کرگسِ ژولیدہ: مت اہل ہمیں جانو ( خود نوشت)،سارق عتاب گھر ،کوہِ ندا،2000
سال 2015کاآخری مہینا بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا ۔دسمبرکی شدید سردی ،دھند اور کہر کے باوجود شہر کی چہل پہل میں کوئی کمی نہ ہوئی تھی۔زندگی کا قافلہ رواں ،دواں اور تپاں رہتا ہے ۔یہی چکر جاوداں چلتا رہتا ہے ۔ گزشتہ ہفتے رسوائے زمانہ سارق،چربہ ساز ،کفن دُزد اور جعل ساز کرگس ژولیدہ سے سرِ راہ ملاقات ہو گئی۔ ڈاڑھی اور مونچھیں صفا چٹ ،ضعفِ پِیری کے باعث اس نا ہنجار کی کمر میں بڑاخم اسے تحقیر کی صورتِ مجسم بنا رہا تھا ، پچکی ہوئی ناک پر موٹے شیشوں کی عینک دھرے ،لُنڈے بازار سے خریدے ہوئے کسی مرے ہوئے گورے کا بوسیدہ لباس پہنے یہ کالا انگریز نہایت ڈھٹائی سے اکڑ کر چلتا ہوا بالائی سڑک پرفراٹے بھرتی ہوئی میٹرو بس اور تیزی سے تعمیری مراحل طے کرتی ہوئی اورنج ٹرین کی گزر گاہ کو آ نکھیں پھاڑ پھاڑکر دیکھتا ہوا ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتا لاہور شہرکے مصروف ،معروف اور جدید کاروباری مرکز ٹھوکر نیاز بیگ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جسمانی طور پر نڈھال او ر کئی ذہنی عوارض میں گِھرا کرگس ژولیدہ زمین کا بوجھ بن گیا ۔اس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ چلتا ہے تو دو طرفہ ندامت اور خست و خجالت اس کے شانہ بہ شانہ چلتی ہے۔اس کے علاوہ بھرے بازار کی لعنت و ملامت بھی اس کا دُور تک تعاقب کرتی ہے ۔بعض لوگ اس سے کٹ حجتی،جگت بازی اور مخول کرتے ہیں لیکن اکثر اسے دیکھتے ہی لا حول پڑھتے ہیں اور اس کی بے سر و پا باتوں سے بچنے کی خاطر راستہ بدل لیتے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور اپنے منھ سے بہنے والا جھاگ اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے یوں گویا ہوا :
’’ اس سے پہلے کہ میرے نہ ہونے کی ہونی دیکھو میری خو دنوشت پر بھی ایک نظر ڈا ل لو۔ اس وقت میرا خرِ حیات رو میں ہے نہ جانے کس وقت یہ دم لینے کو رُکے اور میرا دم ٹُوٹ جائے ۔میں جسے بھی اپنی سر گزشت سنانے کی کوشش کر تاہوں وہ دُم دبا کر بھاگ جاتا ہے ۔میںنے اپنی حیات ِ رائیگاں کی ورق ورق داستان حر ف حرف بیان کی ہے ۔آج صبح منھ اندھیرے اس کا حرفِ اوّل لکھوانے کی خاطر شہر کے معتوب سارق چُغد ویرانی کے پاس گیا تھا۔چُغد ویرانی نے حیرانی سے میری خود نوشت پر سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد جھرجھری لی ۔ وہ گہری سوچوں میں گُم کبھی مجھے دیکھتا اور کبھی میری خود نوشت کے مسودے کو ٹٹولتا اور پھرولتا رہا۔شاید اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ مسودہ میں نے خود لکھا ہے یا ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے یا کہیں حرف اوّل لکھوانے کے معاوضے کا لفافہ رکھا ہے ۔ جب اسے کچھ نہ ملا تو اس کا چہرہ ایسے اُتر گیا اور اس پر اسی طرح ہوائیاں اُڑنے لگیں جیسے کچی سڑک پر رینگتی ہوئی زور دستِ دوستاں سے چلنے والی بس سے اُترنے والے مسافر کے گرد آلود چہرے پر اُڑتی ہیں ۔ اس کے چہرے کی کیفیت دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ زینۂ ایام سے بے نیلِ مرام اُترنے والا یہ دیو پیکر قوی فیل جبلِ ایام کے نیچے سسک رہا ہے۔اس کی جان دکھوںکے شکنجے میں یوں پھنسی ہے جیسے گنا بیلنے میں آ جاتا ہے۔جب میں نے اس فاختہ کو تقدیر کے بے رحم عقاب کے پنجے میں جکڑا دیکھا تو میں مطمئن ہو گیاکہ اگرچہ و ہ رذیل کافی علیل تھا مگر اس کے پاس وقت بہت قلیل تھا ۔ اس کا سب ٹھاٹ یہیں پڑا رہ جائے گا اور یہ سبز قدم اور کور چشم بنجارہ اب کوئی دم کا مہمان ہے ۔ میر ے اصرار کے سامنے وہ کوئی دلیل نہ دے سکا اور مجھے مطمئن کرنے کی سبیل کے طور پر میری خود نوشت کے مسودے کی سرنوشت پر اپنا ایک شعر لکھ کر مسودہ مجھے لوٹا دیا ۔ میرے حسبِ حال کیا خوب شعر لکھا ہے چُغد ویرانی نے ؎
خامہ ہے کرگسِ ژولیدہ ترا خام ابھی
اپنے پنجوں میں پکڑ اور بڑا جام ابھی
اس کے ساتھ ہی چُغد ویرانی نے کہا کہ اس کا آخری لفظ کسی اور سے لکھو ا لوں ۔ اس کا خیال تھا کہ فساد ِخلق سے بچنے کی خاطر اس قسم کی خود نوشت کو چَھپانا دانش مندی نہیںبل کہ اِسے چُھپانا زیادہ موزوں ہے۔میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور منھ چھپا کر اور سر جُھکا کر وہاں سے باہر نکل آیا۔ میں اپنی یہ خود نوشت ہر حال میں چھپوانے کا ارادہ رکھتا ہو ں خواہ اس کے لیے میں کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جائوں اور مجھے در در کی بھیک مانگنی پڑے ۔اپنی خود نمائی کو یقینی بنانے کی غرض سے میں نے بہت پاپڑ بیلے ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ بڑی کوشش کے بعد اس کی اشاعت کے لیے شُوم پبلشرز سے بات پکی ہو گئی ہے ۔وہ پانچ سو کی تعداد میں میری یہ خود نوشت مفت چھاپیں گے ۔کتاب کی قیمت فروخت ایک ہزا ر روپے رکھی گئی ہے ،میں اس کی صرف دو سو جلدیں خرید لوں گا باقی تین سو کتابیں وہ جانیں اور ان کا کام ۔ اپنی خود نوشت کی جو دو سو جلدیں میں ایک لاکھ روپے میں خریدوں گا وہ میں خود ہی ٹھکانے لگائوں گا۔ ملک بھر کے کتب خانوں کے مہتمم ، کتب فروش اور ردی فروش میر ی اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ پہلے یہ خود نوشت ’’خامہ ،خامی اور خمیازہ‘‘کے نام سے آ رہی تھی لیکن متفنی فلسفی ناصف بقال نے اس کانا م ’’مت اہل ہمیں جانو‘‘ تجویز کیا ۔ اس نام میں جو عجز و انکسار ہے اس کی وجہ سے یہ نام مجھے بہت پسند آیا اس لیے اب میری خود نوشت اسی معنی خیز نام سے منظر خاص پر رو نما ہو گی۔اب ہر جگہ اس خود نوشت کی رو نمائیاں ہوں گی۔ اب صرف آخری لفظ درکار ہے اس کے بعد میری خود نوشت چھپنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اپنی اس خو دنوشت کاآخری لفظ لکھوانے کی تمنا نے مجھے در بہ در اور خاک بہ سر کر دیا ہے ۔ کوئی بھی شخص اس خود نوشت کاحرفِ آخر لکھنے پر آمادہ نہیں۔آج اس مقصد کے لیے میں قلم ،قرطاس اور مسودہ تھامے تمھارے گھر جا رہا تھا۔میں نے اس ابلہ پیرِ تسمہ پا سے نجات حاصل کرنے کے لیے کہا:
’’صلاح کار کجا و من خراب کجا۔اب یہ کون جانتا ہے کہ ایسی خود نوشت کی رو نمائیاں اپنے ساتھ جگ ہنسائیاں اوررُو سیاہیاں بھی لاتی ہیں جو ہر سارق اور چربہ ساز کے لیے نوشتۂ دیوار ہیں۔‘‘
میری بات اس کے سر سے گزر گئی ، وہ کب ماننے والا تھا اس نے اپنی خود نوشت ’’مت اہل ہمیں جانو ‘‘ کا مسودہ مجھے تھما دیا اور اپنی راہ لی۔
میں بوجھل قدموں سے گھر چلا آیا اورسوچنے لگا کہ اس جہالت نشان نے کس قدر خاک چھان کر اس مقام تک رسائی حاصل کی ہو گی اور کتنے لوگوں کی محنت کو خاک میں ملانے کی مذموم کوشش کی ہو گی ۔اس شش و پنج میں مبتلا گھر پہنچا اوریہ سوچ کر دِل کو تسلی دے لی کہ فارغ وقت میں یہ بے سروپا باتیں پڑھ کر تزکیہ ٔ نفس کی ممکنہ صورت پیدا ہوسکتی ہے ۔
