نعمت خان کلانونت: کلاونت نامہ( پاپ بیتی)، سارقانہ عتاب گھر ،سیاہی وال،2017
جب بے ادب قلم تھام کر لفظوں سے آنکھ مچولی کھیلنے کے مکروہ دھندے میں ملوث ہوتے ہیں تو عجب طوطا مینا بناتے ، ہنہناتے ،سر پیٹتے اور قلم گھسیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔اب تو سوانح نگاری بھی سانحہ نگاری کا روپ دھا ر چکی ہے۔کذب و افترا کے مہیب بگولوں نے جذب واستغنا کو اپنے دامن میں اس طرح چھپا لیا ہے کہ تاریخی واقعات کا سارا منظر نامہ ہی گہنا گیا ہے۔ ملمع سازوں نے خوابوں کی خیاباں سازیوںسے ایسا موہوم سماں باندھ رکھا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ۔بے حسی کے اس عالم میں جعل سازوں کی پانچوں گھی میں ہیں اور قاری بے بسی کا شکار ہو کر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ نام نہاد ادیب یا تو اپنا گریباں چاک کر دیں گے یا معتوب اور ممدوح کو ہر قسم کی خوش فہمی سے عاق کر کے دم لیں گے۔تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہو ا کرتا ہے جس میںوقت کے حادثے عجب گُل کھلاتے ہیں۔حادثوں کی مثال بھی پیلی بُوٹی کی سی ہے جن کی بھنک پڑتے ہی اہلِ جور کا رنگ لا ل پیلا ہو جاتا ہے۔پیلی بُوٹی جب کسی شاخِ ثمر دار یا نخلِ تناور سے لپٹ جاتی ہے تو آن کی آن میںدرخت کی جان پر بن آتی ہے ۔اسی طرح جب کسی قوم پر حادثوں کی یلغار ہوتی ہے تو وہاں انصاف کُشی کے مناظر کی بھر مار ہوتی ہے۔ہر کاہ خود کو کوہ ثابت کرنے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے اور مظلوم انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن اور بُوم و شپر ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ قصر و ایوان پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے ابن الوقت ننگِ انسانیت درندے جب اپنے سازندے ساتھ لیے رعایا کے جلتے گھروندوں کو دیکھ کر دیپک راگ الاپتے ہیں تو ان کے کارندے ا ن کے سامنے دُم ہلا کر داد طلب نگاہوں سے امداد طلب کرتے ہیں۔مُردوں کے ساتھ شرط باندھ کر سونے والے بے حس طبقے جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر دنیا میں آتے ہیں ،ان کے مظالم سے مجبوروں کی امیدوں کی فصل غارت اور دن رات کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ لوٹوں لٹیروں ،ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کی یہ بے حسی اور بے ضمیری تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو لے ڈوبتی ہے ۔گردشِ حالات کے مظہر یہ افسانے عبرت کے تازیانے بن کر سب حقائق کے شاخسانے بیان کرتے ہیں ۔جب در کسریٰ کے کھنڈرات ویران ہو جاتے ہیں اور خواب سہانے ٹوٹ جاتے ہیں تو یہ راز کھلتا ہے کہ درندوں کا مقدر پھوٹ چکا ہے۔نعمت خان کلانونت آخری عہدِ مغلیہ کی تاریخ کا ایک ایسا مسخرا ہے جس کے قبیح کردار نے مغلیہ سلطنت کو بے غیرتی کے سمندر میں گرقاب کر دیا ۔اس سوانح نگاری می ناس متفنی کے بارے میں طنزیہ انداز میں متوجہ کیا گیا ہے۔
نعمت خان کلانونت کا شمار آخری عہد ِ مغلیہ میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر اپنا الو سیدھا کرنے والے ان طوطاچشم افراد میں ہوتا ہے جن کی بے بصری ،کور مغزی ،خِست و خجالت اورجہالت کے باعث تاریخ کا ہر صفحہ تاریک ہو گیااور ہندوستان کا جغرافیہ ہی بدل گیا۔ اُس زمانے میں جاہ و منصبب اور زرو مال کے استخواں نوچنے کے لیے ایسے خارش زدہ سگان راہ کُوڑے کے ہر ڈھیر پر دُم ہلاتے پھرتے تھے۔ آخری عہد ِ مغلیہ میںجہاں دارشاہ (عہدِ حکومت : ستائیس فروری سترہ سو بارہ تا گیارہ فروری سترہ سو تیرہ )نے جب زمام اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا توحالات کس ڈگر پر چل نکلے اس کا احوال اس عہد نا پُرساں کی ایک بدنام طوائف خار بدن بیوہ نے تحریر کیے ہیں۔ اس زمانے کے درد مند لوگوں کا کہنا تھا کہ جہاں دار شاہ کا بادشاہ بننا دراصل گدھے کے منہ میں خشکہ ڈالنے کے مترادف تھا ۔اس حمار کے آتے ہی ہر طرف گدھوں کے ہل پھر گئے ۔یہ نعمت خان کلانونت کی سوانح حیات ہے جسے پڑھ کر کئی آنکھیں مُند جاتی ہیں،زبانیں کُند اور گُنگ ہو جاتی ہیں اور خامہ اس خام نالے کو لکھنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔آئیے دیکھیں خار بدن بیوہ نے اپنی خار افشانیء گفتار سے کس کس کے لتے لیے ہیںاور تاریخی واقعات کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کے لیے کیاکیا پا پڑ بیلے ہیں۔خاربدن بیوہ کی لکھی ہوئی نعمت خان کلانونت کی ا س سوانح حیات’’خر افگن نامہ‘‘ پرخرِ ایام کے سموں کی گرد ایسے پڑی کہ صدیوں تک محققین کو اس کا کہیںسے اتا پتا نہ مِل پایا ۔ وعدہ معافوں اور لفافوں کے اس دور میں جامہء ابو جہل میں ملبوس مشکوک نسب کے مثنیٰ اورتہی خفاش نے علم کی سب رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ ان چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد جہلاکی مثال ضعف بصارت کے شکار اُس شخص کی تھی جو رات کی تاریکی میںایک گھپ اندھیرے کمرے میں اپنی گم شدہ کالی بلی کی تلاش میںجی کا زیاں کررہا تھا ،جو گُزشتہ روزسہ پہر کواس کے ہاتھ میں پکڑی رسی تُڑا کر باہر بھاگی ،اس نے بلی کا تعاقب کیا مگر وہ کھسیانی بلی کھمبا نو چنے کے بجائے زینہ ء ہستی سے اُترنے کی ٹھان چکی تھی ۔ایک مُوذی و مکارخسیس کی غلامی کے بجائے کالی بلی نے سڑک پر ایک کُھلے مین ہول میںبے خطر جست لگادی اور اپنی کتاب ِ زیست کے تمام ابواب کی تکمیل کر دی۔ عبرت ناک ماضی کے واقعات کی امین ا س مردہ بلی کو تھیلے سے باہر نکالنے میں جن قلم فروشوں نے قبیح کردار ادا کیاان کے سہوِ قلم اور جسارتِ سارقانہ کے بار ِ ندامت کے سامنے ہر عہد کے محققین کی گردن تنی رہے گی اور سچ اور جھوٹ کی ہمیشہ ٹھنی رہے گی۔ تاریخ ہر دور میں ایسے جہلا کی ملامت کرتی رہے گی ۔ یہ مخطوطہ رنگو ردی فروش سے چربہ ساز تاسو خان نے خریدا جوخود کو نعمت خان کلاونت کا پڑپوتا ظاہر کرتا ہے اور ہلاکو خان اور چنگیز خان کو اپنا مورث اعلا قرار دیتا ہے۔ یہ شخص اس مخطوطے کی اشاعت چاہتا ہے مگر اس کی قسمت ایسی پُھوٹی ہے کہ اب اس کے پاس پُھوٹی کوڑی تک نہیں اور وہ ہر وقت پُھوٹ پُھوٹ کر روتا ہے ۔یہ مخطوطہ کیا ہے یہ تو گردش ِ حالات کا دردناک افسانہ اور عبرت کا تازیانہ ہے۔’خر افگن نامہ ‘‘کے آغاز میں خار بدن بیوہ نے اس کی تخلیق اور تاریخی واقعات کے بارے میں لکھا ہے:
