تجھ سے اب تیری شکایت نہیں ہونے والی
یعنی وہ پہلی سی چاہت نہیں ہونے والی
وہ تو از خود نہیں ہو سکتا ہے مائل بہ کرم
اور ہم سے بھی بغاوت نہیں ہونے والی
اس کی تعریف میں پُل باندھ لے چاہے جتنے
پھر بھی پوری تری نیّت نہیں ہونے والی
کاسۂ عشق کو اب توڑ کے باہر پھینکو
ان بخیلوں سے سخاوت نہیں ہونے والی
اپنے حق میں تُو بھلے کتنی گواہی لائے
بے گناہی سے بریت نہیں ہونے والی
کعبۂ دل کو کہاں چھوڑ چلے ہو حیدر
تم تو کہتے تھے یہ ہجرت نہیں ہونے والی
٭٭٭