اگلے روز کرگس ژولیدہ کی خود نوشت ’’مت اہل ہمیں جانو‘‘ کے مسودے پر نگاہ ڈالی تو پل پل دیکھنے سے جو کچھ پلے پڑا اس سے یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ سارق نے اپنی نا اہلی کا جس طرح بر ملا اعتراف کیا ہے وہ بر محل ہے ۔مسودے کی ورق گردانی کے بعد میرے دل کی جو کیفیت تھی وہ ناقابل بیان ہے آئیے کچھ پل آپ بھی اس کیفیت سے گزر کر دیکھیں:
’’مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میرے اسلوب کا کھنڈر چربہ،سرقہ،کفن دُزدی اور جعل سازی کی اسا س پراستوار ہے۔سو پشت سے میرے آبا نے خر خواری،مے خواری،خوںخواری اور ہر قسم کی ذلت و خواری کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔چربہ سازی کوئی آسان کا م ہر گز نہیں یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک ایسا پھندا ہے جو ہاتھی کے منھ سے نیشکر چھین کراس کی گنڈیریاں بنا کر مزے سے چُو سنے جیسا ایک جوکھم بھراگورکھ دھندا ہے جس کا آج کل بہت مندا ہے۔میں اپنی حیات رایئگاںکی ورق ورق داستانِ پارینہ کا یہ خزینہ بِن مول حرف حرف بیان کر کے اپنے جی کا زیان کرنے پر تُل گیا ہوں۔اب اس خود نوشت کی خواندگی کے بعد اس کا مطالعہ کرنے والے کی پریشاں حالی اور درماندگی اورسرابوں میں سرگردان ہو کر بھگتنے والے عذابوںکے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہے گا۔
خامہ انگشت بہ چاہ زنخداںہے کہ اسے کیسے چکھا جائے ؟قوت ناطقہ کی خامی کا جو خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے وہ زندگی کی تمام رتیںبے ثمر کردیتا ہے۔ میں بچپن سے اپنی خود نوشت لکھ رہا تھا اور اپنی تسبیح روز وشب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت اسے خامہ ،خامی اور خمیازہ کے عنوان سے جمع کیا۔ اب یہ خرمن میری خود نوشت’’ مت اہل ہمیں جانو ‘‘ کی صورت میں سب کے سامنے ہے ۔ یہ خود نوشت ’’مت اہل ہمیں جانو‘‘دراصل میرے سہو قلم اور کردار کی محرومیوںکے باعث اٹھا ئے جانے والے نقصانات کا احاطہ کرنے والے تجربات،مشاہدات اور سانحات کا بیان ہے جس کا مطالعہ یقیناً باعثِ ہذیان و خلجان ہے۔اس کے با و جود میراتو یہی گُمان ہے کہ میری اس دریوزہ گری سے خرد کی چاک دامانی کی بخیہ گری کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔میری اس خود نوشت کے قاری اپنے فہم پر لگنے والی ضربِ کاری کے باوجود ہر قسم کی معرکہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اس آرا مارکہ خود نوشت پر کامل دھیان دے کر اسی ابلہ کے مانند گیان حاصل کر سکیں گے جو اپنی جہالت کا انعام پا کر پُھول کر کُپا ہو جاتا ہے۔عہدِ ماضی کی چشم کشا صداقتوں اور قبض کشا واقعات بیان کرتے وقت اکثر اس اندیشے سے دوچار رہا کہ کوئی میری بد روح قبض کر رہا ہے ۔اپنی جان پر گزرنے والے صدمات اور لرزہ خیز واقعات سے متعلق میری ہر تلخ یاد نے با لعموم قلب کی فریاد پر مبنی ایسی روداد کا رُوپ دھا ر لیا جس سے راہ گزر کے ہر کلب کو میر ی تضحیک ،تحقیر ،توہین اورجگ ہنسائی کا موقع ملا۔اس کے باوجود میں نے خود ستائی سے بچتے ہوئے خود غرضی سے ناتہ جوڑا اور مو قع پرستی کے عفریت کو بوتل میں اُتار کر دم لیا ۔اب تحسین نا شناس کی لخلخہ سائی ہی مجھے خواب ِ غفلت سے بیدار کر سکتی ہے۔ وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر کُڑھتے تھے وہ اب آنکھوں سے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں۔ہماری بزمِ جفا کے کریہہ زاغ وزغن یوں اُٹھ رہے ہیں کہ دِل بیٹھ گیا ہے۔کس کس کو یاد کروں اور کس کے سامنے فریاد کروں داد رسی کرنے والا ہی کوئی نہیں رہا۔بچھڑنے والے اس ادا سے گئے کہ سب رُتیں ثمر بار ہو گئیں۔
آہ! ٹُلا عطائی بھی کل شام ہماری بزمِ جفا سے منھ موڑ گیا اورزینہ ٔ ہ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔ ایک مرتبہ کسی مریض کو اس عطائی نے زائد المعیاداور مضرِ صحت دوا پلا دی جس کے نتیجے میں بد قسمت مریض چل بسا اور ٹُلا عطائی کو پا بہ جولاں زندان میںپہنچا دیا گیا جہاںاس کے طب کی تمام شورش کافور ہو گئی ۔جب یہ اسیر عطائی زنداں سے چُھٹا تونہ صرف اس کا مزاج بل کہ تکیہ کلام ہی بدل گیا ۔ رہائی کے بعد کااس کا تکیہ کلام کون بھول سکتا ہے جب بھی یہ ستم زدہ عطائی جڑی بوٹیوں مثلاً حنظل ،املتاس، اجوائن، کاسنی ،مکو ، ڈیہلے ،لسوڑی ،السی ،ہر مل ،سونف ،الائچی ، کلونجی یا سر بہ مہر مصنوعات کا کوئی ڈبہ بندمعجون یا شربت دیکھتا تو فورا ًچلاتا۔ ’’ خبردار!استعمال سے پہلے اس کی ایکسپائری اچھی طرح چیک کرلو‘‘ ۔اکثر گھریلو اشیائے ضرورت کی خریداری کے لیے خود بازار جاتا ۔ کئی بار دکان دار وں سے اس کی تلخ کلامی ہوجاتی مگر یہ چکنا گھڑا گالیاں کھاکے بھی کبھی بے مزانہ ہوتا ۔ ایک مرتبہ ٹوتھ برش ،کنگھا اور جوتا پالش کرنے والا برش خریدنے کے لیے طوطا مینابازارجا پہنچا ۔ اس بازار کی خاص بات یہ ہے کہ ہر دکا ن پر سیلز گرلز موجود ہیںجو خریدار کو چیزوں کی فر ضی اور من گھڑت خوبیاں بتاکر شیشے میں اتارنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ ضعف بصارت کا شکار اور بصیرت سے مکمل طور پر محروم ٹلا عطائی قریب کی عینک لگا کر ٹوتھ برش، کنگھے اورجوتا پالش کرنے والے برش کی پیکنگ کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھااور کچھ پڑھنے کی کو شش کررہا تھامگر کسی نتیجے پر نہیںپہنچ رہا تھا۔
ایک عیار کال گرل مصبہا بنو اور مقامی سیل گرل نے جب اس مسخرے کی ہیئتِ کذائی دیکھی تو مسکرانے لگیں ۔مصبہابنوکو محسوس ہوا کہ شاید یہ آبہ پا اس کاشیدائی ہے اوراُسے اپنے ساتھ لے جائے گا۔مصبہا بنونے جعلی مسکراہٹ اپنے منحوس چہرے پر بکھیرتے ہوئے کہا ،’’یہ آپ ہر چیز کی پیکنگ کو اس قدر توجہ سے کیوں دیکھ رہے ہیں ۔آپ ان ڈبوں پر کیا پڑھنے کی کوشش کررہے ہیں؟ کیاآپ کو ان اشیا کے جعلی ہونے کا شک ہے ۔‘‘
ٹُلا عطائی کفن پھاڑ کر گویاہوا ’’ میں کسی بازاری شفتل کو خاطر میں نہیں لاتا۔اشیا سے بڑھ کر ان اشیا کو فروخت کرنے والوں کی جعل سازی اور مکر نے زندگی کی سب رُتیں بے ثمر کر دی ہیں اس لیے احتیاط مقدم ہی میری زندگی کا اصول ہے اس سلسلے میں بحث فضول ہے ۔میںتمام مصنوعات کی ایکسپائری دیکھ کر خریدنے کا عادی ہوں ۔میں نے اس راہ میں بہت صدمے اور دُکھ اُٹھائے ہیں ۔ان تلخ تجربات کے بعد اب میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا ۔کیاتمھیں میری یہ بات قبول ہے ؟‘‘
یہ سُن کر سیل گرل اس متفنی کی محتاط طبیعت سے اس قدر مبہوت ہو گئی کہ اُس نے بھی ٹوتھ برش، کنگھے اور جُوتا پالش کرنے والے بُرش کی پیکنگ کو بڑے دھیان کے ساتھ اُلٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیااور نہ جانے کس جہاں میں کھو گئی ،پھر مسکراتے ہوئے بولی:
’’ ایکساپئری کی جانچ پرکھ کی آپ کی عادت نے مجھے بہت انسپائر کیا ہے ۔سچ ہے ظروف کو کبھی بھی ظرف کا پیمانہ نہیں سمجھنا چاہیے۔کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے۔نا معلوم کس موڑ پر کوئی چیز ،ناتہ یا اس سے وابستہ یاد ایکساپئر ہو جائے ۔‘‘
