غموں سے اِس کو ہمیشہ نہال رکھتا ہے
ہمارے دل کا وہ کتنا خیال رکھتا ہے
نہ گلبدن ہے نہ چشمِ غزال رکھتا ہے
وہ سادگی میں ہی اپنا کمال رکھتا ہے
مِری جوانی کے ہیں ماہ و سال جس کے پاس
وہ بے وفا بھی زمانے کی چال رکھتا ہے
پھر اُس کے وصل میں کیا جانے کتنی لذت ہو
وہ جس کا ہجر بھی لطفِ وصال رکھتا ہے
تمام زخم اُسی نے عطا کئے حیدر
ہر ایک زخم کا جو اندمال رکھتا ہے
٭٭٭