میرا نام خار بدن بیوہ ہے میں نے اپنے بھانجے نعمت خان کلانونت کی سوانح حیات لکھی ہے۔مجھ سے پہلے گُل بدن بیگم نے ہمایوں نامہ لکھا تھا، اب میں نے خر افگن نامہ لکھنے کی ٹھان لی ہے ۔اس میں ہمارے خاندان دو پہر بیاسی کے بارے میں تو حقائق کو پردہء اخفا میں رکھا گیاہے البتہ خود ستائی اور خود نمائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاگیا ۔اتنی بات تو سب جانتے ہیں کہ ہم ہلاکو خان اور چنگیز خان کی اولاد ہیں۔وقت کے ستم بھی عجیب ہوتے ہیں جب ہماری آنکھیں کُھلتی ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ وقت تو اب ہماری دسترس میں نہیں رہا۔ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو جاتا ہے ،اس کے بعدہم ہاتھ ملتے ہوئے اس جانب چل پڑتے ہیں جہاں ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا۔اب معاشرے میں ہمارا کوئی مقام نہیں ، لوگ ہمیں جسم فروش رذیل طوائف خیا ل کرتے ہوئے بے دریغ ہماری کردار کُشی کرتے ہیں ۔وہ یہ بات بُھول جاتے ہیں کہ اپنے ضمیر اور کردار کا خاتمہ کرنے کے بعد ہی ہم نے قحبہ خانے کے دشتِ خار میں قدم رکھا تھا ۔جس کا کوئی کردار ہی باقی نہ بچا ہو اس کی کردار کشی تو مرے کو مارنے کے مترادف ہے ۔ایک طوائف کی حیثیت سے مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں اور میری منہ بولی بہنوں نے مسلسل نصف صدی تک کلانونت نگر میں جذباتی طور پر منہدم جنسی جنونیوں ،مخبوط الحواس نو دولتیوں،سادیت پسند عیاشوںاور عقل کے اندھے اورگانٹھ کے پُورے ابلیس نژاد درندوںکی مقدور بھر خدمت کی ہے ۔وہ راندہء درگاہ لوگ جنھیں معاشرہ کوئی مقام نہیں دیتا ،انھیں ہم نے سر آنکھوں پر بٹھایا ۔معاشرے کے ٹھکرائے اور
دھتکارے ہوئے لوگوں کو گلے لگایا اوران کی راہ میںدیدہ و دل فرشِ راہ کر دیا۔اس خدمت کا صلہ ہمیں حقیر خرچی کی صورت میں ملا ۔ہمارے لیے ایک حرفِ سپاس کہتے ہوئے حاسدوں کی زبان میں آبلے پڑ گئے مگر سب کے سب ہم پر تین حرف بھیجنے کے لیے بے چین ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم نہ تو تین میں رہے اور نہ ہی تیرہ میں رہے ۔ہمیں باعث ننگ و عار خیال کرتے ہوئے سب لوگ سنگِ ملامت لیے نکل آئے ۔ہمارا لخت لخت جسم جو پیہم لُٹنے کے بعد کرچیوں میں بٹ چکا ہے اب مزیدستم سہنے کے قابل نہیں رہا۔
آج نوچا تو پر پھڑ پھڑ ائے
مُدتیں ہو گئیں ہنہنائے
اب تو پُورا بدن ٹُو ٹتا ہے
مار اتنی بھی کوئی نہ کھائے
کلاونت نگر میں ہم تین منہ بولی بہنوں کے قحبہ خانے ساتھ ساتھ تھے۔میرا نام پُونم ہے اور میری ایک منہ بولی بہن ہیما تھی اور دوسری شیما تھی۔میری کوئی اولاد نہ تھی جب کہ ہیما کا ایک بیٹا تھا جس کا نام نعمت خان کلانونت تھا ،شیما کی ایک بیٹی تھی جس کا نام لال کنور تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم منہ بولی بہنوں کے تعلقات میں پُختگی آتی چلی گئی۔جب ہم تینوں ہم پیشہ ،ہم مشرب و ہم راز تھیں اسی وجہ سے لوگ ہمیں حقیقی بہنیں سمجھنے لگے۔طوائف کے شوہر کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔خود طوائف بھی اس حقیقت کی شناسا نہیں ہوتی ۔ نعمت خان کلانونت اور لال کنور کا بچپن اکٹھا گُزرا ۔دونوں مل کر کھیلتے اور بچپن کی یہ محبت رفتہ رفتہ مضبوط ہوتی چلی گئی ۔نعمت خان کلانونت اور لال کنور ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے اور پیمان وفا باندھ کر مل کر کھاتے پیتے اور دادِعیش دیتے ۔اکثر لوگ اسے وقت کے ایک سانحے سے تعبیر کرتے کہ ایک طوائف کا مشکوک نسب کا بیٹا نعمت خان بن بیٹھا ہے ۔جب شیما کی بیٹی لال کنور دس سال کی ہو گئی تو وہ ماں کے دھندے میں شریک ہو گئی ۔اب تو شیما کی پانچوں گھی میں تھیں ،اس نے اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر خوب دولت سمیٹی۔ لال کنور اکثر پان کی جُگالی کرتی کبھی کبھی شاعری کو بھی منہ ما ر لیتی تھی۔اس کی شاعری میں اس کے جذبات کی ہلچل ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
کنور رفیق کوئی عشق میں جچاہی نہیں
بُھگت کے تُرکی و تازی سوئے حمار چلے
بُرا ہے جنس کا چسکا یہ تن نحیف سہی
تمھارے دام میںآئے زبون و خوار چلے
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارا شجرہ نسب تان سین سے ملتا ہے ۔اس کے بر عکس ہمارے خاندانی شجرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہلاکو خان اور چنگیز خان کی اولاد ہیں ۔لال کنور کا بیاہ نعمت خان کلا نونت سے کر دیا گیا لیکن کاروباری مسائل کے باعث یہ شادی خفیہ رکھی گئی۔لال کنور کے کوٹھے پر شہر کے بڑے بڑے امرا اور رئوسا کا تانتا بندھا رہتا ۔عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے گھٹیا عیاش اور کالا دھن کمانے والے نو دولتیے اس جسم فروش رذیل طوائف کے کوٹھے پر کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے۔ لال کنور کی وجہ سے نعمت خان کلانونت کی خراطی تو ہمیشہ زرو جواہر سے بھری رہتی لیکن اس کی فہم کا خانہ سدا تہی رہتا۔جب بھی وہ خرگاہ میں بیٹھتاتو سب حاضرین کو زہرہ کنجڑن کے خربوزے اور تربوزضرور کھلاتا۔ پُورے دہلی شہر میں زہرہ کنجڑن کی سبزیاں، ککڑیاں ، تربوز اور خربوزے بہت مشہور تھے۔ اس حسین رقاصہ کی رسیلی باتیں سب عیاشوں کو پسند تھیں یہاں تک کہ اس کے شیدائی اس کی گالیاں سن کر بھی بے مزا نہ ہوتے ۔زہرہ کنجڑن کے تربوز اور گالیاں کھا کر کوئی بھی بے مزا نہ ہوتابل کہ سب اس کے شیریں لبوں کے سحر میں کھو جاتے۔لال کنور ،زہرہ کنجڑن اور نعمت خان کلا ونت سب ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔
نعمت خان کلانونت نے اپنے مکر کی چالوں سے جہاں دارشاہ کو رام کر لیا۔شراب ،شباب ،رقص ،موسیقی اور منشیات کادلدادہ جہاںدار شاہ گدھوں سے بہت محبت کرتا تھا ۔اس کے دور میں گدھوں کی بڑی شان تھی جس طرف نظر اُٹھتی گدھے ہنہناتے دکھائی دیتے تھے۔جہاں دار شاہ کی سواری کا نام خر مجہول تھا جو اپنے آقا کی طرح شراب ،افیون ،چرس اور بھنگ کا رسیا تھا۔شاہی اصطبل کاجلاد اور چابک سوار شاہی احکامات کے مطابق خر مجہول کو بلا ناغہ شراب ،افیون ،چرس اور بھنگ کھلاتا۔ ایک شام جہاں دارشاہ اپنی شاہی سواری خر مجہول پر سوار ہو کر اپنی خُرجی میں زرو جواہر بھر کر کلاونت نگر پہنچا۔جوں ہی جہاں دار شاہ نے خر مجہول سے اترتے وقت چھلانگ لگائی ،خر مجہول بپھر گیا اوردولتی جھاڑ کر بادشاہ کو کاٹنے کے لیے دوڑا ۔سامنے کوٹھے پر لال کنور نیم عریاں لباس پہنے رقص میں مصروف تھی ۔خر مجہول کی نگاہیں کوٹھے پر جمی تھیں اُس کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور وہ بائولا ہو کر ادھر اُدھر دوڑ رہا تھا ۔خرمجہول کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر جہاں دار شاہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔نعمت خان کلانونت کو خر شناس کا لقب دربار شاہی سے ملا تھا۔وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اب مزید سوچنا فضول ہے۔اگر یہ خر مجہول تھا تو نعمت خان کلانونت بھی بالکل نامعقول تھا۔اس نے اچھی طرح گدھے کا آئواور تائو دیکھ کر اپنی غلیل میں غُلّہ ڈالااور طوطاچشم خر مجہول کی آنکھ کا نشانہ لیا اور زور سے خرِ مجہول کو ’’جائو‘‘کا حکم دیا۔نشانہ ٹھیک لگااور غُلّہ لگتے ہی خر مجہول ایک آنکھ سے محروم ہو گیا ۔دوسرا غُلّہ بھی خرِ مجہول کی دوسری آنکھ میں پیوست ہوگیا ۔نعمت خان کلانونت کی بزدلانہ غُلّہ اندازی سے یہ چارہ حرام خر مجہول بینائی سے مکمل طور پر محروم ہو گیا۔جہاں دار شاہ نے موت کو قریب سے دیکھا تو اُپلوں کے ایک ڈھیر میںپناہ لے کر جان بچانے کی کوشش کی۔نعمت خان کلانونت نے ایک بڑا لٹھ اُٹھایا اور بادشاہ کی جان بچانے کے لیے خراماں خراماں آگے بڑھا۔اس نے نا بیناخر مجہول پر خوب لٹھ برسائے۔خر مجہول وہیں ٹھنڈا ہو گیامگر نعمت خان کلانونت بہت گرم تھا اس نے گرم جوشی سے جہاں دار شاہ کی کلائی مروڑی اور اسے ساتھ لے کر سیدھا لال کنور کے پاس پہنچا ۔جہاں دار شاہ نے اپنے کندھے پر لٹکی خُرجی کھولی اور لال کنور کے قدموں میں اُنڈیلی تو ہیرے جواہرات اور زرو مال کا ڈھیر لگ گیا۔اس موقع پر جہاں دار شاہ نے نعمت خان کلانونت کی غُلّہ اندازی سے متاثر ہو کر اُسے خر افگن کا خطاب دیااور لال کنور کو امتیاز محل کا لقب دے کر ملکہء ہند بنا لیا۔کلانونت نگر کے کوٹھے پر بیٹھنے والی ایک جسم فروش رذیل طوائف لال کنور وقت کے حادثے کے نتیجے میں لا ل قلعے میں ملکہ ء ہندبن بیٹھی۔نعمت خان کلانونت اپنے مفادات کے لیے گدھے کو بھی اپنا والد سمجھنے میں تامل نہ کرتا تھا۔لال کنور کے ملکہ ء ہند بنتے ہی سب ڈُوم ڈھاری اور بھانڈ بھڑوے لال قلعہ دہلی میں جا پہنچے اور شاہی دربار میں براجمان ہو گئے۔ مغل شہنشاہ جہاں دار شاہ جو ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا اس کی تفریح طبع کے لیے نعمت خان کلانونت نے رقص اور مو سیقی کی محفلوں کا انتظام کیا۔جہاں دارشاہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتااوربے غیرتی ،بے حیائی اور بے شرمی کی تصویر بناحسین و جمیل دوشیزائوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا۔ حسین وجمیل رقاصائوں کے
رقص کے ساتھ رقص ِمے اور ساز کی لے میں بھی تیزی آتی جاتی۔جہاں دار شاہ کی بد مستی اور خر مستی تمام حدو ں کو عبور کر جاتی اوروہ حسینائوں پر اس طرح جھپٹتا جیسے گدھ مردار پر جھپٹتا ہے۔ نشے سے مخمور اس پکڑ دھکڑ ،چھینا جھپٹی اور طبلے کی تھاپ پر ناچتے ناچتے وہ منہ کے بل زمین پر گرتا اور بے سُدھ ہو جاتا۔ سارنگی نوازنعمت خان کلاونت ،تمام نیم عریاں لباس پہنے ہوئے رقاصائیں اور اس کے طبلہ نواز ساتھی اس ننگِ اسلاف بادشاہ کو ٹُھڈے مارتے مگر وہ بے حس حمار ٹس سے مس نہ ہوتا اور مسلسل ہنہناتا رہتا۔
جہاں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، وہاں تحریف پنی قباحتوں سے شرماتی ہے اور بے جا تعریف اپنی کم ما ئیگی پر شرماتی ہے ۔ تاریخ ماضی کے واقعات سے تعلق جوڑتی ہے اور دستِ حنائی کے دیوانوں کی کلائی مروڑتی ہے۔ ایامِ گزشتہ کی تاریخ ہمیں جھنجھوڑتی ہے اور تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب توجہ دلا کر مصلحتِ وقت کے تحت تاریک راہوں میں ہلاک ہونے سے بچنے کاانداز بتاتی ہے ۔مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی فوج کے سپاہی علی قلی خان نے جنگل میںشیر سے گتھم گتھا ہو کراپنی جان خطرے میں ڈال کر خنجر کے پے درپے وار کر کے شیر کو ہلاک کر ڈالااور اکبر کی جان بچائی اوراپنی جان لیوامہم جوئی ،مہلک ایثار اور خطرناک وفاداری کی وجہ سے شیرافگن کا لقب پایا۔ نعمت خان کلانونت نے بھی بائولے گدھے کا چھپ کر مقابلہ کیا اور گدھے کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس نے مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کو گدھے کی دولتیوں سے بچایااور اپنی شرم ناک بزدلی اور الم ناک موقع پرستی اور مسخرہ پن کی بنا پر خر افگن کا لقب پایا ۔ شیر افگن ایک جنگ جُو سپاہی تھا جب کہ خر افگن محض ایک بد خُو مسخرا تھا۔ شیر افگن اور خر افگن میںایک قدر مشترک بھی تھی کہ دونوں کی بیویاں حُسن کی اقلیم میں حد سے آگے بڑھ گئی تھیں ۔ہر بو الہوس اپنی حسن پرستی سے مجبور ہو کر انھیں للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتااور اپنی سفلگی کی داد چاہتا۔شیرافگن اپنی بیوی نو رجہاں کے بے پناہ حسن و جمال کی وجہ سے جہاں گیر کی رقابت کے ہاتھوں عدم کی وادیوں کی جانب سدھار گیااور اس کے بعد اس کی بیوی ملکہء ہند بن بیٹھی۔نعمت خان کلانونت نے اپنی بیوی لال کنورکو سیڑھی بنایا ، ہوسِ جاہ و منصب نے اُسے بیوی سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیا۔اُس کی بے بصری اور کور مغزی اپنی جگہ لیکن وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر اس نے لال کنور کی بلاشرکتِ غیرے محبت اور استحقاق پر اصرار کیا تو سب ٹھاٹ پڑ ا رہ جائے گا اور سارنگی نواز بنجارے کو سارنگی بجاتے بجاتے زینہ ء ہستی سے دھکا دے کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب دھکیل دیا جائے گا۔ خر افگن نے شیر افگن کی حیات کے افسا نے کا پُوری توجہ سے مطالعہ کیا تھااور اس سے جو سبق سیکھا تھا وہ یہ تھا کہ آن جاتی ہے تو جائے لیکن اپنی جان اور مال بچانا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا مصلحت ِ وقت کااہم تقاضا ہے۔اس کی بیوی لال کنورملکہء ہند بنی ،وہ خو د ملتان کا صوبے دار بنااور زہرہ کنجڑن نائب ملکہ ء ہند بن گئی۔ اکبر اعظم کی جان بچانے کے سلسلے میںشیرافگن کے احسان کا بدلہ اکبر اعظم کے بیٹے جہاں گیر نے جس انداز میں اُتارا وہ محسن کُشی کی عبرت ناک مثال ہے۔اس نے شیر افگن کو ٹھکانے لگا کر اس کی بیوہ نو رجہاں کو طاقت کے ذریعے ملکہء ہند بنا لیا۔نعمت خان کلانونت کی مصلحت اندیشی کی وجہ سے انتقالِ محبت کامرحلہ بڑی خوش اسلوبی سے طے ہو گیا ۔لوگ کہتے ہیں کہ حُور کے ساتھ لنگور کا جوڑ اچھا نہیں ہوتا ۔ نعمت خان کلانونت کی زندگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جاہ و منصب کے لیے سب کچھ دائو پر لگا نے میں کوئی قباحت نہیں۔مستقبل کا مورخ جب وادیء خیال میں محبت کی بلاخیزیوںکے حوالے سے شیرافگن اور خر افگن کے رویے کا جائزہ لے گا تواس نتیجے پر پہنچے گاکہ جنگل کے دستور کے مطابق خر افگن نے صحیح سمت میں قدم اُٹھایا۔ جنگل کے دستور میں شیرافگن کی کوئی گنجائش نہیں ،وہاں تو خر اور خرافگن ہی اپنی جہالت کاانعام پاتے ہیںجب کہ شیر افگن جیسے محسن جب کسی کی جان بچاتے ہیں تو تلوار یا دار اُن کی منتظر ہوتی ہے۔یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جب بھی کوئی شخص کسی مقتدر فرد کے ساتھ کسی قسم کی مروت ،بے لوث محبت ،نیکی یا احسان کرے تو اسی وقت قادر مطلق کے حضورسر بہ سجود ہو کر اس شخص کی ایذا رسانی سے بچنے کے لیے دعا کرنی چاہیے۔تاریخ اپنی جگہ ایک عبرت کا سبق ہے ،جوشخص بھی تاریخ ے سبق نہیں سیکھتاوہ خود تاریخ کے ہاتھوں عبرت کا ایک سبق بن جاتا ہے۔نعمت خان کلانونت خر افگن نے موقع کی مناسبت سے جو فیصلے کیے وہ اس کی مجبوری تھے۔اگر وہ مزاحمت کرتا تواس کاانجام بھی شیرافگن جیسا ہوتا ۔ نو رجہاں جیسی ہر پیمان شکن عورت کے مزار پر دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہوتا ہے۔
