زندگی کا سفر بھی عجیب سفر ہے جہاں غم و آلام کے دشتِ بے کنار کے آبلہ پامسافر ہوائے جورو ستم کے مہیب بگولوں میں بھی رُخِ وفا کو فروزاں رکھنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیںرکھتے ۔ہر طرف بکھرے ہوئے خارِ مغیلاں کے ڈھیر پران الم نصیب جگر فگاروں کے قدموں کے نشان تو باقی رہ جاتے ہیں مگر نوشتۂ تقدیر کاکہیںسراغ نہیں مِلتا۔آلام ِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے قسمت سے محروم انسانوں کو اہلِ دنیا نے سدا نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھااور اُنھیں نہایت بے دردی سے ٹھکرا دیا۔ سادیت پسندوں کی طرف سے کی جانے والی توہین،تذلیل ،تحقیر اور بے توقیری کے باوجود یہ صابر و شاکر لوگ اہلِ دنیا سے مایوس نہیں ہوتے اور اِس توقع پر زندگی کے دن گزارتے ہیں کہ شاید کوئی درد آشنا اِدھر آ نکلے ۔کتاب ’’ حباب نامہ ‘‘ میں ایسے ننگِ وجود درندوں کی سفاکی اور درندگی کا احوال بیان کیاگیا ہے جن کی زندگی ہاویہ کے مانند گزری اور جو لوگ درِسفلگی کے چوب دار تھے ۔ ان سادیت پسندوں نے تیشہ ٔ جور و جفا اور جبر و ستم سے فصیل صبر و استقامت کو منہدم کرنے کی جو مذموم کوششیں کیں وہ تاریخ کا لائق نفرت باب ہیں ۔ ان کے پُر آشوب دور میں فروغ ِ گلشن و صوت ِہزار کا موسم دیکھنے کی تمنا اپنے دِل میں لیے اکثر حساس تخلیق کار اور بے بس انسان عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر گئے۔ کچھ جری تخلیق کار ایسے بھی ہیں جو اُن سب مسخروں اور بونوں کو جو عوج بن عنق ہونے کے داعی ہیں کو تیشۂ حرف کی ضرب اورعصائے کلیمی کے وار سے تہس نہس کرنے کی مساعی میں انہماک کا مظاہرہ کر ر ہے تھے ۔تاریخ اور اُس کے پیہم رواں عمل کا وجدان ان مضامین کی تخلیق کا محرک بنا۔ چھے جولائی دو ہزار سترہ کو میرا حسین ،فطین ،سعادت مند اور وفا شعار نو جوان بیٹا سجاد حسین اچانک عارضہ قلب کے باعث چل بسا ۔ حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ میںالفاظ کے مکانوں میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہوں ۔ دِل کے آئینے میں غم و آلام کا طوفان اُمڈ آیا ہے اور آنکھوں سے رواں ہونے والی جوئے خوں سے زندگی کا سارا منظر ہی دھندلا گیاہے ۔تاریخی حوالوں کی امین ان تحریروں کے دامن میں اپنے آنسو چُھپانے نے کی جو سعی میں نے کی ہے وہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا درس ہے ۔ میں ایام گزشتہ کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے بیتے لمحوں کی چاپ سُن کر اپنے دِلِ حزیں سنبھالنے اور عزیزوں کی مفارقت کے درد سے آباد کر نے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہوں ۔ کہیں کہیں اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپنی زندگی کے اِن کٹھن ایام میں مجھے رفتگاں کی یاد حوصلہ دیتی ہے ۔تنہائی کے اس عالم میں جب پرانے آشنا چہرے دیکھتا ہوں تو اپنے دِل ِ حزیں کی خود ہی ڈھارس بندھاتاہوں ۔ اب تو میرا دِل ہی میر درد آشنا ہے اوردِل سے یہ معاملہ چلتا رہتاہے اور میرا ایک ہی سوال ہوتاہے :
یہ اَن جانا شہر ،پرانے لوگ اے دِل تم یہاں کہاں
آج اِس بِھیڑ میں اِتنے دِن کے بعد مِلے ہو کیسے ہو
فقیر
غلام شبیر