یہ دل کہ تجھ سے جو راز و نیاز رکھتا ہے
ترے حریف سے بھی ساز باز رکھتا ہے
قریشِ مکہ میں ہو یا مدینہ والوں میں
فقیر نسبتِ ارضِ حجاز رکھتا ہے
وہ پہلے دیتا ہے ترغیب پاس آنے کی
قریب آنے سے پھر خود ہی باز رکھتا ہے
ستم ظریف پہ غصہ بھی تو نہیں آتا
زباں کا تیز ہے پر دل گداز رکھتا ہے
نہیں تو صرف مِرے حال سے نہیں واقف
وہ بے خبر جو جہاں بھر کے راز رکھتا ہے
فرشتے کیسے کریں گے حساب پھر اس کا
ہر اک گناہ کا حیدر جواز رکھتا ہے
٭٭٭