کب عقل کے بے ربط خیالات سے آئی
’’بے راہروی‘‘ عشق کی برکات سے آئی
اِس بار ہے مہینوال کسی اور نگر کا
سوہنی مگر اِس بار بھی گجرات سے آئی
سب کام بگڑ کر ہی سنورتے رہے اپنے
آسانی جب آئی ہے محالات سے آئی
یہ دل تو محبت ہی محبت تھا سدا سے
لہجے میں یہ تلخی مِرے حالات سے آئی
چالاکی کہاں آتی تھی حیدر کو مِری جان
بس تیری اداؤں کی کرامات سے آئی
٭٭٭