لا ل قلعے میں جب سبز قدم لال کنور داخل ہوئی تودرو دیوار پر ذلت و تخریب اور نحوست کے کتبے آویزاں ہو گئے۔جہاں دارشاہ نے لال کنور کے سامنے ہنہناتے ہوئے کہا:
’’آج سے تم بے ثبات کارِ جہاں کے ہر کارِ سیاہ کی ذمہ دار ہو۔جو تم چاہو گی وہی ہو گا ،تمھاری مرضی کے بغیر اس ملک میں کوئی کام نہیں ہو سکتا ۔اب رعایا کے چام کے دام چلانے کا وقت آ گیا ہے ۔ ہمارے عہد کے یہ سانحات تاریخ کے اوراق میں سیاہ روشنائی سے تحریر کیے جائیں گے تا کہ کوئی جعل ساز روشنائی مٹانے والے محلول سے ان حقائق کو مسخ نہ کر سکے۔‘‘
’’ یہ تو سچ ہے کہ ہندوستان میںاب لال کنور کے اقتدار کا آغاز ہوا ہے لیکن زہرہ کنجڑن کا کیا ہو گا ؟‘‘لال کنور نے جہاں دار شاہ کو دھکا دے کر منمناتے ہوئے کہا ’’زہرہ کنجڑن کے بغیر تو میں زندہ بھی نہیں رہ سکتی۔رنگ ،خوشبو اور حُسن و خُوبی کے تمام استعارے تو زُہرہ کنجڑن کے دم سے ہیں۔اس کے بغیر تو میری زندگی غم کا فسانہ ہے اور میری آنکھوں میں زہرہ کنجڑن کے انتظار کی دنیا بسی ہوئی ہے۔ آہ!زہرہ کنجڑن کے بغیر تو میرے صبر و قرار کی دُنیا اُجڑنے لگی ہے ۔اس سے پہلے کہ میرے دل میں ضو فشاں چراغِ تمنا گُل ہو جائے،اُس گُل کو یہاں لایا جائے تاکہ میں جی بھر کر اس کے ہاتھوں کے بنے ہوئے رسیلے اور گُلابی گُلگلے کھائوںکیونکہ حکیم نے مجھے گُڑ سے پر ہیز کا مشورہ دیا گیا ہے ۔‘‘
’’ اے میرے دل کے گلشن کی حسین بلبل یہ تو بتائو کہ یہ زہرہ کنجڑن کون ہے اور اس کا تمھارے ساتھ کیا تعلق ہے ؟‘‘جہاں دار شاہ نے شراب کا پیالہ پیتے ہوئے اور لڑ کھڑاتے ہوئے کہا’’ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ زہرہ کنجڑن کی ایسی کون سی خوبی ہے جس نے حسینہء عالم اور ملکہء ہند لال کنور امتیاز محل کا دل جیت لیا ہے ؟تمھاری پریشانی دیکھ کر اور زہرہ کنجڑن کے بارے میں تمھاری دردمندی کی باتیں سُن کر میر ا تو مغز اُڑا جاتا ہے۔‘‘
’’ فکر نہ کرو تمھاری کھوپڑی میں مغز نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔اُف !ظلِ تباہی کو زہرہ کنجڑن کا کوئی اتا پتا معلوم نہیں ‘‘لا ل کنور نے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا’‘ میرے دِل کے آئینے میں صرف زہرہ کنجڑن کی تصویر ہے ،میرے دِل کی انجمن کی تمام چکاچوند زہرہ کنجڑن کے دم سے ہے ۔ اس شہر کی فضائوں میں زہرہ کنجڑن کی یادیں اس طرح پھیلی ہیں کہ جس طرف بھی نظر اُٹھتی ہے اُسی کی صورت دکھائی دیتی ہے اور جب بھی مسموم ہوا کا جھونکا آتا ہے اُسی کی آواز سنائی دیتی ہے اوراس کی جدائی مغموم کر جاتی ہے ۔لو وہ آ گئی !باہر سے جو آوا زآ رہی ہے وہ دھیان سے سُنو جوکہ ہر عقدہء تصویرِ بُتا ں کھول رہی ہے۔اس صدا کی باز گشت سدا میرے دِل میں سُنائی دیتی ہے۔‘‘
ایک گدھا گاڑی پر سبزیاں اور موسم کے پھل لاد کرا یک ا لھڑ دوشیزہ پِھر رہی تھی۔ باہر لال قلعے کے دروازے سے آواز سنائی دی :
’’آلو لے لو ،پیازلے لو ،لہسن لے لو ،تازہ سبزی خرید لو ۔ایک تربوز اور خربوزہ خریدو تو ککڑی مزید لو،زہرہ کنجڑن آگئی ،سب کے دِل کو بھا گئی۔لال تربوز کھلا کر لال کنور کے دل میں سما گئی۔بی بی جی! میٹھاتربوز
لال ہی لا ل،تمھارا اب کیا ہے خیال ۔ تازہ ہے پو دینہ نہ سمجھے نا بینا ،زہرہ کنجڑن آ گئی ،ہر طرف یہ چھا گئی،سب کا دِل لُبھا گئی۔‘‘
’’واہ کیا سریلی آواز ہے اس کنجڑن کی !‘‘جہاں دارشاہ نے کہا’’اسے اندر بلائو اور اسے اپنے ساتھ رکھو۔ سبزیوں اور پھلو ںکی یہ گدھا گاڑی اب شاہی مطبخ کا ملازم چلائے گا اور حسب معمول گھر گھر سبزیاں بیچ کر رقم زہرہ کنجڑن کے پاس جمع کرائے گا۔سبزیوں او ر موسم کے پھلوں کی خریداری کے لیے رقم شاہی خزانے سے روزانہ ادا کی جائے گی ۔اب ایک بڑا کنجڑا خانہ تعمیر کیا جائے گا جس کی نگرانی خود ظلِ تباہی کریں گے ۔ کبھی کبھی ما بہ ذلت بھی بھیس بدل کر زہرہ کنجڑن کے ساتھ مل کر سبزیوں اور پھلوں کی یہ ریڑھی چلائیں گے اور دہلی کے کوچہ و بازار میں گھوم پھر کر رعایا کا حالِ زبوں معلوم کریں گے۔ اب اس سریلی کنجڑن کو بلائو اوراس کے ہاتھوں سے کٹے ہوئے لال تربوز مجھے بھی کھلائو۔‘‘
اسی وقت ایک خادمہ نے زہرہ کنجڑن کو شاہی پیغام دیا ۔زہرہ کنجڑن شاہی محل میں پہنچی تو لال کنور اپنی سہیلی سے لپٹ گئی۔ دِل کے تمام گزشتہ افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچ چکے تھے ۔لال کنور تو امتیاز محل کا لقب پا کر ملکہء ہند بن چکی تھی۔زہرہ کنجڑن سوچ رہی تھی کہ اس کے بچپن کی سہیلی لال کنور کے ساتھ اس کی شناسائی کی بات اب جانے کہاں تک پہنچے۔ لال کنور نے زہرہ کنجڑن سے کہا:
’’اپنے ہاتھوں سے تربوز ظلِ تباہی کو کھلائو۔‘‘
زہرہ کنجڑن نے کہا:
’’جب کوئی ہوس کا خیال کرتا ہے تو میں اپنے جمال سے اُس کا منہ تربوز کے مانند لال کر دیتی ہوں ۔ظلِ تباہی تربوز کا ایک کھوپا کھائیں اور اپنے ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر اس کا پانی بھی پئیں۔تربوز کا دوسرا کھوپا میں اور لال کنور کھائیں گے۔‘‘
جہاں دارشاہ نے جب زہرہ کنجڑن کا کاٹا ہوا تربوز کھایا اور تربوز کے کھوپے میں پڑا پانی پیا تو وہ بہت خوش ہوا اور بولا :
’’ یہ تربوز تو سیب ،انناس اور آم سے کہیں بہتر اور خوش ذائقہ اور میٹھا ہے ۔ اس تربوز کا پانی تو ناریل سے بھی زیادہ خو ش ذائقہ ہے جسے پی کر میں پانی پانی ہو گیا ہوں۔آج سے تربوز کو شاہی پھل کا درجہ حاصل ہوگا اور شاہی مہمانوں کی تواضع تربوز ہی سے کی جائے گی ۔تربوز کی ساری مٹھاس تو زہرہ کنجڑن کی اُنگلیوں کی مر ہونِ منت ہے۔اے حسینہ تم تو ایک ساحرہ ہو تمھاری اُنگلیوںکے لمس سے حنظل سے بھی شہد ٹپکنے لگتا ہے۔ تمھارے عارض کی سرخی نے تربوز کا رنگ لال کر دیا ہے،میری زندگانی بھی عارضی ہے۔ آج سے تم بھی قصر ِشاہی میں قیام کرو گی ۔تمھیںملکہء ہند منتظر کا درجہ حاصل ہو گا۔ لال کنور کو توسالانہ دو کروڑ روپے ذاتی اخراجات کے لیے ملیں گے اب یہ لال کنور کی مرضی ہے وہ جس قدر رقم چاہے تمھیں دے ،سارا خزانہ تم دونوں کے تصرف میں رہے گا۔تمھاری سبزیوں والی گدھا گاڑی چلانا اب شاہی مطبخ کے ملازم کی ذمہ داری ہے۔کبھی کبھی مابہ ذلت بھی رعایا کے حالات معلوم کر نے کے لیے بھیس بدل کر تمھارے ہاتھو ں میں ہاتھ ڈال کر گدھا گاڑی پر سبزیاں اور پھل بیچنے کے لیے سیلانی جو گیوں کی طرح شہر کا پھیرا لگائیں گے۔اب ملک میں عقوبت خانوں ،چنڈو خانوں ،قحبہ خانوںاور کنجڑا خانوں کا جال بچھا دیا جائے گا۔‘‘
