اُس نے میرے لئے عمر بھر دشتِ تنہائی کا جو سفر لکھ دیا
سارے صحرا میں تب چلتے چلتے مِرے ہر قدم نے شجر لکھ دیا
حال مستوں کی مستی کا عالم ہے یہ، آنے والے دنوں کو کہا
خواب بکھرا ہوا، اور رخشندہ ماضی کو ٹوٹا کھنڈر لکھ دیا
نام اُس کا چھُپانے، بتانے کی مشکل سے یوں بچ سکے سر پھرے
انگلیوں سے ہواؤں پہ اُس کو کبھی تو کبھی آب پر لکھ دیا
میں نے اپنی دیانت کی سب دولتیں اپنی اولاد کو دیں فقط
اور باقی عزیزوں کو صرف اور صرف اپنے حصے کا گھر لکھ دیا
روٹھنے اور منانے کے سب سلسلے تو کجا آرزو ہی نہیں
خط میں اس کو تو بالکل ہی لکھنا نہیں چاہتا تھا مگر لکھ دیا
لوگ دستار حیدر چھُپانے، بچانے میں مشغول تھے جب تبھی
جانے دیوانگی تھی یا فرزانگی تھی مگر ہم نے سر لکھ دیا
٭٭٭