درد اندر کے سب آنکھوں میں اُبھر آئے تھے
عشق میں جب ہمیں پانی کے سفر آئے تھے
شہر کی گلیوں نے چومے تھے قدم رو رو کر
جب ترے شہر سے یہ شہر بدر آئے تھے
آپ نے ہی درِ دل وا نہ کیا تھا ورنہ
صبح کے بھولے تو دوپہر کو گھر آئے تھے
یہ الگ بات کہ جی اُٹھے دوبارہ لیکن
ہم تری راہ میں تو جاں سے گزر آئے تھے
بازگشت اپنی ہی آواز کی بننا تھا ہمیں
ہم نے کب لَوٹ کے آنا تھا مگر آئے تھے
ایک سوہنی کی پذیرائی کی خاطر حیدر
دل کے دریا میں کبھی کتنے بھنور آئے تھے
٭٭٭