’’ تربوز کا پانی اتنا پسند ہے تو یہ چُلّو بھر پانی لے کر اس کی غواصی کرو اور اپنی اُداسی دور کرو۔اب کباب میں سے ہڈی نکالنے کے بارے میں بھی سوچو،‘‘زہرہ کنجڑن نے کہا’’اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔میں او ر لال کنور یک جان دو قالب ہیں۔میں اس کے برابر اخراجات پر راضی ہوں ۔مجھے زیادہ کا کوئی لالچ نہیں ۔‘‘
’’ داروغہ ء مطبخ !شاہی خانساماں بہت ہڈ حرام بن گیا ہے ۔اس کو نا ہنجار کورد ادب کی تنبیہہ کر دو اور اس سمجھا دوکہ اگر آئندہ کبھی کباب میںہڈی پائی گئی تو اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جائے گی اور کوئی اس کی ہڈ بیتی لکھنے والا نہیںہو گا۔‘‘جہاں دار شاہ نے آگ بگولا ہو کر کہا’’میں جب بھی کباب کھاتا ہوں میرے منہ میں ہڈی پھنس جاتی ہے ۔بہت ہو چُکی اب کباب میں سے ہڈی کو نکالنا ضروری ہے۔‘‘
’’تمھارے ذہنی افلاس کا علاج ممکن ہی نہیں‘‘لال کنور نے جہاں دارشاہ کو ٹھڈا مار کر کہا’’نعمت خان کلانونت کو کہیں باہر بھیج دو۔وہ ہماری نجی محفلوں میںگُھس کر پریشان کرتا ہے اور کباب میں ہڈی ثابت ہو تا ہے۔ہر وقت سارنگی لیے زندگی سے بیزار کرنے والی دھنیں بجاتا رہتا ہے۔اس کے ساتھی طبلہ نواز اور سازندے سب مل کر ظلِ تباہی کی دُرگت بناتے ہیں مگر جہاں فنا تو چکنے گھڑے ہیں،ذرا ٹس سے مس نہیں ہوتے۔‘‘
’’اب میں سمجھ گیا کہ تم کیا چاہتی ہو ؟‘‘جہاں دار شاہ نے کہا’’ ما بہ ذلت ٹھوکریں اور ٹُھڈے کھا کر اشتعال میں نہیں آتے ۔عشق میں در در کی ٹھوکریں کھانا ہر عاشق کا مقدر ٹھہرتا ہے ۔تمھارے کہنے پر نعمت خان کلانونت کو ملتان کاصوبے دار مقرر کیا جاتا ہے ۔ سب ڈُوم ،ڈھاری ،بھانڈ ،بھڑوے ،مسخرے ،لُچے ،شہدے ،رجلے ، خجلے اور بھگتے اس کے مشیر بن کر اس کے ساتھ جائیں گے ۔وہاں کی گرد ،گرما ،گدا اور گورستان د یکھ کر وہ اپنی اوقات سمجھ لے گا۔اس کے ذوق کے مطابق وہاں اس کے لیے ملتانی سوہن حلوے کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ابن قاسم باغ کے قلعہ میں اس کے قیام اور حفاظت کا اسی طرح انتظام کر دیاگیا ہے جیسا اورنگ زیب نے شاہ جہاں کے لیے کیا تھا۔نعمت خان کلانونت نے قصر شاہی میں منعقد ہونے والی رقص وموسیقی کی محفلوں میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔اس کی وجہ سے پریوں کا اکھاڑہ سجتا رہا اور ما بہ ذلت کی فن پروری کا ڈنکا بجتا رہا۔ملتان میں اسے بالکل نئے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔انتظامی ذمہ داریوں کے باعث اسے ایسی محفلوں سے اجتناب کرنا پڑے گا جہاں دل کی لگی پاسبان عقل کو بارہ پتھر کر دیتی ہے اور عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ان دنوں میری بھی ایسی ہی کیفیت ہے ،حُسن والوں کی مدارات نے مجھے عیش و نشاط کی جو سوغات دی ہے ا ب تو وہی میری کُل کائنات ہے۔ اگر نعمت خان کلانونت بھی میری طرح شراب ،شباب ،رقص اور موسیقی کی محفلوں کا رسیا رہا تو خراباتی اسے بھی ٹھڈے ماریں گے۔ جس طرح میں ٹھڈے کھا رہا ہوں ،اسی طرح وہ بھی زندگی بھر ٹھڈے کھاتا رہے اور ٹھڈے کھاتا کھاتازیرِ زمیں چلا جائے گا جہاں ملخ و مُور کے جبڑوں میں اس کا بدن ہو گا ۔ ‘‘
جب نعمت خان کلانونت کو ملتان کا صوبے دار مقرر کرنے کے شاہی احکامات جاری ہو گئے تو وزیر بے تدبیر ذوالفقار خان کی آنکھیں ان احکامات کو پڑھ کر کُھلی کُھلی رہ گئیں۔اس نے نعمت خان کلانونت سے فرمائش کی کہ خوشی کے اس موقع پر اسے ایک ہزار سارنگیاں فراہم کرے ۔جہاں دار شاہ کو یہ معلوم ہوا تو اس نے وزیر بے تدبیر ذوالفقار خان سے پوچھا َ’’ اتنی بڑی تعداد میں سارنگیوں کی کیا ضرورت ہے؟ نعمت خان کلانونت کے پاس تو ایک ہی سارنگی ہے جو وہ ہر وقت بجاتا رہتا ہے اور دیپک راگ الاپ کر اپنے دل کے ارمان آنسوئوں میں بہاتا رہا ہے۔‘‘
وزیر بے تدبیر ذوالفقارخان نے ادب سے کہا:’’ظل تباہی !اب اعلا عہدوںپر تقرر کا معیار بدل گیا ہے۔پہلے تدبر ،فراست ،شجاعت اور خاندانی عظمت کو معیار سمجھاجاتا تھا۔اب تو سارنگی نواز ہی کلیدی
عہدوں پر فائز ہو ں گے۔میں یہ ایک ہزار سارنگیاں پُورے ملک میں تقسیم کروں گا اور سب پر واضح کردوں گا کہ اگر کوئی شخص ترقی یا منصب کا خواہش مند ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ موسیقی کی شُد بُد رکھتا ہو اور سارنگی بجانے کی مہارت حاصل کرے۔اب جُھمکے اور ٹُھمکے کا ڈنکا بجے گا۔‘‘
’’بہت خوب!تم سچ کہتے ہو اب نیا زمانہ آ گیا ہے اور نئے صبح و شام اپنے الگ تقاضے رکھتے ہیں۔‘‘جہاں دار شاہ نے کہا’’اعلا عہدے کوئی خاندانی میراث نہیں۔میرے عہد میں پِسے ہوئے طبقے ہی آگے آئیں گے ۔ہر کلانونت کو صدا دو کہ وہ بڑھ کر اپنا منصب سنبھالے۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک طوائف کو ملکہء ہند اور ایک ڈُوم کو صوبے دار مقرر کیا گیا ہے۔ ایک ہزار سارنگیاں ضرور منگوائواور انھیں نئی نسل میں تقسیم بھی کرو لیکن ان کی خریداری کے اخراجات شاہی خزانے سے ادا کیے جائیں۔‘‘
صدیوں سے دہلی شہر کے باہر ایک فیض نہر بہتی تھی۔اس نہر کا صاف پانی پینے کے کام آتا تھاور نہر کے دونوں کناروں پر سایہ دار درخت اُگے تھے۔نہر کے کنارے بُور لدے چھتنار تھے ،جہاں اثمار کی فراوانی تھی۔فیض نہر کے کنارے جو درخت تھے ان میں سرو ،صنوبر ،ساگوان،انار، آم ،شہتوت ،کھجور،لسوڑے،شیشم،برگد، نیم ،بکائن ،کیکر، سُنجاونا ، بیری ،امرود،مالٹا،سنگتر ہ ، انگو ر کی بیلیںاوراملتاس شامل تھے۔ فیض نہر کے کناروں پر میلوں تک پھیلے ہوئے ان درختوں کی چھائوں میں لوگ آرام کرتے ۔کئی لوگ جانوروں کو بھی ان درختوں سے باندھ دیتے ۔انواع و اقسام کی خودرو جڑی بوٹیاں اور بیلیں بھی یہاں اُگتیںان میں کاسنی،پیلوں ،کریریں اورڈیہلے ،مکو،جنگلی پودینہ،کھمبیاںاور گُلاب قابلِ ذکر ہیں۔ ہر درخت پر طائرانِ خوش نوا کے گھونسلے اور شہدکی مکھیوں کے چھتے تھے ۔شہد کی مکھیوں کے ان چھتوں سے خالص اور قدرتی شہد حاصل ہوتا تھاجسے نعمتِ خداوندی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔صدیوں سے فیض نہر کے یہ سایہ داراور پھل دار درخت مسافر نواز بن کر راہ گیروں کی میزبانی کر رہے تھے۔
