تمہاری شوخی، مِری خوش خیالیاں بھی گئیں
وہ وَلولے بھی گئے لا ابالیاں بھی گئیں
کچھ ایسے ٹوٹ کے ملنا کہ ایک ہو جانا
محبتیں وہ ہماری نرالیاں بھی گئیں
جنہیں میں چاہتا تھا شادیاں کرا بیٹھیں
جو پیار کرتی تھیں وہ پیار والیاں بھی گئیں
نہ انتظار کا شوق اب نہ رَتجگوں کی بہار
وہ آرزوئیں وہ آنکھوں کی لالیاں بھی گئیں
یہ کیسی وقت کی آندھی بدن پہ آئی ہے
کہ پھول پتے تو کیا میری ڈالیاں بھی گئیں
قویٰ جو ڈھیلے پڑے اعتدال آنے لگا
جوانی ڈھلتے ہی بے اعتدالیاں بھی گئیں
بچی ہوئی تھیں جو دوچار خواہشیں حیدر
لو آج دل سے ہمارے وہ سالیاں بھی گئیں
٭٭٭