دکان کا جہاں دیدہ اور گُرگِ باراں دیدہ مالک اپنی نوعیت کے اس انوکھے معاملے کی تہہ تک پہنچ چکا تھا ۔ وہ فورا ًایک فائل اٹھالایااور بولا’’ ہمارے ہاں کل ہی یہ سارا تازہ مال آیا ہے اس کی ایکسپائر ی کو ابھی پُور ایک ہفتہ باقی ہے‘‘ یہ سننا تھا کہ ٹُلاعطائی خوشی سے پھولا نہ سمایااور فی الفور اپنی مطلوبہ یہ سب اشیا خرید لیں اور وہ جاتے ہوئے کہنے لگا۔’’میں جب بھی کوئی چیزخریدتا ہوں پہلے اس کی ایکسپائری چیک کرتا ہوں یہی میری زندگی کا طریقہ ہے ۔ ‘‘حیف صد حیف ہر چیز کی ایکسپائر ی کی تاریخ چیک کرنے والا ٹلاعطائی اپنی ایکسپائری کی تاریخ سے لاعلم نکلا ۔ 29فروری سال 2000کی شام بھنگ کے نشے میں ٹُن قحبہ خانے سے نکل کر بے خودی اور سرشاری کے عالم میں تیزی سے قمار خانے کی جانب جارہا تھاکہ ایک کھلے مین ہول میں جاگر ا اور دنیا سے منہ موڑ کروہیں دم توڑدیا۔ہر چار سال کے بعد اس کی برسی پر سب عطائی اکٹھے ہو کر اس کی یاد میں سرودِ عیش گاتے ہیں۔
کرگسِ ژولیدہ اکثر کہاکرتا ہے کہ میرا اشہب خامہ جب جامہ ٔ ابو جہل میں ملبوس ہوکر اپنی جولانیاںاور طغیانیاں دکھاتاہے تو یہ انا اور عزتِ نفس کو پچھاڑ تا ، تخلیقی بھرم کو لتاڑتا ، لفظ کی حرمت کو رگیدتا،مکر ،فریب ،عیاری ، دغا،فریب،پیمان شکنی اور بے وفائی کے ستم اُٹھانے والوں کے زخموں کو کریدتا اور ان پر نمک چھڑکتا شدید بے رحمی سے چیختا اور چنگھاڑتا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔اس کی لاف زنی سُن کر باطنِ ایام پر نگاہ رکھنے والے یہی کہتے ہیں:
’’ یہ تواپنے اپنے ظرف کی بات ہے ۔بعض لوگوںکا کچھ بھی نہیں لُٹتا پھر بھی وہ امداد طلب کرنے کی ہوس میں ڈوبے دُم ہلاتے اور سر نِگوں ہو کر کشکول تھا مے قصر فریدوں، ایوان جمشید اور در کسریٰ پر صدا لگاتے پھر تے ہیں اور ان کھنڈرات میں پائی جانے والی حنوط شدہ لاشوں سے اپنے گھٹیا ذاتی مفادات کی بھیک مانگتے ہیں۔ در بہ در اور خاک بہ سر پھرنے والے یہ موذی و مکار درندے کُوڑے کے ہر ڈھیر کوسُو نگھتے پھرتے ہیںکہ کہیںسے تو مفاد کا کوئی استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے کو مل ہی جائے گا۔ جب کہ کچھ لو گ ایسے بھی ہو تے ہیں کہ آلا م روزگار اور سیلِ زماںکے مہیب تھپیڑے ان کا سب کچھ بہا لے جا تے ہیںمگر وہ ہو ائے جور و ستم میں سر اٹھا کرچلتے ہیںاور اپنا ساغر نگوں کر دیتے ہیں۔ اپنی خودی کے یہ نگہبان سر نگوںہو نے کے بجا ئے وہ سا غر کو نگوں کر کے راحت و عافیت کے احساس سے سرشار ہوتے ہیں۔کرگسِ ژولیدہ کاشمار پہلی قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے۔‘‘
کرگس ژولیدہ کی یہ خود نوشت ’’مت اہل ہمیں جانو‘‘ منتشرفرسودہ اور بوسیدہ خیالات پر مشتمل انوکھی تحریروں کا مجموعہ ہے۔اس خود نوشت کے مسودے پر ایک سر سر ی سی نگاہ ڈالنے سے مسودہ گِریہ ،فریاد اور آہ و زاری کرتے ہوئے بِلک بِلک کر کہتا ہے کہ وہ خود نوشت نہیں بل کہ ایسی خودزِشت ہے جس میں دشنام ہی اساسی خِشت ہے۔سارق نے اپنی خود نوشت کا آغاز اس عنوان سے کیا ہے : ’’زیست کا پچھلا پہر اور کتاب کا پہلا پہرہ‘‘
’’ ایک خود ساختہ تخلیق کار کی حیثیت سے مشاہیر کی کسی مقبول تخلیق کو زیرو زبر کر کے پیش کرتے وقت میرا آزمودہ حربہ صرف چربہ ہی ہے جب کہ سرقہ کی خاطر میں محقق کا خرقہ اوڑھ لیتا ہوں۔میں نے چربہ سازی کو بھی جفت سازی کا رُوپ دے رکھا ہے۔ میرے کئی خفاش منش ساتھی میری کفش سازی پر اش اش کر اُٹھتے ہیں۔جب کہ میرے حاسد اس فکر میں رہتے ہیں کہ وہ یہ کفش مو نج کی رسی میں پر وکر میری گردن میں ڈال کر گلشن ہستی کی ہر ڈال پر موجودچغد کے آ شیاں کو تہس نہس کر دیں۔ سچ تو یہ ہے کہکہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ اکٹھاکرنے کے بعد اس عاجزکرگسِ ژولیدہ نے اپنا تخلیقی کنبہ جوڑا ہے اور اس راہ میں حائل چٹانوں سے اپنا سر پھوڑا ہے ۔میں نے ہمیشہ ڈیڑھ اینٹ کا اپنا الگ گرجا کھڑا کرنے کا جتن کیا ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ دو چربہ سازوں میں ایک جائز تخلیق حرام ثابت ہوتی ہے ۔ عالمی ادب کے نبض آشنا محققین کے خیال میں یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ بزمِ ادب میں ہرسارق کی فکری جولاں گاہ چوری ،سینہ زوری ،دیدہ دلیری اور ہیرا پھیری ہی قرار پاتی ہے۔میری سرقہ بازی اور چربہ سازی کے سوتے محض میری جسارت سارقانہ اور خست مجنونانہ سے نہیں پُھوٹتے بل کہ اس خیانت مجرمانہ کے لیے مجھے بہت جتن کرنے پڑے۔نام و نمود اورسستی شہرت کی تمنا مجھے در بہ در اور خاک بہ سر دیس بدیس کے ہر شہر کے کوچہ و بازار میںلے گئی۔ میں ہفتے کی شام راجہ بازار جاتا جہاں کے لُنڈے بازار سے ایک اوور کوٹ اُچک لیتا۔ہر اتوار کو میں علی الصبح چاندنی چوک جا پہنچتا جہاں ردی بازار سجتے تھے۔ دیمک خوردہ اور قدیم کتابوں کے یہ بازار مری روڈ تک پھیلے ہوتے تھے۔یہاں فٹ پاتھ پر دو فرلانگ تک پھیلی ہوئی کتابوں کی عارضی دکانوں سے اپنے مطلب کی کتابیں اسی کوٹ میں چھپا کر اپنی راہ لیتا ۔ میری اس جرأت ِ رندانہ سے نہ ہینگ لگتی اورنہ ہی پھٹکڑی بل کہ اس طرح رنگ بھی اس قدر چوکھاآتا کہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی بات بھی عام آدمی کی سمجھ میں آ جاتی۔‘‘
کرگسِ ژولیدہ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ ابن الوقت مسخرہ نو نقد نہ تیرہ اُدھار پر یقین رکھتا ہے ۔اس لیے با لعموم تین پانچ کرنا اس کا وتیرہ ہے جب کوئی اس متفنی کو آئینہ دکھائے اور اسے منھ کی کھانا پڑتی ہے تو یہ آناً فاناً وہاںسے نو دو گیارہ ہو جاتا ہے ۔ قدیم مخطوطات ،کرم خوردہ نایاب کتب اور پُرانے رسائل کی ورق گردانی کر نے کے بعدجو کچھ اس کے پلے پڑتا ہے وہ اسے الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اب تک نہ صرف منوں کاغذ کالے کر چکا ہے ساتھ ہی اس چربہ اورسرقہ سے ر وسیا ہی بھی اس کا مقدر بن گئی ہے ۔سب سے بڑھ کر اس کی رومان پسندی کے چرچے ہیں۔ بعض محتاط لوگ اس مشکوک نسب کے درندے کو اجلاف و ارذال اور سفہا کی اولاد سمجھتے ہیں اور سدااس موذی سے دُور رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ کرگسِ ژولیدہ کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ یہ بچپن ہی سے خود ستائی کے عارضے میں مبتلا ہے ۔ عالم ِ شباب میں اس کی ایک لندن پلٹ فلسفی آسو بِلا اور اس کے ہم زلف زادو لُدھڑ سے گاڑھی چھنتی تھی ۔شہرکا بد نام جیب تراش رنگو بھی ان کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھا۔جرائم پیشہ درندوں کے اس تین کے ٹولے کاہرفرد بڑ بولا تھا اور اپنے منھ میاں مٹھو بننے کے خبط میں مبتلا تھا ۔ اپنی بے غیرتی، حریصانہ رومان پسندی ،جنسی جنون ،ضمیرفروشی اور حسن پرستی کے بارے میں یہ تھوتھا چنا جس بے ڈھنگے انداز میں گھنا باجنے میں مصروف رہا ہے اس کی جھلک اس کی اپنی خود نوشت میں دیکھی جاسکتی ہے :
