض انسان، ماں کی کراہوں میں بھی مجھے کتاب یاد آ رہی تھی۔ ایسی دیوانگی سوار تھی دماغ پر۔ اسی رات میں سوکھی چتری (چتری، مرے یا مارے گئے جانور کی چربی کو کڑاہوں میں سے نکالنے کے بعد گوشت کے ٹکڑے جل بھن جاتے ہیں انھیں ہم چتری کہتے ہیں ) گرم کر کے کھائی تھیں۔ ماں نے پھٹکری پڑے دودھ کے علاوہ شاید اور کچھ نہیں کھایا تھا۔ ڈلا نے خود کھانا بنایا تھا۔ ایک ایک روٹی بہن بھائیوں کو چٹنی سے دے دی گئی تھی۔
اس واقعہ کے بعد قریب 12سال شاگرد کی شکل میں میں نے کسی بھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا۔ ماں کے پاس سے بھی بہن بھائی اپنے پشتینی گاؤں ندرونی سات آٹھ سال کی عمر میں چلے آئے تھے اور یہاں مزدوری اور بیگاری وغیرہ سے پیٹ پالتے رہے۔ قریب بیس سال بعد جب میں نے گریجویشن کر لیاتھا تو جلدی نوکری پا کر میں ماں کو وہ واقعہ بتانے کے جوش میں تھا۔ ماں بھوک مری، میری بیکاری اور خوفناک غریبی کی وجہ سے بیمار رہتی تھی۔ اسے بھوک سے پیدا کیے ہوئے ٹی بی جیسے روگ ہو گئے تھے۔ مرنے سے پہلے ماں سچ سن لے اور میری کتاب کی تمنا کو جان سکے۔ میرے گناہوں کے لیے مجھے معاف کر دے۔ میں ایسا سوچتا تھا لیکن ماں دوائی ، گولی اور پرہیز کی کمی سے موت سے پہلے مر گئی۔ میں گاؤں میں بھی نہیں تھا۔ لاش بھی نہیں دیکھ پایا ماں کی۔ جب میں پہنچا تو چتا کی راکھ بھی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ کئی دنوں میں اپنی ماں کی راکھ پر جا کر بیٹھا رہا اپنی احسان مند یادداشتوں کے ساتھ۔
(اردو: ف۔س۔اعجاز)