گرمیوں کی ایک دو پہر تھی لال کنور اورزہرہ کنجڑن کی فرمائش پر جہاں دار شاہ نے فیض نہر کی سیر کا فیصلہ کیا۔جہاں دار شاہ نے کنجڑے کا سوانگ رچایا،لال کنور نے منہ ڈھانپ لیااور زہرہ کنجڑن خود گدھا گاڑی چلا رہی تھی۔بادشاہ کی حفاظت کے لیے نعمت خان کلانونت اپنی غُلیل میں غُلّہ ڈالے چوکس اور مستعد بیٹھا تھا اور بے ادب ،بے ملاحظہ نا ہنجار کی منادی کررہاتھا۔ایک اور خچر پر ذوالفقار خان سوار تھاجو حالات کی ستم ظریفی دیکھ کر اپنے غیظ و غضب اور بے بسی کو ضبط کر کے بے حسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔چار گھنٹے کی سیر کے بعد جب شام کو یہ سب بد اندیش واپس آئے تو ذوالفقار خان نے کہا:
’’نہر کے کنارے یہ قدیم درخت حُسنِ فطرت کے بانکے پہرے دار ہیں۔یہ بُور لدے چھتنارلاکھوںطائرانِ خوش نواکے آشیانوںکے امین ہیں۔حدِنگاہ تک ہریالی ہی ہریالی دکھائی دیتی ہے۔فیض نہر کے کنارے صدیوں سے کھڑے یہ درخت ہمارے اسلاف کی محنت کی مثال اور فیض کا ایسا اسباب ہیںجن پرہم ناز کرسکتے ہیں۔‘‘
’’اونہہ!کون سے پرندے ان درختوں پر رہتے ہیں؟‘‘لال کنورنے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا’’کوئی بھی ڈھنگ کا پرندہ ان درختوں پر رہنا گوارانہیں کرتا ۔جس طرف نظر اُٹھتی ہے پِدی کی اُڑان سے تکان ہو جاتی ہے۔کہاں گئے میرے پسندیدہ جانور اور طائرانِ زمزمہ خواں زاغ وزغن،دیو پیکر کرگس، بِجُو، لُدھڑ،مگر مچھ،خار پُشت ،بُوم اور چُغدجن کودیکھنے کے لیے میری آنکھیں ترس گئی ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان قدیم اور فرسودہ درختوںپر چڑیلیں، بُھوت ،آسیب اور جِن رہتے ہیں۔ ان قدیم آسیب زدہ درختوں نے مُجھے شدید خوف اور اضطراب میں مبتلا کر دیاہے۔‘‘
’’ یہ صدیوں پُرانے درخت بے حد منحوس ،پُر اسرار اور آسیب زدہ ہیں۔ان درختوں کی شاخوں میں پچھل پیریاں،بد روحیں ،کالی بلائیںاور خون آشام بُھوت رہتے ہیں‘‘زہرہ کنجڑن بولی’’کوئی بھی حسین عورت ادھر کارخ نہیں کرتی۔یہ گھنے درخت ایک جنگل کا روپ دھار چُکے ہیں جہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔اس جنگل میں عزتوں کے لُٹیرے ،چور ،ٹھگ اور اُچکے رہتے ہیں۔ان درختوں کی چھائوں نے اب مجرموں اور باغیوں کی کمین گاہ کی شکل اختیار کر لی ہے جہاں حکومت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ان درختوں کی وجہ سے انتظامات سلطنت میں خلل پڑ رہا ہے۔ان درختوں کے کٹنے سے حکومت مخالف باغی عناصر کو سر چھپانے کی کہیں جگہ نہیں ملے گی۔‘‘
لا ل کنور نے قہر بھری نگاہ سے جہاں دار شاہ کی طرف دیکھا اور بولی ’’اب سوچ کیا رہے ہو ؟ان تمام قدیم درختوںکو فی الفور کٹوا دیا جائے اوران کی جگہ میری پسند کے مطابق زقوم ،تھوہر ،پوہلی،اکڑا،دھتورا، بھکڑا،پوست ،بھنگ اور حنظل اُگائے جائیں۔‘‘
جہاں دار شاہ نے کفن پھاڑ کر کہا’’ایسا ہی ہو گا ! ایک ہفتے کے اندر ان صدیوں پرانے درختوں کا صفایا کر دیا جائے گا اور ان کی جگہ ملکہ ء ہند کے پسندیدہ پودے اُگائے جائیں گے۔اب تو ملکہء عالم کی پسند ہی میری پسند قرار پائے گی۔ اب نئے انداز ِ انجمن ہو ں گے ،عنقا سارے گلشن ہو ں گے ا ور چٹیل میدانوں میں ہر سُو بُوم، شِپر ،کرگس اور زاغ و زغن ہوں گے۔ نعمت خان کلانونت خر افگن کو رعایا کی بالوث مرمت کے اس غیر معمولی فنائی کام کی نگرانی پر مامور کیا جاتا ہے۔ ‘‘
شاہی احکام کی تعمیل میں اگلے دن سیکڑوں بڑھئی اور لکڑ ہارے کلہاڑے اور آرے لیے ان درختوں پر ٹُوٹ پڑے۔قاتل تیشوں نے ان ساونتوں کے جسم چیر کر رکھ دئیے۔ سیکڑوں طیور اس آشیاں بربادی میں ہلاک ہو گئے ۔ہر طرف کرگس اور زاغ و زغن ان بدقسمت طیور کو نوچنے کے لیے منڈلا رہے تھے ۔ایک ہفتے کے بعد میلوں تک نہر کے کنارے چٹیل میدان کا منظر پیش کر رہے تھے اور ہر طرف خاک اُڑ رہی تھی۔یہ دیکھ کر لال کنور اور زہرہ کنجڑن نے خوشی کا اظہارکیا اور ان عقل کے اندھوں نے منوں ریوڑیاں کلاونت نگر میں مقیم اپنے احباب میں تقسیم کیں۔
جمنا میں کشتی کے ڈبونے کا واقعہ بھی جہاں دار شاہ ،نعمت خان کلانونت ،لال کنور اور زہرہ کنجڑن کا قبیح کردار سامنے لاتا ہے۔ نعمت خان کلانونت ،لال کنور اور زہر ہ کنجڑن جیسے سادیت پسندی کے مریضوں نے جہاں دار شاہ کو ذہنی اور عملی طور پر مفلوج کر دیا تھا۔ اس کی مثال ایک ایسے ناگ کی تھی جس کے دانت اور زہر کی تھیلی لال کنور نے نکال دی تھی۔کثرتِ مے نوشی کے باعث جہاں دار شاہ بے عملی ،بے حسی اور حماقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بادی النظر میں تو جہاں دار شاہ ایک شیر دکھائی دیتاتھا لیکن جنسی جنون اور شراب نوشی کے باعث وہ اپنے دانتوں اور پنجوں سے محروم ہو کر مثلِ حمار لال کنور کی ناز برداری اور اس کی ہم جولی طوائفوں کی بار برداری پر مجبور تھا۔ نعمت خان کلانونت ،لال کنور اور زہرہ کنجڑن لذتِ ایذا حاصل کرنے کے لیے ہر ظلم کرنے پر تُل جاتے۔شادی کے اگلے دن جہاں دار شاہ نے لال کنور سے کہا:
’’اس وقت تم ملکہء عالم ہوپُورا ہند ،سندھ تمھارے رحم و کرم پر ہے ۔اپنی کوئی ایسی خواہش بتائوجو ابھی تک تشنہء تکمیل ہو۔‘‘
لا ل کنور نے اپنی چڑیل جیسی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا:
’’میں نے آج تک مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی بہت بڑی کشتی دریا میں ڈُوبتی ہوئی نہیں دیکھی ۔میں ایک ایسا منظر دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایک بہت بڑی کشتی ہو جو ہر عمر اور ہر جنس کے لوگوں سے
بھری ہو۔یہ کشتی دریا کی طوفانی لہروں کی منجدھار میں ڈبو دی جائے۔کشتی میں سوار مسافروں کو ڈُوبتے وقت آہ و زاری کرتے، چیختے ،چلاتے ،مدد کے لیے پُکارتے اور بے بسی کے عالم میں راہیء ملک عدم ہوتے دیکھنے کے لیے میں بہت بے چین ہوں ۔‘‘
زہرہ کنجڑن بولی’’لال کنور امتیاز محل ملکہء ہند کی یہ خواہش اپنی مثال آپ ہے۔‘‘
نعمت خان کلانونت ہرزہ سرا ہوا:’’ظلِ تباہی کو ملکہ ء عالم کی یہ چھوٹی سی خواہش پُوری کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ردِ ادب !خاموش رہو ،میں بادشاہ ہوں جو چاہوں کر سکتا ہوں ‘‘جہاں دار شاہ نے نہایت ڈھٹائی سے کہا’’ملکہ ء عالم کی یہ چھوٹی سی خواہش ابھی پوری کی جائے گی۔کوتوالِ شہر کو حاضر کیا جائے۔‘‘
کوتولِ شہر دُم ہلاتا ہوا سر جُھکا کر حاضر ہو ا۔اُسے دیکھ کر جہاں دار شاہ نے غراتے ہوئے کہا:
’’ما بہ دہشت جمنا کے دوسرے کنارے ایک شاہی دعوت اور محفلِ رقص و موسیقی کا انتظام کر رہے ہیں۔تم ایک بہت بڑی کشتی میں ہر عمر کے باذوق تما شائیوں کو بٹھا کر دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پہنچانے کا فی الفورانتظام کرو۔ حرام کھا کھا کر تم بہت چربیلے ہو چُکے ہو ۔ اگر اس کام میں تاخیر ہوئی تو تمھیں کو لھو میں پِسوا دیا جائے گااور تمھارا تیل جوڑوں کے درد کے مریضوںمیں مفت بانٹ دیا جائے گا۔‘‘