’’میرے آبا کو ہیہات بھی کہا جاتا ہے ۔سو پشت سے ہمارے بزرگوں نے ہزیاں گوئی ، ہوس ،ہزل گوئی ،ہر جائی پن،ہرزہ سرائی،لوٹ مار میں ہر فن مولا ہونے،ہجر و فراق کی بھٹی میں جلنے،انتہائی مہلک ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ ، آبرو ریزی ،ہتیا کرنے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا بیٹھے رہنے کے باعث ہر راہ گزر کی خاک چھانی ۔مظلوموں کی ہائے ہائے نے سدا میرا کا تعاقب کیا مگر میں نے کٹھن حالات میں بھی کبھی دِل بُرا نہ کیا ۔میں اور میرے جنسی جنونی ساتھی اور سارے چکنے گھڑے بے خطروادیٔ جنس و جنوں میں دیوانہ وار محو خرام رہے ۔جنس جنون کی لت میں مبتلا ہو کر میں نے سب کچھ تج دیا یہاں تک کہ ہیرا منڈی میں مغنیاؤں، رقاصاؤں اور طوائفوں کابھڑوا بن گیا ۔یہاں میرا واسطہ ظلو ،صبوحی،پُونم،روبی،شعاع اورکنزی جیسی بد نام طوائفوں سے پڑا۔ان رذیل جسم فروش طوائفوں نے میری توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کر کے مجھے خود اپنی نظروں میں گِرا دیا ۔اس کے باوجود میں ان رسوائے زمانہ طوائفوںکی گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوتاتھا ۔اس کا سبب یہ تھا کہ پرانے بھڑوے یہی کہا کرتے تھے کہ دودھیل گائے کی لاتیں بھی بھلی ہوتی ہیں۔ان سب جسم فروش طوائفوں نے مجھے جنسی جنون، سٹے بازی، منشیات اور شراب کی لت میں مبتلا کر دیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں ایک ایسی متعفن دلدل میں دھنستا چلا گیا جس سے زندگی بھر باہر نہ نکل سکا ۔ سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا ان بے غیرت ،بے ضمیر اور رذیل جسم فروش طوائفوں نے میرا پلیتھن ہی نکا ل دیا۔ حسن و رومان اور جنس و جنوں کے اس جوئے میںسب کچھ ہار گیا آج جب پلٹ کر ماضی کی جانب دیکھتا ہوں تو آ نکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی ہے اور دِل خوں کے آ نسو روتا ہے ۔ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں جب تصورِ جاناں کرتا ہوں تومیرے دِل کے سب ارماں آنسوؤں اور آ ہوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔حرص و ہوس نے مجھے سبزہ ٔنو دمیدہ کے ما نند سر اُٹھاتے ہی پامال کر دیا۔ جھوٹی وفاداری اور تصنع پر مبنی غم خواری دکھانے والی اپنی جعلی او رٹِڑ مو نھی مونس نائکہ سے یہی کہتا ہوں کہ تمھاری مثال اس ٹھکرائن کی ہے جو تیلی کے بیل کی ہلاکت کے بعد اپنے ستی ہونے کی باتیں کیاکرتی تھی ۔ آہ! اپنے عہد شباب میں ہیرا منڈی کی یہ سب طوائفیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے رونقِ بزم اور شمع محفل تھیں ،اب اس حال کو پہنچ گئی ہیں کہ اب انھیں مانگنے پر کہیں سے بھیک بھی نہیں ملتی اور وہ اپنی موت کی طلب گار ہیں لیکن ان کی موت بھی نہ جانے کدھر مر گئی یہ سسک سسک کر زندہ در گور ہیں۔ غم ِ دوراں سے ہزیمت اُٹھانے کے بعداپنے جنس و جنوں کے وہ سب افسانے جن کے وجہ سے میں اس دنیا کے آئینہ خانے میںتماشا بن گیا اس خود نوشت میں زیبِ قرطاس کر رہا ہوں۔ طلوعِ صبحِ خزاں کے بعدظاہر ہے زندگی کی شام ہوتی ہے۔میری حیاتِ رائیگاں اسی انداز سے بیت رہی ہے اور میں بندِ قبا سے بے نیاز زینۂ ایام پر ناک رگڑتا وقت کی تہہ میں اُترتا چلا جا رہا ہوں ۔عالمی کلاسیک کا مطالعہ کرتے وقت جو پُھول مجھے اپنی عطر بیزی سے مسحور کر تا ہے میں اُسے کے رنگ چُرا کر اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہوں اور اس طرح قارئین کی آ نکھوں میں دُھول جھو نکتا ہوں ۔‘‘
کبھی کبھی قارئینِ ادب کے دِل میں یہ خیال آتا ہے کہ دریائے سخن کی ہر موج کے ہونٹوںایسے جعل سازوںکی چربہ سازی کے فسانوں کا احوال تڑپتا اور تلملاتا گزر جاتا ہے۔موجِ خیال جب ان کی بد مستی کی بھیڑ چال دیکھتی ہے تو ان کی بد رنگ اور بیزار کُن طبع کی خارافشانی زنگ ،بد بُو اورزشت و غیبت کے تمام ہیولے اپنے عفونت زدہ دامن میںسمیٹے بلائے نا گہانی کی صورت میں فکر و خیال پر سوچ کے متعدد نئے رُوپ سامنے آتے ہیں۔اس سارق کی کذب و افترا سے آلودہ زہر افشانی ایک ایسا المیہ ہے جس کے مسموم اثرات نے معاشرتی زندگی کا تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے ۔ اس رسوائے زمانہ کذاب کا خیال ہے کہ اس کے جہان ِسرقہ سے سرسری گزرنا محال ہے ۔اس خود نوشت میں ہر مقام پر جعل سازی اور کفن دُزدی کے مضحکہ خیز نمونے اور جہانِ دیگر کی تلاش میںان ہونی وارداتیں ،بے سروپا باتیں، مذموم گھاتیں اور من گھڑت چٹکلوں کی بساند آلود سوغاتیںقاری کے فکر و خیال کے سلسلوں کو تلپٹ کرکے رکھ دیتی ہیں۔یہ خود نوشت کیا ہے ایک مجموعۂ کِذب و افتر ا ہے،بے سروپا لاف زنی پر مبنی بے وقت کی صدا ہے ،مافوق الفطرت عناصر کی بے ربط اور ناقابل یقین باتوں کی بخیہ گری کی ایسی نوحہ گری ہے جسے پڑھ کر ہر شخص کے لبوں پر یہی فریاد ہے کہ کون سی اُلجھن کو اب سلجھانے کی سعی کی جائے۔ مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اب خم ٹھونک کر گلشنِ ادب میں گھس گیا ہے وہ اور اس کے ہم نوا سفہا جن میںلفاظ حشرات ادب شامل ہیں اپنے حاسدوں کو آئینہ دکھائیں گے اور وہ سب منھ کی کھائیں گے۔اس خودنوشت کے ذریعے وہ اپنے آبا کی زندگی کے واقعات کو کنج خمول سے نکال کر دم لیں گے۔ اس خود نوشت کے مصنف کے لبوں سے خذف،آنکھوں سے شِپر ،گویائی سے زاغ ،رفتار سے خر اور گفتار سے بُوم بھی خجل ہے ۔اس سبز قدم کی ایک جھلک دیکھتے ہی کرگس ،چُغد،روباہ،مارِ سیاہ ،عقرب اور گُرگ شرم کے مارے چُھپ جاتے ہیں۔اس خودنوشت کے چند انداز پیش ہیں:
’’سہہ رہا تھا سم نہاں کا عذاب
آج تم یاد بے عتاب آئے
آنجہانی پتا جی گھسیٹا بیابانی کا نام شکاریات کی شُد بُد نہ رکھنے والوں کے لیے یقیناً تعارف کا محتاج ہے۔ آ نجہانی پِتا جی کو جب سے ذوق شکار تھا اُنھیں حرص و ہوس اور نمود و نمائش ہی سے سروکار تھا ۔ اکثر غلیل سے جنگلی سور، شیر ، چیتے ، ہاتھی اور بھیڑ یے مار گراتے۔ کئی بار نیل گائے اور دریائی گھوڑا پکڑ کر لائے۔ شکار کے جانوروں سے پِتا جی اپنے احباب کی پُر تکلف ضیافتیں کیا کرتے تھے۔ ایک صدی قبل کی بات ہے دسمبر کا مہینا تھا سردی پورے جو بن پر تھی ۔ حسبِ معمول پتا جی منھ اندھیرے غلیل لیے شکار کو نکلے ۔ان کے شکار پر جانے کی بِھنک پڑتے ہی مفت خور لیموں نچوڑ لوگوں کے منھ میں پانی بھر آتا۔کسی نے دانا نے سچ کہا ہے کہ لوبان سُلگا اور مُردے آ ئے۔اِدھر پِتا جی غلیل لے کر جنگل کی سمت روانہ ہوئے اُدھر مفت کی دعوت اُڑانے والوں نے چُولھے پر بڑی دیگ میں مر چ مصالحے اور سات بالٹیاں پانی ڈال کر رکھ دیا اور نیچے دھیمی دھیمی آگ بھی سُلگا دی تاکہ جوں ہی شکار آئے اسے فوراًکھولتے ہوئے پانی میں جوش دے کر اس کی یخنی اور شوربا تیار کیا جائے اور اسے پی کر سردی کی شدت کا مداوا کیا جا سکے ۔شام کے سائے ڈھلنے لگے اس روز پتا جی کے ہاتھ کوئی شکار نہ لگا ۔ وہ شکاری جس نے سیکڑوں سنگ پُشت ،خار پُشت اور کنڈیالے چُوہے اپنے پیروں تلے کچل ڈالے اس روز بھوک اور پیاس سے نڈھال پاؤ ں گھسیٹتا ہوا خالی ہاتھ گھر لوٹ رہا تھا۔