اس حُسن کے وہ جاہ، وہ اجلال کہاں ہیں
وہ پہلے سی آنکھیں ، وہ خد و خال کہاں ہیں
وہ لہجے کی تاثیر، وہ آواز کا جادُو
ہونٹوں کے دہکتے ہوئے وہ لعل کہاں ہیں
عیار شکاری جہاں پھنس جاتے تھے آ کر
وہ زلف کے پھندے، وہ حَسیں جال کہاں ہیں
وہ زعمِ جوانی وہ ترے جسم کی خوشبو
فتنوں کو جگاتے وہ مہ و سال کہاں ہیں
ہر انگ میں اک حُسنِ تناسب تھا، کھنک تھی
اب تیرے دھنک رنگ پر و بال کہاں ہیں
وہ ہی تو فقط وقت کی زد میں نہیں حیدر
خود تیرے بھی وہ پہلے سے احوال کہاں ہیں
٭٭٭