ایک مشاق ملاح کو جہاں دار شاہ نے اپنے مکروہ اور سفاکانہ منصوبے سے آگاہ کیا اور راز داری کی تاکید کی۔
دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر موسیقی اور رقص کی محفل کا آغاز ہو گیا ۔انواع و اقسام کے کھانوں کی دیگیں پک رہی تھیں ۔جہاں دار شاہ ، نعمت خان کلانونت ،لال کنور اورزہرہ کنجڑن سب بہت خوش تھے۔نیم عریاں لباس پہنے کلانونت نگر کی رقاصائوں نے طبلے کی تھاپ پر ناچتے وقت شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے بے غیرتی اور بے شرمی کاجو سماں باندھا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ نعمت خان کلانونت اور اس کے بدنام ساتا روہن سارنگیاں بجا رہے تھے ۔اچانک ایک بہت بڑی کشتی نے دریا کی طوفانی لہروں پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔اس کشتی میں کم سِن شِیر خواربچے نوعمر لڑکے اور لڑکیاں ،خواجہ سرا ،خواتین ،جوان اور بُو ڑھے سب شامل تھے۔اس بد نصیب کشتی میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔قسمت سے محروم کشتی کے مسافر اپنے انجام سے بے خبر خوب صور ت لباس پہن کر شاہی دعوت میں شرکت کے لیے کشتی میں سوار ہوئے۔جب یہ کشتی دریا کی مہیب طوفانی لہروںکی منجدھار میں پہنچی تو جہاں دار شاہ نے اپنا ہاتھ زمین کی طرف کیا اورملاح کو حکم دیا:
’’کشتی کو گرداب میں ڈبو کر خود تیر کر ہمارے پاس آ جائو۔‘‘
لدھڑ کی شکل والا ملاح نتھو مو ہانہ ایک جلاد قماش کا مسخرہ تھا ۔اس نے چپو اس طرح چلایا کہ کشتی دریائے جمناکی طوفانی لہروں پر ہچکولے کھاتے کھاتے ڈُوبنے لگی اور کشتی میں دریا کا پانی تیزی سے داخل ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ہی نتھو موہانے نے کشتی سے چھلانگ لگا دی اور تیرتا ہوا کنارے کی طرف بڑھا۔نتھو مو ہانہ جب کنارے پر پہنچا تو جہاں دار شاہ اور لال کنور نے نتھو مو ہانے کی کشتی رانی کی مہارت کی تعریف کی اور اسے انعام او ر ایک پُرانی رفو شدہ خلعت سے نوازا۔ کشتی کے بے بس ،لاچار ،قسمت سے محروم اورمظلوم مسافروں کی چیخ پُکار سُن کر سب درندے دھمالیں ڈال رہے تھے۔لا ل کنور کی آنکھوں میں خُون آشام چڑیل کی کریہہ آنکھوں جیسی منحوس چمک تھی ۔ وہ زہرہ کنجڑن ،نعمت خان کلانونت اور جہاں دار شاہ کے ساتھ مل کر خوشی سے ناچ رہی تھی۔کچھ دیر بعد بد قسمت کشتی ڈُوب گئی اور تمام مسافر لقمہء اجل بن گئے۔ لال کنور نے بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر دیوانہ وار رقص شروع کر دیا اور جہاں دار شاہ کے پہلو میں بیٹھ کر ممنونیت کے جذبات کااظہار کرتے ہوئے کہا:
’’ تیرا پہلو بھی اسی کشتی کی طرح برباد رہے اور تم عالمِ نزع میںشب تنہائی کی قیامت اور بے بسی کی موت کی ندامت کو سمجھ سکو۔ تم نے میری ایک معمولی سی دیرینہ خواہش پوری کر دی ۔کشتی کیا ڈوبی میرا عشق تیر کر دل کے دریا میں کنارے آ لگا ہے۔‘‘
’’یہ تو تمھاری ایک بے حد معمولی سی خواہش تھی جسے میں نے پورا کر دیا ہے ‘‘جہاں دار شاہ نے کہا’’میں مطلق العنان بادشاہ ہوں ۔میں چاہوں تو پُوری سلطنت کا بیڑا غرق کر سکتا ہوں ۔مجھے کون پُوچھ سکتاہے۔یہ تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھنا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔‘‘
شاہی دعوت میں شریک تما م درندے شراب نوشی میں لگے تھے ۔انھوں نے جی بھر کرکھانا کھایا اور اس دعوت اور خوب صورت تفریح کاانتظام کرنے پر بادشاہ اورملکہ کا شکریہ ادا کیا۔لال کنور کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا،اُس نے کلانونت نگر سے آنے والی تمام رقاصائوں کو قیمتی انعامات اور تحائف دے کررُخصت کیا۔
نعمت خان کلانونت کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن لال کنور نے جب جہاں دار شاہ سے شادی کر لی تو وہ سنبھل نہ سکا۔لال کنور نے لا ل قلعے میں ڈیرے ڈال دئیے ۔جان لیوا تنہایئوں نے نعمت خان کلانونت کو اپنے نرغے میں لے لیا۔جہاں دار شاہ کی آنکھوں میں نعمت خان کلانونت کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔لال کنور بھی جذباتی طور پر منہدم ہوچکی تھی۔لال کنور نے بھی انار کلی کا کردار ادا کیا لیکن وہ انار کلی کے انجام سے بچنا چاہتی تھی۔جس طرح انار کلی نے اکبر اور سلیم دونوں کو خوش رکھا وہ بھی جہاں دار شاہ اور نعمت خان کلانونت دونوں کو مطمئن رکھنے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔نعمت خان کلانونت کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے جہاں دار شاہ نے یہ حماقت ِ بے عملی اپنائی کہ اُس کی نقل و حرکت ملتان تک محدودکر دی اور اس کی دہلی آمد اور لال قلعے میں داخلے پر پا بندی لگا دی۔اسے تاکید کر دی کہ ملتان میں تختِ دہلی کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی ہیں وہ شر پسند عناصر ،باغیوں اور سازشیوں کو رقص و سرود اور شراب و شباب کی محفلوں میں مست رکھے اور لالچ دے کرانھیں آدابِ غلامی سکھائے۔
نعمت خان کلانونت نے تیل اور تیل کی دھار کو دیکھ لیا تھا ۔اس نے بادشاہ گر سادات ِ بارہ اور فرخ سیر سے رابطہ کیاتواُس کی اُمید بر آئی۔سب اس بات پر متفق تھے کہ جہاں دار شاہ ایک نااہل حاکم ہے جو رعایا کی شامت اعمال کی سزا کی صورت میں قصرِ شاہی میں اقتدار پر غاصبانہ طور پر قابض ہے۔ دوران ِ ملاقات سادات بارہہ کے سر براہ حسین علی نے کہا:
’’میں وہ ہوں جس شہزادے کو جُوتا مار دوں وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔‘‘
جہاں دار شاہ بولا ’’مہربانی فرما کر اس بار اپنا ہما نما کفش فرخ سیر کے سر پر رسید کیا جائے اور جہاں دارشاہ کو ٹھکانے لگا دیا جائے ۔اس کے بعد میں اپنی محبوبہ لال کنور کو لے کر کسی محفو ظ ٹھکانے میں منتقل ہو
جائوں گا۔‘‘
’’ سارنگی نواز خر افگن نعمت خان کلانونت تم تو عقل کے اندھے ہو ‘‘حسین علی نے رعونت سے کہا’’میں اپنا جوتا مار کر کسی بھی شہزادے کو بادشاہ تو بنا سکتا ہوں لیکن میرے جوتے میں وہ تاثیر نہیں کہ وہ کسی محبوبہ کو اس
قدر گھائل کر ے کہ جوتے کی ضرب اُسے عاشق کے ساتھ وفاداری پر مائل کرے۔یہ دِلوں کے نازک معا ملات ہوتے ہیں جو طاقت اور سازش سے نہیں بل کہ سچے جذبوں سے حل ہو تے ہیں ۔‘‘