وہ اسی سو چ میں گُم تھے کہ پہلے ہی لوگ انھیں خرِ نا مشخص قرار دیتے ہیںآج کی دعوت اگر نہ ہو سکی تو نفرتوں اورحقارتوں کی آگ کو مزیدہوا ملے گی اورخاکی انڈوں سے چوزے برآمد ہونے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ یاس و ہراس اور خوف کے عالم میں پِتاجی دِل تھام کر گھر لوٹ رہے تھے کہ اچانک کریروں کے ایک جھنڈ میں پِتاجی کو پدی کا ایک گھو نسلہ دکھائی دیا۔پتا جی نے دیکھا کہ ایک پدی اپنے گھونسلے میں گھسی اور پھر باہر نہ نکلی ۔ پہلے تو پِتا جی نے جی بھر کر کریروں سے سرخ ڈیہلے توڑ کر کھائے ساتھ ہی پدی کے گھونسلے پر نگاہیں مرکوز رکھیں۔ اس اثنا میںپتا جی نے اس حسین منظر اور اس کے پس منظر کو غور سے دیکھا ۔ کریروں کی جواں سال ٹہنیوں پر ڈیہلے کے پھولوں اور پھلوں کے بُندے سجے تھے ۔پھولوں اور پھلوں نے شاخوں کو نگینہ نگینہ زرنگار بنا دیا تھا۔ سب سے پہلے تو انھوں نے جی بھر کر پیلوں اور ڈیہلے کھائے ۔اس خاردار صحرا میں وہ سنجاونا کے پھول اور پھلیاں اورلسوڑیاں پہلے ہی توڑ کر اپنے تھیلے میں ٹھونس چکے تھے ،ان کا اچار وہ شوق سے کھاتے تھے ۔پِدی کا گھونسلے سے باہر نہ نکلنابہت اچھا شگون تھا وہ دبے پائوں آگے بڑھے اور انھوں نے گھونسلے میں داخل ہونے کے لیے بنائے گئے سوراخ کو ہاتھ سے بند کر دیا۔ گھونسلے میں محبوس پِدی اس بلائے نا گہانی کو محسوس کر کے پھڑ پھڑانے لگی اور اس کے سارے ا نڈے ٹُوٹ گئے۔آشیانے میں موجود پدی کی بیٹ اور انڈوں کے اس بہتے ہوئے ملغوبے کو پِتا جی نے اپنی زبان سے چاٹ کر نگل لیا یہی ان کی مرغوب غذا تھی۔اپنے بچپن ہی سے وہ صحرا نوردی کے دوران چڑیا،فاختہ ،طوطے ،پپیہاِ ،بُوم ،کرگس ، کوئل اورطیور ِآوارہ کے انڈے ان کے آشیانوں سے بے خوف ہو کر اُٹھاتے اور بے دریغ پی جاتے۔جب بڑے ہوئے تو انھوں نے ایک خود سا ختہ نسخہ ایجاد کیا جسے وہ ’’ما اللحد ‘‘ کا نام دیتے تھے۔اس شربت میں وہ کچھوے ،کرگس،چغد ،کوّے ،چیل، چڑیا،فاختہ ، طوطے اور بلبل کے انڈے ملا دیتے تھے ۔ پتا جی نے چھوٹے سے آ شیانے کوزور سے دبایا اور پدی نے دم توڑ دیا ۔پتا جی نے پِدی کی گردن مروڑ دی اور اپنے لمبے اور نوکیلے ناخنوں سے اس کی کھال ادھیڑ کر آ نتیں باہر پھینک دیں اور اپنے اس اکلوتے شکار کو اپنے شکار والے بڑے تھیلے میں ڈال کر گھر روانہ ہو گئے ۔ اچانک ایک دُکھی ممولا کہیںسے اُڑتا ہوا آیا اور پِتا جی کے سر پر منڈلانے لگا اور نیچی اُڑان بھر کر اپنی دیرینہ آشناپِدی کے نہ ہونے کی ہونی اور اس کی آشیاں بربادی پر گہرے رنج و کرب کا اظہار کرنے لگا۔ممولے کی اس حرکت کو دیکھ کر پِتا جی نے اپنی غلیل سنبھالی ،اس میں غُلّہ ڈالتے ہوئے کہا پِدی تو اپنی آئی مر گئی مگر اے مُورکھ ممولے تو کیوں مرنے پر تُل گیا ہے ۔یہ دیکھتے ہی ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کے سب پیمانِ وفا توڑتے ہوئے ممولے نے کسی اور پدی کی تلاش میںلمبی اُڑان بھری اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ رات ہو چُکی تھی مفت کی دعوت اُڑانے والے سب لوگ مایوس ہو کر اپنے اپنے گھروںکو سُدھارچُکے تھے ۔جوں ہی پتا جی گھر پہنچے انھوں نے پدی کو دیگ میں ڈال دیا اور نیچے آگ تیز کر دی ۔پتا جی کی آمد کی خبر سن کر ساری خلقت دوڑی آئی۔دیگ پر بڑا ڈھکن رکھا تھا اور پتاجی کے چہرے پر شکار کی فتح اور کامرانی کی لہر دوڑ رہی تھی ۔ حسب ِ معمول اپنے اپنے کاسے ہاتھوں میںتھامے سب مفت خور دیگ کے قریب جمع ہو گئے ۔اب شوربے کی تقسیم کے مرحلے کا آغاز ہو اپتا جی کی دریا دلی سے جلد ہی سب کے کاسے گرما گرما شوربے سے لبریز ہو گئے ۔سب بِن بُلائے مفت خور مہمان عالمِ شوق میں غٹا غٹ شوربا پی رہے تھے او ر نئے شکار کی یخنی اور شوربے کی اس کی انوکھی لذت اور منفردذائقے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ایک چراغِ سحری شخص نے پِتا جی سے نہایت رازدارانہ انداز میں یہ استفسار کیا :
’’ آج اس شدید سردموسم میں یہ کس طائر آوارہ کی یخنی تیار کی گئی ہے ؟ جس نے بے حسی کے شکار قلب پریشاں کو نئی تمازت سے آشنا کیا اور مُردوں کے ساتھ شرط باندھ کر سوئی ہوئی خوابیدہ روح کو جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کے نا قابلِ یقیں احساس سے سرشار کر کے مجھے خود اپنی نظروں میں شرم سار کر دیا ہے ۔ میں نے اپنی نوے سالہ زندگی میں آج تک اس قدر خوش ذائقہ شوربا کبھی نوشِ جاں نہیں کیا۔اس وقت میرے ساغر میں موجود شوربے کے ہر گھونٹ میں خمار کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اوردیگ کے سارے شوربے میں شراب کی تاثیر پیدا ہو گئی ہے ۔ آج تو شوربا نوشی بھی شراب نوشی کی تاثیر کی حامل ثابت ہو رہی ہے ۔جی چاہتا ہے کہ شوربے کے تین چار مزید کاسے پینے کے بعد وجد اور مستی کے عالم میں بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر خوب دھما چوکڑی اور شور شرابا مچایا جائے۔‘‘
پتا جی نے اس بُوڑھی کھوپڑی کے عالم شو ق اور ممنو نیت کے جذبات کومحسوس کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا’’ وقت کا یہ حسین ستم کبھی بھلایا نہیں جا سکتا کہ جب تمھیں مضبوط دانت میسر تھے تو اس وقت سفید و سیا ہ چنے دستیاب نہ تھے آج ہر رنگ اور ہر ڈھنگ کے مزے دار چنے ،پُھلے ،بُھٹے اور مرنڈے بہ افراط موجود ہیں مگر اس عالم ِ پیری میں دانت تمھارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔آہ! حالات نے تمھیں سوزنِ خیاط بنا دیاہے کبھی تمھیں مخمل میں ٹاٹ کاپیوند لگانا پڑتا ہے تو کبھی بوسیدہ گلیم کی رفو گری کرتے وقت کتان اور زربفت کو بوسیدہ چیتھڑوں میں گانٹھنے کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے ۔آج یہاں اس دعوت میںشریک ہر شخص کے کشکول میں پدی کا شوربا موجود ہے جسے تم سب بن بلائے مہمان بڑے شوق سے پی رہے ہو ۔ اتنی بڑی دیگ میں پدی کے تازہ اور گرما گرم شوربے کا سمندر اُبل رہا ہے جس میں سے کسی بھی پیاسے کو تشنہ لب نہیں رہنے دیا جائے گا ۔باسی کڑی میں اُبا ل اور چائے کی پیالی میں طوفان والی باتیں اب خیال و خواب ہیں ۔ اے میرے ہٹ دھرم اور ضدی دوستو! حقائق کو سمجھو سداپدی کا شوربا پیتے رہواور مسکر کر جیتے رہو ۔بے کار نہ رہو اگر کوئی کام نہ ہو تو پھر اپنے زیبِ تن کیے ہوئے کپڑے اُتار کر انھیں اُدھیڑ کر سیتے رہو ۔یوں ہی اُدھیڑ بُن میں خوش و خرم جیتے رہو اور سد ا پِدی کا شوربا پیتے رہو ۔تم نے میرا تیار کیا ہوا ’’ ما اللحد ‘‘ پیا ہوا ہے ۔یہ شوربا بھی اپنی تاثیر میں اپنی مثال آپ ہے ۔‘‘
