وہ سارے وار مقدر کے سہہ گئے ہوں گے
مگر حقیقتاً اندر سے ڈھہ گئے ہوں گے
ستمگروں کی عنایات کی حکایت تھی
سو اہلِ دل کے بھرم کچھ تو رہ گئے ہوں گے
زمانے والوں کی باتوں پہ کان کیا دھرنا
زمانے والے تو کیا کچھ نہ کہہ گئے ہوں گے
وہ مسکرا تو دیا ہو گا سوچ کر مجھ کو
پر اُس کی آنکھ سے آنسو بھی بہہ گئے ہوں گے
لڑائی جھگڑا تو حیدر نہ تھا مزاج ان کا
وہ گھونٹ زہر کے بس پی کے رہ گئے ہوں گے
٭٭٭