گرچہ ہمیں ہے پہلے بھی اک زک لگی ہوئی
لیکن گئی نہ یاس سے چشمک لگی ہوئی
ہر آن ہے گمان کہ شاید وہ آ گئے
دھڑکن ہے دل کی یا کوئی دستک لگی ہوئی
اپنا تمام حصہ اُنہیں دے کے آگیا
آخر کو ختم کرنی تھی جھک جھک لگی ہوئی
تم اہلِ علم و فضل ہو لیکن کچھ اِس طرح
جیسے کوئی کتاب ہو دیمک لگی ہوئی
اُس کی محبتیں ہیں کسی اور کے لئے
تہمت ہمارے سر پہ ہے بے شک لگی ہوئی
پڑتا ہے یوں تو حُسن پہ اِس کا اثر مگر
اچھی لگی ہے آپ کو عینک لگی ہوئی
حیدر مذاق مت اِسے سمجھو یہ عشق ہے
بازی ہے اِس میں پاؤں سے سر تک لگی ہوئی
٭٭٭