بوڑھے نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا’’ واہ بھائی واہ ! تیری کیا بات تیرا کیا کہنا ۔کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا !‘‘گردشِ حالات نے یہ دِن دکھائے ہیں کہ وقت کے فراعنہ اور نمرودمہاراجہ گدھ کا روپ دھار کر فیل،اسپ، شتر،خر اور خرگوش تک نوچ گئے ہیں۔جب کہ سیل زماں کے تھپیڑے کھاتے کھاتے مجبور لوگ پِدی بن گئے ہیںجو ستم کشِ سفر رہتے ہوئے اپنے ہی ابنائے جنس پدیوں کا شوربا پی کر اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر رہ جاتے ہیں۔آج پدی کا لذیذشوربا پینے کے بعدیہ سوچ کربے اختیار آنکھو ں میںآنسو بھر آئے کہ مزے کے کھانے کھائے مُدتیں گزر گئی تھیں۔پدی کے اس شوربے نے تو بیتے دنوں کی یاد کو تازہ کر دیا۔واہ ! کیاپِدی اور کیا پِدی کا شوربا!‘‘
دعوت میں شریک ایک سو سے زائدمفت خور اور لیموں نچوڑ بن بلائے گُھس بیٹھیے مہمانوں نے تیسری بار اپنے کشکول پدی کے شوربے سے لبا لب بھروا لیے اور اپنی زبان سے اُنگلیاں اور ہونٹ چاٹتے ہوئے بہ یک زبان چیختے چلاتے ،ناچتے گاتے اور دندناتے ہوئے کفن پھاڑ کر بولے’’ ہم نے اس مطب سے اپنے مطلب کے لیے ’’ما اللحد ‘‘یعنی شربتِ شہ زوری جی بھر کے پیا ہے۔ شربت ’’ما اللحد ‘‘ سیر ہو کر پینے کے بعد جنس و جنون کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے جس میں ہوش و خردکا سارا سامان جل کر راکھ ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد ہر جنسی جنونی سگِ زمانہ بن کر کوچۂ محبوب میں دُم دبا کر غراتا پھرتا ہے ۔وہ ذائقہ اپنی جگہ خُوب ہے مگرآج تو پِدی کے شوربے کی لذت اور ذائقے کی بات ہی نرالی ہے ۔واہ کیا بات ہے ! کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربا !۔اب کچھ دم لے کر پدی کاشوربا پینے کا ایک اور دور ہو گا ۔اجی واہ! کیا خوب مزے کا یہ پِدی کا شوربا تیار ہوا ہے ۔ ایک پِدی اور سو رنگ کے مزے اور ہزار ذائقے ۔کیا پِدی اور کیا پِدی کا یہ خوش ذائقہ شوربا۔زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسا خوش ذائقہ پکوان کبھی تیار نہیں کر سکتا۔ آج اس یادگار ضیافت میںپِدی کا شوربا پی کر تو ہمیں اپنی اوقات یاد آ گئی ہے ۔‘‘
اس خود نوشت میں مصنف نے لذتِ ایذا حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اکثر مقامات پر مصنف کی خود ستائی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو خود اس کی جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہے۔اس تھوتھے چنے نے خود نوشت میں اپنے بارے میں اس قدر شور و غوغا مچایا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔مصنف کی ہذیاں گوئی دیکھتے ہوئے یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ احساسِ زیاں سے اس کا ذہن عاری ہے ۔ کہیں کہیں نا سٹلجیا کا عارضہ مصنف کی تحریر کو بُری طرح آلودہ کردیتا ہے ۔ وہ داد طلب نگاہوں سے قاری کی طرف دیکھتا ہے کہ اس کے ماضی کی تلخ و شیریں یادیں جب الفاظ کا روپ دھارتی ہیں تو اس کی اذیتوں اور عقوبتوں کو شمارکرنے میں وہ اس کی مدد کرے۔ اس کی آواز پر کوئی توجہ نہیں دیتا سب جانتے ہیں کہ انسان جو کرتا ہے وہ اس کا خمیازہ بھی اُٹھا تا ہے ۔اپنی زندگی کے شب و روز کا احوال بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے :
’’تیر اندازی بچپن سے میرا مشغلہ ہے ۔عشق کے سیکڑوں کاری نیم کش تِیرمیری پیٹھ میں پیوست ہوئے۔ دیدۂ جانا ں جب ناوک انداز ہوتے ہیں تو میں ہمیشہ نیم جاں سا ہو جاتا ہوں۔ واقفِ حال لوگ میرے بارے میں یہی کہتے کہ تیر نہیں تو تُکا ہی سہی ۔اس کے باوجود مجھے محبت اور چاہت بھری زندگی ایک ہلکا پُھلکا سا کھیل محسوس ہوتا ہے ۔ یہ ایک تلخ و تنداوردرشت حقیقت ہے کہ میں حسینوں کی ابرو کی کمان سے نکلنے والے پلکوں کے تیر نیم کش اپنے دل اور جگر پر سہنے اور نیم بِسمِل ہونے کے لیے اُدھار کھائے بیٹھا ہوں۔ مرے پتا جی گھسیٹا بیابانی کی ضیافتوں میںپیالے بھر بھر کر پدی کا شوربا مفت پینے والے احسان فراموش اور نمک حرام اکثر میرے بارے میں دشنام طرازی کرتے ہیں ۔کہ اس کے باپ نے تو کبھی پدی نہ ماری تھی اور اب یہ کرگسِ ژولیدہ تیرانداز بنا پھرتا ہے۔ ایسے غلط اور شر انگیزسوالات کا جواب کیسے دیا جاسکتا ہے؟پتا جی گھسیٹا بیابانی کو تو لوگ پدی شناس کہہ کر پکارتے تھے ۔ ہر پدی کو شیشے میں اُتارنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ اس کے علاوہ کئی چڑیلیں ، ڈائنیںاور آدم خور طوائفوں کی بدروحیںبھی ان کی اسیر تھیں ۔ہمار انشیمن کبھی خستہ حال کھنڈرات یادیمک خوردہ جنگلات کی مچانوںپر نہیںرہا بل کہ ہم نے پدی بن کر کریروں،حنظل ، تھوہر ، پوہلی اور زقوم میں بسیرا کیا۔ خودرو جنگلی جڑی بوٹیوں کی کلیاں ہمیں آنکھ بھر کر دیکھتیں اور جرس گل بھی ہماری اس نا معقولیت پر دل تھا م کر رہ جاتی ۔ بوم ، شپر ، چغد اور کرگس سدامیرے ہم نشیں اور ہم سخن رہے ۔ یہی طیورِ آوارہ سدا میرے رازداں اور ہم نشیںرہے ہیںاو ر میں ہمیشہ ا ن کا خوشہ چیں رہاہوں ۔چنیوٹ کے محلہ کمان گراں سے میں نے کمان اور ترکش تیار کرائی اور تِیرحاصل کرنے کے لیے کو ہ قاف کی تیرہ و تار وادیوں میںجا پہنچا ۔ یتر چلانے سے پہلے تَیر کردریا عبور کیا ۔میں نے سن رکھا تھا کہ یہ عشق بہت کٹھن مرحلہ ہے یہ آگ کا دریا ہے جسے تیر کر عبور کیا جاتا ہے۔ مجھے آگ کا دریا تو کہیں نظر نہ آیا ،حد تویہ ہے ستلج اور بیاس جیسے دریا بھی ریت کے ٹیلے بن چکے ہیں اور ان کے بہنے کا عمل اب ماضی کی داستان بن گیا ہے ۔ناچار مجھے شہر کے وسط میں واقع ایک گہرے اور عفونت زدہ گندے نالے کو تیر کر عبور کرنا پڑا۔ اس تجربے نے میری کایا تو نہ پلٹی البتہ بے تحاشا اُبکائیاں اور اُلٹیاں ضرور آئیں ۔ اب تو عشق کے ڈھنگ ہی بدل گئے ہیں جسے دیکھو وہ حسن کا متوالا ہے۔ کم سن بچے بھی اپنے تئیں فرہاد بنے پھرتے ہیں ۔وہ شِیر خوار جن کے ہاتھوں میں دودھ سے لبریز فیڈر کی توقع تھی اب وہ موبائل فون تھامے جامے میں پھولے نہیں سماتے۔اب تو ہر طرف فون پر ’’اور سنائو‘‘کی بے وقت کی راگنی سنائی دیتی ہے۔موبائل فون کا کاروبار چلانے والی تجارتی کمپنیوں نے ایسا پھندہ لگایا ہے کہ ہر عمر کے لوگوں کا دماغ چل بے چل ہونے لگا ہے۔ٹیلی فون کے سحر کے نو گرفتار شیدائی اپنا دِل جلانے اور بیلنس اُڑانے کے ایسے گورکھ دھندے میں الجھ گئے ہیں کہ اُنھیں کسی کروٹ چین ہی نہیں ملتا۔ جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے عشق کی قدیم ترین اقدار اور حسن و رومان کی صدیوں پرانی روایات کو تہس نہس کر دیا ہے ۔میں اب چراغِ سحری ہوں مگر میرے آٹھ عشروں پر محیط تجربات اور مشاہدات سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ وادیٔ جنس و جنوں کے آبلہ پا مسافر کی حیثیت سے میں نے خارزار راہوں کی جو دشت نوردی اور صحرا نوردی کی ہے وہ عشق کی تاریخ کا لرزہ خیز واقعہ ہے ۔میری حیات کا افسانہ پڑھنے والوں کو یہ باتیںعجیب معلوم ہوں گی کہ میرے عہدِ شباب میں قاصد کبوتر اور پیغام رساں زاغ و زغن پر انحصار کیا جاتا تھا ۔اب دنیا میں ایسی سر مستیاں کہاں ؟اب تو بھٹکے ہوئے لوگوں کی خر مستیاں عام ہیں ۔جسے دیکھو وہ موبائل فون،ٹیبلٹس ،لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کے سامنے پیکر عجز ونیاز بنا ویب کیم کے ذریعے گھنٹوںبے پر کی اُڑانے میں مصروف رہتے ہیں ۔اب وہ دِن گئے جب خلیل خان تنہا فاختہ اُڑاتے تھے۔سائنس و ٹیکنالوجی کی بلند و بالا اُڑانیں،ہجر ،فراق اور لمبی جدائی کے جان لیوا افسانوںپر مبنی الم نصیبوں کے درد انگیز نالوں کی لے پر اُڑنے والی تانیں اب کہاں ؟حسن و رومان کے اس زیاں کو دیکھ کر دوائے دِ ل بیچنے والے اپنی دکان بڑھا گئے اور اب اس شہر ِ نا پرساں میںتقدیر کے ماروں کی چشم ِ تر کو دیکھنے والا مونس ہجراں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
