اُس ستم گر کے سب اندازِ ستم رہنے دے
دشمنِ جاں کے سبھی جاہ و حشم رہنے دے
اے خدا! ڈر ہے مجھے طے ہی نہ ہو جائے کہیں
منزلِ عشق کو دو چار قدم رہنے دے
اُس سے کہہ دو کہ وہ اب یہ تو نہ چھینے مجھ سے
میرے دامن میں مِرے درد و الَم رہنے دے
خاک عزت ہے یہاں اہلِ ادب کی حیدر
چھوڑ یہ زورِ بیاں ، زعمِ قلم رہنے دے
٭٭٭