دھُند یادوں میں جیسے بھٹکتے رہے
وہ بھی تکتے رہے، ہم بھی تکتے رہے
ممکنہ حد تلک شب سے اُلجھے تو ہیں
جگنوؤں کی طرح گو چمکتے رہے
پتھرّوں کا اُڑاتے ہوں جیسے مذاق
آئینے ٹوٹ کر یوں کھنکتے رہے
چند لمحے وہ اُن سے ملاقات کے
میری سانسوں میں برسوں مہکتے رہے
موت کی بھی حقیقت اُنہیں سے کھُلی
زندگی کے جو دل میں دھڑکتے رہے
٭٭٭