کرگس ِ ژولیدہ کی زندگی میں نشیب ہی نشیب ہیں کہیں بھی فراز دکھائی نہیں دیتے۔اپنی اس خود نوشت میں مصنف نے اپنی زندگی کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ داستان عبرت ہے ۔اپنی کاروباری مصروفیات کا احوال بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے :
’’ابراہیم لودھی کے زمانے میں ہمارے خاندان کے پاس بڑی بڑی جاگیریں تھیں۔ دولت خان لودھی نے جاہ و منصب اور دولت کی ہوس میں مبتلا ہو کر ارضِ وطن سے سنگین غداری کرتے ہوئے جب مغلوں کو بر صغیر پر حملہ آو ر ہونے کی دعوت دی تو مغلوں کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے طالع آزما ،مہم جُواور ابن الوقت دولت خان لودھی نے ہمیں ان جا گیروں سے محروم کر دیا ۔ہماری ان آبائی جاگیروں میں انواع و اقسام کی نباتات کی فراوانی تھی ۔جا لندھر کے نواح میں قصبہ حویلی میں ہمارے باغات تھے ۔ پانچ میل کے وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے ان باغات میں کوار گندل، کاسنی ،سونف، پو دینہ،دھنیاں ،اکڑا، دھتورا،پُٹھ کنڈا،الونک ،اکروڑی،تاندلہ،باتھو، ڈب ،کُندر، کسکوٹا،لانی،لیہہ،پوہلی،پاپڑا،تھوہر ،ہر مل ،سر کنڈا،حنظل، زقوم اور کریروں کے جھنڈ تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ان باغات میں بانس اُگائے جائیں۔اس زمانے میں بانس صرف بریلی شہر کے نواحی باغات میں اُگتے تھے۔قصبہ حویلی میں ہمارے بانس کے باغات خوب بڑھے اور بانسوں کی لمبائی تیس سے پچاس فٹ تک جا پہنچی۔بریلی کے بانس محض بیس فٹ لمبے ہوتے تھے۔اب ہم نے یہ بانس کٹوا کر بریلی بھجوانے کا فیصلہ کیا تو ہماری دُور اندیشی کی دُھوم مچ گئی۔ہر شخص یہی کہتا تھا کہ اُلٹے بانس بریلی کو اب یاد کرو گے تم حویلی کو ۔اس سے پہلے بریلی کے بانس مہنگے داموں بِکتے تھے جب بریلی کی بانس منڈی میںحویلی سے ہمارے باغات کے بانسوں کی فراہمی شروع ہوئی تویہ بات زبان زدِ عام تھی کہ اب بریلی کے بانس بِکیں گے دھیلی کو ۔آہ! یہ سب باغات اور بانس اب تو میرے لیے جب تک سانس تب تک کی پھانس بن گئے ہیں۔سب ٹھاٹ یہیں پڑا رہ جاتا ہے اور بنجارہ لاد کر عدم کی راہ پر چل نکلتاہے ۔
قیام پاکستان کے بعد ہم لوگ کالا باغ پہنچے اور اس علاقے کے سادہ لوح لوگوں کو سبز باغ دکھاکر رام کیا۔میں نے حالات کا رخ پہچان لیا تھا کہ اب یہاں وقت کے ایسے حاد ثے رونما ہو ں گے جنھیں کوئی
نام بھی نہیں دیا جا سکے گا ۔یہ بات بالکل درست نکلی اور جاہل بھی اپنی جہالت کا انعام پانے کی کوششوں میں منہمک ہوگئے ۔جب معاشرے میں بے حسی عام ہو جائے تو جامۂ ابو جہل میں ملبوس جہلااپنی چکنی چپڑی باتوں اور مکر کی چالوں سے اپنا اُلّو سیدھا کر کے اپنی جہالت کاانعام پا کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں ۔اس کے نتیجے میں عقابوں کے نشیمن زاغ وزغن کے تصرف میں آ جاتے ہیں۔میں نے ہوا کا رخ پہچانتے ہوئے اپنی ورق ورق زندگی کو سنبھالنے کی سعی کی۔چڑھتے سورج کی پرستش اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہمیشہ میرا وتیرہ ر ہا ۔ کون ہے جو دنیاوی مال و دولت اور جاہ و منصب کی تلاش میںکُوڑے کے ہر ڈھیر کو نہیں سُونگھتا۔میں نے بھی اسی روش کو اپنایا اور گوہرِ مراد پایا۔میں اور میرے عزیز و اقارب بانبی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہر مار اور عقرب کی کاسہ لیسی ،ستائش ،چاپلوسی اور خوشامد کا منتر ضرور پڑھ لیتے تھے۔ کہتے ہیں شکر خورے کو کہیں نہ کہیں سے شکر ضرور مل جاتی ہے۔میری قسمت نے یاوری کی اور میں نے کالا دھن کمانے کے مواقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔اہلِ جور ،ظالم اور لٹیرے سدا میرے شریک جُرم رہے اور میں نے ان کی آشیر باد سے اپنی تجوری بھر لی۔میرا باپ تو مداری تھا لیکن میری کم نگاہی نے مجھے بھنڈاری بنا دیا۔ میری کم نصیبی یہ رہی کہ میں نے اپنی زندگی میںجو زرو مال ہتھیایا وہ قحبہ خانوں ،نگار خانوں اور قمار خانوں میں رقص و سرود کی محفلوں میںبے دریغ لٹایا۔ فصلی بٹیرے دانہ چُن کر لمبی اُڑان بھر گئے، آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا ۔یہاں کے لوگ مجھے سبز قدم سمجھتے تھے اس لیے میں نے پری چہرہ ، مہ رُو، سبزے اور آب جُو کی تلاش میں لاہور کا رُخ کیا۔اس شہر کے شاہی محلے میں میرے کئی قریبی عزیز ڈیرے ڈال چُکے تھے۔
آج سے چالیس برس قبل کا واقعہ ہے ،میں لاہور میں نیا نیا پہنچا تھا اور اس شہر کے در و بام معمولاتِ صبح و شام سے آ شنا نہ تھا ۔جون کا مہینا تھا ،گرمیوں کی ایک چلچلاتی دو پہر تھی میں شاہی قلعے کے شیش محل میں گھوم رہا تھا اور ماضی کی حسین یادگاروںکو دیکھ کر جھوم رہا تھا ۔میں نے چشم ِتصور سے دیکھا کہ مغل بادشاہ اکبر شیش محل کے جھروکے سے جھانک رہا تھا ۔انار کلی کی چیخ پُکار سن کر میرا دل دہل گیا۔ انار کلی بازار سے آج بھی اس حسینہ کی مظلومیت کی داستان کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ کچھ دُور نو ر جہاں کی قبر ہے جہاں دن کے وقت بھی شب کی سیاہی کا سماں دیکھ کر انسان لرز ا ُ ٹھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی زنجیر عدل لٹکانے والا بادشاہ جہاں گیر آسودہ ء خاک ہے ۔مر مریں قبر کے اندر تہہ ظلمات اس کے جسم کو ملخ و مور کے جبڑوں میں دیکھا تو محبت بھری زندگی کے اس انجام پہ رونا آیا۔شہنشاہ اکبر کے جا ہ و جلال کے سامنے انار کلی کی مظلومیت جس طرح بے وقعت ثابت ہوئی اس کے تصور میں کھویا میں روتا ہوا شاہی قلعے سے نکلااور شاہی محلے کا رُخ کیا۔اچانک میری نگاہ ایک اجنبی شخص پر پڑی جو شکل سے پیشہ ور قاتل اور اجرتی بد معاش دکھائی دیتا تھا۔وہ چیتھڑوں میں ملبوس تھا اوروہ چوٹی سے ایڑی تک خون میںلت پت تھا۔اس کے دائیںہاتھ میں خون آلود نیزہ اور بائیں ہاتھ میں خنجر تھا جس سے خون ٹپک رہا تھا۔اس سفاک قاتل کی آنکھوں میںاُترے خون کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ درندہ ابھی انسانی خون سے ہولی کھیل کر اور کئی گھر بے چراغ کر کے یہاں پہنچاہے ۔اس نے آنکھ بھر کے مجھے دیکھااور میری طر ف بڑھا ہی تھا کہ خوف اور دہشت کی وجہ سے میری گھگھی بندھ گئی۔ اس وقت شاہی محلے کے کوٹھوں پر کھڑے ہر بھڑوے، نائکہ،طوائف ،مغنیہ اور رقاصہ نے یہ دہشت ناک منظر دیکھا لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔کوئی بھی میری جان بچانے کے لیے نیچے نہ اُترا۔ میں نے یاس و ہراس کے عالم میںقسمت سے محروم اس کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی جس نے بلی کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اپنی آنکھیں اِس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر بند کر لی تھیں کہ شاید بلی بھی اسے نہیں دیکھ رہی ۔اس کے بعد وہ کبوتر بلی کا لقۂ تر بن گیا۔ میں اپنی موت کوسامنے دیکھنے کے بعد اپنی آ نکھیں کیسے بند کر سکتا تھا۔میں نے اپنی تمام قوت کو مجتمع کیا اور سر پر پائوں رکھ کرلیڈی ولنگڈن ہسپتال کی طرف بھاگا۔میں نے مُڑ کر دیکھا تو میری چیخ نکل گئی کہ وہ قاتل مسلسل میرا تعاقب کر رہا تھا اور مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر پہنچ چکا تھا ۔جب میں آزادی چوک پر پہنچا تو میری سانس اُکھڑ گئی اور میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔میں زمین پر گر پڑا اب میرے اندر مزید دوڑنے کی طاقت نہ تھی۔قاتل اب میرے سرہانے کھڑا تھا ۔میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیراپنا سر قاتل کے قدموں میں رکھ دیا اور اپنی جان بخشی کی دست بستہ التجا کی ۔قاتل بھی شاید قتل کے آداب سے آگا ہ تھا اس نے مجھے اُٹھایا اور میرے کندھے کو تھپتھپا تے ہوئے کہا:
’’میں فاقہ کش بہروپیا ہوں ۔قاتل کا بھیس بنا کر اور خُونی ڈاکو کا سوانگ رچا کر میں بھیک مانگتا ہوں ۔یہ خنجر اور نیزہ سب کاغذ اورگتے کے بنے ہوئے ہیں۔ میں نے یہ تازہ خون ملتان روڈ پر واقع شاہ پور کانجراں کے مذبح خانے سے لیاہے اور اسی خون سے اپنے جسم پر بھبھوت مل رکھا ہے ۔ ڈرو مت اس وقت تم محفوظ اور سلامت ہو ۔تم بہت بُزدل اور احمق ہو۔اب میری مدد کرو میں تین دن کا بھوکا پیاسا ہوں۔‘‘
میری ہئیتِ کذائی دیکھ کر راہ گیر رُک گئے اور زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ ایک لڑکے نے مجھے سر جھکا کر کھڑے ہوئے دیکھا تو کہا:
’’جان بچی سو لاکھوں پائے ،اب یہ بُدھو اپنے گھر کو جائے۔‘‘
میں نے سب باتیں سنی ان سنی کر دیں، حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے اپنی جیب میں موجود اکلوتی چوّنی بہروپیے کی ہتھیلی پر رکھی اور سر جھکا کر بادامی باغ کی جانب روانہ ہو گیا۔میں دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا کہ اس بہروپیے نے تو مجھے سب لوگوں کے سامنے تماشا بنا دیا۔
جب مجھ پر بُرا وقت آیا تو اپنے بھی پرائے بن گئے سب لوگ بدل گئے اور کوئی مجھے منھ نہ لگاتا تھا۔ اس شہر کے سب لوگ مجھ صبح خیزیا سمجھ کر میرے سائے سے بھی بدکنے لگے۔دورِ زماں کی ہر کروٹ فریبِ سود و زیاں کی حقیقت کو واضح کرتی چلی جاتی ہے ۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ جاہ و منصب اوردولت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آلام روزگار کے پاٹو ں میں پِسنے والے قسمت سے محروم مفلس وقلاش لوگوں کو توہین ،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کے مہیب اور تلاطم خیز سمندر میں ڈبو کر ہلاک کرنا اس بے حس اور ظالم و سفاک معاشرے کا وتیرہ ہے ۔ میری رہائش بازار کے نزدیک ہے جب میں علی الصبح بازار سے گزرتا ہوںتو بازار کے کسی پوشیدہ گوشے سے کوئی نا معلوم شخص بلند آواز سے پُکارتا،پھنکارتا اور للکارتا ہے:
’’ بازار لگا ہی نہیں مگر سبز قدم اُچکے ،تلنگے،لُچے اور گٹھ کُترے ابھی سے آ دھمکے۔‘‘
میں نے کسی دانا سے یہ بات سُن رکھی تھی کہ بازار میں دی گئی گالی صرف اُسی شخص کو لگتی ہے جو مُڑ کر دیکھے کہ کمین گاہ میں بیٹھ کر دشنام طرازی میں کون مصروف ہے اور سنگِ ملامت کس طرف سے آرہے ہیں۔ میں اپنی دُھن میں مگن محتاط انداز میں سر جھکا کر چلتا ہوا گالیاں سُن کر بھی خاموشی سے آگے نکل جاتا ہوں۔جب تک میں پرائے ہاتھ پر شِکرا پالتا رہا خُوب گل چھرے اُڑاتا رہا ۔جس وقت میں حالات کی زد پر آ گیا تو کوئی میرا پرسان حال نہ تھا۔ابتلا اور آزمائش کی اس گھڑی میں مجھے آ ٹے دال کا بھائو معلوم ہوا۔ تخلیق ادب میں میرے ذوق سقیم کی قدر کرنے والا اب کوئی نہیں رہا۔ میرے ناقدین کی رائے ہے کہ میری سفاہت نے میری تحقیقی ثقاہت کا سفینہ غرقاب کر دیا ہے ۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ادب اور ثقافت کے معائر کو ذاتی عناد کی کثافت سے آلودہ کرنے والے کینہ پرور حاسد زندگی بھر میرے در پئے آزار رہے ہیں۔کوئی بھی معاشرہ جب اپنے تضادات اورانصاف کُشی کے واقعات پر ٹس سے مس نہ ہو تو یہ اس بات کاشگون ہے کہ بے حسی کا عفریت ہرطرف منڈلا رہا ہے ۔اس مسموم ماحول میں اہلِ ہوس بہ یک وقت مدعی بھی بن جاتے ہیں اورانصاف کا ترازو بھی اپنے ہاتھ میں تھام لیتے ہیں۔مقتدر حلقوں کی عقل پر ایسی پتھر پڑتی ہے کہ عام آدمی کو انصاف کے پتھر تک رسائی کے لیے تیشۂ زر کی احتیاج کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی۔ابن الوقت ،موقع پرست اوراہلِ جوراپنی جہالت کاانعام حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔میں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی خاطر اپنی اہلیہ،اہلِ خانہ،اہل و عیال اور اہلِ خاندان کو سیڑھی بنایا۔سچ تو یہ ہے کہ میں نے اپنی استعداداوراہلیت سے کہیں بڑھ کر لُوٹ مار کی اور سدا اپنوں ہی میں اندھے کی ریوڑیا ں بانٹیں۔اس جعل سازی اورتصنع پر مبنی فرضی اہلیت کا ڈھنڈوراپیٹتے پیٹتے گردشِ حالات کے ہاتھوںمیں خود بھی بُری طرح پِٹ گیا۔میری زندگی کاسفر تواُفتاں و خیزاں کٹ ہی گیا لیکن اپنی نا اہلی کے باعث میرا پُوراوجودکِرچیوں میں بٹ گیا۔اب تودِل و جگر کی حالت پر گریہ وزاری اور اپنی تیرہ بختی پر سر پیٹنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔میں نے اپنے ذہن و ضمیر کواپنے ہاتھوں ابدی نیند سُلا دیا۔ میری نا اہلی کے سبب اب اہلِ درد مجھ سے گریزاں ہیں۔سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے مجھے حالات کی لحد کا کتبہ بنا دیا۔اب کسے فراغ کہ وہ ایک نا اہل کے لیے خلوص اور وفا کے دو بول کہہ سکے۔میں واقعی اب کسی کی مروت کا اہل نہیں رہا۔اپنے شہر آرزو کی ویرانی کا ماتم کرنے کے لیے میں اب بھری دنیا میں تنہا رہ گیا ہوں ۔سب بلائیں تمام ہوچکی ہیں، میں نے اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر کے انھیں سر بہ مہر کر دیا ہے ۔مجھے معلوم ہے اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں ہونا سنگ دل لوگوں کا وتیرہ ہے۔اب میرے دِلِ شکستہ کا حال پُوچھنے کوئی نہیں آئے گا ۔میں کسی سراب یا سائے کا منتظر نہیں اب صرف مرگِ نا گہانی کا انتظار ہے۔
مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا
بعض ذاتی مصروفیات کے باعث کرگس ژولیدہ کی اس خو دنوشت کاتفصیلی مطالعہ نہ کر سکا اور آخری لفظ بھی میں نہ لکھ سکا تا ہم میرے دیرینہ ساتھی عزیزاحمد ناظرؔ نے اس مسودے پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد اپنے تاثرات کے ساتھ یہ شعر لکھ کر مسودہ مصنف کے حوالے کر دیا:
ہو گئے لوگ کیا سے کیا کرگس
تُو وہیں کا وہیں رہا کرگس