کون دیکھے گا بھلا میرے خدا میرے بعد
رنگ لائے گی اگر میری دعا میرے بعد
رُو برو میرے بنا بیٹھا تھا پتھر کی طرح
کسی چشمے کی طرح پھُوٹ بہا میرے بعد
عشق کے قصے سبھی مجھ پہ ہوئے آ کے تمام
کوئی مجنوں ، کوئی رانجھا نہ ہوا میرے بعد
اس میں مل جائے گا جا کر مِرے اندر کا خلا
اور بڑھ جائے گا باہر کا خلا میرے بعد
جس نے دشمن کو مِرے قتل پہ اُکسایا ہے
لینا چاہے گا وہی خون بہا میرے بعد
ابھی ممکن ہی نہیں قرض چکانا تیرا
زندگی! قرض ترا ہو گا اَدا میرے بعد
روز طوفان اُٹھانے کی مشقت تھی اسے
دشت بے چارے کو آرام ملا میرے بعد
میرو غالب کی عطا اُن کی زمیں میں یہ غزل
حیدر اوروں پہ بھی ہو گی یہ عطا میرے بعد
٭٭٭