محبتوں میں تم سے جو نباہ بھی نہ کر سکا
تمہارے بعد پھر کسی کی چاہ بھی نہ کر سکا
ہمارے نامۂ عمل میں کچھ بھی تو نہیں ملا
کہ بے نصیب دل اسے سیاہ بھی نہ کر سکا
کہاں وہ کر سکا ہے نیکیاں بھی کام کی کبھی
جو زندگی میں ڈھنگ کا گناہ بھی نہ کر سکا
کمالِ ضبط تھا اِدھر، کمالِ خامشی اُدھر
میں آہ بھی نہ کر سکا وہ واہ بھی نہ کر سکا
لگن مسافتوں کی حیدر اس قدر رہی کہ میں
ابھی تک اختیار کوئی راہ بھی نہ کر سکا
٭٭٭