نعمت خان کلانونت،بادشاہ گر سادات بارہہ اور فرخ سیر نے ایک سازش کے ذریعے جہاں دار شاہ کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ نعمت خان کلانونت نے بچپن کی محبوبہ لال کنور کو پھر سے حاصل کرنے کے لیے زر ،زمین ،ذہن اور ضمیرسب کچھ فروخت کر دیا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ نشانے پر جا لگا تو پھر تو یہ تیر ایک کارگر تیر ثابت ہو گا ورنہ یہ تُکا بھی باعث ندامت نہیں۔وہ پہلے ہی لال کنور کی سیڑھی کے ذریعے قصر و ایوان کی بلند و بالا چوٹی تک پہنچا ہے۔جہاں دار شاہ سے اس کی نفرت حسد اور رقابت کے باعث تھی ورنہ ذہن اور کردار کے افلاس کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ آخر وہ نیک ساعت آ ہی پہنچی جب جہاں دار شاہ فطرت کی سخت ترین تعزیروں کی زد میں آ گیا۔ فرخ سیر جب اپنے چچا جہاں دار شاہ ے مقابلے کو نکلا تو وہ جانتا تھا کہ وہ ایک مکار لومڑی لال کنور کے شکار کو نکلا ہے ا س کے با وجود اس نے احتیاط یہ کی کہ شیر مارنے کا سامان بھی ساتھ لے لیا۔اس کے بر عکس جہاں دار شاہ کے بانکے، ساتا روہن ،اجلاف و ارذال اورسفہا طوائفوں کے جُھرمٹ میں طبلے اور سارنگی کی دُھن پر ہمہ وقت رقص میں مصرو ف رہتے تھے۔ آگرہ میں دنیا کے عجوبے تاج محل کی حسین عمارت سے کچھ فاصلے پر ایک اورعجوبہ رونما ہوا ، بارہ فروری 1713کو فرخ سیر کے سپاہیوںاور جہاں دار شاہ کے سارنگی نواز محافظوں کاآمنا سامنا ہوا۔فرخ سیر کی فوج کی یلغار کے سامنے جہاں دارشاہ کے عیاش خواجہ سرا ، بانکے اور کلانونت ٹھہر نہ سکے اور سب کے سب دُم دبا کر بھاگ نکلے۔ بہت سے چُوری کھانے والے طوطوں نے جب بدلتی ہوئی ہوا کا رخ دیکھا تو تو طوطا چشمی کرتے ہوئے مخالف سمت کی جھاڑیوں پر جا بیٹھے اور چونچیں پھاڑ پھاڑ کر ٹیں ٹیں کرنے لگے ۔ مار خور اور مال خور مد مقابل تھے سب مال خور ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔وہ منہ چُھپاکر سر جُھکاکر اور دُم دبا کر آگرے سے بھاگے تو دہلی آ کر دم لیا ۔ مغل بادشاہ جہاں دار شاہ اور اس کے وزیر بے تدبیر ذوالفقار خان نے جب اپنے محافظوں کو راہِ فرار اختیار کرتے دیکھا توانھوں نے مل کر کہا کہ اے راہ دغا کے مسافرو ٹھہرو ہم بھی تمھارے پیچھے چلے آ رہے ہیں مگر اس نقار خانے میں طوطی کی آواز پر کسی نے دھیان نہ دیا۔ان دونوں بزدلوں کو فرخ سیر کی سپاہ نے گرفتار کر لیا اور انھیں موت کے گھاٹ اتار کردھرتی کا بوجھ کچھ کم کر دیا۔ کلانونت نگر کے سب ڈُوم پینترے بدل کر ہر طرف فرخ سیر کی فتح کے شادیانے اورنقارے بجا رہے تھے۔ کلانونت نگر کی طوائفیںاور بھانڈ بھڑوے جو لال کنور کی صبح ِ اقتدارمیں راہ سے بھٹک گئے تھے اس کی شامِ زوال کو دیکھ کر پھر سے اپنے قحبہ خانوں میں اپنے آبائی دھندے میں مصروف ہو گئے۔ لال کنور قصرِ شاہی میں تھی تو کلانونت نگر کے سب بھڑوے لُوٹ کر لاتے اور ٹُوٹ کر کھاتے مگر اب انھیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گیااور سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو تہس نہس ہوتے دیکھا تھا۔ فرخ سیر کے سپاہیوں نے اکثر بھاگنے والوں کو تیروں سے چھلنی کر دیا۔فرخ سیر جب فاتحانہ انداز میں قصرِ شاہی میں داخل ہوا تو ایک ہاتھی پر جلاد لُدھڑ موہانہ بیٹھاتھا جس نے جہاں دار شاہ کا سر نیزے پر بلند کر رکھاتھا،جہاں دار شاہ کی لاش اسی ہاتھی کی دُم سے بندھی زمین پر گِھسٹتی چلی آ رہی تھی جس سے خُون ٹپک رہا تھا۔مغل بادشاہ جہاں دار شاہ (عرصہ ء حیات :نو مئی سولہ سو اکسٹھ تا بارہ فروری سترہ سو تیرہ ) اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ چُکا تھا۔ایک اور ہاتھی کی دُم کے ساتھ اس کے وزیر ِ بے تدبیر ذوالفقار خان کی لاش لٹکی ہوئی تھی ۔یہ لاش بھی زمین پر گھسٹتے گھسٹتے بُری طرح مسخ ہو چکی تھی۔ گردشِ حالات نے جہاں دار شاہ کو اس دنیا کے آئینہ خانے میں ایک تماشا بنا دیا۔لال کنور کو جہاں دار شاہ کی ہلاکت کاپہلے سے علم ہو چُکا تھا۔اس نے اور زہرہ کنجڑن نے ہیرے جواہرات ،سیم و زر اور دولت کی گٹھڑیاں اُٹھائیں اور لال قلعے سے بھاگنے کی کوشش کی ۔ نعمت خان کلانونت یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔اُسے توقع تھی کہ لال کنور اورزہرہ کنجڑن اس کے پاس چلی آئیں گی۔وہ پہلے ہی فرخ سیر سے ان دونوں کے لیے امان حاصل کر چکا تھا مگر اس کے دل کے سب ارمان آہوں اور آنسوئوں میں بہہ گئے اور وہ تنہائیوں کے سراب میں بھٹکنے او ر خاک بہ سر در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے تنہا رہ گیا۔نعمت خان کلانونت کو دیکھ کرلال کنور اور زہرہ کنجڑن نے اُس کی طرف تُھوکا اور منہ پھیر کر آگے بڑھیں۔ فرخ سیر کے سپاہیوں نے اِن رذیل طوائفوں کو پہچان لیا اور ان سے شاہی خزانے سے لوٹے ہوئے مال کی گٹھڑیاںچھین لیںاور انھیںا ندر جانے کی ہدایت کی مگر وہ باہر جانے کی ضد کر رہی تھیں۔ سپاہیوں نے ان دونوں کو زور سے دھکا دے کر قصرِ شاہی میںجانے پر مجبور کیا۔ اسی کشا کش میں وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑیں۔فرخ سیر کی فوج کے ہاتھیوں کی ایک ٹولی ان دونوں طوائفوں کو کُچلتی ہوئی تیزی سے آگے نکل گئی۔فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیںنظام سقے کا اقتدار ختم ہو چکا تھا ۔کلانونت نگر کے مکین پھر سے اپنے قحبہ خانوں میں آ بسے۔ تاریخ کے اس عظیم سانحہ کے بعد فرخ سیر نے بھی نعمت خان کلانونت کی کوئی قدر نہ کی ۔نعمت خان کلانونت اپنی سارنگی لیے دہلی سے فرار ہو گیااور باقی زندگی ایک بھکاری کا روپ بنا کر تماشائے اہل ِ کرم دیکھنے کے لیے وقف کر دی۔اپنی ناکام زندگی کے آخری تکلیف دہ ایام میں نعمت خان کلانونت قلعہ لاہور کے نواح میں ایک پرانے کھنڈر کی کھائی میں منہ کے بل پڑا رہتا تھا ۔ بعض راہ گیر اس کی حالتِ زار دیکھ کر اس کے پاس پڑے کشکول میں کچھ سکے ڈال دیتے اور کچھ خدا تر س لوگ اسے کھانے پینے کی اشیابھی باقاعدگی سے دے جاتے تھے۔ چیتھڑوں میں ملبوس اور بینائی سے محروم اس تباہ حال بھکاری کے جسم سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے اس لیے کوئی بھی اس کی طرف آنکھ بھر کے نہ دیکھتا۔اس کی آنکھیں ہمیشہ ساون کے بادلوں کی طرح برستی رہتیں۔نعمت خان کلانونت ایک شام قلعہ لاہور کی بیرونی دیوار کی ایک کھائی میں مُردہ حالت میں پایا گیا ۔ گل سڑ جانے کے باعث اس کی لاش بُری طرح مسخ ہو چکی تھی جسے حشرات اور زاغ و زغن نے نوچ لیا تھا۔شہر کی صفائی پر مامور عملے نے ناک لپٹ کر اس عفونت زدہ ڈھانچے کو گھسیٹ کر شناخت کے لیے بادامی باغ کے باہر کُوڑے کے ایک ڈھیر پر لا پھینکا۔کئی روز گزر گئے کسی نے اس پر توجہ نہ دی ۔درختوں کے خشک پتوں اور کُوڑے کے ڈھیر میں یہ ڈھانچہ دب گیا۔ایک دن کسی نے درختوں کے خشک پتوں اور کُوڑے کے ڈھیر کو آگ لگا دی۔اس طرح نعمت خان کلانونت کا صفایا ہو گیا۔ اس کی آخری نشانی پر سنا ہے ایک بیت الخلا تعمیر کیا گیا ہے جہاں رفع حاجت کے لیے جانے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